عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 94 )


*  قادیانیت اور ملعون مرزا قادیانی*




*حیات و نزول حضرت عیسٰی علیہ السلام قرآن و حدیث کی روشنی میں *



قرآن کریم میں بہت واضح انداز سے کئی مقامات پر سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اُٹھائے جانے کو بیان کیا گیا  ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:-


فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَی اللهِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ ج اٰمَنَّا بِاللهِ ج وَاشْھَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo 


رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَo 


وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللهُ ط وَاللهُ خَيْرُ الْمٰکِرِيْنَo

(آل عمران)


’’پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا: اللہ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقینا مسلمان ہیںo 


اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اور ہم نے اس رسول کی اتباع کی سو ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لےo 


پھر (یہودی) کافروں نے (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے) خفیہ سازش کی اور اللہ نے (عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کے لیے) مخفی تدبیر فرمائی، اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہےo‘‘


اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:

’’پس یہود کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مکر یہ تھا کہ انہوں نے ان کو دھوکے سے قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مکر کی جو تدبیر فرمائی اس کی کئی صورتیں ہیں: 

ایک صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہ اس طرح ہوا کہ یہود کے ایک بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا جبکہ حضرت جبریل علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایک لمحہ بھی جدا نہیں ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرمان - {اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی} - کا یہی مطلب ہے۔ پس جب یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے ان کو ایک مکان میں داخل ہونے کا کہا۔ اس مکان میں ایک روشن دان تھا، جب وہ اس مکان میں داخل ہوئے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس روشن دان سے نکال لیا اور آپ کی شبیہ ایک اور شخص پر ڈال دی۔ پس یہود نے اسے پکڑا اور اسے (عیسیٰ سمجھ کر) صلیب پر لٹکا دیا۔ پس اس پر وہاں پر موجود لوگوں کے تین گروہ بن گئے۔ 


ایک نے کہا کہ ہمارے درمیان (معاذ اللہ ) خدا تھا، 

دوسرے نے کہا: (معاذ اللہ ) وہ خدا کا بیٹا تھا، 

تیسرے نے کہا: وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے۔ 

پس پہلے دونوں گروہ باطلہ تیسرے مومن گروہ پر غالب آ گئے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو معبوث فرمایا۔ المختصر یہود کے ساتھ اللہ کے مکر کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہود کو حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ دھوکہ دہی سے باز رکھا۔‘‘


امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’جب یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مکان کو گھیر لیا اور گمان کر لیا کہ وہ آپ پر غالب آ گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان سے آپ کو نکال لیا اور اس مکان کی کھڑکی سے آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس شخص پر ڈال دی جو اس مکان میں آپ کے پاس تھا۔ سو جب وہ اندر گئے تو اس کو رات کے اندھیرے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام خیال کیا۔ پس اسے پکڑا اور سولی پر لٹکا دیا اور اس کے سر پر کانٹے رکھ دیئے۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہی تدبیر فرمائی کہ اپنے نبی کو بچا لیا اور اسے ان کے درمیان سے اٹھا لیا اور ان کو ان کی گمراہی میں حیران چھوڑ دیا۔‘‘


ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِذْ قَالَ اللهُ یٰـعِيْسٰٓی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ وَمُطَهِرُکَ مِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَةِ ج ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَيْنَکُمْ فِيْمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَo

(آل عمران،)


’’جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گاo‘‘


اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں:


’’اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: (اِنِّي مُتَوَفِّيْکَ) کا معنی یہ ہے کہ (اے عیسیٰ!) میں تیری عمر پوری کروں گا اور پھر تجھے وفات دوں گا۔ پس میں ان یہود کو تیرے قتل کے لیے نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں تجھے آسمان اور ملائکہ کے مسکن کی طرف اٹھا لوں گا اور تجھ کو ان کے قابو میں آنے سے بچا لوں گا اور یہ اس آیت کی نہایت احسن تفسیر ہے۔‘‘


ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللهِ ج وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰـکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ط وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَکٍّ مِّنْهُ ط مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ ج وَمَا قَتَلُوْهُ یَقِيْنًا مo 

بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ ط وَکَانَ اللهُ عَزِيْزًا حَکِيْمًاo

(النساء)


’’اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعویٰ) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اللہ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لیے (کسی کو عیسیٰ علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بے شک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقینا اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں) ، اور انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقینا قتل نہیں کیاo 

بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھا لیا، اور اللہ غالب حکمت والا ہےo‘‘


اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اعلان فرما دیا ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف زندہ اُٹھا لیا۔ اس آیت کے بعد کسی تاویل و تفسیر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔


صحیح احادیث مبارکہ میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اُٹھائے جانے اور قربِ قیامت میں دوبارہ تشریف لانے کو بار ہا بیان کیا گیا ہے۔ 

وعن الحسن البصری قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم للیھود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ۔ 

(در منثور (

ترجمہ : حسن بصری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے یہود کو فرمایا بے شک عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے اور بےشک وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹ کر آنے والے ہیں ۔ 


الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یاتی علیہ الفناء۔ (صحیح مسلم ، طبری)

ترجمہ : کیاتم نہیں جانتے یہ کہ ہمارا پروردگار زندہ ہے ، نہیں مرے گا اور بیشک عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آنے والی ہے یا آئے گی ۔ 


حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم نازل ہونگے تو مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا آگے تشریف لائے اور نماز پڑھائے تو وہ عرض کریں گے نہیں تم لوگ خود ایک دوسرے کے امیر ہو اور اللہ کی جانب سے یہ اس امت کا اکرام ہے۔(مسلم) 


حضرت نواس بن سمعان کہتے ہیں کہ (دجال کے واقع کو بیان کرتے ہوئے) اسی دوران اللہ تعالی مسیح ابن مریم کو بھیجیں گے وہ زرد رنگ کے دو کپڑوں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازوں کو تھامے ہوئے دمشق کے مشرقی حصہ میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے جب وہ سر جھکائیں گے تو موتی کی طرح قطرے ڈھلکتے دکھائی پڑیں گے مقام ِلد کے دروازے پر دجال کو پکڑکر قتل کریں گے۔(مسلم) 


حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ (دجال کا قصہ بیان کرتے ہوئے )فرماتے ہیں کہ اس وقت اچانک حضرت عیسیٰؑ مسلمانوں کے پاس پہنچیں گے نماز کھڑی ہو رہی ہو گی ان سے کہا جائے گا کہ اے روح اللہ آگے بڑھئے ۔وہ کہیں گے تمہارا امام ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھائے گا ۔نما زسے فارغ ہو کر لوگ دجال کے مقابلے کے لئے نکلیں گے دجال حضرت عیسیٰؑ کو دیکھ کر ایسا گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔پھر حضرت عیسیٰؑ آگے بڑھ کر اس کو قتل کردیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ شجر وحجر آواز لگائیں گے کہ اے روح اللہ میرے پیچھے یہودی چھپاہے ،چنانچہ وہ دجال کے چیلوں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے۔(مسند احمد) 


حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ وقت ضرور آئے گا جب تم میں اے امت محمدیہ ابن مریم حاکم عادل کی حیثیت سے نازل ہوکر صلیب کو توڑیں گے یعنی صلیب پرستی ختم کریں گے خنزیر کو قتل کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے اورمال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور لوگ ایسے دین دار ہو جائیں گے کہ ان کے نزدیک ایک سجدہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہو گا 



جاری ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Share: