عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 74 )


*  قادیانی اقلیت کے متعلق  اسلام آباد ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ*



گذشتہ اقساط میں لعنتی مرزائیوں کے لئے ھماری جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کے رویہ اور مرزائیوں پر ان کی نوازشوں کا  کچھ ذکر کیا گیا اس قسط میں اُس پکّے سچّے مسلمان جج جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے مرزائیوں کے متعلق اس  فیصلے کا ذکر کیا جائے گا جو انھوں نے ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے عاشق ھونے کے ناطے پاکستانی قانون کے مطابق بغیر کسی خوف وخطر کے جاری کیا گویا یہ فیصلہ اندھیری رات میں ایک روشن ستارہ کی حیثیت رکھتا ھے جسے تاریخ میں ھمیشہ یاد رکھا جائے گا


ہمارا ملک پاکستان نظریۂ اسلام پر بنا تو ضرور تھا لیکن سات دہائیاں گزرنے کے باوجود کسی ایک حکومت نے بھی خلوصِ دل سے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوئی کوشش اور پیش رفت نہیں کی، بلکہ بانیانِ پاکستان کی منظور کردہ قراردادِ مقاصد‘ ۱۹۷۳ء کے متفقہ آئین ودستور میں شامل اسلامی دفعات، عقیدۂ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے تحفظ کے متعلق قوانین اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے آئینی شقیں اُن کے لیے روزِ اول سے سوہانِ روح اور آنکھ کا تنکا بنی ہوئی ہیں۔

موجودہ  اور سابقہ حکومتوں نے اپنے اندرونی وبیرونی آقاؤں کو خوش کرنے، مغربی قوتوں کے اعتماد کے حصول اور ان سے کیے گئے وعدوں کے ایفاء کے لیے  عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے متعلق دفعات میں مخفی اور چوری چھپے طریقے سے نقب لگانے کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن عوامی دباؤ کی بناپر ان کو ھر دفعہ سجدۂ سہو کرنا پڑا اور ان کے مذموم عزائم ناکام ہوئے۔

جب ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے متعلق حلف نامہ اور دوسری شقوں کو حذف کیا گیا تھا تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے مرکزی راہنما حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ عدالتِ عالیہ نے پہلی سماعت کے بعد حکمِ امتناع جاری کر دیا تھا کیس سننے کے بعد عدالتِ عالیہ کے معزز جج جناب شوکت عزیز صدیقی صاحب نے تفصیلی فیصلہ سنایا ۔ افادۂ عام اور تاریخ میں محفوظ کرنے کی غرض سے اس فیصلہ کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:


آرڈر شیٹ

اسلام آباد عدالتِ عالیہ، اسلام آباد


مولانا اللہ وسایا (رٹ پٹیشن نمبر3862|2017) بنام:فیڈریشن آف پاکستان بذریعہ سیکرٹری، منسٹری آف لااینڈ جسٹس، وغیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یونس قریشی، وغیرہ (رٹ پٹیشن نمبر 3847|2017)بنام:فیڈرل گورنمنٹ بذریعہ وزیراعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، وغیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تحریک لبیک یارسول اللہ (رٹ پٹیشن نمبر 3896|2017) بنام :فیڈرل گورنمنٹ بذریعہ وزیراعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، وغیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سول سوسائٹی بذریعہ صدر (رٹ پٹیشن نمبر 4093|2017)بنام:فیڈرل گورنمنٹ بذریعہ وزیراعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، وغیرہ

نمبرشمار حکم وکارروائی

تاریخ حکم           20      09-03-2018 


حکم بمع دستخط جج اور دستخط فریقین ووکلاء (جہاں ضروری ہوں)

 


حافظ عرفات احمد چوہدری، مس کاشفہ نیاز اعوان اور زاہد تنویر فاضل وکلاء بمع سائل(رٹ پٹیشن نمبر 3862|2017) 


جناب محمد طارق اسد، ایڈووکیٹ(رٹ پٹیشن نمبر3847|2017)حافظ فرمان اللہ، ایڈووکیٹ، سید محمد اقبال ہاشمی، ایڈووکیٹ، مس بسمہ نورین، انڈروینر۔


مسئول علیہم


ارشد محمود کیانی، ڈپٹی اٹارنی جنرل، مس نویدہ نور، ایڈووکیٹ، آئی بی، جناب نعمان منور، اصغر، نمائندگان منسٹری آف لاء اینڈ جسٹس، سید جنید جعفر،لاء آفیسر، جناب عثمان یوسف مبین، چیئرمین، جناب ثاقب جمال، ڈائریکٹر لیگل اور ذوالفقار علی، ڈی جی پروجیکٹ، نادرا

جناب کامران رفعت، ڈپٹی ڈائریکٹر، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، جناب ایم شاہد، ڈپٹی ڈائریکٹر، جناب زرناب خٹک، ایس او، اسٹیبلشمنٹ ڈوئرن، جناب قیصر مسعود، ایڈیشنل ڈائریکٹر لائ، ایف آئی اے، جناب وقار چوہدری، ڈی پی او، لٹیگشن، قومی اسمبلی


عدالتی معاونین (مذہبی عالم)


پروفیسر ڈاکٹر حسن مدنی، پروفیسر ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر محسن نقوی، مفتی محمد حسین خلیل۔


عدالتی معاونین (آئینی ماہر) 


جناب محمد اکرم شیخ، سینئر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ، ڈاکٹر محمد اسلم خاکی، سینئر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ، ڈاکٹر بابر اعوان، سینئرایڈووکیٹ، سپریم کورٹ۔


تواریخ سماعت


22.02.2018

23.02.2018 

26.02.2018 

27.02.2018 

28.022018 

01.03.2018 

02.03.2018 

05.03.2018 

06.03.2018 

07.03.2018



*جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب*

*اسلام آباد ھائیکورٹ*


اُن تمام وجوہات کی بناپر جو کہ بعد میں درج کی جائیں گی، یہ تمام آئینی درخواستیں مندرجہ ذیل اعلانیہ واحکامات کے ساتھ منظور کی جاتی ہیں:


1:- دینِ اسلام اور آئینِ پاکستان مذہبی آزادی سمیت اقلیتوں (غیرمسلموں) کے تمام بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ریاست پر لازم ہے کہ ان کی جان، مال، جائیداد اور عزت وآبرو کی حفاظت کرے اور بطور شہری ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ آئین کی شق نمبر5 کے مطابق ہر شہری کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ریاست کا وفادار اور آئین وقانون کا پابند ہو۔ یہ فریضہ ان افراد پر بھی لازم ہے جو پاکستان کے شہری نہیں، لیکن یہاں موجود ہیں۔

2:- ریاستِ پاکستان کے ہر شہری کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی شناخت درست اور صحیح کوائف کے ساتھ کرائے۔ کسی مسلم کو اس امر کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی شناخت کو غیر مسلم میں چھپائے، بعینہٖ کسی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کو مسلم ظاہر کرکے اپنی پہچان اور شناخت کو چھپائے۔ ایسا کرنے والا ہر شہری ریاست سے دھوکہ دہی کا مرتکب ہوتا ہے، جو کہ آئین کو پامال کرنے اور ریاست سے استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔

3:- آئینِ پاکستان کی شق نمبر260 ذیلی شق 3 جز اے اور بی میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف بالصراحت موجود ہے، جسے اجماعِ قوم کی حیثیت حاصل ہے۔ بدقسمتی سے اس واضح معیار کے مطابق ضروری قانون سازی نہیں کی جاسکی۔ نتیجۃً غیر مسلم اقلیت اپنی اصل شناخت چھپاکر اور ریاست کو دھوکہ دیتے ہوئے خود کو مسلم اکثریت کا حصہ ظاہر کرتی ہے، جس سے نہ صرف مسائل جنم لیتے ہیں، بلکہ انتہائی اہم آئینی تقاضوں سے انحراف کی راہ بھی ہموار ہوجاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا یہ بیانیہ کہ سول سروس کے کسی بھی افسر کی اس حوالے سے شناخت موجود نہیں، ایک المیہ ہے، جو کہ آئینِ پاکستان کی روح اور تقاضوں کے منافی ہے۔

4:- پاکستان میں بسنے والی بیشتر اقلیتیں اپنے ناموں اور شناخت کے حوالے سے جداگانہ پہچان رکھتی ہیں، لیکن ہمارے آئین کی رو سے قرار دی گئی ایک اقلیت اپنے ناموں اور عمومی پہچان کے حوالے سے بظاہر مختلف تشخص نہیں رکھتی۔ بدیں وجہ ایک سنگین آئینی مسئلہ جنم لیتا ہے، وہ بآسانی اپنے ناموں کی وجہ سے اپنے عقیدہ کو مخفی رکھ کر مسلم اکثریت میں شامل ہوجاتے ہیں اور اعلیٰ اور حساس مناصب تک رسائی حاصل کرکے ریاست سے فوائد سمیٹتے رہتے ہیں۔ اسلامیات کا مضمون پڑھانے کے لیے اساتذہ کے لیے مسلمان ہونا لازمی شرط قراردیا جائے۔

5:- اس صورتِ حال کا تدارک اس لیے ضروری ہے کہ بعض آئینی عہدوں پر کسی غیر مسلم کی تقرری یا انتخاب ہمارے دستور کے خلاف ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی رکنیت سمیت اکثر محکموں کے لیے اقلیتوں کا خصوصی کوٹہ بھی مقرر ہے، اس لیے جب کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والا شخص اپنا اصل مذہب اور عقیدہ چھپاکر خود کو فریب کاری کے ذریعہ مسلم اکثریت کا جزو ظاہر کرتا ہے تو دراصل وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے الفاظ اور روح کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ریاست کو ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

6:- ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کا معاملہ ہمارے دین کی اساس ہے۔ تاریخ میں اس اساس پر حملوں کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔ اس اساس کی حفاظت ونگہبانی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ پارلیمنٹ انتہائی معتبر ادارہ ہونے اور ملکِ پاکستان کی عوام کی ترجمان ہونے کی حیثیت سے اس اَساس کی پاسبان ہے۔ 

اس ضمن میں پارلیمان سے بھرپور بیداری اور حساسیت کی توقع رکھنا مسلم اکثریت کا حق ہے۔ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے بنیادی عقیدے کے تحفظ کے ساتھ پارلیمنٹ کو ایسے اقدامات پر بھی غور کرنا چاہیے جن کے ذریعے اس عقیدے پر ضرب لگانے والوں کی سازشوں کا مکمل سدباب ہوسکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم المرسلین ہیں اور ان کے بعد کوئی شخص جو نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، خائن اور دائرہ اسلام سے خارج ہے کو آئین کے علامیہ کے طور پر بھی پڑھا جانا چاہیے، پارلیمان اس معاملہ پر غور کرنے کی مجاز ہے۔ 

7:- یہ امر خوش آئند ہے کہ قانونی سقم سامنے آتے اور غلطی کا احساس ہوتے ہی پارلیمنٹ نے اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے پر بھرپور حساسیت کا مظاہرہ کیا اور متذکرہ قانون کو بادی النظر میں آئینی تقاضوں کے ہم آہنگ کیا۔ ایسے معاملات اسی حساسیت اور یکجہتی کا تقاضا کرتے ہیں۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے ایک منجھے ہوئے قانون دان اور تجربہ کار پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے اپنی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی کی جانب سے انتہائی اعلیٰ رپورٹ مرتب کی، جس میں معاملے کے تمام پہلوؤں کا انتہائی جامعیت، دیانت داری اور دانش مندی کے ساتھ اِحاطہ کرتے ہوئے منفی تأثرات کو زائل کیا۔ اب یہ پارلیمان پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملہ پر مزید غور کرے یا اجتناب۔

8:- ریاست کے لیے لازم ہے کہ سوادِ اعظم کے حقوق، احساسات اور مذہبی عقائد کا خیال رکھے اور ریاست کے آئین کے ذریعہ قراردیے گئے ریاست کے مذہب ’’اسلام ‘‘کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا اہتمام کرے۔

بلاشبہ ان اقدامات کا مقصد معاشرے کو انتشار سے بچانا اور آئینی تقاضوں کے مطابق جداگانہ مذہبی شناخت رکھنے والی تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی ہے، جو پاکستان کا شہری ہونے کے ناطے اُنہیں حاصل ہیں۔لہٰذا عدالت یہ حکم جاری کرتی ہے کہ:

i۔     شناختی کارڈ، پیدائش سرٹیفیکٹ، پاسپورٹ کے حصول اور انتخابی فہرستوں میں اندراج کے لیے درخواست گزار سے آئین کی شق 260 ذیلی شق 3 اور جز اے بی میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف پر مبنی بیانِ حلفی لازمی قرار دیا جائے۔

ii۔     تمام سرکاری ونیم سرکاری محکموں بشمول عدلیہ، مسلح افواج، اعلیٰ سول سروسز میں ملازمت کے حصول یا شمولیت کو بھی متذکرہ بالا بیانِ حلفی سے مشروط قراردیاجائے۔

iii۔     نادرا اَپنے قواعد میں کسی بھی شہری کی طرف سے اپنے درج شدہ کوائف، بالخصوص مذہب کے حوالے سے درستگی کے لیے مدت کا تعین کرے۔

iv۔     مقننہ آئین کے تقاضوں، عدالتِ عظمیٰ کے فیصلہ 1993SCMR1748 اور عدالتِ عالیہ لاہور کے فیصلہ PLD1992 L صلی اللہ علیہ وسلم h 1 میں طے شدہ قانونی بنیادوں کو روبعمل لاکر ضروری قانون سازی کرے اور ایسی تمام اصطلاحات جو دینِ اسلام اور مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں، انہیں کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی پہچان چھپانے کی غرض یا دیگر مقاصد کے لیے استعمال سے روکنے کے لیے بھی موجود قانون میں ضروری ترمیم اور اضافہ کرے۔

v۔     حکومتِ پاکستان اس بات کا خصوصی اہتمام کرے کہ ریاست کے تمام شہریوں کے درست کوائف موجود ہوں اور کسی بھی شہری کے لیے اپنی اصل پہچان اور شناخت چھپانا ممکن نہ ہوسکے۔ نادرا میں قادیانیوں/ مرزائیوں کی درج شدہ تعداد اور مردم شماری کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اعداد وشمار میں نمایاں فرق کی تحقیقات کے لیے فوری اقدام اٹھائے جائیں۔

vi۔     ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ مسلم اُمہ کے حقوق، جذبات اور مذہبی عقائد کی حفاظت کرے اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی توفیق سے تمام فاضل وکلاء، قانونی ماہرین اور مذہبی اسکالرز نے اس مقدمہ کے دوران بھرپور معاونت کی اور یہ عدالت ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتی ہے ۔ اسی طرح تمام سرکاری افسران-جو مختلف اداروں سے تعلق رکھتے ہیں- کا تعاون قابلِ تعریف تھا۔ مزید برآں جناب ارشد محمود کیانی، ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب نے مثالی کردار ادا کیا اور اپنی ہمہ وقت کاوش وانتھک محنت سے عدالت کی طرف سے لگائی جانے والی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کیا، جس سے عدالت کو صحیح نتائج پر پہنچنے میں مدد ملی۔ 

یہ حکم اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں جاری کیا جارہا ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جیسا کہ عدالتِ عالیہ نے قرار دیا کہ آئین کی شق نمبر:۵ کے مطابق ہر شہری کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ریاست کا وفادار اور آئین وقانون کا پابند ہو، جب کہ بارہا یہ ثابت ہوچکا ہے کہ قادیانی نہ صرف یہ کہ بیرونِ ملک‘ پاکستان کے اہم راز افشاء کرتے ہیں، بلکہ پاکستان کو بدنام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آج تک انہوں نے ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو بھی قبول نہیں کیا، کیا کہا جائے کہ یہ ریاست کے ساتھ وفاداری ہے یا غداری؟ اور یہ آئین وقانون کی پابندی ہے یا قانون وآئین شکنی اور بغاوت؟

اسی طرح عدالت نے واضح کیا کہ مسلم ہو یا غیر مسلم، وہ اپنی شناخت کو چھپانے والا، ریاست سے دھوکہ دہی کا مرتکب ہوتا ہے، جو کہ آئین کو پامال کرنے اور ریاست سے استحصال کے زُمرے میں آتا ہے۔ اب ان قادیانیوں کے متعلق کیا کہاجائے گا جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک اپنی شناخت کو چھپاکر ریاست کو دھوکا، آئین کو پامال اور ریاست کا استحصال کرتے رہے۔ قادیانیوں سے مسلمانوں کا یہی تو اختلاف ہے کہ وہ اپنی شناخت اپنائیں، جس طرح کہ دوسری اقلیتیں اپنی شناخت: یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی وغیرہ اپناتی اور ظاہر کرتی ہیں۔ قادیانی ایسا کیوں نہیں کرتے؟

عدالت نے یہ بھی لازم کیا ہے کہ سرکاری اسکولوں، کالج اور یونیورسٹیوں میں اسلامیات کا مضمون پڑھانے کے لیے اساتذہ کے لیے مسلمان ہونا لازمی شرط قرار دی جائے۔

اب حکومت اور اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عدالتِ عالیہ کے حکم پر  عمل کریں اور جن قادیانیوں نے اپنی شناخت چھپاکر پاکستانی اداروں سے مفادات اُٹھائے ہیں، ان کو قرار واقعی سزادی جائے اور ان کی جائیداد ضبط کرکے سرکاری خزانہ میں جمع کرائی جائے۔

اسی طرح جو لوگ اپنی شناخت چھپاکر اداروں میں گھسے ہوئے ہیں، ان کو معینہ تاریخ تک اپنی شناخت واضح کرنے کا پابند کیا جائے، بصورتِ دیگر اُن کو سرکاری عہدوں سے برطرف کیا جائے، بلکہ ان کو ریاست کو دھوکہ دینے، آئین کو پامال کرنے اور ریاست کے استحصال کی دفعات لگاکر سزا بھی دی جائے۔ 

اور یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ نظریۂ پاکستان کے مصوروخالق محترم جناب علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ: ’’قادیانی ملک اور ملت کے غدار ہیں۔‘‘ تو اس پر ابھی تک اعتماد کیوں نہیں کیا گیا؟ ان پر گہری نظر کیوں نہیں رکھی گئی؟ اور ان کی خفیہ ریشہ دوانیوں پر قدغن کیوں نہیں لگائی گئی؟

حالانکہ سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ قادیانی پاکستان میں وہی پوزیشن اور اسٹیٹس لینا چاہتے ہیں جو یہودی امریکہ میں لے چکے ہیں۔خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں گواہ ہیں کہ پاکستان میں ہر بحران کے پس منظر میں قادیانی لابیاں کارفرما ہوتی ہیں۔

 محترم جسٹس جناب شوکت عزیز صاحب نے جو یہ تاریخی فیصلہ دیا  اور اس سے پہلے انٹرنیٹ کے بلاگرز نے جو نازیبا اور بیہودہ حرکات کی تھیں، ان کا نوٹس اور ان کے خلاف فیصلہ بھی اسی محترم ومعزز جج صاحب نے دیا تھا، اب ان کے خلاف بھی سازشیں شروع ہیں،

بہرحال تمام مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بیدار رہیں، قادیانیوں، ان کی لابیوں اور قادیانی نوازوں سے ہوشیار رہیں، اس لیے کہ ان کی سرشت اور خصلت میں ہے کہ وہ خفیہ اور پس پردہ ڈنگ مارتے اور ڈستے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ معزز جج کے خلاف کوئی سازش کرکے کامیاب ہوجائیں، اور مسلمان ہاتھ مسلتے رہ جائیں۔

Share: