دس رمضان المبارک - اُم المؤمنین حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا کا یومِ وفات

نام و نسب

آپ کا نام خدیجہ تھا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے خدیجہ بنت خویلدبن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی بن کلاب، آپ رضی اللہ عنہا کا نسب چوتھی پشت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جاتاہے ۔آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو اسدسے تھا،بنو اسد  اپنی شرافت ،ایمانداری اورکاروباری معاملات کی وجہ سے لوگوں کی نگاہ میں قابل عزت و احترام تھا۔


پاکیزہ بچپن

حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے نہایت نیک تھیں اور مزاجاً شریف الطبع خاتون تھیں، مکارمِ اَخلاق کا پیکرِ جمیل تھیں۔ رحم دلی،غریب پروری اور سخاوت آپ کی امتیازی خصوصیات تھیں۔یہاں تک کہ زمانۂ جاہلیت میں آپ ”طاہرہ“یعنی پاک دامن کے لقب سے مشہور تھیں۔مالدار گھرانے میں پرورش پانے کی وجہ سے دولت و ثروت بھی خوب تھا علاوہ ازیں حسن صورت اور حسن سیرت میں بھی اپنی ہم عصر خواتین میں ممتاز تھیں ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ زمانہ جاہلیت میں آپ کا کردار میلا تو کجا دھندلا بھی نہیں ہوا ، ایسا پاکیزہ کہ آپ کا لقب طاہرہ پڑ گیا ۔ آج ہمیں اپنی زندگیوں میں غور کرنے کی ضرورت ہےباوجودیکہ ہم زمانہ جاہلیت میں نہیں رہتے پھر بھی ہمارے کردار میں اپنی اس عظیم ماں کی جھلک کیوں نہیں آتی ؟

ازدواجی زندگی 

پہلی شادی ابو ہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی، ابو ہالہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی، کچھ عرصہ بعد وہ بھی چل بسے تو دنیاوی معاملات سے دل برداشتہ ہو کرزیادہ وقت حرم کعبہ میں گزارتیں۔ جس کے باعث آپ کےمزاج مبارک میں تقدس و شرافت مزید بڑھ گئی ۔قریش کےنامور صاحب ثروت سرداروں نے آپ رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح بھجوایا لیکن سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سب کو یکسر انکار کر دیا۔اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو اسے دوسرا نکاح کر لینا چاہیے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مصائب و مشکلات آئیں تو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ رجوع الی اللہ کرنے سے طبیعت میں حیا اور عفت اور شرافت پیدا ہوتی ہے ۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے والی تھیں اس لیے تکوینی طور پر اللہ ان کے دل میں کسی صاحب ثروت سے نکاح کی خواہش نکال دی ۔ اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہونی چاہیے کہ آپ کا دوسرے شوہر کے فوت ہونے کے بعد نکاح کا انکار کرنا قطعاً نکاح بیوگان کے خلاف نہیں ۔

تجارت میں دلچسپی 

آپ کے والد محترم خویلد بن اسد اعلی درجے کے تاجر تھے، جب بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچے تو انہوں نے اپنا سارا کاروبار اپنی بیٹی حضرت خدیجہ کے سپرد کردیا۔ تیس سال کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا تجارت سے وابستہ ہوئیں۔جس کی وجہ آپ رضی اللہ عنہا حجاز مقدس میں سب سے زیادہ مالدار خاتون شمار ہوتی تھیں آپ کی تجارت کا سامان عرب سے باہر ملک شام اور یمن میں سال میں دو مرتبہ جاتا تھا۔بعض محدثین نے لکھا ہے کہ اکیلا حضرت خدیجہ کا سامان تجارت مکہ کے سارے تجارتی قافلوں کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔

خاتون ہونے کی وجہ سے تجارتی معاملات میں سفر کرنا دشوار بلکہ ناممکن تھا اس لیے کسی کو بطور نیابت سامان تجارت دے کر روانہ کرتیں۔ آپ کے تجارتی نمائندوں کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے ،اُن کی اُجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو اُنہیں دی جاتی، نفع و نقصان سے اُنہیں کوئی سروکار نہ ہوتا ۔یا نفع میں اُن کا کوئی حصّہ،نصف،تہائی یا چوتھائی وغیرہ مقرر کر دیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے جبکہ نقصان کی صورت میں ساری ذمہ داری حضرت سیّدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا پر ہوتی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے طرز عمل سے خواتین کو سبق ملتا ہے کہ عورت کاروبار کرنا بھی چاہے تو اسے اپنی چادر چاردیواری کی حدود نہیں پھلانگنی چاہییں بلکہ گھر میں رہتے ہوئے کاروبار میں شراکت کرنا ہی اس کے لیے مفید ہے ۔


حضرت خدیجہ الکبری کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجارت کی پیشکش 

کچھ عرصہ تک معاملات یونہی چلتے رہے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہا کے کانوں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت کا چرچا پہنچا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سامان تجارت لے کرملک شام جانے کی درخواست کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ اس دوران آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام میسرہ کو خصوصی ہدایت کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرے ۔آپ رضی اللہ عنہا کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی تربیت ضرورکرنی چاہیے جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام میسرہ کو آداب سفر سکھلائے اور معاملات میں دخل اندازی سے منع کیا ۔

تجارت میں نفع اور میسرہ کا مشاہدہ 

اس تجارتی سفر میں اللہ تعالیٰ نےبے حد برکت دی اورنفع پہلے سے بھی دوگنا ہوا، چونکہ میسرہ دوران سفر قریب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن اخلاق، معصومانہ سیرت کا تجربہ اور معاملہ فہمی کا مشاہدہ کر چکا تھا اس لیے اس نے برملا اس کا اظہار کرتے ہوئےام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کوبتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت معاملہ فہم، تجربہ کار، خوش اخلاق، دیانت دار، ایماندار، شریف النفس اورمدبرشخص ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس پہنچ کر تجارتی معاملات کا عمدہ حساب پیش کیا، جس سے ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت متاثر ہوئیں۔


حضرت خدیجہ الکبری کا نکاح 

ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یعلیٰ بن اُمیہ کی بہن نفیسہ بنت امیہ پیغام نکاح لے کر گئیں ۔نفیسہ کا بیان ہے کہ میں آپ کے پاس آئی اور کہا کہ آپ نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نادار اور خالی ہاتھ ہوں،کس طرح نکاح کرسکتاہوں؟ میں نے کہا کہ اگر کوئی ایسی عورت آپ سے نکاح کرنے کی خواہش مند ہو جو ظاہری حسن و جمال اور طبعی شرافت کے علاوہ دولت مند بھی ہو اور آپ کی ضروریات کی کفالت کرنے پر بھی خوش دلی سے آمادہ ہوتو آپ اس سے نکاح کرلینا پسند کریں گے؟ آپ نے دریافت کیا کہ ایسی کون خدا کی بندی ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا خدیجہ بنت خویلد۔ معلوم ھوا کہ  اپنے شریکِ حیات کا انتخاب کرتے وقت اس کی خاندانی شرافت ، نیک نامی اور حسن اخلاق ملحوظ رکھنے چاہییں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنا شریک حیات منتخب کرتے وقت انہی چیزوں کو ملحوظ رکھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ بیوہ جب اپنے لیے کوئی مناسب رشتہ دیکھ لے تو اس کے لیے پیغام نکاح میں پہل کرنا بھی معیوب نہیں ۔


مقامِ نکاح 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے ذکر کیا، انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفیسہ کو جواب دے دیا کہ اگر وہ اس کے لیے آمادہ ہیں تو میں بھی راضی ہوں۔ نفیسہ نے آکر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اس کی اطلاع دی، پھرباہمی مشاورت سے طے ہوگیا کہ آپ اپنے خاندان کے بزرگوں کو لے کر فلاں دن میرے یہاں آجائیں،چنانچہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب اور خاندان کے دیگر اہم شخصیات آپ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئے۔ اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد زندہ نہ تھے وہ پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔اس لیےآپ کے چچا عمرو بن اَسد اور خاندان کے دیگر بزرگ شریک تھے ۔معلوم ھوا کہ  مجلس نکاح تکلفات سے خالی ہونی چاہییں ، دوسرایہ معلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کے والدین فوت ہو جائیں تو وہ اپنے معاملات میں گھر کے بڑوں پر اعتماد کرے ۔


خطبۂِ نکاح

خطبہ نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا نے پڑھایا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ اوصاف، جلالت شان اور عزت و مقام کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا :

ان ابن اخی محمد بن عبداللہ لا یوزن بہ رجل الا رجح بہ شرفانبلا و فضلاً وعقلاً وان کان فی المال قل۔ فان المال ظل زائل و امر حائل۔

دلائل النبوۃ للبیہقی

،  میرے بھتیجے محمد کی یہ شان ہے کہ کوئی بھی شخص شرافت ،دانائی، فضیلت اور عقلمندی میں ان سے بڑھ کر نہیں۔ باقی رہا مال و دولت تو یہ سایے کی طرح ڈھلنے اور بدل جانے والی چیز ہے۔


حقِ مہر

ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اَسد کے مشورہ سے500 درہم مہر مقرر ہوا۔ بوقت نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 سال جبکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمرچالیس برس تھی۔آپ کا یہ پہلا نکاح تھا جو اعلان نبوت سےتقریبًا 15 سال پہلے ہوا۔ شادی بیاہ کے موقع پر اگر ایک طرف مالداری ہو اور دوسری طرف غربت و ناداری ۔ تو اس موقع پر یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دنیاوی مال و دولت ڈھلتی چھاؤں کی مانند ہوتی ہیں ۔ اصل تو باہمی پیار ومحبت اور اعتماد ہوتا ہے۔

 پاکپازی کی مثال 

آپ تصور کریں عرب کے اس فحش معاشرے میں جہاں صدیوں سے شراب و کباب اور عورت کی آبرو سرِعام بکتی ہو، ایسے میں 25 سال تک جوانی کی اُمنگوں اور جذبات کے ولولوں کو ضبطِ نفس کی پاکیزگی میں ڈھانپ کر کسی نوجوان دوشیزہ سے نہیں بلکہ 40 سالہ بیوہ عورت سے شادی کر کے پاکبازی کی ایسی مثال قائم کی جس کی مثال نہ پہلے ملتی ہے نہ بعد میں ،دونوں کا کردار اتنا اجلا اور شفاف کہ دشمن تک کو اخلاقی پہلو پر منفی بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ معلوم ھوا کہ برے معاشرے میں بھی انسان اپنی عزت و کردار کی حفاظت کر سکتا ہے ۔

سیدہ خدیجہ کی وجۂ  انتخاب

ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو ان الفاظ میں موجود ہے :

رَغِبْتُ فِيكَ لِقَرابَتِكَ مِنِّي وَشَرَفِكَ فِي قَوْمِكَ وَوَسِيطَتِكَ فِيهِمْ وَأَمَانَتِكَ عِنْدَهُمْ وَحُسْنِ خُلُقِكَ وَصِدْقِ حَدِيثِكَ۔

دلائل النبوۃ للبیہقی

 ، میں نے آپ کو قرابت داری، خاندانی شرافت، اعتدال پسندی، امانت داری، حسن اخلاق اور اورزبان کی سچائی کی وجہ سے اپنے لیے منتخب کیا ۔

 پسند کی شادی میں پسند کی وجوہات یہی ہوتی ہیں ۔ نہ کہ محض ہوس کی پیاس ۔


فضائل ومناقب

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خود بیان کرتی ہیں کہ جبرائیل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ خدیجہ آرہی ہیں ان کے ساتھ ایک برتن ہے اس میں سالن اور کھانا ہے، جب وہ آپ کے پاس آجائیں تو ان کو ان کے پروردگار کی طرف سے سلام پہنچایئے اور میری طرف سے بھی، اور ان کو خوشخبری سنایئے جنت میں موتیوں سے بنے ہوئے ایک گھر کی، جس میں نہ شور و شغب ہوگا اور نہ کوئی زحمت و مشقت ہوگی۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

ان ذالک کان وھو بحرا۔

یعنی جبرائیل کی یہ آمد اس وقت ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارحرا میں تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ غارحرا میں حضرت جبرائیل کی پہلی آمد کے بعد کا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ مکہ کی سب سے زیادہ دولت مند اور بوڑھی خاتون ہونے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانے پینے کا سامان گھر پر تیار کر کے مکہ سے اڑھائی تین میل پیدل سفر کرنا بلکہ غار حراکی بلندی تک چڑھنا کس قدر دشوار معلوم ہوتا ہے؟چونکہ یہ عمل خلوص دل سے تھا اس لیے پروردگار عالم اور جبرئیل امین کےسلام پہنچتے ہیں ۔

دنیا کی بہترین خاتون

سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر خدیجہ بنت خویلد ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطھرات میں سے کسی پر ایسا رشک نہیں آیا جیسا کہ خدیجہ پر آیا حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بہت یاد کرتے اور بکثرت ان کا ذکر فرماتے، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آپ بکری ذبح فرماتے، پھر اس میں سے حصے بنا کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے میل جول اور محبت رکھنے والیوں کے ہاں بھیجتے۔ بسا اوقات میں کہہ دیتی: دنیا میں بس خدیجہ ہی ایک عورت تھیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ خدیجہ تو خدیجہ تھی اور ان سے میری اولاد ہوئی۔ اس سے یہ سبق ملتا ھے کہ جب شریک حیات دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کے تعلق والوں سے یوں تعلق بنانا اور نبھانا چاہیے۔

شدید حالات میں تسلی 

نکاح کے تقریباً 15برس بعد اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرف ختم نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ پر شدید حالات آئے تو اس کڑے وقت آپ کو جس طرح کی دانش مندانہ و ہمدردانہ تسلی کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و توفیق سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے ملی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت سے پہلے تنہائی میں عبادت کرنے کے لئے غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانے پینے کا سامان تیار کر کے دے دیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرا میں کئی کئی راتیں ٹھہرتے، اللہ کی یاد میں مصروف رہتے، کچھ دنوں بعد تشریف لاتے اور سامان لے کر واپس چلے جاتے۔

ایک دن حسب معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں مشغول عبادت تھے کہ جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمایا کہ 

اِقْرَأْ

یعنی پڑھئے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَا اَنَا بِقَارِیْ

میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل امین نے آپ کو پکڑ کر اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے بھینچ کر چھوڑ ا اور عرض کی

اِقْرَأْ

(پڑھیے) آپ نے پھر وہی جواب دیا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرائیل امین نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے دبا کر چھوڑا اور پھر پڑھنے کو کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہو ا نہیں ہوں فرشتے نے پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر اپنے سے چمٹایا اور خوب زور سے دبا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور خود پڑھنے لگے:

اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o

جو سن کر آپ نے یاد فرما لیں اور ڈرتے ہوئے گھر تشریف لائے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

زملونی زملونی

مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا اوڑھا دیا اور کچھ دیر بعد وہ خوف کی کیفیت ختم ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو واقعہ سنایا،فرمایا:

لَقَدْ خَشِيْتُ عَلىٰ نَفْسِيْ

(مجھے اپنی جان کا خوف محسوس ہو رہا ہے(

عموماً خواتین ایسے حالات میں گھبرا جاتی ہیں اورتسلی دینےکے بجائے پریشان کن باتیں شروع کر دیتی ہیں لیکن آپ رضی اللہ عنہا نےتسلی دیتے ہوئے فرمایا:

وَاللهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا فَوَاللهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ

(صحیح البخاری)

، خدا کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ توصلہ رحمی کرتے ہیں،بے کس و ناتواں لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

اسلام کی خاتونِ اوّل ہونے کا اعزاز

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نزول وحی کے ابتدائی ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مکہ کی پوری آبادی میں موحد صحیح العقیدہ نصرانی اور توریت و انجیل کے بڑےعالم و عامل تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غارحرا میں جبرائیل اور نزول وحی کی سرگزشت سن کر پختہ یقین کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی بات کہی توآپ رضی اللہ عنہا نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ پوری امت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برحق نبی ہونے کی تصدیق کرنے والی ہیں۔


اشاعتِ اسلام کے لئے تمام دولت کی قربانی  

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اللہ کریم نے دولت مندی کی نعمت سے بھی خوب نوازا تھا،آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی پوری دولت اور اپنے غلام زید کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا اور آپ کودین اسلام کی اشاعت کے مقدس مشن میں گھریلو معاشی افکار سے بے نیاز کر دیا۔

بت پرستی سے بیزاری 

اہل مکہ بت پرستی کے شرک میں مبتلا تھے،لیکن جاہلیت کے اس دور میں گنتی کے دوچار آدمی ایسے بھی تھے جن کو فطری طور پر بت پرستی سے نفرت تھی، ان میں ایک ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔

شِعْبِ ابی طالب میں تین سالہ محصوری

مشرکین مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کو روکنے کے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے یہاں تک کہ انہوں نےآپ کا اور آپ کے خاندان بنو ہاشم کے ان تمام لوگوں کا بھی جنہوں نے اگرچہ آپ کی دعوت اسلام کو قبول نہیں کیا تھا لیکن نسبی اور قرابتی تعلق کی وجہ سے آپ کی کسی درجہ میں حمایت کرتے تھے سوشل بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور آپ کے وہ قریبی رشتہ دار بھی شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے ،کھانے پینے اور بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا اور یہ بائیکاٹ تین سال کے عرصہ تک محیط رہا، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کبھی کبھی درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑا۔ ایام محصوری کے اس تین سالہ دور میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہیں۔

حضرت خدیجہ کی حیات میں دوسرا نکاح نہیں کیا 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی اس کے بعد تقریباً 24 سال تک آپ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں، اس پورے 24 سالہ دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا ۔

وفات 

ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا 24 سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانثار ،ا طاعت گزار اور وفا شعار بیوی بن کر زندہ رہیں اور ہجرت سے 3 برس قبل 64 سال کی عمر پاکرتقریباً ماہ رمضان المبارک کی 10 تاریخ کو مکہ معظمہ میں وفات پا گئیں۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جحون (جنت المعلی) میں آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے ہاتھوں قبر مبارک میں اتارا چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لئے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔


مقام اور کردار 

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مقام اور کردار نہایت بلند ہے۔ وہ عالمِ اسلام کی وہ بلندو بالا مرتبہ والی خاتون تھیں جس کی طرف نظر اٹھانے سے تاریخ کی نظر بھی چندھیا جاتی ہے۔ تاریخ ان جیسی خاتون کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبری  اور دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن جیسی پاکیزہ کردار والی خواتین کے کردار کی پاکیزگی عطا فرمائے اور ہمارے مسلم معاشرے کی خواتین کو ان جیسا طرز زندگی گزرانے کی توفیق دے۔

آمین یارب العالمین


Share: