عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 107 )


* ملعون مرزا غلام قادیانی کی پیشگوئیاں*

(گذشتہ سے پیوستہ)


*اپنے متعلق پیشگوئیاں*


*مرزا قادیانی کی آسمانی شادی کی پیشگوئی*


مرزا غلام قادیانی کی آسمانی شادی کی پیشگوئی بھی ایک دلچسپ مگر عبرت انگیز کہانی​ ھے اسے مکمل پڑھنے سے مرزا ملعون کا گندہ کردار واضح ھو کر سامنے آجاتا ھے کسی آدمی کا شادی کیلئے کسی لڑکی کا انتخاب کرنا اور اس کے لئے نکاح کا پیغام دینا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن ایک بوڑھے  شخص کا ایک کم سن پچی پر نظر رکھنا اور اسکی طلب و ہوس میں دن رات تڑپنا اسکے شریف ہونے کا پتہ نہیں دیتا. پھر یہ مسئلہ اس وقت اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب اس لڑکی کا والد اپنی کسی مجبوری میں اس شخص کے پاس آئے اور وہ اس شخص کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس لڑکی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے اور طرح طرح کے لالچ اور انعام کے وعدے کر دے اور پھر موت کی دھمکیوں پر اتر آئے. یہ پرلے درجے کی بد اخلاقی اور غنڈہ گردی ھے اور معاشرہ ایسے شخص کو بے حیاء اور بد معاش کہتا ہے. پھر یہ بات اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتی ہے جب اس قسم کی اوچھی حرکتیں کرنے والا شخص مامور من اللہ ہونے کا مدعی ہو اور اس لڑکی کو پانے کی خدا کے نام سے خبر دے.

خدا تعالی کے محبوبین اور مقبولین اخلاق و کردار کی اس بلند دیوار پر کھڑے ہوتے ہیں جس پر خدا کے معصوم فرشتوں کو بھی رشک آتا ہے. مخالفین ان کے دعوی کی تکذیب تو کرتے ہیں لیکن کبھی انکے اخلاق زیر بحث نہیں آتے. شدید ترین مخالفین بھی اللہ کے ان محبوبین کے اعلی اخلاق و کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور انہیں امین و صادق اور عفیف مانے بغیر انہیں چارہ نہیں ہوتا. اسکے مقابل جو لوگ خدا کے نام پر جھوٹی آواز لگاتے ہیں اور افتراء علی اللہ اور افتراء علی الرسول کے مجرم ہوتے ہیں وہ اخلاق و کردار کے اعتبار سے اس قدر گرے ہوتے ہیں کہ کوئی مہذب معاشرہ ایسے آدمیوں کو شریف کہنا گوارا نہیں کرتا. وہ اول مرحلے پر ہی اپنے آپ کو اس قدر ننگا کر دیتے ہیں کہ ذرا سی سمجھ رکھنے والا انسان بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جو شخص اس قدر بد اخلاق اور بد کردار ہے وہ مامور من اللہ تو کجا ایک شریف انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں. جب ایک دھوکے باز آدمی کو کوئی شخص صالح اور پرہیزگار نہیں کہہ سکتا تو ایسے بد کردار آدمی کو مامور من اللہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ مولانا روم نے ایسے ہی فراڈی قسم کے لوگوں کے بارے میں یہ کہا تھا؎

کار شیطان مے کند نا مش ولی گرو لی ایں است لعنت برایں ولی​

قادیان کے مرزا غلام کو قادیانی لوگ خدا کا نبی اور مامور من اللہ مانتے ہیں اور مسلمانوں کو کہتے ہیں اس پر ایمان لاؤ گے تو جنت میں جاؤ گے اور اسے نہ ماننے والا حرام زادہ ہے. اہل اسلام تو سرے سے ہی اسے پرلے درجے کا جھوٹا سمجھتے ہیں اور اسکے دعوی کی بناء پر اسے اسلام سے خارج جانتے ہیں. لیکن جو لوگ اسے مانتے ہیں انہیں غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے کس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے؟ اگر قادیانی عوام علمی بحثوں کو علماء تک محدود رکھیں اور مرزا غلام کے اخلاق و کردار اور اسکے کیریکٹر کے آئینہ میں دیکھیں تو امید ہے کہ انشاء اللہ انہیں سیدھا راستہ پانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی اور وہ بڑی سی بڑی قربانی دے کر بھی قادیانیت کا طوق گلے سے اتار دیں گے. مرزا غلام ملعون بداخلاقی کی کس سطح میں ڈوب چکا تھا. اللہ تعالی قادیانی عوام کو سمجھنے کی توفیق دے. آمین

ایک مرتبہ مرزا غلام کی نظر ایک کمسن لڑکی پر پڑی جو اس کے دل کو بھا گئی. یہ اس کے اپنے قریبی رشتہ دار کی بچی تھی. انہی دنوں اس بچی کے والد کو کسی ایک ضروری کام کے لیے مرزا غلام کے پاس آنا پڑا مرزا غلام نے مختلف بھانوں کے ذریعہ اسے ٹالنے کا کھیل کھیلا مگر جب وہ کسی طرح بھی نہ ٹلا تو مرزا  نے کہا کہ میں ایک شرط پر تمہارا یہ کام کرنے کے لئے تیار ہوں. وہ شرط کیا تھی اسے پڑھیے:

خدا تعالی کی طرف سے مجھ کو یہ الہام ہوا ہے کہ تمہارا کام اس شرط پر ہو سکتا ہے کہ تم اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دو. (روحانی خزائن - آئینہ کمالات اسلام)

یہ شخص احمد بیگ تھا اور یہ بچی محمدی بیگم تھی. احمد بیگ نے جب یہ بات سنی تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ ایسا شخص جو مامور من اللہ ہونے کا دعوی کرتا ہے اس عمر میں ایک کام کیلئے میری کم سن بچی مانگ رہا ہے. چنانچہ اس نے مرزا غلام  کی اس شرط کو ماننے سے انکار کر دیا اور بغیر کام کرائے واپس چلا آیا. مرزا غلام  نے احمد بیگ کو مختلف ذرائع سے سمجھانے اور منانے کی کوشش کی مگر غیرت مند باپ کسی طرح بھی اپنی بچی کا نکاح مرزا غلام سے کرانے کو تیار نہ ہوا. مرزا غلام  نے اس بچی کو پانے کیلئے خدا کی وحی آنے کی خبر دی اور احمد بیگ کے خاندان کو رحمتوں اور برکتوں کے ملنے کی خوشخبری دی. مرزا غلام لکھتا ہے

اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اس شرط سے کیا جائے گا. اور یہ نکاح تمہارے لیے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہو گا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گئے جو اشتہار 20 فروری 1886ء میں درج ہیں“ (تذکرہ صفحہ 125-126) 

مرزا غلام نے یہ بھی لکھا

”اللہ تعالی نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ احمد بیگ کی دختر کلاں محمدی بیگم کیلئے ان سے تحریک کر. اگر انہوں نے مان لیا تو ان کیلئے یہ ایک رحمت کا نشان ہو گا اور یہ خدا کی طرف سے بے شمار رحمت و برکت پائیں گے“ (سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد اول )

احمد بیگ نے ان تمام برکتوں اور رحمتوں کو ٹھکرا دیا جو اس نکاح کے نام سے اسے دی جا رہی تھیں. اسے یقین تھا کہ یہ مرزا غلام  کی نفسانی خواہشات ہیں جسے وہ خدا کے نام سے پیش کر رہا ہے. چنانچہ اس نے کھلے عام مرزا غلام کی بات ماننے سے انکار کر دیا. مرزا غلام نے اپنے رشتہ داروں کو خطوط لکھے اور انہیں مجبور کیا کہ احمد بیگ کو اس نکاح کیلئے تیار کیا جائے اور خود احمد بیگ کو 20 فروری 1888ء کو ایک لالچ بھرا خط لکھا کہ اگر تم نے اپنی بچی کا نکاح میرے ساتھ کر دیا تو میں نہ صرف ان کاغذات پر دستخط کرنے کیلئے تیار ہوں بلکہ تمہیں جائداد بھی ملے گی اور تمہارے لڑکے کو پولیس کی ملازمت بھی دلا دوں گا. مرزا غلام کے خط کا یہ حصہ دیکھئے

”میں اپنی طرف سے تو صرف یہی عرض کرتا ہوں کہ میں آپ کا ہمیشہ ادب و لحاظ رکھتا ہوں اور آپ کو ایک دیندار اور ایماندار بزرگ تصور کرتا ہوں اور ہبہ نامہ پر جب لکھو حاضر ہو کر دستخط کر جاؤں اور اسکے علاوہ میری املاکی خدا کی اور آپ کی ہے اور میں نے عزیزی محمد بیگ (احمد بیگ کے لڑکے) کیلئے پولیس میں بھرتی کرانے کی اور عہدہ دلانے کی خاص کوشش و سفارش کر لی ہے تا کہ وہ کام میں لگ جاوے اور اسکا رشتہ میں ایک بہت امیر آدمی کے ہاں جو میرے عقیدت مندوں میں تقریباً کر دیا ہے“ (نوشتہ غیب صفحہ 100)

مرزا غلام نے احمد بیگ سے یہ وعدہ بھی کیا

”میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی لڑکی کو اپنی زمین کا ایک تہائی حصّہ دونگا اور میں سچ کہتا ہوں کے اس میں سے جو کچھ مانگیں گے میں آپ کو دونگا “ (روحانی خزائن جلد ۵)

مرزا غلام کی یہ تحریر بھی دیکھیں جو وہ خدا کے نام پر پیش کر رہا ہے

”اللہ تعالی نے مجھ پر وحی فرمائی کہ اس شخص کی بڑی لڑکی کے نکاح کیلئے درخواست کر... اور کہدے کہ مجھے اس زمین کے ہبہ کرنے کا حکم مل گیا ہے جس کے تم خواہش مند ہو بلکہ اسکے ساتھ اور زمین بھی دی جائے گی اور دیگر مزید احسانات تم پر کئے جائیں گے بشرطیکہ تم اپنی لڑکی کا مجھ سے نکاح کر دو“[1](روحانی خزائن جلد ۵)

احمد بیگ نے مرزا غلام کی یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی. مرزا غلام پھر بھی باز نہ آیا چنانچہ مرزا غلام نے التجاؤں کے خطوط لکھے اور کہا کہ اب جبکہ عوام میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ خدا کی طرف سے اس رشتہ کا حکم ہے اسلئے اس میں کوئی تاخیر نہ ہونی چاہیے اس نے احمد بیگ کے نام 17 جولائی 1892 کو یہ خط لکھا کہ

”آپ کو شاید معلوم ہو گا یا نہیں کہ پیش گوئی اس عاجز کی ہزارہا لوگوں میں مشہور ہو چکی ہے اور میرے خیال میں شاید دس لاکھ آدمی سے زیادہ ہو گا کہ جو اس پیشگوئی پر اطلاع رکھتا ہے اور ایک جہاں کی اس طرف نظر لگی ہوئی ہے... یہ عاجز آپ سے ملتمس ہے آپ اپنے ہاتھ سے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کیلئے معاون بنیں تاکہ خدا تعالی کی برکتیں آپ پر نازل ہوں“ (منقول از رسالہ کلمۃ فضل ربانی صفحہ 123)

احمد بیگ جانتا تھا کہ یہ مرزا غلام کا جھوٹ ہے خدا نے اسے اس نکاح کیلئے کہا ہے اس نے مرزا ملعون کی کوئی التجا نہ سنی پھر مرزا غلام  نے احمد بیگ کو خدا کے عذاب کی دھمکیاں بھی سنائیں. احمد بیگ اسے بھی کسی خاطر میں نہ لایا اور اپنی بچی کو دائم المریض اور مراقی کو دینے کیلئے ہرگز راضی نہ ہوا.

مرزا غلام کو معلوم ہوا کہ محمدی بیگم کا ایک ماموں ہے جو بہت با اثر ہے مرزا غلام  نے منصوبہ بنایا کہ اسے رشوت دے کر یہ رشتہ حاصل کیا جائے. مرزا بشیر کہتا ہے

”چونکہ محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا اس لئے حضرت  (مرزا غلام ) نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ بھی کر لیا تھا“ (سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد اول)

مرزا غلام جب ہر طرف سے ناکام ہوا تو اس نے احمد بیگ کو منوانے کیلئے ایک نہایت گھناؤنا اور شرمناک طریقہ اختیار کیا اسے دیکھئے

مرزا غلام کے بیٹے فضل احمد کی شادی مرزا شیر علی کی لڑکی سے ہوئی تھی اور مرزا شیر علی کی بیوی (فضل احمد کی ساس) احمد بیگ کی بہن تھی. مرزا غلام  نے مرزا شیر علی اور اسکی بیوی (احمد بیگ کی بہن) کو بھی مسلسل خطوط لکھے اور ان دونوں کو اس نکاح کے حصول میں مدد کرنے کیلئے کہا اور انہیں دھمکی دی کہ اگر احمد بیگ اپنی بچی کی شادی مرزا غلام سے نہ کی تو وہ اپنے بیٹے فضل احمد سے کہیں گے کہ وہ ان دونوں کو اس حصول میں مدد کرنے کیلئے کہا اور انہیں دھمکی دی کہ اگر احمد بیگ نے اپنی بچی کی شادی مرزا غلام سے نہ کی تو وہ اپنے بیٹے فضل احمد سے کہیں گے کہ وہ اپنی بیوی (احمد بیگ کی بہن کو لڑکی جو مرزا غلام کی بہو تھی) کو طلاق دے دے. مرزا غلام  نے لدھیانہ سے 2 مئی 1891ء کو یہ خط لکھا. اس خط کا یہ حصہ پڑھیے

”فضل احمد بھی آپ کی لڑکی کو اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا...فضل احمد آپ کی لڑکی کو طلاق دے دے گا اگر وہ طلاق نہیں دے گا تو میں اسکو عاق اور لا وارث کر دوں گا...آپ اس وقت کو سنبھال لیں“ (کلمۃ فضل ربانی صفحہ 126)

پھر 4 مئی 1891 کو مرزا غلام نے احمد بیگ کی بہن (محمدی بیگم کی ممانی اور فضل احمد کی ساس) کے نام بھی دھمکی بھرا خط لکھا. اسکا یہ حصہ ملاحظہ کیجئے

”اپنے بھائی احمد بیگ کو جس طرح بھی تم سمجھا سکتی ہو اسکو سمجھا دو اور اگر ایسا نہ ہو گا تو آج میں نے مولوی نور الدین اور (اپنے بیٹے) فضل احمد کو خط لکھ دیا ہے کہ اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آؤ تو فضل احمد عزت بی بی کیلئے طلاق نامہ لکھنے سے گریز کرے یا عذر کرے یا تو اس کو عاق کیا جاوے اور اپنے بعد اس کو وارث نہ سمجھا جاوے اور ایک پیسہ اس کو وراثت کا نہ ملے... اگر فضل احمد نے نہ مانا تو میں فی الفور اسکو عاق کر دوں گا اور پھر وہ میری وراثت سے ایک دانہ نہیں پا سکتا اور اگر آپ اس وقت اپنے بھائی کو سمجھا لو تو آپ کیلئے بہتر ہو گا“ (منقول از نوشتہ غیب صفحہ 128)

مرزا شیر علی نے مرزا غلام کے دھمکی آمیز خط کا جواب دو دن کے اندر دے دیا. مرزا شیر علی کا خط دیکھئے اس سے آپ کو مرزا غلام  کو سمجھنے میں بہت حد تک مدد ملے گی. مرزا شیر علی نے لکھا

”گرامی نامہ پہنچا آپ جو کچھ بھی تصور کریں آپ کی مہربانی ہے ہاں مسلمان ضرور ہوں. مگر آپ کی خود ساختہ نبوت کا قائل نہیں ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے سلف صالحین کے طریقے پر ہی رکھے اور اسی پر میرا خاتمہ بالخیر کرے...احمد بیگ کے متعلق میں کر ہی کیا سکتا ہوں وہ ایک سیدھا سادہ مسلمان آدمی ہے جو کچھ ہوا آپ کی طرف ہی سے ہوا نہ آپ فضول ایمان گنواتے اور الہام بانی کرتے اور نہ مرنے کی دھمکیاں دیتے اور نہ وہ کنارہ کش ہوتا...آپ خیال کریں کہ اگر آپ کی جگہ احمد بیگ ہو اور احمد بیگ کی جگہ آپ ہوں تو خدا لگتی کہنا کہ تم کن کن باتوں کا خیال کرکے رشتہ دو گے اگر احمد بیگ سوال کرتا اور وہ مجمع الامراض ہونے کے علاوہ پچاس سال سے زیادہ عمر کا ہوتا اور اس پر وہ مسیلمہ کذاب کے کان کتر چکا ہوتا تو کیا آپ رشتہ دیتے؟ آپ کو خط لکھتے وقت یوں آپے سے باہر نہیں ہونا چاہیے. لڑکیاں سب گھروں میں ہیں کچھ حرج نہیں اگر آپ طلاق دلوائیں گے تو یہ بھی ایک پیغمبری کی نئی سنت دنیا پر قائم کر کے بدنامی کا سیاہ داغ مول لیں گے باقی روٹی تو خدا اسکو بھی کہیں سے دے ہی دے گا، تر نہ سہی خشک سہی، مگر وہ خشک بہتر ہے جو پسینہ کی کمائی سے پیدا کی جاتی ہے... میری بیوی کا کیا حق ہے کہ وہ اپنی بیٹی (مرزا غلام  کی بہو جسے اپنے لڑکے سے طلاق دلوانے کی مسلسل دھمکیاں دیتا رہا ہے) کیلئے اپنے بھائی کی لڑکی کو دائم المریض آدمی کو جو مراق سے خدائی تک پہنچ چکا ہو کس طرح لڑے“ خاکسار شیر علی 4 مئی 1891ء

مرزا شیر علی کے اس خط میں مرزا غلام  کی صحیح تصویر کھینچی گئی ہے. اور بتایا گیا وہ کس سطح کا آدمی ہے. نہ صرف یہ کہ اسکی نبوت خود ساختہ ہے بلکہ وہ اس دعوی میں مسیلمہ کذاب کے بھی کان کتر چکا ہے. اور بلیک میلنگ میں بھی اسکا کوئی جواب نہیں ہے. اس پر مستزاد یہ کہ وہ جسمانی بیماریوں کا بھی ایک مجموعہ ہے اور مراقی ہے. پھر مرزا شیر علی نے اپنے اس خط میں مرزا غلام پر بڑا لطیف طنز کیا ہے اور واضح کیا ہے اسکی کمائی کے ذرائع کیا ہیں؟

اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ مرزا غلام  1891ء میں مدعی نبوت کا پلان بنا چکا تھا اور مرزا کے خاندان میں بھی یہ بات پھیل چکی تھی کہ اسکی نبوت خانہ ساز ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مرزا غلام  اسکیموں کا بادشاہ تھا اور اپنی بات منوانے کیلئے کس طرح دوسروں کو اپنے بیچ میں لاتا تھا. 

مرزا غلام  نے اپنے سمدھی کو یہ بھی لکھا کہ وہ اپنی بیوی سے کہے کہ وہ اپنے بھائی (احمد بیگ) سے اس معاملہ پر جھگڑا کرکے بھی شادی روک دے اور کسی طرح بھی اسے میرے ساتھ نکاح کیلئے تیار کرے. مرزا غلام  نے شیر علی کے نام 4 مئی 1891ء کو لکھا

آپ احمد بیگ کو پورے زور سے خط لکھیں کہ (وہ محمدی بیگم کا دوسری جگہ نکاح کرنے سے) باز آ جائیں اور اپنے گھر کے لوگوں (یعنی بیوی وغیرہ) کو تاکید کریں کہ وہ بھائی کو لڑائی کرکے روک دیوے ورنہ مجھے خدا تعالی کی قسم ہے کہ اب ہمیشہ کیلئے یہ تمام رشتے ناطے توڑ دوں گا.

یہ بھائی بہن کو آپس میں لڑانے کی کوشش کیا کسی شریف آدمی کا کام ہو سکتا ہے؟

جب احمد بیگ اپنی لڑکی کو مرزا غلام  کے نکاح میں دینے کے لئے کس طرح تیار نہ تھا تو مرزا غلام کیوں چاہتا تھا کہ ہر قیمت پر اسے احمد بیگ کی بچی مل جائے. مرزا غلام  نے آخر کار اپنے بیٹے فضل احمد کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی کا طلاق دے دے اس نے بادل نخواستہ اپنی بیوی کو طلاق دے دی. مرزا غلام  کی پہلی بیوی اور اسکے بیٹے سلطان احمد نے مرزا غلام  کا ساتھ نہ دیا. مرزا غلام  نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اپنے بیٹے سلطان احمد کو اپنی وراثت سے محروم کیا. یہ اپنی بیوی پر سراسر ظلم اور اپنے بیٹے سے کھلی زیادتی نہیں. کیا ایسا آدمی شریف کہلانے کے لائق ہے یہ بات قادیانیوں کے سوچنے کی ہے؟

مرزا غلام  نے اس رشتہ کیلئے اپنے کئی رشتہ داروں کو خطوط لکھے اور انہیں کہا کہ احمد بیگ کو اس نکاح کیلئے تیار کرو مرزا بشیر احمد لکھتا ہے کہ

”حضرت (مرزا ملعون) نے جو اس رشتہ کی کوشش میں اپنے بعض رشتہ داروں کو خط لکھے اور اسکے لئے بڑی جد و جہد کی “ (سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد اول روایت نمبر 179 صفحہ 188)

مرزا غلام سے جب کہا گیا کہ جب یہ خدا کی بات ہے تو اس میں اتنا شور و غل کیوں کرتے ہو اور اسکے لئے دوسروں پر ظلم و زیادتی کہاں جائز ہے. مرزا غلام  نے اسکا یہ جواب دیا

” اگر وحی الٰہی کوئی بات بطور پیشگوئی ظاہر فرماوے اور ممکن ہو کہ انسان بغیر کسی فتنہ اور ناجائز طریق کے اس کو پورا کر سکے تو اپنے ہاتھ سے اس پیشگوئی کا پورا کرنا نہ صرف جائز بلکہ مسنون ہے “ (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 198)

مرزا بشیر احمد کہتا ہے ”کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے باوجود خدائی وعدوں کے اپنے پیشگوئیوں کو پورا کرنے کیلئے ہر جائز طریق پر کوشش نہ کی ہو“ (سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد اول روایت نمبر 179 صفحہ 177)

مرزا غلام نے اس پر کوئی حوالہ تو نہیں دیا نہ اسکی اس بات میں کوئی وزن ہے. اللہ تعالی کا پیغمبر جب کوئی پیشگوئی کرتا ہے تو حالات خودبخود اسکے مطابق ہوتے چلے جاتے ہیں اور پیغمبر کی ہوئی پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے. مگر یہاں معاملہ عجیب ہے مرزا غلام نے احمد بیگ کی بچی سے نکاح کو خدا کی بات بتایا. اب اسے ضروری تھا کہ وہ اس وقت تک انتظار کرتا جب خدا اپنی بات پوری کرتا مگر چونکہ یہ بات خدا کی طرف سے نہیں تھی اسکی اپنی خانہ ساز تھی اسلئے اس نے سب سے پہلے

 (1) احمد بیگ کو بلیک میل کیا کہ اسکے قانونی کاغذات پر اس وقت دستخط کرے گا جب وہ اپنی بچی کا نکاح اس سے کرے گا. 

(2) مرزا غلام  نے احمد بیگ کو مال کا لالچ دیا جائداد کی پیشکش کی اور اسکے بیٹے کو محکمہ پولیس میں ملازمت دلوانے کی پیشکش کی. 

(3) اس نکاح کیلئے رشتہ داروں کے ذریعہ احمد بیگ پر دباؤ ڈالا. 

(4) مرزا غلام نے اپنے بیٹے کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے یہ عورت احمد بیگ کی عزیزہ تھی. 

(5) مرزا غلام خود نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اپنے بیٹے کو وراثت سے محروم کیا کیونکہ وہ اس بات کیلئے مرزا غلام  کا ساتھ نہ دیتے تھے.

محمدی بیگم کے والد احمد بیگ نے مرزا غلام احمد کی کوئی بات نہ مانی اور اپنی لڑکی کا رشتہ جناب سلطان محمد کے ساتھ کر دیا. مرزا غلام احمد کو جب اس بات کی اطلاع ہوئی تو وہ آپے سے باہر ہو گیا اور کہا چونکہ یہ رشتہ خدا نے میرے ساتھ کر دیا ہے اسلئے کسی دوسرے کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں کہ وہ میری آسمانی منکوحہ سے رشتہ کرے اب جو شخص بھی محمدی بیگم سے شادی کرے گا خدا کی غیرت جوش میں آئے گی اور خدا تعالی ڈھائی سال کے اندر اسے مار ڈالے گا اور اسکے باپ کی بھی خیر نہ ہو گی. مرزا غلام  کا 10 جولائی 1888ء کا شائع کردہ اشتہار سامنے رکھیں اس نے لکھا کہ

”اگر (احمد بیگ نے) اس نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام بہت برا ہو گا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائیگی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائیگا اور انکے گھر میں تفرقہ اور مصیبتیں پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کیلیے غم کے امر پیش آئیں گے“ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 158)

”خدا نے مجھے بتلایا ہے کہ اگر کسی اور شخص سے اس لڑکی کا نکاح ہو گا تو نہ اس لڑکی کیلیے مبارک ہو گا اور نہ تمہارے لئے (یعنی احمد بیگ کیلیے-ناقل) ، ایسی صورت میں تم پر مصائب نازل ہونگے جنکا نتیجہ موت ہو گا تم تین سال کے اندر مر جاؤ گے اور اس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مر جائیگا یہ اللہ کا حکم ہے “ (روحانی خزائن جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 573)

مرزا غلام  نے بذریعہ وحی یہ خبر دی کہ اگر محمدی بیگم کا نکاح کہیں ہوا تو اسکے گھر تفرقہ اور مصیبتیں آئیں گی. محمدی بیگم کا نکاح ہوا اب دیکھئے تفرقہ اور مصیبتیں کس گھر پر آئیں

1) مرزا غلام کے بیٹے فضل احمد کا گھر برباد ہوا یہاں تفرقہ پڑا اور اس نے باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق دیدی.

2) مرزا غلام  نے اپنے بیٹے سلطان احمد کو محروم الارث کیا اور اسے عاق کیا.

3) مرزا غلام  نے فضل احمد اور سلطان احمد کی والدہ کو طلاق دی حالانکہ وہ پہلے سے بے گھر بیٹھی تھی.

اب آپ ہی فیصلہ کریں کے تفرقہ کا یہ عذاب محترمہ محمدی بیگم کے گھر آیا یا مرزا غلام  کا گھرانہ اس عذاب کی لپٹ میں آیا.

احمد بیگ نے مرزا غلام  کی ان دھمکیوں کی بھی کوئی پروا نہ کی. اور اپنی بیٹی کا نکاح 7 اپریل بمطابق 1892ء کو دھوم دھام سے کیا ادھر مرزا غلام  کے گھر میں ماتم برپا تھا. مرزا غلام  کے قریبی دوست تو بخوبی جانتے تھے کہ مرزا  نے خدا پر جتنی باتیں کہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں یہ سب مرزا غلام کی اپنی اختراع ہے جو وہ خدا کے نام پر پیش کر رہا ہے. لیکن نادان قادیانیوں کو کس طرح سمجھایا جائے کہ انکے نبی کی آسمانی منکوحہ کسی اور کے نکاح میں دی جا چکی ہے اور خدا کے فیصلے غالب آ چکے ہیں. مرزا غلام میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اپنی آسمانی منکوحہ کو سلطان محمد سے چھین سکے اور نہ اسکے کسی مرید میں یہ جرات تھی کہ وہ اپنے نبی کی آسمانی بیوی کو کسی غیر کی منکوحہ ہونے سے روک سکے. مرزا غلام  ذلت و حسرت کی تصویر بنا اپنی آسمانی منکوحہ کی رخصتی پر آنسو بہاتا رہا اور دانت پیستا رہا اور اسکے مریدوں کے منہ پر اسکی بےبسی اور شرمندگی صاف دکھائی دے رہی تھی.

مرزا غلام  نے اس نازک صورت حال کو دیکھتے ہوئے اعلان کیا اسے خدا نے وحی کی ہے کہ اس بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے. یہ صحیح ہے کہ خدا نے اسکا نکاح آسمان پر تمہارے ساتھ ہی پڑھایا ہے. زوجناکہا [1](روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 60) 

وہ تمہاری ہی منکوحہ ہے اب اس دنیا میں اگر کوئی اسے اپنی منکوحہ بنا چکا ہے تو یہ اسکی عارضی منکوحہ ہو گی. 

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا اسے مرزا غلام  کی منکوحہ بنائے اور کوئی دوسرا اسے لے اڑے.

سو وقت آئے گا کہ اس آسمانی منکوحہ کا عارضی شوہر مرے گا اور خدا پھر اسے تمہارے پاس ہی لے آئے گا. مرزا غلام  نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ اعلان کیا اور اشتہاروں پر اشتہار لکھے تا کہ اس کی جماعت سے نکلنے والے قادیانی واپس آ جائیں اور اسے اپنی آمدنی سے حصہ دیتے رہیں. مرزا غلام  خدا کے نام سے یہ اعلان کیا

”خدا تعالی نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ (احمد بیگ) کی دختر کلاں (محمدی بیگم) کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا“ (مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ 158 )

یہ اشتہار 10 جولائی 1888ء کا ہے اس سے پہلے 20 فروری 1886ء کے اشتہار میں مرزا غلام  یہ لکھ چکا تھا

”آخر وہ عورت اس عاجز کی بیویوں میں داخل ہوگی“ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 102)

مرزا غلام  نے 2 مئی 1891ء کو پھر ایک اور اشتہار شائع کیا اس میں لکھا

”اس عاجز نے...بحکم و الہام الہٰی یہ اشتہار دیا تھا کہ خدا تعالے کی طرف سے یہی مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی. خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آ جائے یا خدا تعالی بیوہ کر کے اس کو میری طرف لے آوے.“ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 219)

قادیانیوں کو مرزا غلام کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا وہ جاننا چاہتے تھے کہ مرزا غلام کا خدا واقعی سچ بول رہا ہے؟

27 ستمبر 1891ء میں مرزا غلام  نے خدا کے نام پر یہ اعلان کیا کہ خدا نے کہا ہے

”تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے؟ کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے. ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے. میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا“ (مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ 301)

مرزا غلام  جہاں یہ دیکھتا کہ اسکے اپنے لوگ اسکی بات پر اعتبار نہیں کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کی جماعت کو چھوڑ رہے ہیں تو وہ فوراً خدا کے نام سے ایک اعلان سنا دیتا.

6 ستمبر 1894ء کو اس نے پھر سے ایک اشتہار شائع کیا اور لکھا کہ

”خدا اس (محمدی بیگم) کو تیری طرف واپس لائے گا یعنی آخر وہ تیرے نکاح میں آئے گی اور خدا سب روکیں درمیان سے اٹھا دے گا. خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 41)

انہی دنوں کسی نے مرزا غلام  سے مذاق میں کہدیا کہ آپ کی آسمانی منکوحہ زندہ نہیں رہی اسلئے اب تو امید چھوڑ دیجئے. مرزا غلام نے کہا کہ مذاق مت کرو مجھے معلوم ہے کہ وہ عورت زندہ ہے اور آخر کار یہ میری ہو کر رہے گی. مرزا غلام  نے ضلع گورداسپور کی عدالت میں حلفیہ بیان دیا ہے اس میں اسکی جھلک پائی جاتی ہے. مرزا غلام  نے کہا

”عورت ( یعنی محمدی بیگم) اب تک زندہ ہے. میرے نکاح میں وہ عورت ضرور آئے گی. امید کیسی؟ یقین کامل ہے. یہ خدا کی باتیں ہیں ٹلتی نہیں ہو کر رہینگی“ (منظور الٰہی صفحہ 245 بتاریخ 16 مئی 1901ء مصنفہ منظور الہٰی قادیانی)

جوں جوں محمدی بیگم کی شادی کے دن بڑھتے جا رہے مرزا غلام  کی پریشانی بھی دن بدن بڑھ رہی تھی. اسکے مزید مرید اس سے بدظن ہو رہے تھے. مگر مرزا غلام  محمدی بیگم کی محبت اور اسکی طلب میں اس قدر دیوانہ ہو گیا تھا کہ اسے کسی بات کا ہوش نہ تھا جب کبھی اس مسئلہ کا تذکرہ ہوتا مرزا غلام  فوراً کہہ پڑتا ہے کہ اسے خدا نے بتا دیا ہے کہ یہ عورت آخر کار اسکی ہو کر رہے گی. مرزا غلام  کا یہ بیان ملاحظہ کیجئے

میں نے بڑی عاجزی کے ساتھ خدا سے دعا کی تو اس نے مجھے الہام کیا کہ...وہ بیوہ کی جائے گی...اور پھر ہم اسکو تیری طرف لائیں گے اور کوئی اس کو روک نہ سکے گا (روحانی خزائن جلد ۷- کَرامَات الصَّادقین: صفحہ 126)

مرزا غلام کی مذکورہ تصریحات اور پھر اسکی تشریحات سے یہ بات واضح ہے کہ محترمہ محمدی بیگم کی شادی ہو جانے کے باوجود مرزا غلام  نے اس خاتون کی آبرو کا کوئی خیال نہیں کیا اور سالہا سال تک ایک غیر محرم خاتون کو اچھالنے کا مشغلہ جاری رکھا. آپ ہی بتائیں کہ کیا مرزا غلام  کو اس کی اجازت تھی کہ وہ کسی دوسرے کی منکوحہ کے بارے میں بار بار یہ اشتہار شائع کرے کہ وہ میری بیوی بنے گی میرے گھر آئے گی اسکا شوہر مرے گا وہ منکوحہ ہے کچھ ہی ہو جائے اسے میرے ہی پاس آنا ہے. ہر شریف آدمی اس قسم کی باتیں کرنے والے شخص کو بڑا بے شرم آدمی کہتا ہے مگر افسوس کہ قادیانیوں نے اسے خدا کے نبی کا درجہ دے رکھا ہے. چہ نسبت نا پاک رابعام پاک

مرزا غلام  کو اس بات کا تو حق تھا کہ وہ محمدی بیگم کے شوہر انتقال کر جانے کے بعد پھر سے اپنے رشتہ کی بات چلاتا اور وہ بھی عدت گزرنے کے بعد اور پھر لالچ کے ذریعہ اپنی منکوحہ بناتا. مگر اسے یہ حق ہرگز نہ تھا کہ وہ ایک شخص کی منکوحہ کے بارے میں مسلسل یہ دعوی کرے کہ یہ اسی کی بیوی ہے اور اسکا شوہر مر جائے گا یہ واپس میرے پاس آئے گی. یہ انداز گفتگو اور اشتہارات اس بات کے شاہد کہ مرزا غلام  کو شریف آدمی کہنا بھی شرافت کے خلاف ہے قادیانیوں کے ہاں شرافت کا معیار مرزا غلام  کا گھناؤنا کردار ہے اور ایسے ہی لوگ انکے ہاں سب سے بڑے شریف سمجھے جاتے ہیں.

اسلام میں تو خاوند کے فوت ہونے کے بعد بھی عدت گزرنے سے پہلے بیوہ کو نکاح کا پیغام نہیں دیا جا سکتا. چہ جائیکہ خاوند زندہ ہو، مرزا بھی نہ ہو اور یہاں اسکے نکاح ثانی کے پیغام (و اشتہارات-ناقل) دیئے جا رہے ہوں.

ان دنوں محمد بخش جعفر زٹلی نے اپنے رسالہ میں یہ اعلان شائع کیا کہ عنقریب نصرت جہاں بیگم (مرزا غلام  کی بیوی) سے بیاہ رچانے والا ہے اور اسکا مطلب یہ تھا مرزا غلام  کی موت کے بعد نصرت جہاں میرے نکاح میں آئے گی پھر اس نے اپنے اعلان کی تائید میں چند خواب بھی سنائے اور بشارتیں بھی نقل کیں. مرزا غلام  نے جب یہ اعلان پڑھا تو مارے غصہ کے سرخ ہو گیا اور اس نے لکھا

”میری بیوی کی نسبت شیخ محمد حسین اور اس کے دلی دوست جعفر زٹلی نے محض شرارت سے گندی خوابیں بنا کر سراسر بے حیائی کی راہ سے شائع کیں. اور میری دشمنی سے اس جگہ وہ لحاظ اور ادب بھی نہ رہا جو اہل بیت آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک دامن خواتین سے رکھنا چاہئے. مولوی کہلانا اور یہ بے حیائی کی حرکات افسوس ہزار افسوس! “ (روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 199)

اگر جعفر زٹلی اس لئے بے حیاء ہے کہ وہ مرزا غلام  کی بیوی کے بارے میں خواب سناتا ہے اور کسی وقت اسکے نکاح میں آنے کی خبر دیتا ہے تو مرزا غلام  اس زیادہ بے حیاء ہے. کہ وہ مدعی نبوت ہو کر سلطان محمد کی بیوی محترمہ محمدی بیگم کے بارے میں الہامات سناتا ہے اور کسی دوسرے کی بیوی کو اپنے نکاح میں لانے کے بارے میں اشتہار شائع کرتا ہے. اگر جعفر زٹلی اس وجہ سے لائق نفرت ہے تو مرزا غلام  اس سے بددرجہ اولی لائق نفری ٹھہرتا ہے ۔ ھے کوئی قادیانی جو انصاف کا دامن تھامے اور مرزا غلام  کو بر سر عام بے حیاء مانے؟

مرزا غلام  نے جب خدا کے نام سے احمد بیگ کو اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کیلئے کہا تو یقین تھا کہ احمد بیگ اپنی مجبوری کے پیش نظر اسکی بات مان لے گا لیکن احمد بیگ نے غیرت کا مظاہرہ کیا. مرزا غلام  نے دیگر ذرائع سے لالچ اور دھمکیاں دیں وہ بھی بے اثر ہوئیں. اب جب کے لڑکی کا نکاح کسی اور جگہ ہو چکا اور وہ لڑکی کسی کی بیوی بن چکی پھر بھی بار بار یہ بات دہرانا کہ اس کا شوہر مر جائے گا کسی اور بات کی خبر دیتا ہے. مرزا غلام  کے خیال میں محمدی بیگم کس طرح بیوہ ہو سکتی تھی اس وقت اس پر بحث نہیں  یہاں صرف مرزا غلامکی غیر شریفانہ ذہنیت کی نشاندہی مقصود ھے تاکہ قادیانی عوام اس سے عبرت حاصل کریں اور وہ جان پائیں کہ مرزا غلام  بد اخلاقی کی کس سطح تک گر چکا تھا.

مرزا غلام  نے محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کو نہ صرف خدائی پیغام بتایا بلکہ اسے اپنے صدق و کذب کا اہم عنوان بھی بنا دیا. اپنے اس عنوان صدق کی لاج رکھنے اور اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے کہ یہ خدائی معاملہ ہے مرزا غلام  نے اوچھی حرکتوں کے اختیار تک سے اجتناب نہ کیا. ایک ظالم اور لالچی شخص کو کوئی چیز حاصل کرنے کیلئے جتنا کچھ کر سکتا ہے مرزا غلام  نے وہ سب راہ عمل اپنائے تاکہ وہ کسی طرح یہ کہنے میں کامیاب ہو جائے کہ یہ خدائی معاملہ ہے اور وہ اپنے دعوی میں سچا ہے. مرزا غلام  نے اس رشتہ کو جو اہمیت دی ہے اسے مرزا غلام  کے بیٹے مرزا بشیر  نے اس طرح بیان کیا ہے

”اللہ تعالی کی طرف سے وہ الہامات ہوئے جو محمدی بیگم والی پیشگوئی کا بنیادی پتھر ہیں“ (سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد اول روایت نمبر 179 صفحہ 179)

آئیں دیکھتے ہیں یہ بنیادی پتھر کس طرح ٹوٹتا ہے، اس کی بنیادیں کس طرح ہلتی ہیں اور مرزا غلام  کس طرح اپنی بات میں جھوٹا نظر آتا ہے. مرزا غلام  نے اپنے صدق و کذب کا معیار محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کو ٹھہرایا اور کھلے طور پر اعلان کیا کہ اگر یہ پیشگوئی پوری ہو جائے تو وہ اپنے دعوے نبوت میں سچا ثابت ہو گا اور اگر محمدی بیگم اس کے نکاح میں نہ آئے تو وہ جھوٹا ہے. اور اسکے گلے اور پاؤں میں رسی ڈال کر اسے ذلیل کا جائے. مرزا غلام  لکھتا ہے

”میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیشگوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آ جائے گی. اور اگر میں سچا ہوں تو خدا ئے تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسا ہی پوری کر دے گا “ (روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 31)

مرزا غلام  کے یہ الفاظ بھی سامنے رکھیں

”إن ہٰذا حق فسوف تریٰ. وإنی أجعلہذا النبأ معیارا لصدقی أو کذبی، وَمَا قُلتُ إلَّا بعد ما أُنْبِئتُ من رَبّی“ (روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 223)

ترجمہ: یہ خدائے بزرگ کی طرف سے (تقدیر مبرم) حق ہے عنقریب اسکا وقت آئے گا تم جلد ہی دیکھ لو گے اور میں اس کو اپنے سچ اور جھوٹ کا معیار بناتا ہوں اور میں نے جو کہا ہے یہ خدا سے خبر پا کر کہا ہے.

مرزا غلام  نے صاف لفظوں میں اس کا اعلان کیا کہ احمد بیگ کے داماد یعنی محمدی بیگم کا شوہر ڈھائی سال کے اندر مر جائے گا اور یہ تقدیر قطعی ہے. یعنی ایسا ہو کر رہے گا اس میں کوئی شک نہیں ہے اگر محمدی بیگم میرے نکاح میں آ گئی تو میں سچا اور اگر میری موت آ گئی اور محمدی بیگم میری بیوی نہ بنی میں جھوٹا ہوں گا. مرزا قادیانی نے جو تقدیر مبرم کی تشریح کی وہ بھی سامنے رکھئے

”نفس پیش گوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی کیونکہ اسکے لئے الہام الہی میں فقرہ موجود ہے لا تبديل لكلمات الله یعنی میری بات ہرگز نہیں ٹلیگی پاس اگر ٹل جاۓ تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے “ (مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 43)

مرزا غلام  نے احمد بیگ کو جو خط بھیجا اس کے آخر میں بھی یہ بات لکھی تھی

اگر میعاد گزر جائے اور سچائی ظاہر نہ ہو تو میرے گلے میں رسی اور پاؤں میں زنجیر ڈالنا اور مجھے ایسی سزا دینا کہ تمام دنیا میں کسی کو نہ دی گئی ہو (روحانی خزائن جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 574)

”اے قادر و علیم... احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے طور سے ظاہر فرما جو خلق اللہ پر حجت ہو اور کور باطن حاسدوں کا منہ بند ہو جائے اور اگر اے خداوند یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر. اگر میں تیری نظر میں مردود اور ملعون اور دجال ہوں جیسا کہ مخالفوں نے سمجھا ہے...“ (مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 116)

مرزا غلام  کی مذکورہ تحریر سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ

1)مرزا غلام  کا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ خدا نے آسمان پر پڑھا دیا اسلئے محمدی بیگم اب کسی کی منکوحہ نہیں بن سکتی.

2)اگر وہ منکوحہ بن گئی تو خدا تعالی اسکے شوہر کو ڈھائی سال کے اندر مار ڈالے گا اور محمدی بیگم بیوہ ہو کر آخر کار مرزا غلام  کے نکاح میں آ جائے گی.

3)یہ بات اتنی قطعی ہے کہ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں. یہ خدا کی باتیں ہیں تو ٹلا نہیں کرتیں اور اگر خدا کی بات ٹل جائے تو اسکا کلام باطل ہو جاتا ہے.

4)مرزا غلام  کا نکاح محمدی بیگم سے ہو جاتا ہے تو یہ اسکے مامور من اللہ ہونے کا نشان ہو گا اور وہ اپنے دعوی میں سچا سمجھا جائے گا ور اگر محترمہ مرزا غلام کی بیوی نہ بن سکی تو مرزا غلام  بقلم خود کذاب، ملعون، دجال، ذلیل کور باطن ہو گا. اور اسکا چہرہ سوروں اور بندروں کی طرح سمجھا جائے گا، اسکے پاؤں اور گلے میں رسی ڈال کر اسے نامرادی اور ذلت کے ساتھ کھینچا جائے گا.

مرزا مسرور اور تمام قادیانیوں سے ایک سادہ سا سوال ھے کہ

1)محمدی بیگم کا نکاح مرزا غلام  کے ساتھ کب ہوا تھا؟

2) کیا محمدی بیگم کے شوہر نکاح کے ڈھائی سال کے اندر فوت ہو گئے تھے؟

3)مرزا غلام  کے خدا نے سچ کہا تھا یا اسکا خدا بھی اس کی طرح جھوٹ پر جھوٹ بول رہا تھا؟

4)مرزا غلام  بقلم خود کذاب دجال ملعون ذلیل اور کور باطن ہوا یا نہیں؟

یہ یقینی بات ہے کہ مرزا مسرور کبھی بھی اس بات پر مباہلہ کیلئے تیار نہ ہو گا کہ مرزا غلام  کا نکاح محمدی بیگم سے ہوا تھا؟ اسلئے کہ یہ حقیقت ہے کہ مرزا غلام  محترمہ محمدی بیگم کی طلب میں دن رات تڑپتا رہا اور اسے پانے کیلئے طرح طرح کی تدبیریں کرتا رہا. مگر اللہ تعالی نے اس کی ہر تدبیر کو الٹ کر دیا اور وہ اپنے مقصد میں بری طرح ذلیل و رسوا ہوا اور ذلت ناک موت سے دو چار ہوا.

قادیانی پنڈت  کہتے ہیں کہ یہ صحیح کہ خدا نے محمدی بیگم کا نکاح آسمان پر پڑھایا تھا مگر جب محمدی بیگم اور اسکے شوہر نے توبہ کر لی تو اللہ نے یہ نکاح فسخ کر دیا اب وہ مرزا غلام  کی بیوی نہ رہی اسلئے یہ پیشگوئی کیسے پوری ہو سکتی تھی

الجواب

قادیانی پنڈت  محمدی بیگم والی پیشگوئی کو جس توبہ کے نام سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں سب سے پہلے اس کی حقیقت معلوم کریں. توبہ کی اس شرط کا ذکر سب سے پہلے مرزا غلام کرتا ہے

”اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اُسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ ایتھاالمرأۃ توبِیؔ توبِی فان البلاء علٰی عقبکِ 

پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا “ (روحانی خزائن)

مرزا غلام  نے اپنے اس بیان میں جس شرط کا ذکر کیا ہے وہ شرط اس سے پہلے کہیں نظر نہیں آتی. تقریباً اٹھارہ انیس سال تک محمدی بیگم کا قصہ چلتا رہا اور یہ شرط 1907ء میں اچانک سامنے لائی گئی.

اگر یہ شرط فرض محال موجود تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس شرط کے پورا ہو جانے کی اطلاع مرزا غلام  کو کیوں نہ دی؟ اور وہ بھی ایک دو دن نہیں سالہا سال تک خدا نے نہیں بتایا کہ انہوں نے توبہ کر لی ہے اس لیے اب یہ عورت تمھیں نہیں مل سکے گی. بلکہ اس کے بر عکس اسے یہ وحی آتی رہی کہ خدا نے اسکا نکاح باقی رکھا ہے وہ تمہارے پاس آ کر رہے گی. مرزا ملعون کا خدا مرزا  کے ساتھ اتنا سنگین مذاق کیوں کر رہا تھا؟.

مرزا غلام  ایک اشتہار میں لکھتا ہے

توبی توی فان البلاء علی عقبک میں صاف توبہ کی شرط تھی اور یہ الہام احمد بیگ اور اسکے داماد دونوں کیلئے تھا کیونکہ عقب لڑکی اور لڑکی کی اولاد کو کہتے ہیں اور یہ احمد بیگ کی بیوی کی والدہ (محمدی بیگم کی نانی) کو خطاب تھا کہ تیری لڑکی اور لڑکی کی لڑکی پر خاوند مرنے کی بلا ہے. اگر توبہ کرو گی تو تاخیر مدت کی جائے گی. (اشتہار ***المفترین صفحہ 11)

مرزا غلام  کی اس تحریر سے پتا چلتا ہے کہ یہ توبہ محمدی بیگم کی نانی نے کی تھی اسلئے یہ نکاح منسوخ ہو گیا. مرزا مسرور  بتائے کہ کسی کی نانی اگر کسی گناہ سے توبہ کرے تو کیا اسکی نواسی کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے؟ مرزا غلام  کی شریعت ہی نرالی ہے کہ یہاں نانی کی توبہ سے نواسی کا نکاح جاتا رہتا ہے. قادیانی نانیوں اور نواسیوں کو یہ مسئلہ یاد رکھنا چاہیے اور نواسی کا گھر برباد کرنا ہو تو اپنے کسی گناہ سے توبہ کر لینی چاہیے. جب خدا کا پڑھایا ہوا نکاح نانی کی توبہ سے ٹوٹ سکتا ہے تو ایک عام قادیانی مولوی کا پڑھایا ہوا نکاح کیسے ٹوٹ نہ سکے گا.

رہی یہ بات کہ محمدی بیگم کی نانی جو بقول مرزا ملعون اسکے نکاح میں بڑی رکاوٹ تھی اس نے توبہ کی یا نہیں؟ اس کا جواب یہ کہ نہیں. نہ اس نے کوئی توبہ کی نہ وہ مرزا غلام  پر ایمان لائی نہ اپنی نواسی کو مرزا غلام  کے نکاح میں دینے کیلئے راضی ہوئی.

رہا محمدی بیگم اور اسکے شوہر کا توبہ کرنا تو یہ بھی قادیانیوں کا جھوٹ ہے. نہ سلطان محمد نے مرزا غلام  کو تسلیم کیا نہ محمدی بیگم نے اسے مانا. یہ دونوں میاں بیوی مرزا غلام  کے دعوی کے منکر تھے. اور اسکے آسمانی نکاح کے جھوٹے ہونے کے کھلے گواہ تھے. جب قادیانیوں نے انکے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا کہ وہ مرزا ملعون کی پیشگوئی سے ڈر کر انکے حلقہ عقیدت میں داخل ہو چکے ہیں تو انہوں نے اعلان کیا کہ یہ جھوٹ ہے. موصوف نے 3 مارچ 1924 ء کو یہ تحریر لکھی

”مرزا غلام قادیانی نے جو میری موت کی پیشگوئی فرمائی تھی میں نے اس میں ان کی تصدیق کبھی نہیں کی. نہ میں اس پیشگوئی سے کبھی ڈرا. میں ہمیشہ سے اور اب بھی اپنے بزرگان اسلام کا پیروکار رہا ہوں.“

موصوف کی یہ تحریر اخبار اہلحدیث امرتسر کے 14 مارچ 1924ء کے شمارے میں شائع ہوئی. اخبار کے مدیر نے اس پر چیلنج بھی شائع کیا کہ اگر کوئی شخص اسے غلط ثابت کر دے اسے انعام بھی دیا جائے گا.

محترمہ محمدی بیگم کے شوہر سلطان محمد کا یہ خط بھی دیکھئے جو انہوں نے سید محمد شریف گھڑیالوی مرحوم کے نام لکھا تھا جسے اخبار اہل حدیث امرتسر نے اپنی 14 نومبر 1930ء کی اشاعت میں شائع کیا. اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سلطان محمد صاحب اسلام پر پوری طرح ثابت قدم رہے اور قادیانیوں کو برا سمجھتے رہے. انکا خط دیکھئے

”مکرم جناب شاہ صاحب...

السلام علیکم... میں تادم تحریر تندرست اور بفضل خدا زندہ ہوں میں خدا کے فضل سے ملازمت کے وقت بھی تندرست رہا ہوں میں اس وقت بعہدہ رسال داری پنشن پر ہوں. گورنمنٹ کی طرف سے مجھے پانچ مربہ اراضی عطا ہوئی ہے میری جدی زمین بھی قصبہ پٹی میں میرے حصہ میں قریباً ۱۰۰ بیگھ آئی ہے اور ضلع شیخوپورہ میں بھی میری اراضی قریباً تین مربعہ ہے میری پنشن گورنمنٹ کی طرف سے ۱۳۵ روپے ماہواری ہے...میں خدا کے فضل سے اہل سنت والجماعت ہوں، میں احمدی مذہب کو برا سمجھتا ہوں میں اس کا پیرو نہیں ہوں اس کا دین جھوٹا سمجھتا ہوں. والسلام

 تابعدار سلطان محمد بیگ پنشنر از پٹی ضلع لاہور “

آپ ہی سوچیں کہ اگر سلطان محمد مرزا غلام  کی پیشگوئی سے ڈر گیا ہوتا اور اس نے توبہ کر لی ہوتی تو اسکا نتیجہ محمدی بیگم کی طلاق کی صورت میں نکلتا. دنیا گواہ ہے کہ محمدی بیگم آخر تک سلطان محمد کی اہلیہ محترمہ رہی اور مرزا غلام  کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے.

کیا یہ لطیفہ نہیں کہ اللہ نے محمدی بیگم کا آسمان پر نکاح پڑھایا اور محمدی بیگم کا باپ اسے مرزا غلام  کے بجائے سلطان محمد کے حوالہ کر رہا ہے. فضل احمد اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہے. مرزا غلام  اپنی ایک بیوی کو فارغ کر رہا ہے اور نکاح نہ ہونے کے غصہ میں اپنے بیٹے کو وراثت سے محروم کرتا ہے. مگر محمدی بیگم کی نانی کی توبہ پر اللہ تعالی نے اس نکاح کو فسخ کر دیا. عجیب کہانی ہے. کیا قادیانیوں میں کوئی پڑھا لکھا آدمی نہیں جو اس گتھی کو سلجھا سکے؟

پھر مذکورہ عبارت کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں کہ ان لوگوں نے توبہ کی. شرط میں نانی کا ذکر تھا یہ ان لوگوں کا ذکر کہاں سے آ گیا؟ یعنی نانی سے کہا گیا تھا کہ توبہ کر. اور توبہ کس نے کی؟ ان لوگوں نے؟ عجب تماشہ ہے! پھر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اگر نکاح فسخ ہو گیا تھا تو پھر یا لفظ ”یا“ کی کیا ضرورت باقی رہ گئی تھی. اور اگر نکاح تاخیر میں پڑھا گیا تھا تو فسخ کیسے ہو گیا؟ اگر فسخ ہو گیا تو خدا نے یہ کیوں نہیں بتایا اب تمہیں تڑپنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہم خود ہی اسے فارغ کر چکے ہیں، خدا نے اس  کو آخر اتنا کیوں تنگ کیا؟ خدا تعالی تو سب جانتے تھے پہر یہ تماشہ کس لئے دکھایا؟ اب کیسے اس بات کی تائید کی جا سکتی ھے  کہ

”یہ پیشگوئی کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں“ (روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 338)

یہ جملہ اس صورت میں درست ہے جب پیشگوئی پوری ہو جاتی اور محمدی بیگم مرزا غلام  کے حبالہ عقد میں آ جاتی. لیکن وہ نہ آئی اور قادیانیوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ مرزا غلام  کی یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی. مرزا ملعون کا خدا تو چاہتا تھا کہ اس کا آخری سفر حسرت کا سفر نہ ہو (مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ 393) مگر افسوس کہ مرزا ملعون کا آخری سفر حسرت کا سفر ہوا اور وہ محمدی بیگم کو اپنی بیوی نہ بنا سکا اور یوں ہی قبر میں اتار دیا گیا. مگر مرزا بشیر احمد کی بے شرمی کی انتہا ہے کہ وہ اب بھی اس پیشگوئی کا پورا ہونا بتاتا ہے. اس نے لکھا ہے

پیشگوئی کا یہ حصہ بھی کمال صفائی سے پورا ہوا (سلسلہ احمدیہ صفحہ 47 مطبوعہ قادیانی 1939ء)

مرزا بشیر احمد اگر مرزا غلام  کے قریبی ساتھی اور لاہوری قادیانیوں کے سربراہ محمد علی لاہوری کا اعتراف دیکھ لیتے تو انہیں اتنا بڑا جھوٹ بولتے کچھ تو حیاء ضرور آ جاتی. محمد علی لکھتا ہے

”یہ سچ ہے کہ مرزا ملعون نے کہا تھا کہ نکاح ہو گا اور یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہوا، اسکے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ ایک ہی بات کو لیکر باقی سب باتوں کو چھوڑ دینا ٹھیک نہیں. کسی امر کا فیصلہ مجموعی طور پر ہونا چاہیے. جب تک سب کو نہ لیا جاوے ہم نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے. صرف ایک پیشگوئی کو لیکر بیٹھ جانا اور باقی پیشگوئیوں کو چھوڑ دینا کہ جن کی صداقت پر ہزاروں گواہیاں موجود ہیں یہ طریق انصاف و راہ صواب نہیں“ (لاہوری جماعت کا اخبار پیغام صلح 16 جنوری 1921ء)

مسٹر محمد علی نے تسلیم کیا ہے کہ مرزا غلام  کی یہ پیشگوئی غلط نکلتی رہی یہ بات کہ مرزا غلام  کی دوسری پیشگوئیاں پوری ہوئیں ہم انشاء اللہ آگے چل کر بتائیں گے کہ مرزا غلام  کی تحدی والی پیشگوئیاں کس قدر غلط ثابت ہوئیں ہیں اور کس طرح رسوائی ہوتی رہی ہے. جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کے پروفیسر محمد الیاس برنی صاحب مرحوم نے مسٹر علی کے مذکورہ بیان پر جو جاندار تبصرہ کیا ہے قادیانی پنڈت اسکے جواب سے آج تک عاجز ہیں. آپ بھی دیکھئے

”قادیانی جواب کا حاصل یہ ہے کہ بعض پیشگوئیاں پوری ہو جانے کی صورت میں بعض پیشگوئیاں پوری ہوں تو چنداں مضائقہ نہیں. مگر قابل لحاظ امر یہ ہے کہ سب پیشگوئیاں اپنی قوت، اہمیت اور صراحت میں یکساں نہیں ہوتیں. یہ شادی کی پیشگوئی بہر صورت پوری ہونی چاہیے تھی کہ اس کی تکمیل آسمان پر اور تشہیر زمین پر بخوبی ہو چکی تھی اور خود مرزا  نے اسکو اپنے صدق و کذب کا معیار قرار دیا تھا. مزید برآں اسکی دھن میں گھر برباد ہوا، پہلی بیوی کو طلاق ملی، جوان لڑکے عاق ہوئے. گھر میں، کنبے میں نفاق پڑا. علالات میں حالت مرگ پہنچی تو بھی پیشگوئی دج سے جدا نہ ہو سکی لیکن وائے قسمت پوری ہونی تھی نہ ہوئی؎(قادیانی مذہب صفحہ 475)


ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد تو آتا ہے

وہ ہر بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا“ ​


مرزا غلام  کی موت تک کوشش رہی کہ کسی طرح بھی محمدی بیگم کا شوہر مر جائے تاکہ وہ اسے اپنے نکاح میں لا سکے مگر اسکی یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی اور موت کے طاقتور ہاتھ نے 26مئی 1908ء کو مرزا غلام  کی شہ رگ کاٹ دی. اسکے اپنے سسر میر ناصر کے بقول وہ وبائی ہیضہ میں مر گیا (حیاتِ ناصر صفحہ 14) جبکہ محترمہ محمدی بیگم اور انکے شوہر نامدار خیرو عافیت اور صحت و سلامت کے ساتھ رہے. محمدی بیگم کا نکاح 17 اپریل 1892ء کو ہوا تھا. مرزا غلام  نے پیشگوئی کی تھی کہ محمدی بیگم کے شوہر نکاح والے دن سے ڈھائی سال کے اندر مر جائے گا. اس حساب سے سلطان محمد کی زندگی زیادہ سے زیادہ 16 اکتوبر 1894ء تک تھی. مگر سلطان محمد 1914ء کی جنگ میں بھی شریک ہوئے تھے. انہوں نے مرزا غلام  کی موت کے تقریباً 40 سال بعد وفات پائی. جبکہ محمدی بیگم نے 19 نومبر 1966ء میں وفات پائی.

اس تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ مرزا غلام  نے ایک کمسن بچی (محمدی بیگم) سے بیاہ رچانے کیلئے خدا پر افتراء کیا اور گھر میں بیٹھے بیٹھ پیشگوئیاں بناتا رہا. اور اسے پورا کرنے کیلئے طرح طرح کے مکر اور فریب کے جال بنتا رہا. یہاں تک کہ وہ اپنے جال میں پھنستا چلا گیا. اگر یہ پیشگوئیاں خدا کی طرف سے ہوتیں تو ضرور اسکا اثر ہوتا اور محمدی بیگم آخر کار اس کے نکاح میں آتی. اب جو لوگ گھر بیٹھے اس قسم کی پیشگوئیاں کرتے جائیں دوسرے کو انکے بارے میں کیا سمجھنا چاہیئے؟ اس باب میں مرزا غلام  کی ہی ایک تحریر پیش ھے تاکہ ہر قادیانی اپنی نبی کو اسکی اپنی تحریر میں بآسانی دیکھ سکے. مرزا غلام  کا فیصلہ دیکھئے

”ہم ایسے مرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کو کتوں سے بدتر اور نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیشگوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے اپنے مکر سے اپنے فریب سے ان کے پورے ہونے کے لئے کوشش کرے اور کراوے“ (روحانی خزائن جلد ۱۲- سِراج مُنِیر: صفحہ 27)

اب اس تحریر کی روشنی میں اگر کوئی شخص مرزا غلام  اور اسکے مریدوں کو ایسا ہی سمجھے تو اس پر قادیانیوں کو ناراض نہ ہونا چاہیے. واقعات خود اسکے اپنے تیار کردہ ہیں اور فیصلہ بھی اسکا اپنا ہے.

قادیانیوں کیلئے مقام غور ہے کہ وہ جس شخص مامور من اللہ سمجھتے ہیں اور اسکے کردار کو جانے بغیر اس پر ایمان لے آئے ہیں کیا اسے ایک شریف انسان بھی سمجھا جا سکتا ہے. آپ ہی سوچیں کہ جو شخص نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے اخلاقی طور پر اتنا گر چکا ہو اسے مامور من اللہ سمجھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟

مرزا قادیانی کا الہام یوں ہے 

“فسیَکْفیکہمُ اللّٰہ ویردّھا الیک. اَمْرٌ مِنْ لّدنا اِنّا کُنَّا فاعِلین. زوّجناکہَا.الحقّ مِن ربّک فلَا تکونَنّ مِن الممْترینَ. لَا تبدیلَ لکلمات اللّٰہ انّ ربّک فعّال لما یُریْد. اِنّا رادّوھا اِلَیک.

ترجمہ از مرزا ملعون 

سو خدا ان کیلئے تجھے کفایت کرے گا. اور اس عورت کو تیری طرف واپس لائے گا. یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی کرنیوالے ہیں بعد واپسی کے ہم نے نکاح کر دیا. تیرے رب کی طرف سے سچ ہے پس تو شک کرنے والوں سے مت ہو. خدا کے کلمے بدلا نہیں کرتے. تیرا رب جس بات کو چاہتا ہے وہ بالضرور اس کو کر دیتا ہے. کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ہم اس کو واپس لانے والے ہیں. “

محمدی بیگم سے شادی کے لئے مرزا ملعون کے تمام تر الھامات اور کوششوں کے باوجود وہ عورت مرزا ملعون کو نہ مل سکی اور مرزا ملعون اس عورت کی زندگی میں ھی ذلیل وخوار ھو کر جہنم واصل ھو گیا اس طرح مرزا ملعون اس پیشگوئی میں بھی کذاب و دجال ثابت ھو گیا 

اللہ پاک قادیانیوں کو توفیق عطا فرما دے کہ وہ مرزا ملعون کی ان شیطانی حرکتوں پر ھی غور کر لیں اور اس جہنم سے چھٹکارا حاصل کرکے جنت کا راستہ آختیار کر لیں

آمین یا رب العالمین

Share: