عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 41 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*پاکستان میں فتنۂ قادیانیت اور اس کی سرکوبی کی کوششیں*


انگریز  بظاھر تو ھندوستان میں تجارت کی غرض سے آیا تھا لیکن اس نے اپنی چالاکیوں،  یہاں کے حکمرانوں کی عیاشیوں اور میر جعفر اور میر صادق  جیسے  غداروں  اور منافقوں کی بدولت  پورے ھندوستان کو اپنی غلامی میں لے لیا اور ایک طویل عرصہ تک ھندوستان پر حکومت کرتا رھا  آخرکار انگریز کی غلامی سے تنگ آ کر برصغیر کے لوگوں نے آنگریز کے خلاف آزادی کی  تحریک چلائی جس میں مسلمانوں  بالخصوص علماء کرام نے بے شمار قربانیں دیں  آزادی کے لئے ایک طویل تحریک کے بعد  الحمد للہ اگست

۱۹۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ لعنتی قادیانی جماعت کا لعنتی لاٹ پادری مرزا محمود مسلمانوں کی آڑ میں قادیان چھوڑ کر پاکستان آگیا۔ پنجاب کے  انگریز گورنر موڈی کے حکم پر چنیوٹ کے قریب ان لعنتیوں کو لب دریا ایک ہزار چونتیس ایکڑ زمین عطیہ کے طور پر الاٹ کی گئی۔ فی مرلہ ایک آنہ کے حساب سے صرف رجسٹری کے کل اخراجات 10,034/-روپے وصول کئے گئے۔ قادیانیوں نے بلاشرکت غیرے وہاں پر  اسرائیل کی طرز پر اپنی پسند کی اسٹیٹ “مرزائیل‘‘  کی بنیاد رکھی۔ ظفرﷲ قادیانی مملکت پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بن گیا اس نے سرکاری خزانہ سے آب و دانہ کھا کر فتنۂ قادیانیت کو دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ انگریز خود تو چلا گیا۔ مگر جاتے ہوئے اسلامیان برصغیر کے لئے اپنی لے پالک اولاد قادیانیت کے لئے ایک مضبوط بیس مہیا کرگیا۔ قادیانی علی الاعلان اقتدار کے خواب دیکھنے لگے۔ ان پر کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ قادیانیوں کی لن ترانیاں دیکھ کر اسلامیان پاکستان کا ہردرد رکھنے والا شخص اس صورت حال سے پریشان تھا۔ قادیانی منہ زور گھوڑے کی طرح ہوا پر سوار تھے اور پاکستان میں اپنی حکومت کے سہانے خواب دیکھ رھے تھے 

ملک میں جداگانہ طرز انتخاب پر الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ جاننے کے باوجود کہ مرزائی ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ھیں لیکن ایک گہری سازش کے تحط قادیانیوں کو مسلمانوں کا حصہ شمار کیا گیا جس سے قادیانی بہت خوش تھے ۔ چنانچہ اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت امیر شریعت سید عطاء ﷲ شاہ بخاریؒ نے شیر اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو بریلوی مکتبہ فکر کے رہنما مولانا ابوالحسنات قادریؒ کے ہاں بھیجا اور تمام صورت حال سے اُنہیں آگاہ کیا اسی طرح اھلحدیث علماء سے بھی رابطہ کیا گیا دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، شیعہ مکاتب فکر  کے علماء اکٹھے ہوئے اور قادیانیوں کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا لہذا ایک تحریک چلی۔ جسے تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۱۹۵۳ء کہا جاتا ہے۔ اس تحریک میں مرکزی کردار مجلس تحفظ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا بلکہ اسی پلیٹ فارم سے یہ تحریک چلی اس تحریک نے قادیانیوں کے منہ زور گھوڑے کو لنگڑا کردیا۔ ظفر ﷲ قادیانی ملعون اپنی وزارت سے آنجہانی ہوگیا۔ قادیانیت کی اس تڑاخ سے ہڈیاں ٹوٹیں کہ وہ زمین پر رینگنے لگی۔ عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان عظیم خدمات پر دارالعلوم دیوبند کے ان فیض یافتگان کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔قبل ازیں ۱۹۴۹ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے جس پلیٹ فارم کا اعلان ہوا تھا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اسے مستقل جماعت کے طور پر قادیانیت کے احتساب کے لئے منظم کیا گیا جبکہ سیاسی و مذہبی طور پر اسلامیان پاکستان کی رہنمائی اور اسلامی نظام کے نفاذ اور اشاعت دین کے لئے ’’جمعیت علمائے اسلام پاکستان‘‘ کی تشکیل کی گئی۔ یہ سب ان علماء کرام  کا کارنامہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے ایوبی دور میں مغربی پاکستان اسمبلی میں شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور قومی اسمبلی میں مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت باسعادت میں ’’تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے لئے جو خدمات انجام دیں۔ وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ غرض مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قادیانیت کا احتساب کیا گیا ’’مغربی آقاؤں ‘‘ کے اشارے پر قادیانی ’’فوج‘‘ و دیگر سرکاری دوائر میں سرگرم عمل تھے۔ علمائے کرام کی مستقل جماعت مولانا احمد علی لاہوریؒ مولانا سید عطاء ﷲ شاہ بخاریؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ، مولانا گل بادشاہؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا خیر محمد جالندھریؒ، مولانا تاج محمودؒ، مولانا لال حسین اخترؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا عبدالرحمن میانویؒ، مولانا محمد حیاتؒ، مولانا عبدالقیومؒ، مولانا عبدالواحدؒ، مولانا محمد عبدﷲ درخواستی ؒ اور ان کے ہزاروں شاگرد لاکھوں متوسلین کروڑوں متعلقین نے جو خدمات سرانجام دیں۔ وہ سب تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی سب اسماء گرامی کا استحضار و احصاء ممکن نہیں۔ وہ سب حضرات جنہوں نے اس سلسلہ میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ بھی ھمارے ان الفاظ کے لکھنے کے محتاج نہیں۔ وہ یقینا رب کریم کے حضور اپنے حسنات کا اجر پاچکے ۔(فنعم اجر العاملین) اللہ پاک ان کے درجات کو بلند فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: