عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 58 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*  تحریکِ تحفظِ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1974ء  اور ذوالفقار علی بھٹو کا قابلِ تعریف کردار *



سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا شمار دنیا کے عظیم راہنماؤں میں ہوتا ہے۔  بلا شبہہ وہ ایک متنازعہ شخصیت تھے انھیں اسلام کے طور طریقوں سے بھی کوئی خاص رغبت نہیں تھی ان کے دور حکومت میں علماء کرام اور اھل دین کی اکثریت انھیں آچھا نہیں سمجھتی تھی بلکہ اکثر لوگوں کے مطابق وہ انٹی اسلام شخصیت تھے لیکن  تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نتیجہ میں مرزائیوں کے کافر  قرار پانے میں ان کا بہت اھم رول ھے  گو یہ سب کچھ انھیں ایک زبردست تحریک کے نتیجہ میں کرنا پڑا لیکن  اس میں ان کو کریڈٹ نہ دینا ایک زیادتی ھو گی بھٹو صاحب مرحوم کی ذات اور ان کی سیاست سے کسی کو ہزار اختلاف ہو سکتے ھیں  لیکن یہ سچائی اپنی جگہ ہے کہ وہ ایک تاریخ ساز اور عہد آفریں شخصیت تھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام اور ناقابل فراموش کردار ہیں۔ وہ انتہائی مدبر سیاستدان، بہترین خطیب ،اعلیٰ تعلیم یافتہ، بے حد وسیع المطالعہ، وقت کے نبض شناس اور منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے دنیا سے اپنی خطابت و ذہانت کا لوہا منوایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام خامیوں اور بشری کمزوریوں کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت آج بھی ان کا احترام کرتی ہے۔


جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں 29 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ پر ربوہ ریلوے سٹیشن پر قادیانی قیادت کے ایما پر اس وقت بے پناہ تشدد کیا گیا جب وہ شمالی علاقہ جات کی سیر کے بعد واپس ملتان جا رہے تھے۔ ان طلبہ کا قصور یہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے 22 مئی کو پشاور جاتے ہوئے ربوہ ریلوے سٹیشن پر قادیانی لٹریچر لینے سے انکار کیا اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ اس کی پاداش میں، واپسی پر ان کی ٹرین بلا ضابطہ روک کر طلبہ پر ظلم و تشدد کا ہر نیا طریقہ آزمایا گیا جس سے 30 طلبہ شدید زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردعمل ہوا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپیل پر پاکستان کے مختلف شہروں میں ہڑتالوں اور پرُجوش مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ چنانچہ 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے ایک قرارداد پیش کی۔ اس سے پہلے جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے 13 جون 1974ء کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:


’’جو شخص ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔ ربوہ کے واقعہ سے تعلق رکھنے والے سارے مسئلے کو جولائی کے پہلے ہفتے میں قومی اسمبلی کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ حکمران جماعت کے ارکان پر پارٹی کی طرف سے کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا اور انھیں آزادی ہوگی کہ وہ کم و بیش 90 سال پرانے اس اہم اور نازک مسئلے کو عوام کی اکثریت کی خواہشات، ایمان اور عقیدے کی رُو سے مستقل طور پر حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے مسئلے پر، میں آمرانہ طور پر خود کوئی فیصلہ کرنا پسند نہیں کرتا۔ جمہوری طریق کار یہی ہے کہ اس اہم مسئلے پر عوام کے منتخب نمائندے خود سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کریں۔ میں قادیانیوں کے مسئلہ کا جمہوری، منصفانہ اور صحیح فیصلہ کروں گا اور مجھے اپنے فیصلے پر فخر ہوگا۔ یہ فیصلہ کرانے کے لیے وقت کی قید نہیں لگائی جا سکتی۔ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسئلہ ہرگز متنازعہ نہیں۔ فیصلہ تو ہو چکا ہے اور یہ طے شدہ ہے کہ جو شخص ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قائل نہیں ہے، وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ اب اسے ایک ضابطہ کے تحت لانا باقی ہے۔


گزشتہ عام انتخابات میں قادیانیوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے تھے لیکن انھوں نے ہمیں خرید تو نہیں لیا۔ ووٹ تو ہمیں دوسرے فرقوں نے بھی دیے۔ مگر ہم ان کے محتاج تو نہیں۔ میں صرف اللہ کا محتاج ہوں اور پاکستان اور اس کے عوام سے وفاداری میرا ایمان ہے۔ میں وہی کروں گا جو میرا ضمیر کہے گا۔


میں مسلمان ہوں۔ مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ کلمہ کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور کلمہ کے ساتھ مروں گا۔ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر میرا ایمان کامل ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں نے ملک کو جو دستور دیا ہے، اس میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتنی ٹھوس ضمانت نہ دی گئی ہوتی۔ 1956ء اور 1962ء کے آئین میں ایسی کوئی ضمانت کیوں نہیں دی گئی۔ حالانکہ یہ مسئلہ 90 سال پرانا ہے۔ یہ شرف مجھ گناہگار کو حاصل ہوا ہے کہ ہم نے اپنے دستور میں صدر مملکت اور وزیراعظم کے لیے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کامل ایمان کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔ ہم نے یہ ضمانت اس لیے دی ہے کہ ہمارے ایمان کی رو سے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے ملک کو نیا عوامی دستور دیا اور انشاء اللہ عوام کے تعاون سے قادیانیوں کا مسئلہ مستقل طور پر حل کر دوں گا۔ یہ اعزاز بھی مجھے ہی حاصل ہوگا اور یومِ حساب، خدا کے سامنے اس کام کے باعث سرخرو ہوں گا۔‘‘


انہی دنوں مجاہد ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب آغا شورش کاشمیری مرحوم نے بھٹو سے طویل ملاقات کی جس میں انھوں نے اثر انگیز انداز میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وکالت کی۔ اس پر جناب بھٹو کو کہنا پڑا ’’شورش کاشمیری نے میرا دو ٹوک جواب سننے کے باوجود قادیانیوں کے مذہبی معتقدات میرے سامنے اس طرح رکھے جن کے مطابق امت کا ہر فرد حتیٰ کہ خود میں اور میرے ماں باپ بھی کافر تھے۔ مجھے قادیانیوں کی کتابیں دیکھ کر بڑا غصہ آیا… کم از کم میں تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قادیانی حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ، حضرت علیؓ اور میرے ماں باپ تک کو کافر سمجھتے ہیں(نعوذ باللہ)


’’لیکن میں نے اپنے غصے پر قابو پا کر شورش کاشمیری مرحوم سے کہا۔ یہ تو درست ہے کہ قادیانی، امت مسلمہ کے ہر چھوٹے بڑے رکن کو کافر سمجھتے ہیں لیکن ان کے عقائد کے بارے میں مَیں کیا کر سکتا ہوں۔ یہ کام تو علماء کا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی تبلیغ کے ذریعے ان عقائد سے تائب کریں اور جو وقت وہ تحریکیں چلانے میں صرف کرتے ہیں، وہ قادیانیوں کے خلاف تبلیغ میں صرف کریں، حکومت ان کی ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار ہے۔‘‘


شورش مرحوم نے جو کچھ کہا اس پر باحوالہ دلائل دیے اور سب سے آخر میں، اس نے بھی مفتی محمود مرحوم کی طرح ایک جذباتی مطالبہ کیا۔ اس کے مطالبے کو قبول کرنے کے لیے میرے سامنے اس کے دلائل کا انبار تھا اور میں نے دل ہی دل میں یہ مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا…


لیکن اس موقع پر شورش مرحوم نے ایک ایسی حرکت کی جس سے میں لرز گیا۔ ان کے ساتھی مولوی تاج دین مرحوم جو ان کے ہمراہ تھے، وہ بھی بڑے حیران ہوئے۔ شورش مرحوم نے گفتگو کرتے ہوئے یکایک اٹھ کر بڑے جذباتی انداز میں میرے پاؤں پکڑ لیے۔ میں نے شورش مرحوم کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے اٹھا کر گلے سے لگا لیا مگر شورش مرحوم ہاتھ ملا کر پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا!


’’بھٹو صاحب! ہمارے پاس کون سی عظمت ہے۔ ہم ایک سو سال سے اپنے آقا و مولاصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت بحال نہیں کر سکے۔ ہم سے زیادہ ذلیل قوم کسی ملک نے آج تک پیدا نہیں کی ہوگی۔ ہم اس وقت عزت و عظمت کا تاج سر پر رکھ سکتے ہیں جب قادیانیوں سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا تاج چھین کر آقائے کونینؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کر لیں۔


پھر شورش مرحوم نے روتے ہوئے میرے سامنے اپنی جھولی پھیلا کر کہا۔ ’’بھٹو صاحب! میں آپ سے اپنے اور آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم المرسلینی کے تحفظ کی بھیک مانگتا ہوں۔ آپ میری زندگی کی تمام خدمات اور نیکیاں لے لیں۔ میں خدا کے حضور خالی ہاتھ چلا جاؤں گا مگر خدا کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی حفاظت کر دیجیے۔ یہ میری جھولی نہیں۔ فاطمہ بنت محمد (رضی اللہ عنہا) کی جھولی ہے۔ جس کی ناموس پر قادیانی حملہ آور ہیں۔‘‘


اب اس سے زیادہ مجھ میں کچھ سننے کی تاب نہ تھی۔ میرے بدن میں ایک جھرجھری سی آ گئی۔ میں بھی آخر مسلمان تھا اور اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتا تھا… میں مسلمان کی حیثیت کے سوا اپنی ہر حیثیت بھول گیا تھا۔ میں نے شورش مرحوم سے وعدہ کر لیا کہ میں قادیانی مسئلہ ضرور حل کر دوں گا۔

(ہفت روزہ چٹان لاہور 29 اکتوبر 1979ء ص 12-11)


ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جانتے تھے کہ قادیانیوں کو اگر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو انہیں امریکہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ جب بھٹو مرحوم سربراہ مملکت کی حیثیت سے پہلی مرتبہ امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکی صدر نے انہیں ہدایت کی تھی کہ پاکستان میں قادیانی جماعت ہمارا سیکٹ (Sect)ہے۔ ان کا آپ نے ہر لحاظ سے خیال رکھنا ہے۔ دوسری مرتبہ بھی جب بھٹو مرحوم امریکہ کے دورے پر گئے تو بھی یہی بات دہرائی گئی، اس بات کا انکشاف انہوں نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں یہ کہتے ہوئے کہا: ’’یہ بات میرے پاس امانت تھی۔ فقط ریکارڈ پر لانے کے لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘ بھٹو مرحوم کے دور اقتدار میں کئی کلیدی افسران کو اس لیے جبری ریٹائرڈ کرنا پڑا کہ انہوں نے ائیر فورس پر مرزائیوں کو قابض کرانے کے لیے بڑی ناکام تدابیر کیں۔ ایک دفعہ ایئر مارشل ظفر احمد چودھری کے ہاتھوں کورٹ مارشل کی بھینٹ چڑھنے والے فضائیہ کے ایک مسلمان افسر نے مسٹر بھٹو تک رسائی حاصل کی اور انہیں ظفر چودھری کی گھٹیا ذہنیت سے آ گاہ کیا۔ ان کی یہ لرزہ خیز داستان سن کر مسٹر بھٹو بہت حیران ہوئے۔اس روز بھٹو مرحوم بے حد پریشان ہوئے اور ان کے ماتھے پر معنی خیز شکن اُبھر آئی اور کہا: ’’اچھا یہ ہے کہ ان کا اصل روپ!‘‘ اس کے علاوہ بھی بھٹو مرحوم کو بہت سی ایسی باتیں ظفر چودھری کے حوالے سے معلوم ہوئیں جن سے انھیں یقین کامل ہو گیا کہ قادیانی نہ صرف غیر مسلم بلکہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی آگ ہیں۔


چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بناء پر 13 دن کی طویل جرح کے بعد غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ آئین کی دفعہ 106 کی شق (2) اور 260 کی شق (3) کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔


مجاہد ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولانا تاج محمود مرحوم بیان کرتے ہیں:


’’تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 1974ء کے دوران میں حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری  مرحوم کی قیادت میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جید علمائے کرام پر مشتمل ایک وفد نے جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ملاقات کی اور انھیں قادیانی عقائد و عزائم سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر علمائے کرام نے بھٹو صاحب مرحوم سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کی پرُزور درخواست کی۔ اس پر جناب بھٹو مرحوم نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ اپنے ایمان اور عقیدے کی رُو سے قادیانیوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں اور قادیانیوں کے بارے میں پارلیمنٹ کے فیصلہ پر ہر مسلمان فخر کرے گا۔ مزید برآں انھوں نے وفد سے کہا امریکہ سمیت مجھے کئی عالمی طاقتوں نے خصوصی طور پر کہا ہے کہ ’’آپ پاکستان میں احمدیوں کا خاص خیال رکھیں!‘‘ بھٹو مرحوم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر وہ تاریخی کارنامہ سرانجام دیا کہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ ان کی یہ شاندار خدمت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے


حضرت مولانا لطف اللہ مرحوم فرماتے ہیں:’’شاہ فیصل مرحوم سے حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری مرحوم کی جو آخری ملاقات ہوئی، اس میں انھوں نے مولانا مرحوم سے فرمایا تھا: ’’میں نے بھٹو کو ملاقات کے وقت صاف صاف بتا دیا تھا کہ پاکستان کے تین دشمن ہیں: قادیانی، کمیونسٹ اور مغربی ممالک۔‘‘


مولانا سیّد محمد یوسف بنوری  مرحوم نے بھٹو مرحوم سے جو ملاقات لاہور میں کی تھی، اس میں آپ نے بھٹو مرحوم سے کہا: ’’کیا آپ کو شاہ فیصل مرحوم نے نہیں بتایا کہ قادیانی، کمیونسٹ اور مغربی ممالک، پاکستان کے تین دشمن ہیں اور انہی لوگوں نے سازش کر کے لیاقت علی خان کو مروایا تھا؟ مسٹر بھٹو نے مولانا مرحوم سے کہا کہ کیا آپ مجھے بھی مروانا چاہتے ہیں؟ مولانا نے برجستہ فرمایا کہ: ایسی موت کسی کو نصیب ہو تو اس پر ہزاروں زندگیاں قربان کی جا سکتی ہیں۔ جو شخص شہادت کی موت مرتا ہے، وہ مرتا نہیں بلکہ زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔‘‘                                                                                                                                                (ہفت روزہ ختم نبوت کراچی 16 تا 23 مئی 2007ء)


مجاہد ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شورش کاشمیری فرماتے ھیں کہ اس معاملے میں ہم انھیں ملک و ملت کا محسن گردانتے ہیں۔جناب آغا شورش کاشمیری مرحوم قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’پاکستان بنا تو مرزائی قادیان سے اٹھ کر لاہور آ گئے پھر انگریز گورنر سر فرانسس موڈی سے کوڑیوں کے بھاؤ ربوہ کی زمین حاصل کی اور وہاں سے پاکستان کے مختلف حصوں میں اپنی فرمانروائی کا منصوبہ تیار کرنے لگے۔ مرزا ناصر تو عقل کا کورا تھا لیکن مرزا محمود، کرنل لارنس کی سی شاطرانہ ذہنیت کا مالک تھا۔ اس نے پاکستان میں اقتدار کا خواب دیکھنا شروع کیا حتیٰ کہ بلوچستان کو احمدی صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ جب اس کی سیاسی پخت و پز خطرناک ہو گئی تو علماء  میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا۔ تمام علماء نے اکٹھے ہو کر مزاحمت کا بیڑا اٹھایا، مجلس عمل کی بنیاد رکھی، راست اقدام کیا لیکن اس وقت کے بدبخت حکمرانوں نے ملت اسلامیہ کے متفقہ مطالبے کو ٹھکرا دیا، مارشل لاء لگایا۔ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ سیکڑوں نوجوان گولیوں سے بھونے… منیر انکوائری کمیٹی نے تحقیقات شروع کیں تو خواجہ ناظم الدین نے کھلے بندوں کہا کہ وہ ظفر اللہ کو علیحدہ کرنے یا مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ ماننے سے اس لیے قاصر تھے کہ پاکستان میں خوراک کا بحران تھا اور امریکہ ظفر اللہ کے بغیر ایک دانہ گندم دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ گویا اسلام، دانہ گندم پر قربان کر دیا گیا…


شورش مرحوم فرماتے ھیں کہ میں یہ اعلان کرتا رہا کہ مسٹر بھٹو ہی قادیانی امت کو ملت اسلامیہ سے خارج کر کے اقلیت قرار دیں گے۔ بحمدللہ یہی ہوا۔ آج یہ عظیم کارنامہ مسٹر بھٹو نے ہی سرانجام دیا ہے۔ انھوں نے ملت اسلامیہ سے 13 جون کے عظیم نشریہ میں جو وعدہ کیا تھا، وہ پورا کیا اور اس طرح پورا کیا کہ آج پاکستان کے مسلمان ہی نہیں بلکہ کائنات کے مسلمان ان کے شکر گزار ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کی اجتماعی آواز کو پروان چڑھایا۔ تمام پارٹیوں کی متفقہ خواہش پر صاد کیا بلکہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں اس حد تک غیرت ایمانی اور جرأت اسلامی کا ثبوت دیا کہ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے فرضی نبوتوں کا دروازہ بند ہو گیا… مسٹر بھٹو نے اس فیصلے اور اقدام سے پچھلی تمام حکومتوں کو مات دے دی ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ انھوں نے ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسبانی کی ہے۔ ان کی عزت کا محافظ اللہ ہوگا اور وہ جلد ہی محسوس کریں گے کہ انھوں نے ایک مسئلہ حل نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے دل جیت لیے ہیں۔ آج ہر گھر میں مرد عورتیں اور بچے بچیاں ان کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ جو کام بڑے بڑے الحاج وزیراعظم نہ کر سکے اور نظریہ پاکستان کی اجارہ دار کھیپ سے نہ ہو سکا، وہ کام بھٹو نے کیا اور اس طرح کیا کہ ہمارے پاس ان کے لیے تشکر و امتنان کے الفاظ نہیں…‘‘

(ہفت روزہ چٹان لاہور 14 ستمبر 1974ء ص 5,3)

Share: