عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 42 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*تحفظ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آمیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ  *


جب بھی تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آئے گا تو آمیر شریعت رحمة اللہ علیہ کا بھی ذکر ضرور  ھو گا کیونکہ حضرت رحمة اللہ علیہ کی ذات نہ صرف یہ کہ سراپۂ تحریک تھی بلکہ مجموعۂ تحریک تھی

عقیدہ ختم نبوتﷺ کے تحفظ کیلئے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی،مرحوم نے ساری زندگی فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیئے جدوجہد کی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے بہت جدوجہد کی اور جھوٹے مدعی نبوت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور انگریزی استعمار سے ہندوستان کو آزاد کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا یہود و نصاریٰ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ امت مسلمہ کا رشتہ حضورﷺ سے منقطع کردیا جائے اور تقریباً ایک صدی قبل مرزا غلام  قادیانی کو اسی مقصد کیلئے کھڑا کیا تھا لیکن امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ ودیگر علماء امت نے اس کے دجل و فریب کا پردہ چاک کرکے اس کے کفر کو پوری دنیا میں بے نقاب کردیا  اللہ رب العزت نے مولانا بخاری رحمة اللہ علیہ کو گوناگوں خصوصیات سے نوازا تھا وہ اپنی ذات میں بیک وقت بے مثل خطیب ، برجستہ گو شاعر اور شعراء فہمی میں یکتائے فن ممتاز عالم دین سیاستدان اور صاحب بصیرت انسان گو تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی، مزاج شناسی جیسی صفات بھی ان کی ذات میں موجود تھیں عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کیلئے سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کیلئے بہت جدوجہد کی۔


امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی تصوف و سلوک میں اولاً نسبت محافظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ سے قائم ہوئی تھی ،یاد رہے کہ آپ نے ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی، علوم ظاہریہ مولانا غلام مصطفیٰ صاحب رحمہ اللہ ،مفتی حسن رحمہ اللہ سے اور فن قرات کی تعلیم شیخ عاصم عمر رحمہ اللہ سے حاصل کی تھی ۔بلاشبہ پیکرغیرت وجرات اور حمیت دین سے سرشار امیر شریعت مولانا سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے جہاں جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کرنے میں تحریکی کردار ادا کیا وہیں برطانوی سامراج کے پروردہ شدھی و سنگٹھن تحاریک اور مرزاغلام  قادیانی کی خودساختہ اور جھوٹی نبوت کے خلاف سینہ سپر ہو کر ان کے گھر ربوہ میں کھڑے ہوکر ان کو للکارا اور اسلام کی حقانیت کو بیان کیا۔(حیات امیرشریعت )


ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے امیرشریعت رحمہ اللہ کی جدوجہد کو جاننے سے پہلے ایک پس منظر کا جاننا ضروری ہے کہ مرزائیت نے جہاں اسلامی عقائد اور بنیادوں پر حملے کئے وہیں انہی قادیانیوں نے ہندوؤں کی سوامی دیانند جیسی مقدس شخصیات کی کردار کشی کرکے انہیں پیغمبر اسلام ﷺکی توہین کا موقع فراہم کیا،مرزا قادیانی کی طرف سے "براہین احمدیہ" اور ہندومت کی طرف سے پنڈت دیانند نے "سیتارتھ پرکاش "شائع کی گئیں اور اس سلسلے کوقاسم علی مرزائی نےکتاب "انیسویں صدی کا مہارشی دیانند" لکھ کر آگے بڑھایا جب کہ اس کا جواب آریہ سماجی لیڈر پنڈت چمپادتی نے نعوذ باللہ "رنگیلا رسول " لکھ کردیا ،جس نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو سخت مجروح کیا اور یوں ہندوستان بھر میں فسادات اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو ا۔


امیرشریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے مرزا غلام قادیانی کے کفر پر 1920 میں اڑھائی سو سے زائد علماء کے ساتھ متفقہ فیصلہ پر دستخط کرکے حکومت سے آریہ سماج کی کتب کی ضبطی کا بھی مطالبہ کیا ۔اس متفقہ فتوی میں مرزا غلام قادیانی کو کافر اور اس کے متبعین کو کافر اور مرتد قرار دے کرہر مسلمان کو ان سے قطع تعلق کرنے کا کہاگیا تھا۔دوسری جانب جمیعت علماء ہند نے "رنگیلا رسول "کے مصنف شاتم رسول کو واجب القتل قرار دے دیا تھا ،اور اس کتاب کو راجپال نے نہ صرف طبع کروایا تھا بلکہ تصنیف کی ذمہ داری بھی قبول کر لی تھی ۔دوسری جانب عشاق رسولﷺ جذبہ حب خاتم الانبیاء ﷺسے مغلوب ہوکر اس شاتم رسول کے بوجھ سے زمین کو آزاد کرنے اورسبق سکھانے کا فیصلہ کرچکے تھے ،چنانچہ غازی عبدالعزیز رحمہ اللہ ،غازی خدا بخش رحمہ اللہ ،مولوی عبدالرشید غازی رحمہ اللہ اورغازی علم الدین رحمہ اللہ انہی فدایان نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے تھے۔جب کہ علماء ہند نےمؤثر انداز میں عوامی و قانونی جدوجہد کی ،4 اور5 جولائی 1927ء کی درمیانی رات لاہور دہلی دروازے پر دفعہ 144 کے باوجود امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "آج مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعیدکے دروازے پرام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا آئی ھیں ،اور فرما رھی ھیں کہ  ہم تمھاری مائیں ہیں،کیا تمھیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں؟"۔۔۔۔۔ارے دیکھو تو ۔۔۔!ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا دروازے پر تو کھڑی نہیں ۔۔۔؟


اگر تم خدیجہ وعائشہ رضی اللہ عنھما کی ناموس کی خاطر جانیں دے دو تو فخر سے کم نہیں ہے۔یادرکھو!یہ موت آئے گی تو پیام حیات لے کر آئے گی۔(روزنامہ زمیندار7جولائی 1927)


ڈپٹی کمشنر لاہور نے اس کا انتقام 10 جولائی کو دفتر پنجاب خلافت کمیٹی ،بیرون دہلی دروازہ سے امیر شریعت رحمة اللہ علیہ اور خواجہ عبدالرحمن غازی رحمة اللہ علیہ کو دفعہ 107 اور 108 کے تحت گرفتار کرکے ایک ایک سال قید کی سزا سنا کر لیا  مدت پوری ہونے پر رہائی کے بعد حضرت امیرشریعت رحمة اللہ علیہ نے قریہ قریہ ،بستی بستی اور شہر شہر ناموس رسالت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بیداری مسلم کے لیے دیوانہ وار پھرتے رہے ،قادیانیت،شدھی و سنگٹھن تحاریک ،توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طوفان بدتمیزی کے آگے سد سکندری بننے والا اور انگریزی سامراج کے خلاف نبرد آزما ہونے والا یہ عظیم مجاہد جب خدام الدین کے سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ 1930 بمقام لاہور میں تشریف لایا تو محدث کبیر مولاناسید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے"دین کی قدریں بگڑ رہی ہیں ،کفر چاروں طرف سے یلغار کرچکا ہے،اس وقت مسلمانوں کو اپنے لیے ایک امیر کا انتخاب کرنا چاہیے،اس کے لیے میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ کو منتخب کرتا ہوں ،وہ نیک بھی ہیں اور بہادر بھی ،اس وقت تک انہوں نے فتنہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شارداایکٹ کے سلسلے میں جس جرات اور دلیری سے دین کی خدمات انجام دی ہیں ،آئندہ بھی ان سے ایسی ہی توقع ہے۔"یہ الفاظ کہہ کر آپ نے اپنے ہاتھ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی طرف بڑھا دیئے ،اس موقع پر پانچ سو کبار علماء کرام نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ،اور آپ کو امیرشریعت کا خطاب عطا کیا گیا جو عنداللہ و عندالناس آپ کی جدوجہد قبولیت کا مظہر تھا ۔


مجلس احرار کے زیرانتظام تین روزہ پہلا اجلاس 21 اکتوبر 1934کو ھوا جس میں لاکھوں مسلمانان ہند نے شرکت کی ،اس کی صدارت اور خصوصی خطاب امیرشریعت رحمہ اللہ نے کیا ،یہ کانفرنس مرزائی خلافت اور ان کے آقاؤں کے لیےانتہائی پریشانی کاباعث بنی ،انتقاماً آپ کو اسی کانفرنس کی تقریر کی بنا پر 7 دسمبر 1934 کو مسوری سے دفعہ 143 الف کے تحت گرفتار کرلیا گیا ،بعدازاں ضمانت پر رہائی عمل میں لائی گئی ۔اس مقدمہ کا فیصلہ 20اپریل 1934کو مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور نےآپ کو چھ ماہ قید بامشقت سنایا ،تاہم 6جون 1935 کو سیشن جج گورداسپور نے طویل جرح کے بعد سزا میں تخفیف کرکے تااختتام وقت ِعدالت قید تک محدود کردیا تھا ۔ اس خفت کو مٹانے کے لیے مرزا بشیر الدین محمود نے احرار کو مباہلے کی دعوت دی ،جیسے احرار نے قبول کرکے تیاریاں شروع کردیں ، مرزائیت نے خائف ہوکر سرکار کے سامنے واویلا کرنا شروع کردیا ، جس کے نتیجہ میں قادیان میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ،مجلس احرار نے قادیان میں امیرشریعت رحمة اللہ علیہ کی امامت میں نماز جمعہ کا اعلان کردیا اور جس کے لیے جاتے ہوئے جنیتی پور ریلوے اسٹیشن پر گرفتار کرلئے گے ،مگر نماز جمعہ کا اعلان برقرار رہا اور ہر جمعہ کو گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی رہیں ،بالآخر ایک ماہ بعد دفعہ 144 اٹھا دی گئی اور امیر شریعت رحمة اللہ علیہ کو 15 اپریل 1936کو لاہور جیل سے رہا کردیا گیا ۔(حیات امیرشریعت )


قیام پاکستان کے بعد قادیانی لابی انتہائی متحرک ہوئی ،ان کی سرگرمیوں کو امیرشریعت رحمہ اللہ نے ملتان میں اپنے ایک خطاب میں یوں ارشاد فرمایا "انگریزوں کا خود ساختہ پوداپاکستان میں بیٹھ کر بھی برطانیہ کے لیے جاسوسی کررہا ہے۔میری حکومت نے اگر اس طرف توجہ نہ دی تو مجھے ڈر ہے کہ اس ملک پر مرزائیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔"بلاشبہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید رحمہ اللہ کے بعد پیدا ہونے والی ناگفتہ بہ ملکی صورت حال میں مرزائیوں کو کھلے عام اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملا اور اپنے خود ساختہ الہامی عقیدہ "اکھنڈ بھارت "کے لیے جدوجہد شروع کردی ،اور مرزا بشیرالدین محمود پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف سرعام ہرزہ سرائی کرنے لگا،جس کا مقابلہ کرنے کے لیے 9 مئی 1951کو برکت علی ہال لاہور میں منعقدہ کنونشن سے ملک گیر مرزائیت مخالف کا آغاز کردیا گیا ،امیرشریعت رحمة اللہ علیہ ناسازی طبیعت کے باوجود بھرپور جذبات کے ساتھ میدان عمل میں اترے ،مزید یہ کہ 17۔18 مئی 1952 ء کو جہانگیر پارک کراچی میں مرزائیوں کے سالانہ اجتماع میں وزیر خارجہ پاکستان سر ظفراللہ خان نے اشتعال آنگیز تقریر کرکے اپنے سرکاری عہدے کا فرقہ وارنہ استعمال کیا ،جس پر 2 جون 1952 ء کو کراچی میں ہی آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن طلب کیا گیا ،جس میں دو دن کی بحث کے بعدقرارداد منظور کی گئی کہ "مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے،سرظفراللہ خان کووزارت خارجہ کے عہدہ سے ہٹایا جائےاور مرزائیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹایا جائے۔ان مطالبات کی تصدیق کے لیے 13 جولائی برکت علی ہال لاہور میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن منعقد ہوا جس میں ایک مجلس عمل تشکیل دی گئی ،جس نے 23 جنوری 1953 کو وزیر اعظم سے مل کر اپنے مطالبات پیش کئے اور ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی،22 فروری کی رات کو لاہور دہلی دروازے پر امیر شریعت رحمة اللہ علیہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ"آج کا یہ اجتماع مرزائیوں اور سر ظفراللہ خان کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لئے منعقد ہوا ہے ۔جب کہ 26 جنوری کراچی کے اجلاس میں مجلس عمل نے یہ فیصلہ کیا کہ پانچ رضاکار مطالباتی جھنڈے اٹھائے عام راستوں سے وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر جاکر مطالبات پیش کریں گے ،گرفتاری کی صورت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا،تاہم اسی رات آرام باغ کے جلسے کے بعد امیرشریعت رحمة اللہ علیہ سمیت مجلس عمل کے قائدین کو گرفتار کرلیا گیا ،آپ کو سنٹرل جیل کراچی ،سکھر جیل اور پھرسنٹرل جیل لاہور میں منتقل کیا گیا ،اس دوران تحریک ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال اور حکومت کے جبر وتشدد کی وجہ سے آپ ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہتے تھے ،لاہور جیل میں اسیران ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلجوئی کے لیے ان کے پاس تشریف لے جاتے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔اسی دوران آپ کو اپنے مؤقف سے پھسلانے کی کوشش کی گئی مگر آپ ثابت قدم رہے اور بالآخر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اےرحمن کے حکم پر 18 فروری 1954 کو امیر شریعت کو ان کے رفقاء کے ساتھ رہا کردیا گیا ۔12 ستمبر 1954 کو ملتان میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں آپ کو مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امیر مقرر کردیا گیا ،آپ نے یہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد مبلغین کی فکری و عملی تربیت کی ۔2جون 1955ء کوشیخ محمد اکبرڈسٹرکٹ جج کیمبل پور نے مرزائی عورت سے نکاح کے کیس کے بارے میں جاری اپنے فیصلے میں لکھا کہ "قادیانی مسلمانوں کا فرقہ نہیں ،اس لیے قادیانی عورت کا نکاح مسلمان مرد سے نہیں ہو سکتا ہے۔اس فیصلہ پر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ "ڈسٹرکٹ جج کے قلم نے مرزائیت کو فنا کردیا ہے۔"یہی وہ بنیادیں تھیں جن پر آئین پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے قانون کی عمارت کھڑی ہوئی اور مرزائیت کا مکروہ چہرہ تاقیامت پوری دنیا کے سامنے واضح ہوگیا ۔


انگریز ی سامراج او راس کے پروردہ قادیانیت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے والے عظیم مجاہد و قائد،داعی قرآن ،جدوجہد آزادی کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرکے حریت کا سبق پڑھانے والے امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ایک عبقری شخصیت تھے ،آپ جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ، آپ کی جرات ،بہادری ،خودداری اور حریت سے بھرپور زندگی نسل نوکے لیے مشعل راہ اور مینارہ نور ہے ۔

Share: