لیلة القدر کی راتوں میں ستائیسویں رات کو بہت سارے مسلمان بطور تہوار کے مناتے ہیں۔ جو کہ درست عمل نہیں ہے ۔ کیونکہ لیلة القدر کوئی تہوار نہیں ہے، جس کو منایا جائے، بلکہ وہ ایک بہت بڑی فضیلت کی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے، سورة القدر کے نام سے پوری ایک سورہ قرآن پاک میں موجود ہے، بہتر ھو گا اس کا مطالعہ کیا جائے اس کی تفسیر و تشریح کو پڑھا جائے اور اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے ، پھر یہ بھی حقیقت ھے کہ اس رات کی تعیین میں بھی اختلاف موجود ہے کہ وہ رمضان المبارک کی کون سی رات ہے سو رمضان المبارک کی تمام ھی راتوں میں اس کی جستجو کرنی چاھیے تاھم رمضان المبارک کے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں اس کو خاص طور پر تلاش کرنا چاہیے، اورتلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان راتوں میں جاگ کر انفرادی طور پر نماز، تلاوت اوردعا وذکر کا اہتمام کرنا چاہیے، رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو اس کا ھونا یقینی تو نہیں ھے لیکن روایات کے مطابق اس رات میں اس کا امکان بہرحال زیادہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو یا غیر رمضان برابر تہجد پڑھنے کا اہتمام فرماتے تھے اور یہ نماز (تہجد) سوکر اٹھنے کے بعد (اخیر شب میں یا درمیانی شب میں پڑھی جاتی ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تہجد کا تھا تو ظاہر یہی ہے کہ ستائیسویں رمضان کی شب میں بھی آپ نے یہ نماز ضرور ادا کی ہوگی، پس تہجد کی نماز تو سنت ہے جو کم ازکم دو رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہے، ویسے عام معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آٹھ رکعت پڑھنے کا تھا، تہجد کے علاوہ جو نماز اس رات میں پڑھی جائے وہ نفل کہلائے گی جتنی ھمت ھو پڑھ لیں لیکن خاص اس نام (لیلة القدر) سے مروجہ دو رکعت نماز کے پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں، البتہ تہجد کی نماز اس نیت سے پڑھ سکتے ہیں کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا ہے۔