عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 77 )


*  پنجاب اسمبلی میں تحفظِ ختمِ نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی تاریخی قرارداد کی منظوری اور جناب چوہدری پرویز الہی صاحب کا بہت جاندار کردار*


عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ان بنیادی عقیدوں میں سے ایک ہے جن پر گونا گوں اختلافات کے باوجود تیرہ صدیوں تک امت کا کلی اتفاق اور قطعی اجماع رہاہے۔جس طرح ایک مسلمان کے لئے اللہ تعالی کی توحید،قیامت،حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)کی رسالت کسی دلیل کی محتاج نہیں ،اسی طرح ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے مسئلہ پر بھی کوئی بحث نہیں رہی اور اس کے ثبوت کے لئے کبھی کسی مسلمان کو دلیل یا بحث و تمحیص کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔لیکن ملعون مرزا قادیانی نے وہ کام کر دکھایا جس کی جرأت آج تک شیطان کو بھی نہیں ہوئی تھی۔اس لا فانی حقیقت کے باوجود کہ خاتم النبین ؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی ذات اقدس کسی دلیل کی محتاج نہیں ، ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے عقیدہ پراہل ایمان کو اکثر ان لا یعنی مباحث میں الجھانے کی کوشش کا سلسلہ یونہی سر اٹھاتا رہا ہے،جس کا مقصد محض لوگوں میں بے چینی پیدا کرنا ہوتا ہے ۔جس کیلئے ہمیشہ حکومت وقت کو بھی اپنے ایفائے عہد کے فرض کی ادائیگی کیلئے عملی تقاضے پورا کرنے پڑتے ہیں۔ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کا عقیدہ محض ایک عقیدہ نہیں بلکہ ہم سب کے ایمان کا جزو ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق امت کی حساسیت کا پورا خیال رکھا جائے تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ؐکا امتی کسی غلط فہمی کے باعث اپنے آقا کریمؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) سے کٹ کر نہ رہ جائے۔


اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ مرزا قادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا جو اس نے مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لیے لگایا تھا۔لیکن اس کا یہ وار اس لیے ناکام ھو گیا کہ اس مسئلے پر علمائے کرام ہمیشہ بلاتفریق مسلک ایک پلیٹ فارم پر جمع رہے اور انہوں نے ہر محاذ پر اس کو شکست فاش دی۔ 1953 ء کی تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ہو یا پھر 1974 ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے کا واقعہ، پاکستان سے مایوس ہونے کے بعد قادیانیوں نے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کوبدنام کرنے کی کوشش کی۔مگر ان کی اس کوشش کو ناکام بنانے میں ہمیشہ اس کا سہرا بھی ہمارے بزرگوں کے سر رہا۔


2018 کہ انتخابات کے بعد سے ملک میں قادیانیت کے بڑھتے ہوئے اثر نفوذ سے بالخصوص مذہبی اور بالعموم سیاسی حلقوں میں ایک بے چینی رہی ہے۔ اہم عہدوں پر قادیانیوں کی تعیناتی کے باعث شبہات کی فضا اس وقت مزید گہری ہو گئی جب پہلے حج فارم کا معاملہ سامنے آیا پھر اقلیتی کمیشن میں ان کی رکنیت کا معاملہ اٹھا۔اور بڑی چابکدستی سے قادیانیوں کو اس کمیشن کا رکن بنانے کی کوشش کی گئی ۔یہ صورت حال موجودہ حکومت کیلئے اہمیت کی حامل تھی۔پنجاب میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سب سے تجربہ کار سیاستدان چوہدری پرویز الہٰی بطور سپیکر پنجاب اسمبلی جس طرح مل کرکام کر رہے ہیں۔ اپنے اقدامات سے انہوں نے ثابت کیا کہ کہ وہ ایک سمجھدار، اور انتظامی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے شخص ہیں۔ مئی 2020 میں ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں بلا شبہ اس مسئلے پرہر جانب سے پنجاب حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے کہا جا رہا تھا چنانچہ اس اہم فریضے کی ادائیگی کیلئے حکومت کے وزیر اور چوہدری برادران کے قریبی ساتھی حافظ عمار یاسر نے حضور خاتم النبیینؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی عظمت و شان کے تحفظ کے لیے ایوان میں قرار داد پیش کر کے یہ سعادت حاصل کی۔


قیام پاکستان کے بعد 1953کی تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے دوران اس مسئلے نے شدت اختیار کی۔ اس کے پس منظر میں دنیا اسلام کے معروف مفسر اور سیرت نگار سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری عقیدہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی  تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں حضور سرور عالم سیدنا محمد رسول اللہ ؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) سب سے آخری نبی ہیں۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے دعوی کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اسلام نے مرتد کے لئے مقرر فرمائی ہے۔

1953 کی تحریک ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) میں حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی گئی۔کئی دیگر علمائے کرام بھی پابند سلاسل رہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کا ملک میں اپنا اثر نفوذ بڑھتا رہا۔کلیدی عہدوں پر ان کے لوگ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔1974ء میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس تحریک نے اُس وقت ایک بار پھر زور پکڑا جب ربوہ میں کچھ طلبا پر جو ایک تفریحی دورے سے واپس آرہے تھے ،قادیانیوں نے حملہ کردیا۔ طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ان معصوم طلباء کا خون ربوہ کی سر زمین پر گرنے کی دیر تھی کہ ایک ملک گیر تحریک نے جنم لیا۔1974 کی تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) میں علماء اور عوام نے مل کر ایسا کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے تحفظ کے لیے علماء و مشائخ اور عوام نے اپنے جان و مال کی قربانی پیش کی۔ایوانوں سے باہر پاکستان کے گلی کوچوں میں ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے شیدائیوں نے اپنے خون سے وطن عزیز کی گلیوں کو رنگ دیا۔اس تحریک نے ملک کو عملی طور پر مفلوج کر دیا۔پاکستان کے کئی شہروں میں کرفیو کی نوبت آگئی۔کاروبار حکومت رک کر رہ گیا۔عوام پر تشدد،گرفتاریوں،لاٹھی چارج،آنسو گیس سمیت ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جو ممکن تھا۔لیکن یہ تمام ریاستی ہتھکنڈے عشاقان رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جذبوں کو سرد نہ کر سکے۔خوش قسمتی سے اس وقت ذوالفقار علی بھٹو جیسا جہاں دیدہ سیاستدان ملک کا حکمران تھا۔اس نے حالات کو بھانپ لیا اور اس اہم مسئلے کو قومی اسمبلی میں لا کر معاملہ طے کیا ۔پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا جبکہ ملک کی تمام سیاسی قیادت نے اپنی اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ عظیم سعادت اپنے نام کر لی۔مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی،چوہدری ظہور الہی،پروفیسر غفور احمد وغیرہ اکابرین نے اس قانون سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ انہوں نے اپنے دستخط سے اس ترمیم کو دستور پاکستان کا حصہ بنایا۔ مگرقادیانی لابی کے اثر و رسوخ کو محسوس کرتے ہوئے وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ میں نے اس مسودے کے ذریعے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کیے ہیں۔پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے ترمیم منظور کئے جانے کے بعد قادیانیوں کی سرگرمیوں پر قانونی طور پر پابندی عائد کی گئی۔انہوں نے پاکستان کی مختلف عدالتوں میں جا کر اپنا موقف بیان کیا۔مگر ہائی کورٹس،وفاقی شرعی عدالت،سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ان کے موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں بنائے گئے قانون کی توثیق کی ۔


موجودہ دور میں بے پناہ عوامی رد عمل سامنے آنے پر اس لابی کی یہ کوششیں ناکام تو بنا دی گئیں لیکن شکوک و شبہات کی فضا قائم رہی۔وفاقی وزیر مذہبی امور کی باربار وضاحت کے بعد ایک گونہ اطمینان  ہوا۔وزیر اعظم پاکستان نے بھی اپنے ایک پیغام میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) پر کامل یقین رکھتے ہیں اور کسی ایسی سرگرمی کی پشت پناہی نہیں کی جائے گی جو قادیانیت کی تقویت دینے کا باعث بنے۔ان ہی خطوط پر وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی کابینہ کے ایک وزیر نے ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے حوالے سے یہ قرار داد پیش کر کے دونوں جہانوں کی سعادتیں اپنے نام کرلیں۔پیش کی جانے والی قرارداد میں ان کے عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔عام طور پر اس طرح کی قراردادیں اپوزیشن کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں لیکن قانون ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے ساتھ چوھدری ظہورالٰہی فیملی کا ایک خاص تعلق بھی ہے۔چنانچہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے تمام سیاستدانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہی نے ایک اہم قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔یقینا اس فیصلے میں انہیں  وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی مکمل رضامندی اور تائید حاصل رہی ھو گی۔ چوہدری برادران کے قریبی ساتھی جناب حافظ عمار یاسر نے حضور خاتم النبیینؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی عظمت و شان کے تحفظ کے لیے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی اس سے پہلے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے ایوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت ؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ہمارے ایمان کا بنیادی حصہ ہے۔نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ؐکی ذات اقدس پر ہماری جان بھی قربان ہے۔جب تک قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے تب تک ان کو اقلیت بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

تحفظِ ختمِ نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)، تحفظِ ناموسِ رسالت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)، تحفظِ ناموسِ اصحابِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ، تحفظ ناموسِ اہلِ بیت اطہار اورتحفظِ ناموسِ امہات المومنین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں، اس پر ہمارا سب کچھ قربان ہے۔ اس پر کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اس موقع پر اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم سب ناموسِ رسالت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اور عقیدہ ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے محافظ ہیں۔ کابینہ نے طے کیا کہ جب تک قادیانیوں کا سربراہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ غیر مسلم ہیں، تب تک وہ قومی اقلیتی کمیشن میں نہیں شامل ہوسکتے۔ قادیانی آئینِ پاکستان کو جب تک تسلیم نہیں کرتے وہ کمیشن میں نہیں آسکتے۔

پنجاب کے وزیر معدنیات کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:-


مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّـٰهِ وَخَاتَـمَ النَّبِيِّيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمًاO 

محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے خاتمے پر ہیں، اور اللہ ہر بات جانتا ہے۔


قرآن میں واضح طور پر بیان ہوگیا کہ نبوت کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے۔اب کسی اور نبوت کے اجراء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یعنی مہر لگ گئی اور یہ راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیاہے، جامع ترمذی اور سنن ابوداؤد میں حضرت ثوبان  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ:’’میری امت میں سے تیس افراد ایسے اٹھیں گے جو کذاب (انتہائی جھوٹے)ہوں گے۔ ان میں سے ہر شخص اپنے بارے میں یہ گمان کرتا ہو گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ہوں، اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘ حضرت محمد رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظمت اور فضیلت کا پہلو اس اعتبار سے ہے کہ نبوت آپ پر کامل ہو گئی ہے، رسالت کی آپ پر تکمیل ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قرآن و حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ضمن میں خاص طور پرتکمیل، اکمل جیسے الفاظ بکثرت پاتے ہیں، 

جیسا کہ قرآن شریف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:’’


اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۚ O

آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے،


 یہ ایوان وفاقی کابینہ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے قادیانیوں کو اس بنا پر اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا۔ قادیانی نہ آئینِ پاکستان کو مانتے ہیں نہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایوان اعادہ کرتا ہے کہ آئے روز ناموسِ رسالت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) پر کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے، کبھی حج فارم میں تبدیلی کر دی جاتی ہے، کبھی کتب میں سے خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کا لفظ نکال دیا جاتا ہے، لیکن آج تک ان سازشیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے،لیکن ہمیں تحفظِ ناموسِ رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ یہ ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے۔ یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے، جو لوگ ان سازشوں میں ملوث ہیں ان کو بے نقاب کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ اقلیتی کمیشن میں ہندو، سکھ اور مسیحی بیٹھے ہیں، ہم نے کبھی ان پر اعتراض نہیں کیا، کیونکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے۔ ہم اقلیتوں کو آئین میں دیئے گئے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ اگر قادیانیوں کا سربراہ یہ لکھ کر بھیج دے کہ وہ آئینِ پاکستان کو مانتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں ان کے اقلیتی کمیشن میں بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کا معاملہ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے۔

قرارداد میں وفاقی کابینہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے واضح کیا گیاقادیانی آئین پاکستان کو مانتے ہیں نہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں جس پر انہیں اقلیتی کمیشن میں شامل نہ کرنا درست فیصلہ ہے۔یہ ایوان اعادہ کرتا ہے کہ آئے روز ناموس رسالت ؐ قرارپر کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کردیا جاتا ہے ،کبھی حج فارم میں تبدیلی کر دی جاتی ہے کبھی کتب میں سے خاتم النبیینؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کا لفظ نکال دیا جاتا ہے لیکن آج تک ان سازشیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔چنانچہ یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

تحفظ ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ،تحفظ ناموس رسالت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ،تحفظ ناموس اصحاب رسول،تحفظ ناموس اہل بیت اطہار،اور تحفظ ناموس امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر ہمارے لئے کوئی چیز نہیں۔


بلا شبہہ یہ قرارداد موجودہ پنجاب حکومت اور پنجاب اسمبلی کے ماتھے کا جھومر ہے۔اس کی منظوری پر پنجاب اسمبلی میں سپیکر چوہدری پرویز الہی ، قائد ایوان عثمان بزدار اور اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف مبارکباد کے مستحق ہیں۔یہ وہ سعادت ہے جو ان کے لیے دنیا اور آخرت کی کامرانی کا باعث بنے گی ۔عثمان بزدار کی حکومت بجا طور پر اس کارنامہ پر فخر کر سکے گی۔سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف ایک پرعزم،جہاندیدہ سیاستدان ہیں بلکہ وہ اپنے سینے میں محبت رسولؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) سے بھرپور ایک دل بھی رکھتے ہیں۔حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کی طرح یہ مسئلہ امت کے لیے بھی ریڈ لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ان حالات میں میں اگر کوئی ایسا قدم اٹھایا گیا جس سے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ حکومت قادیانیوں کی طرف داری یا سرپرستی کر رہی ہے توبے روزگاری،غربت اور بھوک افلاس کی ستائی قوم پھٹ پڑے گی۔

اللہ پاک وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز،اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اور تمام اراکین اسمبلی کو یہ قرارداد منظور کرنے پر اجر عظیم عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

Share: