عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 57 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*  تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1974ء  - مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کا  شاندار کردار*


            مولانا مفتی محمود  رحمۃ اللہ علیہ کا وجود ملت اسلامیہ کے لیے قدرت کا عطیہ تھا۔ آپ کو قدرت نے بے شمار خوبیوں سے سرفراز فرمایا ھوا  تھا حضرت مولانا غلام غوث ھزاروی رحمۃ اللہ علیہ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرمایا کرتےتھے کہ اللہ تبارک تعالی نے مفتی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کو دوسری بے پناہ صلاحیتوں کے ساتھ دلائل کی ایسی بے مثال صلاحیت  عطا فرمائی ھوئی ھے کہ اپنی دلائل کی قوت سے وہ اگر چاھیں تو لکڑی کو انسان ثابت کر سکتے ھیں  ان کی اس صلاحیت کا ظہور قومی اسمبلی میں مرزائیوں پر جرح کے موقعہ پر بھرپور طریقہ سے ھوا  ھر ھر موقعہ پر مرزا ناصر کو لاجواب اور نادم ھونا پڑا 

ایک واقعہ پیشِ خدمت ھے 

مولانا مکی حفظہ اللہ بتاتے ھیں کہ مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ انہیں بتایا کہ ۱۹۷۴ کی تحریک ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوران جب مرزائیوں سے قومی اسمبلی میں مناظرہ ھو رھا تھا تو مرزائیوں کا لاٹ پادری مرزا ناصر  ایک دن بہت سے پرانے آخبارات اُٹھا لایا اور قومی اسمبلی  میں آکر  یوں گویٌا ھوا کہ

“صاب یہ دیکھو فلاں تاریخ کو بریلویوں نے دیوبندیوں کو کافر کہا تھا

یہ دیکھو فلاں تاریخ کو دیوبندیوں نے بریلویوں کو کافر کہا تھا

یہ دیکھو فلاں تاریخ کو بریلویوں دیوبندیوں نے اھلحدیثوں  کو کافر کہا تھا

یہ دیکھو فلاں تاریخ کو  اھلحدیثوں نے بریلویوں اور دیوبندیوں کو کافر کہا تھا

وغیرہ وغیرہ پھر وہ کہنے لگا کہ جناب یہ لوگ لوگوں کو مسلمان کم اور کافر زیادہ بناتے ھیں یہ تو لوگوں کو کافر کہتے ھی رھتے ھیں اگر انھوں نے ھمیں کافر کہہ دیا  تو کیا ھوا آپ اسے سنجیدگی سے کیوں لے رھے ھیں یہ تو ان کی روٹین ھے”

یحیی بختیار نے مفتی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کو کہا کہ آپ اس کا جواب دیں 

بظاھر تو یہ مشکل صورت حال نظر آرھی تھی کیونکہ جو کچھ وہ کہہ رھا تھا اس کے ثبوت بھی پیش کر رھا تھا اور پھر  یہ بات حقیقت پر بھی مبنی تھی لیکن جواب دینے والا کوئی عام مولوی تو نہیں تھا بلکہ دلائل کے بادشاہ مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ تھے

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیتے ھوئے فرمایا کہ مرزا ناصر نے جو آخبار کی خبریں دکھائی ھیں میں انہیں تسلیم کرتا ھوں کہ وہ بالکل ٹھیک ھیں لیکن اس کی تفصیل آپ کے سامنے رکھ دیتا ھوں پھر فیصلہ مرزا ناصر خود کر لیں 

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا

“بریلوی علماء نے دیوبند حضرات پر  اس لئے کفر  کا فتوی لگایا کہ ان کے  نزدیک وہ گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتکب تھے لیکن دیوبندی حضرات نے اس الزام کا انکار کیا اور صاف کہہ دیا کہ ھم ایسا نہیں کرتے تو وہ فتوی خود بخود ختم ھوگیا

اسی طرح دیوبندی علماء نے بریلوی حضرات پر  اس لئے کفر  کا فتوٰی لگایا کہ ان کے  نزدیک وہ اللہ کے ساتھ شرک  کے مرتکب تھے لیکن بریلوی حضرات نے اس الزام کا انکار کیا اور صاف کہہ دیا کہ ھم ایسا نہیں کرتے تو وہ فتوی بھی 

ختُم ھوگیا یہی صورت اھلحدیث حضرات کی تھی 

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا ناصر کو مخاطب کرتے ھوئے فرمایا کہ

آپ پر کفر کا فتوی اس لئے قائم  ھے کہ آپ اب بھی غلام  قادیانی کو نبی مانتے ھیں جبکہ وہ کذاب مدعئ نبوت تھا آپ ابھی یہ اعلان کر دیں کہ غلام قادیانی نبی نہیں تھا بلکہ وہ کذاب و دجال تھا تو آپ سے بھی کفر کا فتوی اسی وقت ختم ھو جائے گا 

یہ سن کے مرزا ناصر سکتے میں آگیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا

اور  یہ بھی حقیقت ھے کہ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تمام تر خوبیاں و صلاحیتیں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خدمتِ اسلام کے لیے وقف تھیں۔ 53ء کی تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی آپ نے بھرپور طریقہ سے حصہ لیا تھا اور ملتان سے گرفتار  بھی ہوئے تھے ۔ 74ء کی تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ اسمبلی سے باہر ملت اسلامیہ کی راہنمائی شیخ الاسلام مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں جلیل القدر علماء و راہنماؤں نے کی اور قومی اسمبلی میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وکالت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کی۔ اسمبلی کے معزز ممبران، و علماء کرام کی حمایت و تعاون آپ کو حاصل تھا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مرزا ناصر قادیانی اور صدرالدین لاہوری مرزائیوں کے جواب میں جو محضر نامہ تیار کیا گیا، اس کا نام ’’ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ ہے، اس کے عربی، اردو، انگلش میں مجلس نے کئی ایڈیشن شائع کیے ہیں۔ اس محضر نامے کو اسمبلی میں پڑھنے کا شرف اللہ رب العزت نے حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کو بخشا۔ آپ اسمبلی میں ملت اسلامیہ کی متفقہ آواز تھے۔ 

قومی اسمبلی سے7 ستمبر1974 کو قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے اسمبلی میں قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر پر جو علمی جرح کی، وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔ 


اس کے بعد  آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم کے مسئلہ پر  حکومت سے اختلاف ہوا۔ اس دفعہ کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے جو بلوچستان میں ایک، سرحد میں ایک، سندھ میں دو اورپنجاب میں تین سیٹوں پر مشتمل ہے۔ ان 6 غیر مسلم اقلیتوں کے نام یہ ہیں: عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچھوت۔ حزب اختلاف کے نمائندگان چاہتے تھے کہ ان چھ کی قطار میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ اس کے لیے حکومت تیار نہ تھی اور ویسے بھی قادیانیوں کا نام اچھوتوں کے ساتھ پیوست کرنا پڑتا تھا۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا، اس کو رہنے دیں۔ مفتی صاحب نے کہا، جب اوراقلیتی فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بھی لکھ دیں۔پیرزادہ نے جواب دیا، یہ اقلیتی فرقوں کی ڈیمانڈ تھی اور مرزائیوں کی ڈیمانڈ نہیں۔ مفتی صاحب نے کہا، یہ تو تمہاری تنگ نظری ہے اورہماری فراخدلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان کی ڈیمانڈ کے بغیر انہیں ان کا حق دے رہے ہیں۔ اپوزیشن سمجھتی تھی کہ اس کے بغیر حل ادھورا رہے گا۔


 پیرزادہ نے مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سمیت دیگر ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ اپوزیشن نے اپنا موقف پھر واضح کیا کہ دفعہ 106 میں چھ اقلیتی فرقوں کے ساتھ مرزائیوں کی تصریح کی جائے اوربریکٹ میں’’قادیانی گروپ اورلاہوری گروپ‘‘ لکھا جائے۔ مسٹر پیرزادہ نے کہا، وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا، ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے، احمدی تو ہم ہیں۔ پھر کہا، ’’چلو مرزا غلام قادیانی کے پیرو کار لکھ دو۔‘‘ پیرزادہ نے نکتہ اٹھایا، دستور میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا۔ حالانکہ دستور میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اورقائداعظم کے نام موجود ہیں۔ اورپھر سوچ کر بولے، مفتی صاحب، مرزا قادیانی کے نام سے دستور کو کیوں پلید کرتے ہو؟ مسٹر پیرزادہ کا خیال تھا، شاید اس حیلے سے مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ٹل جائیں۔ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً جواب دیا۔’’شیطان، ابلیس، خنزیر کے نام بھی قرآن پاک میں موجود ہیں۔ اس سے قرآن کی صداقت و تقدس پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘‘ پیرزادہ لاجواب ہو کر کہنے لگے، وہ اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا، بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکھتا ہے، صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔ یوں لکھ دو’’قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔‘‘ چنانچہ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دلائل کے سامنے حکومت بے بس ھوگئی اور الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔


7ستمبر1974ء ہماری تاریخ کا وہ یاد گار دن ہے جب1953ء اور1974ء کے شہیدان ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خون رنگ لایا اورہماری قومی اسمبلی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ملی امنگوں کی ترجمانی کی اورعقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کودائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ اس روز دستور کی دفعہ260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ ہوا:


’’جو شخص خاتم النبیین محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مکمل اورغیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو یا اس قسم کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو، وہ آئین یا قانون کے ضمن میں مسلمان نہیں ہے۔‘‘


           اس موقعہ پر  مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قائد حزب اختلا ف کی حیثیت  سے  قومی اسمبلی میں ایک فکر آنگیز تقریر کی  اور اس عظیم کامیابی پر تمام مسلمانوں کو مبارکباد پیش کی


مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بھی عین اس وقت ھوئی جب وہ سفرِ حج میں تھے اور کراچی میں فقھی مسائل پر اپنے دلائل دے رھے تھے کہ حرکتِ قلب بند ھو جانے کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان کے انتقال کے بعد آپ کے ایک عقیدت مند نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ فرمائیے حضرت کیسے گزری؟ اس پر آپ نے فرمایا: ’’ساری زندگی قرآن و حدیث کی تعلیم میں گزری، اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشش و کاوش کی، وہ سب اللہ رب العزت کے ہاں بحمدہٖ تعالیٰ قبول ہوئیں مگر نجات صرف اس محنت کی وجہ سے ہوئی جو قومی اسمبلی میں مسئلہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کی تھی، ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے بخشش فرما دی۔

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے اس طرح کا ایک اور واقعہ بھی سنا گیا ھے کہ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی وفات کے بعد کسی بزرگ کو خواب میں ملے تو ان بزرگ نے مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا  کہ مفتی صاحب آپ کے ساتھ کیا معاملہ بنا ؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ الحمد للہ مجھے جنت تو مل گئی لیکن یھاں پر جو اعزاز واکرام بسترے اُٹھانے والوں کو مل رھا ھے میں اس سے محروم رھا کیونکہ میں اپنی دینی وعلمی مصروفیات کی وجہ سے بسترا اُٹھا کر اللہ کے راستے میں نکلنے سے قاصر رھا

بہرحال خواب کوئی دلیل تو نہیں ھوتا لیکن  یہ بھی حقیقت اپنی جگہ پر ھے کہ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تو تمام زندگی خدمتِ دین میں ھی گزری ھے اللہ پاک اُن کی خدمات کو قبول فرمائے اور اُنھیں جنت الفردوس میں آعلی مقام عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: