حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کی نمازِ جنازہ


ایک وقت تھا جب ملک کے بادشاہ کے اندر عبادت، پرہیز گاری اور دینی سمجھ بوجھ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ھوتی تھی۔ آج کے اس گئے گزرے دور میں بندہ ان واقعات کو سنے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کی نمازِ جنازہ کا واقعہ بھی عقل کو حیران کردینے والے واقعات میں سے  ایک ھے ۔ ملاحظہ فرمائیے  

جب حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو  ھندوستان بھرمیں کہرام مچ گیا۔جنازہ تیار ہوا  اور اسے ایک بڑے میدان میں نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے لایا گیا۔ مخلوق مورومگس کی طرح جنازہ پڑھنے کے لیے نکل پڑی تھی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حدِ نگاہ تک نظر آتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی مانند یہ مجمع ہے۔ جب نمازِ جنازہ پڑھانے کا وقت قریب آیا تو آچانک مجمع میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور مجمع کی طرف رخ کرکے کہنے لگا کہ “میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کا وصی ہوں۔ مجھے حضرت   رحمة اللہ علیہ نے ایک وصیت کی تھی لہذا میں اس مجمع تک حضرت مرحوم کی وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمع سننے کے لئے خاموش ہوگیا۔ وصیت کیا تھی؟ سنیے! وصی نے کہا کہ  خواجہ قطب الدین بختیار کاکی  رحمة اللہ علیہ نے  مجھے یہ وصیت کی تھی کہ میرا نمازِ جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں موجود ہوں۔ 


*پہلی خوبی:* 

تمام زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو 


*دوسری خوبی :* 

اس کی تہجد کی نماز کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو، 


*تیسری خوبی :* 

اس نے زندگی میں غیر محرم عورت پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو، 


*چوتھی خوبی :* 

وہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔ 

*لہذا جس شخص میں یہ چاروں خوبیاں موجود ہوں وہ میرا نمازِ جنازہ پڑھائے،* 


جب حضرت رحمہ اللہ کی یہ وصیت مجمع کو سنائی گئی تو مجمع پر سناٹا چھا گیا مجمع ایسے ساکت ھو گیا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ھو ۔  لوگوں کے سر جھک گئے۔ کون ہے جو قدم آگے بڑھائے، کافی وقت گزر گیا وصیت کا اعلان بار بار کیا جاتا رھا  لیکن کوئی بھی شخص نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے تیار نہ ھوا  لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ  حضرت رحمة اللہ علیہ کی ان شرائط کے ساتھ کوئی بھی حضرت رحمة اللہ علیہ کا جنازہ نہیں پڑھا سکے گا  دن اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگا تو ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آیا۔ جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا  حضرت ! آپ خود تو فوت ہو گئے لیکن میرا راز افشا کر گئے۔

اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ الحمد للہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں لوگوں نے حیرانگی سے دیکھا یہ وقت کے بادشاہ شمس الدین التمش رحمة اللہ علیہ تھے ۔ 

غور وفکر کا مقام ھے کہ اگر بادشاہی کرنے والے دینی زندگی گزار سکتے ہیں تو پھر کیا ہم دکان کرنے والے یا فیکٹری چلانے والے یا دفتر میں جانے والے یاکھیتی باڑی کرنے والے ایسی زندگی کیوں نہیں گزار سکتے۔ 

اللہ رب العزت ہمیں زندگی بھر نیکی پر قائم رھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

Share: