عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 71 )


*  مرزائی ریشہ دوانیاں،سرکاری چشم پوشی اور اربابِ اختیار کی مرزائیوں پر نوازشیں! *




*مرزائی اور جنرل مشرف کا دورِ حکومت*


پاکستان میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں اُن سب نے آمریکی اور مغربی ممالک کی خوشنودی حاصل  کرنے کے لئے حتی المقدور  مرزائیوں کو نوازنے اور اُنہیں مختلف بہانوں سے سہولتیں دینے کی پالیسی پر ھی عمل کیا جنرل مشرف جب حکومت میں آئے تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ گذشتہ حکومتوں کی طرف سے مرزائیوں  کو دی ھوئی نوازشوں اور سہولتوں کو جاری رکھا بلکہ ان کی  حکومت کی طرف سے ان میں وقتاً فوقتاً آضافہ بھی کیا جاتا رھا تاکہ مرزائی خوش ھو جائیں اور پھر آمریکہ بہادر بھی خوش ھو جائے

مرزا طاہر تو اس حد تک خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کی صورت میں انہیں ایک ایسا حکمران میسر آگیا ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کے حوالہ سے اپنے عزائم کی تکمیل کر سکیں گے، اسی لیے مرزا طاہر اور ان کے ساتھ قادیانی جماعت مختلف دائروں میں پہلے سے زیادہ متحرک اور سر گرم دکھائی دے رہی تھی جنرل پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ وہ پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی سے پاک کرنا چاہتے ہیں، جبکہ مذہبی دہشت گردوں کے خلاف مہم کے عنوان سے جنوبی ایشیا میں امریکہ اور اس کی قیادت میں عالمی اتحاد کی سرگرمیوں کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا تھا جس سے سیکولر حلقوں اور قادیانیوں کو یہ امید ہونے لگی تھی کہ پاکستان کے بارے میں ان کے ایجنڈے کی طرف عملی پیشرفت کا وقت آ گیا ہے۔ مرزا طاہر  کا ایجنڈا یہ تھا کہ:

پاکستان کے دستور میں بھٹو حکومت کے دور میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا جو فیصلہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ نے کیا تھا وہ ختم ہو جائے،

اور اسی دستوری فیصلے پر عملدرآمد کے ناگزیر تقاضے پورے کرنے کے لیے 1984ء میں صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے صدارتی آرڈیننس کی صورت میں قادیانیوں کو اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی اصطلاحات و علامات کے استعمال سے روکنے کا جو قانون نافذ کیا گیا تھا` وہ منسوخ کر دیا جائے۔

مرزا طاہر  نے ان دو فیصلوں کے خلاف طویل جنگ لڑی تھی اور گزشتہ اٹھارہ برس سے لندن میں بیٹھ کر بین الاقوامی لابیوں اور مغربی حکومتوں کو مسلسل لابنگ کے ذریعے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لے تیار کیا تھا مرزا طاہر کی قیادت میں قادیانی جماعت نے پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے جمہوری اور دستوری فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اسی مقصد کے لیے:

قادیانی جماعت نے جداگانہ بنیادوں پر ہونے والے عام انتخابات کا مسلسل بائیکاٹ کیا کہ جداگانہ الیکشن میں حصہ لینے کی صورت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کی حیثیت عملاً قبول کرنا پڑتی تھی

شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے اضافے کی قادیانیوں نے اسی وجہ سے مخالفت کی تھی اور اس کے لیے انہوں نے بین الاقوامی لابیوں کے ذریعہ پاکستان کی مسیحی اقلیت کو شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے میں اضافے کے خلاف متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

جب کہ ووٹروں کی فہرست بھی قادیانیوں نے اب تک اپنے ناموں کا اندراج صرف اس لیے نہیں کرایا تھا  کہ مسلم ووٹروں کے خانے میں اندراج کے لیے ووٹر کو عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلف نامہ پر کرنا پڑتا تھا جس میں قادیانیوں کے لیے خود کو مسلمانوں میں شامل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رھتی تھی

مرزا طاہر  نے بین الاقوامی سیکولر لابیوں اور مغربی حکومتوں کے ان رجحانات سے بھر پور فائدہ اٹھایا جو پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے خلاف پہلے دن سے واضح طور پر موجود رھی ہیں۔ کیونکہ مغربی حلقوں کے نزدیک پاکستان کے دستور میں:

اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلق کو تسلیم کرنے،

اسلام کو ریاست کا دستوری مذہب قرار دینے،

اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی ضمانت دینے کی دستوری دفعات کے ساتھ ساتھ،

قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا دستوری فیصلہ بھی ”بنیاد پرستی“ کی علامت ہے، اور مغربی حلقے اس کے خلاف نہ صرف ردعمل کا اظہار کرتے رھے ھیں بلکہ پاکستان پر اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے دباؤ بھی ڈالتے رہے ہیں۔ مرزا طاہر  کا خیال تھا کہ جداگانہ الیکشن ختم کر کے مخلوط الیکشن کا اعلان ان کے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف پہلا قدم ہے کیونکہ اس صورت میں وہ عملی طور پر مسلمانوں سے الگ حیثیت اختیار کیے بغیر انتخابات میں شریک ہو سکیں گے۔ اس کے بعد یہ مشرف حکومت کا یہ فیصلہ بھی ان کے لیے مفید ثابت ہوا کہ نئے انتظامات کے تحت شناختی کارڈ کے فارم اور مسلم ووٹروں کی فہرست میں نام شامل کرنے کے فارم میں عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلف نامہ کو ختم کر دیا گیا تھا حالانکہ یہ حلف نامہ بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں دستوری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان فارموں میں شامل کیا گیا تھا جب کہ مخلوط انتخابات کا نظام رائج تھا۔ لیکن جداگانہ الیکشن کا طریق کار ختم کرنے کی آڑ میں یہ حلف نامہ بھی ختم کر دیا گیا جس سے مسلمانوں کی فہرستوں میں قادیانیوں کے اندراج کی راہ ہموار ہو گئی تھی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا دستوری فیصلہ عملاً غیر مؤثر ہو کر رہ گیا تھا

مخلوط نظام انتخابات کے اعلان اور شناختی کارڈ کے فارم میں عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلف نامہ کو ختم کرنے کے بعد سابق صدر جناب محمد رفیق تارڑ کے اس انکشاف کو بھی سامنے رکھ لیا جائے تو مرزا طاہر کے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف ہونے والی پیشرفت کا تسلسل مزید واضح ہو جاتا ہے کہ مرزا طاہر  نے بعض پاکستانی شخصیات کو چند ماہ قبل ہی لندن میں تارڑ صاحب کی صدارتی منصب سے برطرفی کے بارے میں بتا دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تارڑ صاحب کے ماضی کے دور کی وابستگی اور اس محاذ پر ان کی خدمات کے پس منظر میں ایوان صدر میں ان کی موجودگی کو ان کے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا گیا تھا  اور اس رکاوٹ کو دور کرنا ضروری سمجھا گیا تھا

قادیانی جماعت ان واقعات اور اقدامات کے حوالے سے خوش دکھائی دیتی تھی اور گزشتہ دو برس سے مرزا طاہر کے خطبات و بیانات کا انداز یہ بتا رہا تھا کہ وہ صورتحال میں اس تبدیلی کو اپنی کاوشوں کا نتیجہ سمجھ رہا تھا دوسری طرف ملک کے دینی حلقوں کی تشویش و اضطراب میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب آف کندیاں شریف رحمہ اللہ کی قیادت میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازسرنو متحرک ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا  جس کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مرکزی مجلس عمل کی رابطہ کمیٹی کا ایک اہم اجلاس دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسٹریٹ نیو مسلم ٹاؤن لاہور میں منعقد ہوا اور اس کے لیے تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سرگرم راہنما مولانا منظور احمد چنیوٹی اور مولانا اللہ وسایا مسلسل سرگرم عمل رھے

بہرحال قادیانیوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس سے قبل مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایک سیکولر سیاستدان اور سوشلسٹ لیڈر تصور کرتے ہوئے قادیانیوں نے ان سے یہ امید وابستہ کر لی تھی کہ وہ پاکستان کے دینی حلقوں کے مسلسل دباؤ کے خلاف قادیانیوں کے مفاد کا تحفظ کریں گے اور ان کے عزائم کی تکمیل میں معاون ہوں گے، مگر مرحوم بھٹو کی تمام تر روشن خیالی اور لبرل خیالات کے باوجود قادیانیوں کی یہ توقع پوری نہیں ہوئی تھی اور مختلف مواقع پر بھٹو مرحوم کے ساتھ بھرپور تعاون کے باوجود قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کے دستوری فیصلے کا سامنا بھٹو کے دور حکومت میں ہی کرنا پڑا تھا۔ اس سلسلہ میں بھٹو مرحوم کے اپنے خیالات کیا تھے؟ یہ ایک الگ بحث ھے 

کرنل (ر) رفیع الدین نے کتاب ”بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن“ میں بھٹو کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ:

’’احمدیہ مسئلہ! یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا ایک دفعہ کہنے لگے ”رفیع یہ لوگ چاہتے تھے کہ میں ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دوں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے یعنی ہماری پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ “ ایک بار انہوں نے کہا کہ ”قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟“ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ ”کرنل رفیع کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھڑی میں پڑا ہوں؟“ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ’’ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد ﷺ کو آخری پیغمبر ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں“ پھر کہنے لگے ”میں تو بڑا گناہگار ہوں اور کیا معلوم کل یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف فرما دے“۔

کرنل رفیع الدین کی ان باتوں سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو مرحوم کا یہ فیصلہ صرف مسلمانوں کے دباؤ کا نتیجہ ھی نہیں تھا بلکہ ان کے داخلی دینی جذبات اور حب نبیؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آئینہ دار بھی تھا۔ اس لیے مرزا طاہر  اور ان کی جماعت کی خوش فہمی حیرت انگیز ھی تھی جو انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے وابستہ کر رکھی تھی حالانکہ جس دن بھٹو کی طرح جنرل پرویز مشرف کے اندر کا مسلمان جاگ اٹھا تو قادیانیوں اور ان کی سرپرست بین الاقوامی لابیوں کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جائے گی۔

کسی بھی حکومت میں سرکاری مشینری کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے کہ حکومت کو بہتر اور احسن طریقے سے چلانے میں سرکاری افسران کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر یہ اہلکار دیانت دار، محنتی، قابل، شائستہ اور قانون پسند ہوں تو حکومت کا ڈھانچہ نہ تو کبھی شکستہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی لحاظ سے کم زور۔لیکن اگر اہلکار بدکردار، بددیانت، راشی، نااہل، بداطوار اور نظریاتی طور پر ملک کے مخالف ہوں تو حکومت کا قائم رہنا ناممکن اور سیاسی استحکام زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اہلکاروں کے انتخاب میں ہمیشہ تعلیم، اہلیت، شہرت ، نظریاتی پاکیزگی، اسلام اور پاکستان سے وفاداری جیسے عوامل کو بطور خاص ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر تقریریاں کرتے وقت ایسے لوگوں کے ناموں پر غور نہ کیا جائے، جن کی اسلام، پاکستان اور آئین کے ساتھ وفاداری مشکوک ہو، کیوں کہ اگر چور، چوکیدار بن گئے اور راہ زنوں نے راہ بروں کی جگہ لے لی تو پھر قانون اور آئین کے تحفظ کی ضمانت کون دے سکے گا؟ قادیانیوں کے بارے میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے تاریخی جملہ فرمایا تھا کہ ”قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں“ اور یہ بات پاکستان  میں بار بار ثابت ہوچکی ہے کہ قادیانی پاکستان دشمنی اور آئین وقانون شکنی میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ ان حالات میں یہ بات نہایت قابل افسوس ہے کہ پاکستان میں تقریبا ھر حکومت نے اعلیٰ مناصب پر قادیانی عناصر کو  جگہ دی لیکن مشرف دور میں جس طرح ایک خاص سازش کے تحت  بڑی تعداد میں قادیانیوں کو کلیدی عہدوں پر فائز کیا گیا اس کی مثال پہلے ادوار میں بھی شاید مشکل سے ملے گی صدر مشرف نے اپنا پرسنل سکریٹری بھی ایک قادیانی کو لگایا پھر اُس نے اپنے اثر ورسوخ سےبے شمار قادیانی مختلف محکموں میں داخل کر دئیے 


مشرف دور میں سرکاری محکموں میں مرزائیوں کا اپنی آبادی سے بدرجہا بڑھ کر قبضہ کرنا بھی مشرف کی قادیانیت نوازی کا ایک بڑا ثبوت ھے جس پر مسلمان بجا طور پر بے چین تھے۔ ان کی سابقہ روش کو دیکھ کر اگر وہ یہ مطالبہ بھی کرتے کہ آئندہ دس سال میں ملک کے ہر محکمے میں کسی بھی مرزائی کی بھرتی بند کر دی جائے تب بھی یہ مطالبہ عین قرین انصاف تھا۔ مگر مسلمان اس سے کم تر مطالبہ، یعنی قادیانوں کو کلیدی مناصب سے ہٹانے پر اکتفا کیے ہوئے تھے جس کی معقولیت کی بنیاد صرف یہ مذہبی نظریہ نہیں کہ کسی اسلامی اسٹیٹ میں قرآن وسنت کی واضح ہدایات کی بنا پر کسی بھی غیر مسلم کو کلیدی مناصب پر مامور نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کے علاوہ یہ مطالبہ اس لیے بھی کیا جارہا تھا کہ یہ لوگ پچھلے انگریزی دور میں مسلمانوں کی غفلت اور انگریزوں کی غیر معمولی عنایات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے نام پر مسلمانوں کی ملازمتوں کے کوٹہ کا استحصال کرتے آئے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد حکمرانوں کی نوازش ، غفلت یا بےحسی سے فائدہ اٹھا کر اس معمولی اقلیت نے شرح آبادی کے تناسب سے بدرجہا زیادہ ملازمتوں پر قبضہ کر لیا تھا


اس گروہ سے تعلق رکھنے والے اہم مناصب پر فائز افراد نے اپنے ہم مذہبوں کو بھرتی کرکے اور اپنے  ماتحت اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے حقوق پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی۔اس کے نتیجے میں ملک کے تمام اہم شعبوں فوجی، صنعتی، معاشی، اقتصادی، انتظامیہ، مالیات،منصوبہ بندی، ذرائع ابلاغ وغیرہ پر انہیں اجارہ داری حاصل ہو گئی او رملک کی قسمت کا فیصلہ ایک مٹھی بھر غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں چلا گیا۔


مشرف دور میں اس گروہ کے سرکردہ افراد نے اپنے دائرہ اثر میں اپنے عہدہ اور منصب  کو قادیانیت کی تبلیغ واشاعت کے لیے خوب استعمال کیا اورانہی ہدایات پر عمل کیا جو ان کے خلیفہ گاہے بگاہے انہیں دیتے تھے اس مقصد کے لئے اُنھیں حکومت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی بلکہ کسی حد تک انھیں حکومت کی آشیرباد اور تعاون حاصل تھا


مشرف دور میں کلیدی مناصب پر فائز مرزائیوں کے ذمہ دار افراد ملک وملت کے مفادات سے غداری کے بار بار مرتکب ہوتے رہے لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی گویا مرزائیوں کو آئینی طور پر جن سرگرمیوں سے روک دیا گیا تھا مشرف دور میں وہ اُن سرگرمیوں میں دھڑلے سے مصروف رھے اور حکومت کا تعاون اُنہیں حاصل رھا

چند وجوہات کی بنا پر مرزائیوں کا کلیدی مناصب پر برقرار رہنا صرف مذہبی نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ ملک کی اکثریت کے معاشی، سماجی، معاشرتی مفادات کے تحفظ او رملک وملت کی سالمیت کا بھی تقاضا تھا خصوص طور پر مشرف حکومت کی مرزائیوں پر نوازش کی وجہ تھی کہ وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، وزارت خزانہ، وزارت پانی وبجلی، وزارت مواصلات، وزارت سائنس وٹیکنالوجی، وزارت صحت، پی آئی اے، احتساب بیورو، وزارت تعلیم ، پبلک سروس کمیش، ایٹمی توانائی کمیشن ، بیرونی ممالک، سفارت خانے، سی بی آر وغیرہ میں قادیانیوں کی اب بھی بھر مار ہے۔ ملک عزیز پاکستان میں حساس عہدوں پر قادیانیوں کو تعینات کیا گیا۔ حساس اداروں کے کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کا براجمان ہونا ملکی سالمیت اور بقا کے لیے بھی حد درجہ خطرناک ہے۔ اس لیے کہ ہر قادیانی نے اپنے مذہب کی تبلیغ وتشہیر کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا  ھوتا ہے۔ اس سلسلہ میں ظفر الله خان کی زندگی ہمارے سامنے ہے کہ وہ پہلے قادیانی جماعت کے مبلغ اور بعد میں حکومت پاکستان کے ملازم تھے۔ اسی طرح جہاں کہیں بھی کوئی قادیانی موجود ہے ، وہ اس ادارہ کا ملازم بعد میں ہے، قادیانیت کا مبلغ پہلے ہے۔ قادیانی غیر مسلم اقلیت ہے، آبادی کے تناسب سے قادیانوں کو ملازمتیں ضرورملنی چاہییں کہ اقلیتوں کے حقوق کی پاس داری از حد ضرور ی ہے، جب کہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے بڑھ کر کئی گنا زیادہ قادیانی سرکاری حساس اداروں میں ملازم ہیں۔ تقریباً 24 کروڑ آبادی میں 22لاکھ کے قریب قادیانی ہیں۔ یعنی کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں۔ لیکن جب عملی میدان یا بیوروکریسی میں نظر دوڑائی جائے تو پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کا وہ تاریخی جملہ100% سچ نظر آتا ہے، جو انہوں نے کرنل رفیع الدین کو کہا تھا کہ:” یہ لوگ (قادیانی، مرزائی) چاہتے تھے کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکا میں حاصل ہے، یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔“ (بھٹو کے آخری323 دن، صفحہ167)


امریکا میں جو مقام یہودیوں کو حاصل ہے مشرف دور میں وہی مقام قادیانیوں نے پاکستان میں حاصل کرنے کی کوششیں کیں ۔ اس دور میں اپنے غلبہ واقتدار کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قادیانی قیادت نے اپنے کارکنوں کو سرکاری محکموں میں بھرتی کرنے کا منصوبہ بنایا او پھر اپنے اس سرکاری اثر ورسوخ کو قادیانیت کے فروغ اور استحکام کے لیے استعمال کیا۔ قادیانیوں نے اپنی سرکاری حیثیت سے ناجائز فائدے اٹھانے میں کوئی حد نہیں چھوڑی اس کے لئے اسلام دشمن طاقتوں کا مکمل تحفظ حاصل رہا  افسوس کی بات یہ ہے بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں میں ان کی سفارش پر  نہ صرف قادیانیوں بلکہ بعض سفارت خانوں میں یہودی لڑکیوں کو بھی ملازم رکھا گیا، جس سے اسلامی ممالک میں پاکستان کی بہت جگ ہنسائی ہوئی۔ اس وجہ سے بعض عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی کشیدہ رہے۔ علاوہ ازیں بیرونی دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے اس قدر قادیانی لٹریچر تقسیم کیا گیا کہ بعض آفریقی ممالک میں قادیانیت کو ہی پاکستان کا سرکاری مذہب سمجھا جانے لگا   مرزائی لاٹ پادری   کے حکم پر قادیانی آفسروں نے بیرون ممالک سفارت خانوں میں چن چن کر قادیانیوں کو بھرتی کیا ،جو قادیانیت کی تبلیغ کے لیے دن رات کام کرتے تھے گویا غیر ممالک میں پاکستان کے ”سفارت خانے“ تبلیغ ِمرزائیت کے اڈے اور ان کے جماعتی دفاتر معلوم ہوتے تھے۔ قادیانی لابی نے جزائر غرب الہند کے علاقوں کے دورے  کیے تو انہوں نے مختلف تقریبات میں جھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزا قادیانی کا آخر الزمان نبی کی حیثیت سے تعارف کرایا۔ انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مشرف دور میں تقریباً40 ممالک میں قادیانیوں کے 126 مشن کام کر رہے تھے، ان میں سے ایک اسرائیل میں بھی تھا

 حکومت پاکستان نے معروف قادیانی نبیل منیر شیخ کو اقوام متحدہ میں مستقل نائب مندوب تعینات کیا یہ شخص قادیانی جماعت کے حلقہ گارڈن ٹاؤن لاہور کا صدر اور قادیانی تنظیم انصار الله کا زعیم تھا۔ نبیل منیر شیخ کی بیوی صائمہ منیر قادیانی خواتین کی تنظیم لجنہ کی سرکردہ راہ نما ہے۔ اس نے اپنا وصیت نامہ قادیانی مرکز ربوہ میں جمع کروارکھا تھا جس کے تحت اس کی موت کے بعد اس کی جائیداد کا 10/1 حصہ قادیانی فنڈ میں جمع کر دیا جائے۔ یاد رہے یہ فنڈ قادیانی مذہب کی تبلیغ واشاعت میں خرچ ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ایسا افسر نہیں تھا جسے اس حساس عہدہ پر تعینات کیا جاسکتا ؟


پاکستان میں کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کی تعیناتی کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ ملاحظہ کیجیے:

”اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے قادیانیوں کی ریاستی اداروں اورکلیدی عہدوں بشمول اعلیٰ آئینی عہدوں پر تعیناتی او رگھس بیٹھنے کے عمل کی موثر درستگی ہونی چاہیے تھی ،لیکن اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، اگرچہ قوم کا مطالبہ اور دوسری آئینی ترمیم کی منشا یہی ہے

ریاست ِ پاکستان مخصوص طریقہ کار اور نئے سائنسی اقدامات کے ذریعے اس اقلیت کی اصل تعداد کا پتہ چلائے۔ یہ ایسی صورت حال میں مزید ضروری ہو جاتا ہے جب اس اقلیت کی ایک بڑی تعداد اصل شناخت چھپاتی ہے اور مسلمان ہونے کا غلط تاثر دیتی ہے”


جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں، ہر کسی نے قادیانیوں کی جانب سے طاقت کی راہداریوں تک رسائی کو محسوس کیا تھا اور یہ تشویش کا باعث بنتا رہا تھا۔ طارق عزیز (ایک سرکاری افسر ،جو قادیانی تھا) نے صدر جنرل پرویز مشرف کے پرنسپل سیکریٹری ہونے کے ناطے اپنا کردار ادا کیا اور مختلف  محکموں میں قادیاینوں کی شمولیت کو یقینی بنایا۔ ان میں آئینی عہدے بھی شامل تھے اور اس وجہ سے مختلف اہم حساس نوعیت کے معاملات میں قادیانیوں کو مشاورت کا حصہ بنا دیا گیا ۔ یہاں دوبارہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنے پاکستانی اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کا پرنسپل سیکریٹری آئین پاکستان کے آرٹیکل (b) (a)(3)260 کے تحت مسلمان تھا یا غیر مسلم تھا؟! ایک سفارت کار واجد شمس الحسن نے قادیانیوں کے سرپرست ملک برطانیہ میں قادیانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے قادیانی عقیدے کو افشا کیا تھا


یہاں یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ پاکستان کا ہر شہری بلا امتیاز نسل، ذات، عقیدہ یا مذہب کے زندگی کا حق رکھتا ہے اور آئین کی حدود میں اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم چونکہ قادیانوں کو پہلے ہی غیر مسلم قرار دیا جاچکا تھا اس لیے ان کو دیگر اقلیتوں کی طرح ہی تصور کیا جانا چاہیے، جن کو بآسانی شناخت کر لیا جاتا ہے اوروہ اپنے ناموں سے اپنے مذہب کو چھپانے کا اہتمام نہیں کرتے۔


مشرف حکومت نے یہ آرڈر بھی جاری کیا تھا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں عدالت ایسے افراد کے نام ظاہر کرنے سے باز رہے گی جو قادیانی عقائد رکھتے ہیں، مگر انہوں نے اپنی مذہبی شناخت چھپا کر بیورو کریسی، عدلیہ، فوج، نیوی، ایئرفورس اور دیگر حساس اور اہم اداروں میں اعلیٰ عہدے حاصل کیے ھوئے ہیں، کیوں کہ اس سے بدمزگی پیدا ہو گی، یہ تھی پرویز مشرف کی روشن خیالی جس کا خاتمہ بہرحال ہونا چاہیےتھا ۔ ملک کے ہر شہری کا حق ہے کہ وہ ایسے افراد کے بارے میں جانے جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں کہ وہ کس مذہبی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو لوگ ان کے بچوں کے لیے نصاب ترتیب دیتے ہیں کن مذہبی عقائد کے حامل ہیں، جو لوگ ان کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں ان کے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کیا تکریم دیتے ہیں، وہ لوگ جو سفیر ہیں اور ان کے اسلامی نظریے کے نمائندہ ہیں اور دنیا بھر میں اس کا پرچار کرنے کے لیے تعینات ہیں کون سے نظرئیے کی تشہیر کرتے ہیں اور کس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور سب سے  اہم بات ہے کہ وہ لوگ جن کے ذمے پاکستان کا دفاع ہے وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ ریاست کی ذمہ داری تھی اور بالخصوص وفاقی حکومت کی، لیکن مشرف حکومت اس سے عہدہ برآہونے میں بری طرح ناکام ہوچکی تھی جس وجہ سے عدالت کو احکامات جاری کرنا پڑے 


عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا  کہ پاکستان میں رہنے والی اکثر اقلیتیں اپنے ناموں اور پہچان کے اعتبار سے علیحدہ شناخت رکھتی ہیں، لیکن آئین کے مطابق ان اقلیتوں میں سے ایک اقلیت(کے لوگ) اپنے ناموں اورظاہری لباس کے اعتبار سے علیحدہ شناخت نہیں رکھتے، جس سے بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اپنے ناموں کی وجہ سے وہ آسانی سے اپنا عقیدہ چھپاسکتے ہیں او رایک مسلم اکثریت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ، وہ مکرم اور حساس عہدوں تک رسائی بھی پاسکتے ہیں اورجملہ مفادات حاصل کرسکتے ہیں۔ اس صورت حال کوسنبھالنا اہم ہے، کیوں کہ ایک غیر مسلم کی آئینی عہدوں پر تعیناتی ہمارے مقامی قانون اور رسومات کے منافی ہے۔ اسی طرح، غیر مسلم مخصوص آئینی عہدوں کے لیے منتخب بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔ اکثر اداروں / شعبوں بشمول پارلیمنٹ کی ممبر شپ اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں ہیں۔ اسی لیے جب کسی اقلیتی گروہ کا کوئی رکن اپنے اصل مذہبی عقیدے کو دھوکہ دہی سے چھپاتا ہے اور اپنے آپ کو مسلم اکثریت کا حصہ ظاہر کرتا ہے تو وہ آئین کے الفاظ اور روح کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ اس پامالی سے محفوظ بنانے کے لیے ریاست کو فوری اقدامات کرنے چاہییں۔“


بہرحال مشرف کا دور جہاں ھر لہاظ سے ظلم وبربریت کا دور تھا وھاں بیرونی سامراجی طاقتوں اور مرزائیوں کے لئے موسم بہار تھا اس دور میں مرزائیوں کو آزادی سے اپنا کام کرنے کے مواقع حاصل رھے اگر مجلس ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عوامی پریشر نہ ھوتا تو مشرف حکومت آئین میں مرزائیوں کے کفر کی شق کو بھی ختم کرنے میں بھی کوئی عار نہ سمجھتی یہ علماء اور عوامی غیض وغضب کا ھی خوف تھا جس نے مشرف کو ایسا کرنے سے روکے رکھا

 ذرا اب مکافاتِ عمل بھی دیکھیں کہ اپنے اقتدار کے نشہ میں  اپنے سیاسی مخالفین کو مکے دکھانے والا  اور برملا یہ کہنے والا کہ “ میں کسی سے  بھی نہیں ڈرتا “ یہ بہادر کمانڈو  آج دنیا بھر میں چھپتا پھر رھا ھے اور  در بدر کے دھکے کھاتا پھر رھا ھے لیکن اس نام نہاد بہادر میں اب اتنی جرات نہیں کہ وہ اپنے ملک  آکر عدالتوں کا سامنا کر سکے

Share: