* قادیانیت اور ملعون مرزا قادیانی*
*مرزا قادیانی کی عبرت ناک موت*
گذشتہ سے پیوستہ
*کیا مرزے کی موت بستر پر پوٹیاں کرتے نہیں ہوئی*؟
سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین رہے کہ مرزا ملعون کو بوقت مرگ اسہال تھا اس بات کو قادیانی حضرات بخوشی تسلیم کرتے ہیں
ذرا کتاب “ تاریخ احمدیت” دیکھیے جس میں دوست محمد شاہد نے لکھا ھے
اتنے میں صبح ہو گئی اور حضرت مسیح (ملعون مرزا) کی چارپائی کو باہر صحن سے اٹھا کر اندر لے آئے ۔جب ذرا روشنی ہوگئی تو حضور (ملعون مرزا) نے پوچھا کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے ؟عرض کیا گیا کہ حضور(ملعون مرزا) ہو گیا ہے ۔اس پر حضور (ملعون مرزا) نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی
اب اس عبارت کو غور سے قادیانی حضرات پڑھیں کہ مرزا کی حالت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ وضو بھی نہ کر سکتا تھا بلکہ لیٹے لیٹے تیمم کیا تو اس سےثابت ہوا کہ مرزا ملعون اٹھنے سے قاصر تھا اور بستر پر ہی لیٹا رھا ۔آگےوہ مزید لکھتا ھے
غالبا آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر نے پوچھا کہ حضور (ملعون مرزا) کو خاص طور پر کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر حضور (ملعون مرزا) زبان سے جواب نہیں دے سکے اس لیے کاغذ قلم و دوات منگوائی گئی اور حضور (ملعون مرزا) نے بائیں ہاتھ پر سہارا لیکر بستر سے کچھ اٹھ کر لکھنا چاہامگر چند الفاظ بمشکل لکھ سکا اور پھر بوجہ ضعف کے کاغذ کے اوپر قلم گھسٹا ہوا چلا گیا اور حضور (ملعون مرزا) پھر لیٹ گیا
(تاریخ احمدیت ج ۲ص ١۵۴)
اب غور سے پڑھیں یہ حوالہ کہ مرزا ملعون بستر سے اٹھ نہیں سکتا تھا اس کے آگے کیا ہوا سلسلہ احمدیہ کا مصنف لکھتا ہے
ضعف لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جا رھا تھا
(سلسلہ احمدیہ ص ۷۷١)
اب ساتھ ساتھ یہ بھی پڑھ کر مکمل تسلی کر لیں کہ ضعف کیوں ہو رہا تھا اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مرزا بشیر لکھتا ہے
کمزوری لحظہ بہ لحظہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ایک اور دست آیا جس کی وجہ سے کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ نبض محسوس ہونے سے رک گئی
(سلسلہ احمدیہ ص ۷۷١)
اور یہ بھی یاد رہے اس دست سے پہلے ہی مرزا ملعون بستر پر گر چکا تھا چنانچہ سیرت المہدی کا مصنف لکھتا ہے
جب آپ (ملعون مرزا) قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپایی پر گر گئے اور آپ (ملعون مرزا) کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی
(سیرت المہدی ج١ ص ١١)
یہ بھی یاد رہے یہ حالت حکیم نور الدین وغیرہ کو بلانے سے پہلے کی ہے ۔
اب توجہ کریں کہ مرزا ملعون کی حالت دگرگوں ہوگئی اور وہ بستر پر گر گیا اس کے بعد زبان تک بند ہوگئی اور حتی کے آٹھ بجے کے قریب مرزا ملعون کے ہاتھ بھی حرکت نہیں کر سکتے تھےٹانگوں نے کیا حرکت کرنی تھی اور اگلی بات اس کے بعد بھی ضعف بڑھا یعنی دست آئے جیسا کہ اوپر سلسلہ احمدیہ کا حوالہ ہو چکا اور مرزا ملعون ساڑھے دس بجے جہنم واصل ہوا اب اگر پہلے دست سے بات شروع کی جائے تو مرزا ملعون کی حالت ١١ بجے خراب ہونا شروع ہوئی اگر اندازہ بھی لگایا جائے تو کم ازکم ۲ بجے یہ سب آئے اور مرزا ملعون اس سے پہلے ہی بستر پر گر چکا تھا اور ان کے آنے کے بعد بھی مرزا ملعون نے دست کیا اور یہ دست بستر پر ہی تھا اس کے بعد تقریبا ساڑھے دس بجے کا وقت ھوا تو مرزا ملعون نے کم ازکم سات آٹھ گھنٹے بستر پر دست کے ساتھ گزارے اور نماز کے بعد تو اس کی حالت بالکل ہی خراب تھی اور اس کے بعد بھی ضعف بڑھا اور اس کی وجہ بیان ہوگی کہ دست تھے تو نماز کے بعد تقریبا ساڑھے پانچ گھنٹے مرزا ملعون نے بستر پر ہی دست کیے اور اس حالت میں ھی مرا ۔۔۔لہذا ان حقائق سے قادیانی حضرات انکار تو نہیں کر سکتے مگر تاویلات ضرور کریں گے ہم تمام حضرات سے کہتے ہیں اگر اس کو غیر جانبدار ہو کر پڑھا جائے تو ہر بندہ یقین کر لے گاکہ مرزا ملعون بستر پر دست کرتے ہوئے مرا اور مزے کی بات خود مرزا ملعون نے کہا کہ
اگر خدا کا فضل و رحمت مجھ پر نہ ہوتی تو میرا سر اسی پاخانے میں گر گیا ھوتا
( تذکرہ ص ۹١۵الہام نمبر ۸۹۹١ﺍ۷ﺍ٦)
اس لئے تو یہ کہنا بالکل درست ھو گا کہ
مرزا گر ہوتا گر اللہ کا نبی
تو ٹٹی میں وہ نہ مرتا کبھی
*کیا مرزا ملعون کی موت ہیضہ سے نہیں ہوئی ؟*
(ہادی علی کی تاویلات کا جائزہ)
مرزا ملعون کا سسرلکھتا ہے کہ مرزا ملعون نے کہا کہ
''میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے''
"اس کے بعد آپ (ملعون مرزا) نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں کی یہاں تک کہ دوسرے روز 10دس بجے کے بعد آپ (ملعون مرزا) کا انتقال ہو گیا. “
(حیات ناصر صفحہ 14)
تاویل نمبر1:
اس حوالے کا جواب دیتے ہوئے ہادی علی لکھتا ہے
کہ یہ فقرہ سوالیہ ہے مرزا ملعون سوال پوچھ رہا تھا
الجواب:
مرزا ملعون کو تو انگریزی نہیں آتی تھی ان کی ذریت اردو جاننے سے بھی محروم ہے اور ایک سادہ سے فقرے کا مطلب بھی نہیں جانتی ۔ان جاہلوں کو اتنا نہیں پتہ کہ سوالیہ تب ہوتا جب اس میں لفظ کیا کا استعمال ہوتا ۔بعض مرزئی کہہ دیتے ہیں کہ جی بعض دفعہ جملہ خبریہ بھی سوال کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو عرض ہے کہ یہ فقرہ سوالیہ تب ہوتا جب میر صاحب حکیم ہوتے پھر البدر میں مرزا ملعون کا قول نقل ہے کہ مجھے اسہال ہوگیا ہے۔مجھے کوئی دوا تجویز کریں اب کیا یہ جملہ سوالیہ ہے؟پوری امت مرزیت اس کو خبریہ سمجھتی ہے تو جب یہ خبریہ ہے تو ہیضہ والا جملہ بھی خبریہ ہے۔یہی بات تاریخ احمدیہ ج 2 ص 541 پر بھی موجود ہے۔پھر یہ کہنا کہ دوا تجویز کرو بھی ہمارے حق میں موید ہے اور جہاں تک یہ بات کہ مرزا کو کیسے پتہ چلا کہ یہ ھیضہ ھے تو مرزا لکھتا ہے
میں نے فن طبابت کی چند کتابیں اپنے والد سے جو ایک نہایت حازق طبیب تھے ،پڑھیں
کتاب البریہ ،حاشیہ ص 150
اور ہاں یہ بھی یاد رہے کہ مرزا قادیانی خدا کے بلائے ہی بولتا ہے ملفوظات ج 5 ص 288
اس کے علاوہ سیرت المہدی کی روایت بھی بتاتی ہے کہ مرزا اسہال سے نہیں ہیضے سے مرا تھا کیونکہ اس میں ایک سب سے بڑی علامت سڈن ڈیتھ تھی۔
تاویل نمبر2:
تاریخ شاہد ھے کہ اپریل مئی 1908میں یہ وبا تھی ہی نہیں
الجواب:
پتہ نہیں جناب کس ریکارڈ کی بات کر رہے ہیں جب کہ ان کے گھر کے ریکارڈ میں یہ بات موجود ہے کہ اس وقت ہیضہ کی وبا تھی ۔اس کے واسطے مندرجہ ذیل حوالے ملاحظہ ہوں
9 مئی 1908 لاہور، طاعون اور ہیضہ وغیرہ وباوں کا ذکر تھا
الحکم جلد 12 نمبر 35 صفحہ 2 کالم نمبر 1
آئے روز طاعون ،ہیضہ زلزلہ وبائیں قحط اور ہر طرح کے امراض انسانوں پر حملہ کر رہے ہیں، 18 مئی 1908 لاہور
الحکم جلد 12 نمبر 34 صفحہ 2 کالم نمبر 1،2
تاویل نمبر 3:
آپ (ملعون مرزا) کی موت پہ آپ (ملعون مرزا) کے معالج نے لکھا کہ آپ (ملعون مرزا) کو اسہال تھا
الجواب:
اب دیکھیں معالج کون تھے ملاحظہ ہو
وصال سے دوگھنٹے قبل حضور (ملعون مرزا) بات نہ کر سکتے تھے ،ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ معالج تھے (الفضل -11-37)
اسی طرح تاریخ احمدیت میں ہے
ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کو بلوا لیا گیا
(تاریخ احمدیت ج 2 ص 541)
معلوم ہوا یہ مرزا ملعون کے مرید و معتقد تھے جو کسی بھی حالت میں ہیضہ لکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے ۔پھر جہاں تک اسہال کی بات ہے تو عرض ہے کہ اسہال تو ساری عمر آئے اس کے باوجود مرزا ملعون کام کرتا رہا اور پھر اسہال تو پیشاب کی طرح آتے تھے اور یہ کس قسم کے اسہال تھے کہ اچھی صحت سے شروع ہوئے ساتھ قے بھی آئی اور مرزا ملعون کاکام آنا فانا تمام ہوگیا ہیضہ کو جب اسہال کا نام دیا گیا ہو اور ڈاکٹروں کی تصدیق بھی ہوتو بھلا ایسا شخص جو ذی اثر و ذی اطاعت ہو مذہبی رہنما ہو حکومت کا موید ہو حکومت سے روابط رکھے اور اسکی موت پر خصوصی طور پر حکومت مدد کر کے احسان کرے ،اس شخص کا جنازہ کسی قریب کے مقام تک لے جانے کی اجازت حاصل کر لے اور کوئی روک ٹوک نہ ہوتو کونسی بڑی بات ہے۔اس سلسلہ میں چشم دید گواہ قادیانیوں کے خلیفہ اول کی گواہی پیش خدمت ہے وہ کہتا ہے
بہرحال حضرت (ملعون مرزا) کی وفات پر ہمیں جن مشکلات کا خیال ہو سکتا تھاکہ ہمارے سامنے ہوں گے اور اس کے علاوہ لاہور کی عوام کا وہ شور و غل تھا جس کا ہمیں وہم و گمان نہ تھا قریب تھا کہ وہ لوگ ہمیں گاڑی تک بھی پہنچنے نہ دیتے کہ معاً اللہ تعالی نے ابر رحمت کی طرح پولیس ہمارے لیے بھیج دی اور گورنمنٹ کا دل سے شکریہ کرتے ہوئے ہم آرام سے پلیٹ فارم پر سوار ہوگئے۔اگر مرزا اپنے امن اور سامان اشاعت اور ہر طرح کے سُکھ کے باعث اس گورنمنٹ کا شکر گزار تھا قوم کو اطاعت کی تاکید کرتے گیا اس کی موت نے ازسر نو اس قوم کو امن پسند گورنمنٹ کا شکر گزار بنادیا
خطبات نور ص 262
لہذا اب یہ کہنا کہ ریلوے میں لے جاتے وقت سر ٹیفیکٹ وغیرہ دکھانا پڑا فقط دجل و فراڈ اور پردہ پوشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اور بہتر ھو گا یہاں پر میڈیکل سائنس کی رٹ لگانے والوں کی بھی تسلی کرادی جائے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ مرزا ملعون کی موت اچانک چند گھنٹوں کے اندر ہوئی تھی اور میڈیکل سائنس کے مطابق شدید ہیضے میں موت چند گھنٹوں کے اندر واقع ہوجاتی ہے (گرین بک چیپٹر فورٹین)