عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 61 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*  تحریکِ تحفظِ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1984ء*



1974  کی تحریکِ  تحفظ ختم نبوت  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نتیجہ میں مرزائیوں کو جو ھزیمت اُٹھانی پڑی تھی اور جو زخم کھانے پڑے تھے اس کی ٹیسیں مرزائیوں کی قیادت اپنے دلوں میں بہت شدت سے محسوس کر رھی تھی انہیں سب سے زیادہ عداوت مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تھی کہ جس کی وجہ سے وہ رسوا ھوئے اور نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے سامنے ان کا کفر کھل کر سامنے آگیا وہ ھر طرح سے مجلس تحفظ ختم نبوت  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں کر رھے تھے اور مجلس کو نقصان  پہنچانے کے ھر ممکن ہتھکنڈے استعمال کر رھے تھے اور مزید یہ کہ ایسے طریقوں پر سوچ بچار کر رھے تھے جن کو بروئے کار لا کر وہ مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجود کو نعوذ باللہ ختم کرسکیں لیکن اللہ تعالی نے مجلس تحفظ ختم نبوت  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت فرمائی اور مرزائی ھر مقام اور ھر موقعہ پر ذلیل و رسوا ھوئے


ایک مثال دی جاتی ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو  وہ شہرکی طرف دوڑتا ہے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ کی تین بڑی تحریکیں چلی ہیں ۔ پہلی 1953ء میں دوسری 1974ء میں اور تیسری 1984ء میں ان تینوں تحریکوں سے قبل مرزائیوں نے پنگا خود ھی لیا ۔ 


1984ء کی جوتحریکِ ختم نبوت  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلی وہ بھی قادیانیوں ھی کی ایک شرارت کی وجہ سے چلی ھوا یوں کہ  17 فروری 1983ء کومولانا محمد اسلم قریشی مبلغ تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیالکوٹ کو مرزائی سربراہ مرزا طاہر لعنتی کے حکم پر مرزائیوں نے اغوا کیا۔ یہ وھی لعنتی مرزا طاھر تھا جس کے حکم پر 1974 میں ربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر تشدد کیا گیا تھا 

مولانا اسلم قریشی کے اغوا کے ردعمل میں پھر تحریک منظم ہوئی۔ شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد اس وقت تک مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امارت کا بوجھ مولانا خان محمد رحمہ اللہ کے کاندھوں پر تھا



مولانا اسلم قریشی کی بازیابی کے لئے تمام مکاتب فکر کے علماء اکٹھے ہوئے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواجہ خان محمد رحمہ اللہ  کی قیادت میں تمام شیعہ، سنی، بریلوی، اہلحدیث ہر مسلک کے قائدین نے مل کرمطالبہ کیا کہ مولانا اسلم قریشی کو بازیاب کروایا جائے اگر خدانخواستہ انھیں قتل کر دیا گیا ھے تو ان کے قاتل گرفتار کئے جائیں اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ کیونکہ مولانا اسلم قریشی کافی عرصہ  سے غائب تھے اس لئے قائدین کو یہ خدشہ بھی ہو گیا تھا کہ شاید مرزا طاھر لعنتی نے انہیں قتل کروا دیا ہے


تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مطالبہ نے زور پکڑا اور اس قدر زور پکڑا کہ جوش میں آکر جنرل ضیاء الحق شہید کو ہی بعض علماء قادیانی کہہ بیٹھے کہ یہ یا تو قادیانی ہے یا قادیانیوں کا ساتھی ہے ۔ 

مولانا محمد اسلم قریشی کے اغوا اور ان کی بازیابی میں مسلسل نو ماہ کی تاخیر نے بھی مسلمانوں کے اس احساس اور شبہ کو تقویت پہنچائی کہ قادیانی گروہ حکومت کے سائے میں خود کو نہ صرف مضبوط دیکھ رہا ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدامات اور اشتعال انگیز کاروائیوں کا بھی حوصلہ رکھتا ہے۔ مولانا محمد اسلم قریشی کا اغوا قادیانیوں نے کیا اور اس ضمن میں مولانا موصوف کے فرزند صہیب اسلم قریشی کو اغوا کرنے کی کوشش میں گرفتار ہونے والے شخص صفدر رانا نے کرائمز برانچ کی تفتیش میں اعتراف کیا کہ وہ قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا طاہر سے ملا تھا اور اس کے حکم پر لاہور میں ریٹائرڈ قادیانی بریگیڈیر وکیع الزمان سے ملا تھا اور پھر اس کی ہدایت پر سیالکوٹ میں صہیب اسلم قریشی سے ملاقاتوں کا سلسلہ اس نے جاری رکھا تھا ملت اسلامیہ کا مطالبہ تھا کہ مرزا طاہر کو گرفتار کر کے مولانا اسلم قریشی کیس میں شامل تفتیش کیا جائے اور جب صفدر رانا نے تسلیم کیا ہے کہ مرزا طاہر اس کیس میں ملوث ہے مگر حکومت مولانا اسلم قریشی کیس میں مرزا طاہر کو شامل تفتیش کرنے سے مسلسل گریزاں ہے بلکہ اس کیس کا رخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔

بھر حال ملک بھر میں جلسے جلوسوں کاسلسلہ شروع ہو گیا۔ ہر جگہ یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ مولانا اسلم قریشی کو رہا کروایا جائے۔ ساتھ ھی یہ مطالبات بھی منظرعام پر آ گئے کہ قادیانی جو کافر ہونے کے باوجود خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔ انہیں اس  سے روکا جائے ۔


چونکہ یہ ایک حقیقت ھے کہ  مرزائیوں کے حوالے سے ھماری حکومتوں پر ھمیشہ آمریکہ اور مغربی ممالک کا دباؤ رھا ھے اس لئے ھر حکومت ان مردودوں کے حوالے سے محتاط پالیسی پر ھی گامزن رھی ھے خواجہ خان محمد رحمہ اللہ کی قیادت میں تحریک نے زور پکڑا اور گرفتاریاں، مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ  بھی زور پکڑ گئیں ۔ صورت حال دیکھ کر قادیانیوں کے بھی پیٹ میں بل پڑنے لگے کہ اب پھر کچھ ھونے والا ہے ۔ اللہ پاک جس سے کام لے جنرل ضیاء الحق مرحوم نے 26 اپریل 1984ء کو آرڈیننس نمبر 20 موسوم بنام "امتناع قادیانیت آرڈیننس” جاری کر دیا ۔ جس کے تحت قادیانیوں/مرزائیوں/لاہوریوں کو ان کی خلاف اسلام سرگرمیوں سے روک دیا۔ اس لیے آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاکستان کی کوششوں نے رنگ دکھایا اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ فضل ہے جس سے جناب محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے سلسلہ میں امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام طبقات کو اتفاق و اتحاد نصیب کر کے ایک لڑی میں پرودیا اور یوں 26 اپریل 1984ء کو امتناع قادیانیت آرڈیننس صدر مملکت جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کے ہاتھوں جاری ہوا۔ قادیانیت کے خلاف آئینی طور پر جتنا ہونا چاہیے تھا علماء کرام کے مطابق اتنا تو خیر نہیں ہوا لیکن جتنا ہوا اتنا بھی آج تک کبھی نہیں ہوا تھا۔ آج اللہ رب العزت کا فضل و کرم ہے کہ مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاکستان عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن چکی ہے اور چار دانگ عالم میں رحمۃاللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے پھریرے کو بلند کرنے کی سعادتوں سے بہرہ ور ہورہی ہے۔ الحمد للہ دنیا کے تمام براعظموں میں ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام وسیع سے وسیع ترہورہا ہے۔

Share: