انسان کی اس دنیا کی زندگی خوشیوں ،غم والم ، نفع اور نقصان کا مجموعہ ھے لیکن یہ حضرت انسان اہنی ماضی کی خوشیوں اور منافع کو تو بالکل فراموش کر دیتا ھے لیکن غم اور نقصان کو یاد کر کر گے کڑھتا رھتا ھے کہ کاش میں نے ایسا کیا ھوتا تو مجھے وہ نقصان نہ ھوتا یا اگر میں نے فلاں کام کر لیا ھوتا تو میں خسارے سےبچ جاتا وغیرہ وغیرہ
اس بارے میں صحیح مسلم میں ایک حدیث مبارکہ ذکر کی گئی ہے، پوری حدیث کے الفاظ اور ترجمہ درج ذیل ہے:
*روی عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ: "الْمُؤْمِنُ القَوِيُّ، خَيْرٌ وَأَحَبُّ إلى اللهِ مِنَ المُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وفي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ علَى ما يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ باللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ، وإنْ أَصَابَكَ شيءٌ، فلا تَقُلْ لو أَنِّي فَعَلْتُ كانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَما شَاءَ فَعَلَ، فإنَّ لو تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ".
(الصحیح المسلم)*
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کے نزدیک طاقتور مومن بہتر اور زیادہ پسندیدہ ہے، کمزور مومن کی بنسبت۔ بہرحال! ہر ایک میں خیر ہے، تمہیں جس میں نفع ہو، اس میں حرص کرو اور اللہ تعالٰی سے مدد مانگو اور کمزوری مت دکھاؤ، سو اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ مت کہو: "کاش" میں اگر ایسا کر لیتا تو یہ نقصان نہ ہوتا، یا ایسا ہوتا وغیرہ وغیرہ، بلکہ یوں کہو کہ اللہ کی تقدیر میں جو تھا اور جو اللہ نے چاہا وہ ہوا، بے شک “کاش “ کا لفظ شیطان کے کام کو کھول دیتا (آسان بنا دیتا) ہے۔
امریکہ کے ایک نامور نفسیاتی ڈاکٹر نے کہا ھے کہ آدمی سب سے زیادہ جس چیز میں وقت برباد کرتا ہے وہ افسوس ہے- اس کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگ ماضی کے تلخ یادوں میں گھرے رہتے ہیں- وہ یہ سوچ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرا جو کام بگڑ گیا تھا وہ نہ بگڑتا- اگر میں نے یہ تدبیر کی ہوتی تو میں نقصان سے بچ جاتا- وغیرہ
اس قسم کے احساسات میں جینا اپنے وقت اور قوتوں کو ضائع کرنا ہے- گزرا ہوا موقع دوبارہ واپس نہیں آتا، پھر اس کا افسوس کیوں کیا جائے- مذکورہ ڈاکٹر کے الفاظ میں بہترین بات یہ ہے کہ ہر ایسے موقع پر آپ یہ کہیں کہ
“اگلی بار میں اس کام کو دوسرے ڈھنگ سے کروں گا”
جب آپ ایسا کریں گے تو آپ گزرے ہوئے معاملہ کو بھول جائیں گے- آپ کی توجہ جو اس سے پہلے ماضی کی بےفائدہ یاد میں لگی ہوئی تھی، وہ مستقبل کے غور و فکر اور منصوبہ بندی میں لگ جائے گی- ( ریڈرز ڈائجسٹ ستمبر 1981 ء )
اس کا نقد فائدہ یہ حاصل ہو گا کہ آپ افسوس اور کڑھنے میں اپنی قوتیں ضائع کرنے سے بچ جائیں گے- جو چیز اس سے پہلے آپ کے لیے صرف تلخ یاد بنی ہوئی تھی، وہ آپ کے لیے ایک قیمتی تجربہ کی حیثیت اختیار کر لی گی، ایک ایسا تجربہ جس میں مستقبل کے لئے سبق ہے، جس میں آئندہ کے لیے نئی روشنی ہے-
افسوس یا غم بیشتر حالات میں یا ماضی کے لیے ہوتے ہیں یا مستقبل کے لئے- آدمی یا تو کسی گزرے ہوئے نقصان کا افسوس کرتا رہتا ہے یا ایسے واقعہ کا غم جس کے متعلق اسے اندیشہ ہو کہ وہ آئندہ پیش آئے گا- مگر یہ دونوں ہی غیر ضروری ہیں- جو نقصان ہو چکا وہ ہو چکا- اب وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں- پھر اس کا غم کرنے سے کیا فائدہ اور جس واقعہ کا اندیشہ ہے وہ بہر حال ایک امکانی چیز ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی جس خطرہ کا اندیشہ کرے وہ عین اس کے اندیشہ کے مطابق پیش آ جائے-
خلاصۂ کلام یہ کہ ماضی کے تلخ حالات مستقبل کے لئے سبق تو ضرور ھونے چاھیں لیکن ان حالات کو یاد کر کے کڑ کڑ کر اپنے قیمتی اوقات اور بہترین صلاحیتوں کو ضائع نہیں کرنا چاھیے جو وقت گزر گیا اس پر افسوس ھرگز نہ کیجئے*
انسان کی اس دنیا کی زندگی خوشیوں ،غم والم ، نفع اور نقصان کا مجموعہ ھے لیکن یہ حضرت انسان اہنی ماضی کی خوشیوں اور منافع کو تو بالکل فراموش کر دیتا ھے لیکن غم اور نقصان کو یاد کر کر گے کڑھتا رھتا ھے کہ کاش میں نے ایسا کیا ھوتا تو مجھے وہ نقصان نہ ھوتا یا اگر میں نے فلاں کام کر لیا ھوتا تو میں خسارے سےبچ جاتا وغیرہ وغیرہ
اس بارے میں صحیح مسلم میں ایک حدیث مبارکہ ذکر کی گئی ہے، پوری حدیث کے الفاظ اور ترجمہ درج ذیل ہے:
*روی عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ: "الْمُؤْمِنُ القَوِيُّ، خَيْرٌ وَأَحَبُّ إلى اللهِ مِنَ المُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وفي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ علَى ما يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ باللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ، وإنْ أَصَابَكَ شيءٌ، فلا تَقُلْ لو أَنِّي فَعَلْتُ كانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَما شَاءَ فَعَلَ، فإنَّ لو تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ".
(الصحیح المسلم)*
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کے نزدیک طاقتور مومن بہتر اور زیادہ پسندیدہ ہے، کمزور مومن کی بنسبت۔ بہرحال! ہر ایک میں خیر ہے، تمہیں جس میں نفع ہو، اس میں حرص کرو اور اللہ تعالٰی سے مدد مانگو اور کمزوری مت دکھاؤ، سو اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ مت کہو: "کاش" میں اگر ایسا کر لیتا تو یہ نقصان نہ ہوتا، یا ایسا ہوتا وغیرہ وغیرہ، بلکہ یوں کہو کہ اللہ کی تقدیر میں جو تھا اور جو اللہ نے چاہا وہ ہوا، بے شک “کاش “ کا لفظ شیطان کے کام کو کھول دیتا (آسان بنا دیتا) ہے۔
امریکہ کے ایک نامور نفسیاتی ڈاکٹر نے کہا ھے کہ آدمی سب سے زیادہ جس چیز میں وقت برباد کرتا ہے وہ افسوس ہے- اس کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگ ماضی کے تلخ یادوں میں گھرے رہتے ہیں- وہ یہ سوچ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرا جو کام بگڑ گیا تھا وہ نہ بگڑتا- اگر میں نے یہ تدبیر کی ہوتی تو میں نقصان سے بچ جاتا- وغیرہ
اس قسم کے احساسات میں جینا اپنے وقت اور قوتوں کو ضائع کرنا ہے- گزرا ہوا موقع دوبارہ واپس نہیں آتا، پھر اس کا افسوس کیوں کیا جائے- مذکورہ ڈاکٹر کے الفاظ میں بہترین بات یہ ہے کہ ہر ایسے موقع پر آپ یہ کہیں کہ
“اگلی بار میں اس کام کو دوسرے ڈھنگ سے کروں گا”
جب آپ ایسا کریں گے تو آپ گزرے ہوئے معاملہ کو بھول جائیں گے- آپ کی توجہ جو اس سے پہلے ماضی کی بےفائدہ یاد میں لگی ہوئی تھی، وہ مستقبل کے غور و فکر اور منصوبہ بندی میں لگ جائے گی- ( ریڈرز ڈائجسٹ ستمبر 1981 ء )
اس کا نقد فائدہ یہ حاصل ہو گا کہ آپ افسوس اور کڑھنے میں اپنی قوتیں ضائع کرنے سے بچ جائیں گے- جو چیز اس سے پہلے آپ کے لیے صرف تلخ یاد بنی ہوئی تھی، وہ آپ کے لیے ایک قیمتی تجربہ کی حیثیت اختیار کر لی گی، ایک ایسا تجربہ جس میں مستقبل کے لئے سبق ہے، جس میں آئندہ کے لیے نئی روشنی ہے-
افسوس یا غم بیشتر حالات میں یا ماضی کے لیے ہوتے ہیں یا مستقبل کے لئے- آدمی یا تو کسی گزرے ہوئے نقصان کا افسوس کرتا رہتا ہے یا ایسے واقعہ کا غم جس کے متعلق اسے اندیشہ ہو کہ وہ آئندہ پیش آئے گا- مگر یہ دونوں ہی غیر ضروری ہیں- جو نقصان ہو چکا وہ ہو چکا- اب وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں- پھر اس کا غم کرنے سے کیا فائدہ اور جس واقعہ کا اندیشہ ہے وہ بہر حال ایک امکانی چیز ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی جس خطرہ کا اندیشہ کرے وہ عین اس کے اندیشہ کے مطابق پیش آ جائے-
خلاصۂ کلام یہ کہ ماضی کے تلخ حالات مستقبل کے لئے سبق تو ضرور ھونے چاھیں لیکن ان حالات کو یاد کر کے کڑ کڑ کر اپنے قیمتی اوقات اور بہترین صلاحیتوں کو ضائع نہیں کرنا چاھیے