عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 43)


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*حضرت امیر شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ اور جسٹس منیر کا ایک دلچسپ اور ایمان افروز مکالمہ*



‏ 

حضرت آمیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی جرآتِ ایمانی  اور بہادری کے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں واقعات  ان کی جرآت ایمانی کی گواھی دے رھے ھیں یہ واقعات ھمیشہ تاریخ کی کتابوں میں موجود رھیں گے ۔ یہاں ان کی جرآت ایمانی کا ایک واقعہ جو اس وقت کی عدالت عالیہ  میں پیش آیا  تھا درج  کیا جاتا  ھے


1953ء کی تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے شباب پر پہنچ کر مائل بہ اختتام تھی۔ تحریک کی قیادت اور ہزاروں کارکن جیلوں میں بند تھے۔ ‘‘عدالتی تحقیقات’’ کے لیے جسٹس منیر اور ایم آر کیانی پر مشتمل لاھور ھائی کورٹ کا ایک عدالتی کمیشن اس کی سماعت کر رہا تھا۔ جسٹس منیر  قادیانیوں کا حمایتی اور ایک متعصب قادیانی نواز  جج تھا۔ وہ علماء کرام  کو کمرۂ عدالت میں بلا بلا کر بے عزت کر رہا تھا۔ تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ‘‘احرار، احمدی نزاع’’ اور ‘‘فسادات ِپنجاب’’ کا نام دیتا تھا۔ اسلام کو موضوعِ بحث بنا کر علماء کرام  کا مذاق اڑا رہا تھا، اوراپنے قادیانی آقاؤں اور محسنوں  کو خوش کر رہا تھا۔

شو مئی قسمت  ایک دن وہ اپنی ہی عدالت میں  بُری طرح پکڑا گیا۔ اس نے قائد تحریک تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امیر شریعت مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاری (علیہ الرحمہ) کو عدالت میں طلب کر لیا۔  آمیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری  رحمة اللہ علیہ کو اس وقت  کی ظالم حکومت نے سکھر جیل میں قید کیا ھوا تھا 

عدالتی طلبی پر حکومت نے بیان داخل کرنے کے لیے حضرت امیر شریعت رحمہ اللہ کوسکھر جیل سے لاہور سنٹرل جیل منتقل کر دیا۔ پیشی کی تاریخ پرحضرت امیر شریعت رحمہ اللہ اوراُن کے قیدی رفقاء کو سخت پہرے میں عدالت میں لایا گیا۔

عدالتی ہر کارے نے آواز لگائی:

*سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری* رحمہ اللہ وغیرہ، وغیرہ۔

اسیرِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امیر شریعت رحمہ اللہ پورے قلندرانہ جاہ و جلال اور ایمانی جرأت و وقار کے ساتھ کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے۔ سرفروشانِ احرار نے پورے ہائی کورٹ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔عدالت کے دروازے پر ہزاروں فدائینِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شمعِ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے نعرہ زن تھے۔ 

نعرہ تکبیر: اللہ اکبر،  

تاج و تختِ ختم نبوت :زندہ باد، مرزائیت: مردہ باد۔

امیر شریعت رحمہ اللہ نے عدالت کے دروازے پر کھڑے ہو کر ہتھکڑیاں فضا میں لہرائیں اور ھاتھ  سے  وہاں موجود لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔

مجمع وارفتگی سے پوچھ رہا تھا: فرمائیے حضرت  : ھمارے لئے کیا حکم ہے؟ دیوانہ بنیں ،یا نہ بنیں  ؟

حکم ہوا۔ خاموش!

تمام مجمع بالکل ساکت وجامد ھو گیا!

حضرت امیر شریعت رحمہ اللہ عدالت میں داخل ہو گئے۔

جسٹس منیر بغض و حسد سے بھرا ہوا، غصے سے لال پیلا، گردن تنی ہوئی اورتکبر و غرور کا پیکرِ ناہنجار بنا عدالت کی کرسی  پر بیٹھا تھا۔مردِ مومن کے چہرہ انور پر نگاہ پڑی تواُس کی آنکھیں جھک گئیں ۔جسٹس منیر دوسری  مرتبہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔

کارروائی شروع ہوئی۔حضرت امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔جسٹس منیر نے ایک متکبرانہ نظر  سے بیان کو دیکھا (جسے اس نے‘‘منیر انکوائری رپورٹ’’ میں شامل نہیں کیا۔) اور پھر اپنے مخصوص متکبرانہ چبھتے ہوئے انداز میں سوالات کا آغاز کر دیا۔


*جسٹس منیر*: 

ہندوستان میں اس وقت کتنے مسلمان ہیں ؟


*امیر شریعت رحمہ اللہ*: 

سوال غیر متعلق ہے،مجھ سے پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھیں ۔


*جسٹس منیر*

:(تمسخر آمیز لہجے میں ) ہندوستان اورپاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟


*امیر شریعت رحمہ اللہ *

: ہندوستان میں علماء موجود ہیں،وہ بتائیں گے۔


*جسٹس منیر:*

(طنز کرتے ہوئے) آپ بتا دیں؟


*امیر شریعت رحمہ اللہ:*

پاکستان کے بارے میں پوچھیں، یہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟


*جسٹس منیر:*

مسلمان کی تعریف کیا ہے؟


*امیر شریعت رحمہ اللہ :*

اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کے لیے صرف کلمۂ شہادت کا اقرار و اِعلان ہی کافی ہے،لیکن اسلام سے خارج ہونے کے ہزاروں روزن ہیں ۔ 

ضروریاتِ دین میں کسی ایک کا انکار کفر کے ماسوا کچھ نہیں ۔ 

اللہ تعالیٰ کی صفاتِ عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک، 

قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر، 

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔


*جسٹس منیر:*

(( قادیانی وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اِن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟


*امیر شریعت رحمہ اللہ :*

خیال نہیں بلکہ وھی عقیدہ۔ جو اِن کے بڑوں کے بارے میں ہے۔


*مرزائی وکیل:*

نبی کی تعریف کیا ہے؟


*امیر شریعت رحمہ اللہ:*

میرے نزدیک اُسے کم از کم ایک شریف آدمی ہونا چاہیے۔


*جسٹس منیر:*

(بدتمیزی کے اندازمیں) آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟


*امیر شریعت رحمہ اللہ:*

میں تو اس سوال کا آرزو مند تھا۔ کوئی بیس برس پہلے کی  بات ہے، یہی عدالت تھی۔جہاں آپ بیٹھے ہیں، یہاں انگریزچیف جسٹس، مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھےاور جہاں  مسٹر کیانی بیٹھے ہیں، یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔وہی جواب آج پھر دہراتا ہوں کہ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ مرزا  قادیانی کو  کافر کہا ہے، کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ رہوں گا کافر کہتا رہوں گا۔

یہ میراایمان اور عقیدہ ہے اوراِسی پر مرنا چاہتا ہوں۔مرزا قادیانی اور اُس کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٔ نبوت کے جرم میں ہی قتل کیا گیاتھا۔


*جسٹس منیر*: 

(غصے سے بے قابو ہو کر، دانت پیستے ہوئے) اگر غلام  قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو کیا آپ  اسے قتل کر دیتے؟


*امیر شریعت رحمہ اللہ:*

میرے سامنےاب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے!


*حاضرینِ عدالت:*

نعرہ تکبیر: اللہ اکبر، ختم نبوت زندہ باد، مرزائیت مردہ باد۔کمرہ عدالت نعروں سے لرزگیا۔


*جسٹس منیر:*

(بوکھلا کر) توہین عدالت!


*امیر شریعت رحمہ اللہ:*

(جلال میں آ کر) توہین رسالت  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)


جسٹس منیر دم بخود، خاموش، مبہوت، حواس باختہ، چہرہ زرد، ہوش عنقا، پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔

‘‘عدالت’’ امیر شریعت رحمہ اللہ کی جرأتِ ایمانی اورجذبۂ حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر سکتے میں آ چکی  تھی۔


*امیر شریعت رحمہ اللہ:*

گرج دار آواز میں ) کچھ اور؟


*جسٹس منیر:*

(پریشانی میں بڑبڑاتے ہوئے) 

میرا خیال ہے۔ ہمیں مزید کچھ بھی نہیں پوچھنا!


*عدالت برخواست ہوجاتی ہے*

Share: