عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 95 )


*  قادیانیت اور ملعون مرزا قادیانی*




*حیات و نزول حضرت عیسٰی علیہ السلام اکابر ینِ اُمت کی نظر میں*



*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع*

جس عقیدے پر اللہ تعالی کا عہد ہو، جس عقیدے کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام قائل ہوں اور جس عقیدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متواتر احادیث میں ارشاد فرمایا ہو، ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا عقیدہ اس کے خلاف نہیں ہو سکتا ، یہاں چند حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا مذہب نقل کیا جاتا ہے۔



*حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنھما:*

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کا سانحہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے لئے جس قدر صبر آزما تھا، اس کا اندازہ ہم لوگ نہیں کر سکتے۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم میں بعض کھڑے کے کھڑے رہ گئے وہ بیٹھ نہیں سکے بعض جو بیٹھے تھے ان میں اٹھنے کی سکت نہیں تھی۔ بعض کی قوتِ گویائی ھی جواب دے گئی بعض از خود رفتہ ہو گئے 

ادھر منافقوں نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے سچے رسول ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کیوں ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر اسی ربودگی و بے قراری کی حالت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اعلان فرمایا۔

من قال ان محمدا مات فقتلتہ بسیفی ھذا وانما رفع الی السماء کما رفع عیسیٰ بن مریم علیہ السلام“ 

(الملل والنحل لابن حزم )

ترجمہ: جو شخص یہ کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں‘ اسے اپنی تلوار سے قتل کر دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اسی طرح آسمان پر اٹھائے گئے ہیں‘ جس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھا لیے گئے۔

اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وصالِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تشبیہ دی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کیساتھ اور تشبیہ اسی چیز کیساتھ دی جایا کرتی ہے جو مشہور و مسلم ہو چونکہ یہ واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے نزدیک بالاتفاق معروف و مسلم تھا۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے ان کو مشبہ‘ مشبہ بہ کے طور پر پیش کیا۔


*حضرت علی رضی اللہ عنہ*:

امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ:

”یقتلہ اللہ تعالیٰ بالشام علی عقبہ یقال لھا: عقبۃ افیق لثلاث ساعات یمضین من النھار علی یدی عیسی بن مریم“

ترجمہ: اللہ تعالیٰ عیسی بن مریم علیہ السلام کے ہاتھ سے دجال کو قتل کرے گا، ملک شام میں تین گھڑی دن چڑھے، ایک گھاٹی پر، جس کو افیق کی گھاٹی کہا جاتا ہے۔“ (کنز العمال)

امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”باب ما جاء فی قتل عیسی بن مریم الدجال“ میں حضرت مجمع بن جاریہؓ کی یہ حدیث نقل کی ہے:

”سَمِعْتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم یقول: یقتل ابن مریم الدجال بباب لد“

ترجمہ: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دجال کو باب لد پر قتل کریں گے۔ اس موضوع کی حدیث مزید پندرہ صحابہ سے بھی مروی ہے؛


*حضرات تابعین کا حیات و نزول عیسی علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ*

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد حضرات تابعین رحمہ اللہ علیھم کے دور  ھے ‘ جو حضرات صحابہ کرام اور بعد کی امت کے درمیان واسطہ ہیں اور جنہوں نے علوم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ارشادات امت تک منتقل کئے ہیں۔ حضرات تابعین رحمہ اللہ میں ایک شخص کا بھی نام نہیں ملتا جو حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کا منکر ہو۔ اس کے برعکس ان حضرات تابعین کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفعِ آسمانی، ان کی حیات اور قربِ قیامت میں ان کے دوبارہ تشریف لانے کا عقیدہ منقول ہے۔ یہاں چند اکابر تابعین کا حوالہ دینا کافی ہو گا۔


*حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہ علیہ:*

امام حسن بصری رحمہ اللہ  جن کی شہرہ آفاق شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ تفسیر “ در منثور “ میں ان کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:

”ان اللہ رفع الیہ عیسی وھو باعثہ قبل یوم القیامۃ مقاما یؤمن بہ البر والفاجر۔“

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف آسمان پر اٹھا لیا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ بھیجیں گے۔ تب ان پر تمام نیک و بد ایمان لائیں گے۔ (ابن کثیر ، در منثور )


*امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ* :

امام محمد بن سیرین بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

ینزل ابن مریم علیہ السلام علیہ لامتہ و محصرتان بین الأذان والاقامۃ فیقولون لہ: تقدم، فیقول بل یصلی بکم امامکم انتم امراء بعضکم علی بعض :

(مصنف عبد الرزاق )

ترجمہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام اذان و اقامت کے درمیان نازل ہوں گے، آلات جنگ اور دو زرد چادریں ان کے زیب تن ہونگی، لوگ کہیں گے کہ آگے ہو کر نماز پڑھائیے، آپ فرمائیں گے نہیں، بلکہ تمہارا امام ہی تمہیں نماز پڑھائے گا تم ایک دوسرے پر امیر ہو‘ نیز امام محمد (رحمة اللہ علیہ) کا یہ بھی ارشا د نقل ہے‘

أنہ المھدی الذی یصلی وراۂ عیسی (حوالہ بالا)

ترجمہ: ”سچے مہدی وہ ہونگے جن کی اقتداء میں عیسی علیہ السلام نماز پڑھیں گے۔“


*امام زین العابدین رحمہ اللہ ، امام باقر رحمہ اللہ ، اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ *:

امام جعفر صادق (رحمة اللہ علیہ) اپنے والد ماجد امام محمد باقر (رحمة اللہ علیہ) سے اور وہ اپنے والد ماجد امام علی بن حسین زین العابدین رضی اللہ عنہم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:

”کیف تھلک أمۃ أنا أولھا والمھدی وسطھا والمسیح آخرھا“

ترجمہ: وہ امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں تو میں ہوں، درمیان میں مہدی (رحمة اللہ علیہ) ہیں اور آخر میں حضرت مسیح علیہ السلام ہوں گے۔ (مشکوۃ )


*ائمہ اربعہ رحمھم اللہ *:

حضرات تابعین رحمہ اللہ کے بعد امت اسلامیہ کے سب سے بڑے مقتدا ائمہ اربعہ، امام ابو حنیفہ(رحمة اللہ علیہ) ، امام مالک(رحمة اللہ علیہ)، امام شافعی (رحمة اللہ علیہ)اور امام احمد بن حنبل  (رحمة اللہ علیہ) ہیں۔ چنانچہ بعد کی پوری امت ان کی جلالت قدر پر متفق ہے۔ یہ حضرات بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ان حضرات کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :-


*امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ* :

الامام الاعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی رحمہ اللہ “فقہ اکبر“ میں فرماتے ہیں:

وخروج الدجال ویأجوج ومأ جوج وطلوع الشمس من مغربھا ونزول عیسی علیہ السلام من السماء وسائر علامات یوم القیامۃ علی ما وردت بہ الأخبار الصحیحۃ حق کائن۔ واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم“

(شرح فقہ اکبر ملا علی قاری)

ترجمہ: دجال اور یا جوج و ماجوج کا نکلنا اور آفتاب کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا اور عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور دیگر علامات قیامت، جیسا کہ احادیث صحیحہ ان میں وارد ہوئی ہیں سب حق ہیں، ضرور ہونگی۔


*امام مالک رحمہ اللہ *:

امام دار الھجرۃ مالک بن انس الاصبحیؒ العتیبہ میں فرماتے ہیں:

قال مالک: بین الناس قیام یستمعون لاقامۃ الصلوۃ فتغشاھم غمامۃ فاذا عیسیٰ قد نزل:

(شرح مسلم للابی )

ترجمہ: دریں اثنا کہ لوگ کھڑے نماز کی اقامت سن رہے ہوں گے اتنے میں ان کو ایک بدلی ڈھانک لے گی، کیا دیکھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام نازل ہو چکے ہیں“


*امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ*:

امام احمد بن محمد بن حنبل الشیبانیؒ  اپنی کتاب ’مسند‘ چھ ضخیم جلدوں میں امت کے سامنے موجود ہے، جس میں بہت سی جگہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ درج ہے۔

حوالہ کے لئے مندرجہ ذیل صفحات کی مراجعت کی جائے۔ جلد اول:۵۷۳، 

جلد دوم:۲۲، ۹۳، ۸۶، ۳۸، ۲۲۱، ۶۲۱، ۴۴۱، ۴۵۱، ۶۶۱، ۰۴۱، ۲۷۲، ۰۹۲، ۸۹۲، ۹۹۲، ۶۳۳، ۴۹۳، ۶۰۴، ۱۱۴، ۷۳۴، ۲۸۴، ۴۹۴، ۳۱۵، ۸۳۵،

جلد سوم: ۵۴۳، ۸۶۳، ۴۸۳، ۰۲۴۔ 

جلد چہارم ۱۸۱، ۲۸۱، ۶۱۲، ۷۱۲، ۰۹۳، ۹۲۴۔ 

جلد پنجم:۳۱، ۶۱، ۸۷۲۔ 

جلد ششم۵۷۔ ا


*امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ* 


ان کے بارے میں جو مرزائیوں نے مشہور کیا ھوا ھےکہ وہ  حیات و نزول مسیح کے قائل نہیں تھے بالکل بے بنیاد پروپگنڈہ ھے، امام شافعی (رحمة اللہ علیہ)، امام مالک  (رحمة اللہ علیہ) اور امام محمدؒ کے شاگرد تھے اور امام محمد، امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے۔ اگر امام شافعی کو حیات مسیح علیہ السلام میں آئمہ ثلاثہ سے اختلاف ہوتا تو ضرور اس کا کھل کر اظہار کرتے۔ پس انہوں نے اس بارہ میں اپنی خاموشی سے ’’سکوتی اجماع‘‘ پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

نیز امام شافعی کے مذہب کے تمام مجددین مثلاً امام جلال الدین سیوطیؒ وغیرہ حیات و نزول عیسیٰ علیہ السلام کی تصریح کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ان کی کتابوں میں  مفصل مذکور ھے

Share: