واقعۂ کربلا اور اس کے اسباب ، واقعات اور نتائج

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ جسے واقعۂ کربلا کے نام سے یاد کیا جاتا ھے  10 محرم 61ھ کو کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں یزیدی  فوج نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام،22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی خواتین و بچے شامل تھے۔


اسباب

خلافت کی بجائے شخصی حکومت کا قیام

اسلامی نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ کیونکہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دور دیکھا تھا۔ لہذا حضرت امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا


یزید بن معاویہ کا ذاتی کردار

یزید کا ذاتی کردار ان  اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ھوئے ہیں۔ لہذا  کسی ایسے  شخص کو  مسلمانوں کا حکمران تسلیم کرنا جو کسی لہاظ سے بھی اس کا اھل نہ ھو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے کسی صورت بھی ممکن نہیں تھا 


یزید کا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے بیعت کے لئے اصرار

یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کی وساطت سے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے بیعت طلب کی۔ ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم بزور بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے سفر مکہ اختیار کیا اور وہاں سے اہل کوفہ کی دعوت پر کوفہ کے لئے روانہ ہوئے۔


حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفیوں کے دعوت نامے 

جب امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ مکہ پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں لیکن  اہل کوفہ نے ان سے غداری کی اور اپنے وعدوں سے پھر کر امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ کا ساتھ نہ دیا۔


واقعات

امام حسین رضی اللہ عنہ کی مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ روانگی

ولید بن عتبہ نے حضرت امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قاصد کے ذریعہ بلایا۔ ابھی تک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی۔ تاہم بلاوے کا مقصد دونوں حضرات نے سمجھ لیا۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے جب بیعت کے لیے کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جب بیعت عام ہوگی اس وقت آ جاؤں گا۔ ولید راضی ہو گیا اور انھیں واپس لوٹنے کی اجازت دے دی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ایک دن کی مہلت لے کر مکہ روانہ ہوگئے۔ بعد میں ان کا تعاقب کیا گیا مگر اس اثناء میں وہ کہیں دور جا چکے تھے۔ جب مروان کو اس صورت حال کا علم ہوا تو ولید سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بیعت کا وقت کھو دیا۔ اب قیامت تک ان سے بیعت نہ لے سکو گے۔ امام  حسین  رضی اللہ تعالی عنہ  عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا۔ لٰہذا وہ27 رجب 60 ہجری میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر شعب ابی طالب میں قیام کیا۔


حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کا حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ کرنا

امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفیوں کے خطوط آنے کے بعد مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ اصل صورت حال معلوم کریں۔ امام مسلم رضی اللہ عنہ کوفہ پہنچے تو پہلے ہی دن بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر مسلم بن عقیل نے امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ  کو کوفہ آنے کا لکھا۔


 یزید کا ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنانا

ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ کوفہ پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم بن عقیل سے اپنی وفاداریاں توڑ لیں گے انہیں امان دی جائے گی۔ اس کے بعد ہر محلہ کے رئیس کو بلایا اور اسے اپنے اپنے علاقہ کے امن و امان کا ذمہ دار قرار دے کر مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کی تلاش شروع کردی۔ اس وقت مسلم بن عقیل ایک محب اہل بیت ہانی بن عروہ کے ہاں چلے گئے۔ عبیداللہ بن زیاد نے ہانی کو بلا کر امام مسلم کو پیش کرنے کا حکم دیا اور ہانی نے انکار کر دیا جس پر انہیں قید میں ڈال کر مار پیٹ کی گئی۔


کوفہ میں حضرت مسلم کی گرفتاری اور شہادت

شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل ہو گئے۔ یہ خبر سنتے ہی امام مسلم نے اٹھارہ ہزار ہمنواؤں کے ساتھ ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ ابن زیاد کے پاس اس وقت صرف پچاس آدمی موجود تھے۔ چنانچہ اس نے حکمت سے کام لیا اور رؤساء کوفہ کی ترغیب سے لوگوں کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔آخر کار مسلم کے ساتھ صرف تیس آدمی رہ گئے۔ مجبوراً مسلم بن عقیل نے ایک بڑھیا کے گھر پناہ لی لیکن اس بڑھیا کے بیٹے نے انعام کے لالچ میں آکر خود جا کر ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔ ابن زیاد نے یہ اطلاع پا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت مسلم بن عقیل تن تنہا لڑنے پر مجبور ہوئے جب زخموں سے چور ہوگئے تو محمد بن اشعث نے امان دے کر گرفتار کر لیا۔ لیکن آپ کو جب ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے امان کے وعدہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے آپ کے قتل کا حکم دے دیا۔ امام مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعث سے کہا کہ میرے قتل کی اطلاع امام  حسین رضی اللہ تعالی عنہ   تک پہنچا دینا اور انھیں میرا یہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ ’’اہل کوفہ پر ہرگز بھروسہ نہ کریں اور جہاں تک پہنچ چکے ہوں وہیں سے واپس چلے جائیں‘‘۔ ابن اشعث نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ایک قاصد حضرت امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف روانہ کر دیا۔


امام حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ مکرمہ سے کوفہ روانگی 

اہل مکہ اور مدینہ نے آپ کو کوفہ جانے سے باز رکھنے کے لیے پوری کوششیں کیں کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ طرز عمل ان کے سامنے تھا۔ حضرت عمرو بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما ، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سب نے مشورہ دیا کہ ’’چونکہ کوفہ یزید کی حکومت کے تحت ہے وہاں ان کی افواج اور سامان سب کچھ موجود ہے اور کوئی قابل اعتماد نہیں اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ مکہ ہی میں رہیں۔‘‘

حضرت عبداللہ ابن زبیر نے تجویز کیا کہ آپ مکہ میں رہ کر اپنی خلافت کی جدوجہد کریں ہم سب آپ کی مدد کریں گے۔ لیکن جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ رضا مند نہ ہوئے تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کو کوفہ کی بجائے یمن جانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ ’’اگر کوفہ کاسفر آپ کے نزدیک ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکھیے کہ وہ یزید کے حاکموں کو وہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں۔‘‘

لیکن امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ’’ابے ابن عمر رضی اللہ عنہما میں جانتا ہوں کہ تم میرے خیر خواہ ہو۔ لیکن میں عزم کر چکا ہوں۔‘‘اس پر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ’’اگر آپ نہیں مانتے تو کم از کم اہل و عیال کو ساتھ نہ لے جائیے مجھے ڈر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح آپ بھی بال بچوں کے سامنے ذبح کیے جائیں گے۔ ‘‘ لیکن ان تمام ترغیبات کے باوجود حضرت امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ  اپنے فیصلہ پر قائم رہے اور بالآخر 3 ذوالحجہ 60 ھ کو مکہ معظمہ سے کوفہ کے لیے چل پڑے۔ آپ کی روانگی کے بعد آپ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے ایک عریضہ اپنے لڑکوں عون اور محمد کے ہاتھ روانہ کیا کہ :

’’میں آپ کو اللہ تعالٰی کا واسطہ دیتا ہوں کہ جونہی میرا خط آپ کو ملے لوٹ آئیے کیونکہ جس جگہ آپ جارہے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہاں آپ کی ہلاکت اور آپ کے اہل بیت کی بربادی ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ ہلاک ہوگئے تو دنیا تاریک ہو جائے گی۔ کیونکہ اس وقت آپ ہی ہدایت یافتہ لوگوں کا علم اور مومنوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ آپ سفر میں جلدی کیجیے۔ میں بھی جلد آپ کے پاس پہنچتا ہوں‘‘۔


حضرت عبداللہ بن جعفر، عمر بن سعد حاکم مکہ کا سفارشی خط لے کر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے ملے اور انھیں بتایا کہ کوفہ کے لوگوں پر اعتماد مناسب نہیں عمر بن سعد اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ آپ مکہ لوٹ آئیں تو میں یزید کے ساتھ آپ کے معاملات طے کرادوں گا اور آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ لیکن آپ نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق سفر کوفہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجبور ہو کر حضرت عبداللہ بن جعفر واپس ہو گئے مگر عون اور محمد کو ساتھ رہنے دیا۔ راستہ میں مشہور شاعرفرزوق آپ سے ملا اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کی: ’’لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ۔ قضاء الہٰی آسمان سے اتری ہے اور اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔

لیکن آپ نے اس کے باوجود سفر کو بدستور جاری رکھا۔


کوفہ میں ابن زیاد کی جنگی تیاریاں

ابن زیاد کے حکم سے پولیس کے افسر حصین بن نمیر نے قادسیہ سے جبل لعل تک سواروں کو مقرر کر دیا اور تمام اہم راستوں کی ناکہ بندی کر دی۔ امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ  کے قاصد قیس کو ابن زیاد کے آدمیوں نے گرفتار کرکے قتل کر دیا۔ جب آپ بطن رملہ سے آگے بڑھے تو انھیں عبداللہ ابن مطیع ملے۔ انھوں نے آپ کو آگے جانے سے روکا۔ محمد بن اشعث کے بھیجے ہوئے قاصد نے آپ کو مقام ثعلبیہ پر مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر دی۔ اب آپ سفر کوفہ کے بارے میں متردد ہوئے۔ ساتھیوں نے واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کی خاطر سفر جاری رکھنے کے لیے زور دیا۔ جس کے بعد پوزیشن واضح ہو گئی۔ آپ کے ساتھ دوران سفر بہت سے بدوی شامل ہو چکے تھے۔ آپ نے ان سب کو جمع کیا اور فرمایا جو لوگ واپس جانا چاہیں انہیں اجازت ہے۔ چنانچہ سوائے ان جان نثاروں کے جو مدینہ سے ساتھ آئے تھے سب ساتھ چھوڑ گئے۔


ابن زیاد کے حکم پر حر بن یزید تمیمی کا حسینی لشکر کا گھیراؤ کرنا 

ابن زیاد نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی پیش قدمی روکنے کے لیے حر بن یزید تمیمی کو روانہ کیا۔ ذی حشم کے مقام پر آپ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  نے اسے کوفیوں کے خطوط کے دو تھیلے منگوا کر دکھائے اور کہا کہ ’’اب آپ لوگوں کی رائے بدل گئی ہے۔ تو میں واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ لیکن حر نے کہا کہ ہمیں تو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا سفر کوفہ جاری رکھا۔ آپ نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا۔ جس میں اپنے مقاصد کی وضاحت کی۔ آپ نے فرمایا:

’’لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے ، خدا کا عہد توڑنے والے ، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے‘‘۔ کچھ دور جا کر طرماج بن عدی سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ کو یمن چلنے کی دعوت دی لیکن آپ نے یہ پیش کش قبول نہ فرمائی۔


حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے رفقاء کے ساتھ میدانِ  کربلا میں 

امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ کا قافلہ اور حر بن یزید کا لشکر ساتھ ساتھ آگے کی طرف چلتا رہا، جہاں کہیں آپ کے قافلہ کا رخ صحرائے عرب کی طرف ہو جاتا حر آپ کو روک دیتا اور رخ پھیر کر کوفہ کی طرف کر دیتا۔ چلتے چلتے آپ نینوا پہنچے۔ وہاں ابن زیاد کے ایک قاصد نے حر کو ایک خط پہنچایا جس میں حکم تھا

’’جونہی میرا یہ خط اور میرا قاصد تم تک پہنچیں حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں کو جہاں وہ ہیں وہیں روک لو اور انھیں ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو جو بالکل چٹیل میدان ہو اور جہاں کوئی سبزہ اور پانی کا چشمہ وغیرہ نہ ہو۔ میرا یہ قاصد اس وقت تک تمہارے ساتھ ساتھ رہے گا۔ جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے تم نے اس کی حرف بحرف تعمیل کی‘‘۔ حر نے تمام صورتِ حال سے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو آگاہ کیا اور کہا کہ ’’اب میں آپ کو اس جگہ نہ رہنے دوں گا‘‘۔ بالآخر یہ مختصر سا قافلہ 2 محرم الحرام61 ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں اترا۔ دوسرے ہی روز عمر بن سعد 6 ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ عمر بن سعد چونکہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے لڑنے کا خواہشمند نہ تھا، اس لیے قرہ بن سفیان کو آپ کے پاس بھیجا۔ قرہ بن سفیان سے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  نے کہا کہ ’’اگر تمہیں میرا آنا ناپسند ہے تو میں مکہ واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ لیکن ابن زیاد نے اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور عمر بن سعد کو حکم دیا کہ اگرامام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ بیعت نہ کریں تو ان کا پانی بند کردیا جائے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کو ایسی حالت میں جب کہ وہ قابو میں آچکے تھے گرفتار کرنا زیادہ مناسب اور ضروری قرار دیا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے اپنی رائے تبدیل کر دی۔ اور عمر بن سعد کو اس کی اس بات پر سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ ’’اگر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  اور اس کے ساتھی اپنے آپ کو حوالہ کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو۔‘‘ شمر مع خط کے عمر بن سعد کے پاس پہنچا۔ عمر بن سعد اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف تلوار اٹھانے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ 9 محرم الحرام کا دن تھا۔


سانحہ کربلا کا وقوع اور خاندانِ نبوت کی شہادتِ عظمٰی

صلح کی آخری گفتگو ناکام ہونے کے بعد امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہیں انھیں میری طرف سے اجازت ہے۔ مگر سب نے آخری وقت تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ان جاں نثاروں کی تعداد صرف 72 تھی۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مختصر ترین فوج کو منظم کیا۔ میمنہ پر حضرت زبیر بن قیس رضی اللہ عنہما کو اور میسرہ پر حضرت حبیب بن مطہر رضی اللہ عنہ کو متعین کرکے علم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مرحمت فرمایا۔ جنگ کے آغاز سے پیشتر اللہ تعالٰی کے حضور دعا کی اور ان سے تائید اور نصرت چاہی۔ اس کے بعد اتمام حجت کے لیے دشمنوں کی صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

’’اے لوگو! جلدی نہ کرو۔ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کاجو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے‘‘۔ جونہی آپ تقریر کے اس حصے پر پہنچے تو خیموں سے اہل بیت کی مستورات کی شدّت رنج سے چیخیں نکل گئیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے اور اپنے بھائی عباس رضی اللہ عنہ کو انہیں چپ کرانے کے لیے بھیجا۔ جب خاموشی طاری ہوئی تو آپ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

’’لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں۔ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالٰیٰ کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے رسول پر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے۔ کیا حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ اور اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں سے وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سنی ہے۔ تم ان سے دریافت کرسکتے ہو۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا آپ کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے‘‘۔ لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صرف حر بن یزید تمیمی پر آپ کی اس تقریر کا اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ ’’یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے۔ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے‘‘۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں آ شامل ہوا۔ اس کے بعد شخصی مبازرت کے طریقے سے جنگ کا آغاز ہوا جس میں اہل بیت اطہار کا پلہ بھاری رہا۔ یہ دیکھ کر ابن سعد نے عام حملہ کا حکم دیا۔ فدایان و اراکین اہل بیت نے دشمنوں کی یلغاروں کا پوری قوت ایمانی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ فدائی ایک ایک کرکے کٹ مرے لیکن میدان جنگ سے منہ نہ پھیرا۔ دوپہر تک حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بیشتر آدمی شہید ہوچکے تھے۔ چنانچہ اب باری باری حضرت علی اکبر، عبداللہ بن مسلمہ ، جعفر طیار کے پوتے عدی ، عقیل کے فرزند عبدالرحمن ، حضرت حسن کے صاحبزادے قاسم اور ابوبکر وغیرہ میدان میں اترے اور شہید ہوئے۔ ان کے بعد امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اترے۔ دشمنوں نے ہر طرف سے آپ پر یورش کی۔ یہ دیکھ کر آپ کے بھائی عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان آپ کی حفاظت کے لیے ڈٹ گئے مگر چاروں نے شہادت پائی۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  تنہا میدان میں جمے ہوئے تھے۔ عراقیوں نے آپ کو ہر طرف سے نرغہ میں لے لیا مگر شہید کرنے کی کسی کو بھی جرات نہ ہو رہی تھی کیونکہ کوئی نہ چاہتا تھا کہ یہ گناہ اس کے سر ہو۔ بالآخر شمر کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بدبختی مول لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوار کے وار کیے۔ سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ گر گئے۔ ان کے گرنے پر شمر ذی الجوشن آپ کی طرف بڑھا تو اس کی برص زدہ شکل دیکھتے ہی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میرے نانا رسولِ خدا نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے۔ اے بدبخت شمر بلاشبہ تو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا نے خبر دی تھی۔ اس کے بعد شمر نے ان کا سر پیچھے کی طرف سے (پسِ گردن سے) کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔ روایات کے مطابق اللہ کے نبی حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا سر بھی اسی طرح پس گردن سے کاٹ کر جدا کیا گیا تھا۔ ابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ کا سربریدہ جسم گھوڑوں کے ٹاپوں سے روندوا دیا گیا۔ بعد میں تمام شہدائے اہلِ بیت کے سر پہلے ابنِ زیاد کے دربار میں لے جائے گئے اور بعد میں دمشق میں یزید کے دربار میں لے جائے گئے۔ 


 کوفیوں کا منافقانہ اور شرمناک کردار

اس دلخراش سانحہ سے قبل بھی کوفیوں کا کردار نہایت ہی شرمناک رہا تھا۔ حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ کے دارلخلافہ مدینہ سے کوفہ لے جانے سے ان سازشیوں کو کھل کر کھلنے کا موقعہ ملا۔ بظاہر یہ سازشی حب علی رضی اللہ تعالی عنہ کا لبادہ اوڑھے رہا کرتے تھے لیکن آپ کی ذات اطہر سے بھی الٹے سیدھے سوالات کرنا ان کا وطیرہ تھا۔ایک موقع پر ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا۔ " مولا! آپ سے پہلے کے خلفاء کے دور میں امن وامان تھا مگر آپ کے دور میں یہ کیوں عنقا ہے" اس گستاخانہ سوال پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان منافقوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ آپ نے فرمایا " اس بدامنی کی بنیادی وجہ یہ ہے کر سابقہ خلفاء کے مشیر میرے جیسے لوگ تھے اور میرے مشیر آپ جیسے لوگ ہیں"۔ ان لوگوں کی ان ہی حرکتوں کے باعث حضرت علی رضی اللہ عنہ بالآخر اس طبقے سے بیزار رہنے لگے تھے۔ جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی تو آپ اپنے والد محترم کے دور میں ان منافقوں کا بغور مشاہدہ کر چکے تھے اسی لئے آپ نے ان کو زیادہ منہ نہ لگایا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی۔ اس صلح سے خانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس صلح سے ان منافقوں کی سازشوں پر پانی پھر رہا تھا اس لئے اس صلح پر بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی پر اعتراض کرنے لگے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا " اگر خلافت میرا حق تھا تو یہ میں نے ان (معاویہ رضی اللہ عنہ ) کو بخش دیا اور اگر یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا حق تھا تو یہ ان تک پہنچ گیا"۔ جن کوفیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت تھی ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق 12000 اور دوسری روایت کے مطابق 18000 تھی لیکن جب جنگ کی نوبت آئی تو ان بے وفا اور دغا باز لوگوں میں سے کسی نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دیا اور کھڑے تماشا دیکھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے اپنے جانثار ساتھیوں کے ہمراہ جام شہادت نوش فرمایا۔ حضرت امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ سے غداری کی سزا ان کو ان ہی کے ہاتھوں قیامت تک ملتی رہے گی۔ ان شا اللہ۔


شہادتِ حسین اور رسول کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی

رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ مٹی دی تھی اور فرمایا تھا کہ اے ام سلمیٰ جب یہ مٹی سرخ ہو جائے یعنی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین رضی اللہ تعالی عنہ  شہید کر دیا گیا۔ ایک دن ان کی بیٹی ان سے ملنے گئیں تو آپ زارو قطار رو رہی تھیں۔ پوچھا گیا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ابھی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خواب میں تشریف لائے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپ کے سرِ انور اور ڈاڑھی مبارک پر مٹی تھی۔ میں نے پوچھا آقا یہ گرد کیسی ہے تو فرمایا کہ اے ام سلمہ! ابھی اپنے حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل کا منظر دیکھ کر میدانِ کربلا سے آرہا ہوں۔ جاگنے کے بعد میں نے وہ مٹی دیکھی جو انہوں نے مجھے دی تھی تو وہ خون ہو چکی تھی۔


واقعۂ کربلا کے نتائج 

شہادتِ حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی خبر جب سرزمین حجاز میں پہنچی تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس سانحہ پر اشکبار نہ ہو۔ لٰہذا حجاز میں فوری طور پر انقلاب برپا ہوگیا۔ اہل مدینہ نے اموی حکام کو صوبہ سے نکال دیا اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی بیعت کر لی۔ یزید نے ولید بن عقبہ کی ماتحتی میں شامیوں کی فوج روانہ کی۔ اس فوج میں عیسائی کثیر تعداد میں شامل تھے۔ جب اہل مدینہ نے اطاعت قبول نہ کی تو ولید بن عقبہ نے شہر پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اہل مدینہ اگرچہ بڑی بے جگری سے لڑے لیکن شامی افواج کے سامنے ان کو شکست ہوئی۔ اس جنگ میں بڑے بڑے اکابر مدینہ شہید ہوئے جن میں حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما قابل ذکر ہیں۔ شہر پر قبضہ کے بعد مدینہ الرسول ڈلی اللہ رلیہ وآلہ وسلم  تین دن تک شامی فوجیوں کے ہاتھوں لٹتا رہا۔ مسلمانوں کی عزت و آبرو برباد ہوئی اور تین روز تک مسلسل قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بہت اہم ہے اور سانحہ کربلا کے بعد یزید کا دوسرا بڑا سیاہ کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔


حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا قیام

اہل  مکہ اور اھل مدینہ نے یزید کی بجائے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ چن لیا۔ شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کے اندر سوئے ہوئے جذبات کو ازسرنو بیدار کر دیا اور سرزمین حجاز میں ناراضگی کی ہمہ گیر لہر اموی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ اہل حجاز کو ابن زبیر رضی اللہ عنہما جیسی موثر شخصیت بطور رہنما میسر آئی۔ چنانچہ اہل مدینہ نے بھی جلد آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا اور آپ کی بیعت کر لی۔ اس انقلاب نے اموی اقتدار کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر دیں۔ حجاز کی سرزمین سے مخالفت کے یہ ابلتے ہوئے جذبات درحقیقت تمام عالم اسلامی میں پیدا شدہ ہمہ گیر اضطراب کے ترجمان تھے۔


 معاویہ بن یزید کی خلافت سے دست برداری اور خلافتِ امیہ کا زوال 

واقعہ کربلا اموی خلافت کے زوال کا اہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اموی حکومت اور اس کے عمال پہلے ہی عوام الناس میں مقبول نہ تھے۔ کیونکہ مسلمان جب ان کی حکومت کا موازنہ خلافت راشدہ سے کرتے تھے انہیں سخت مایوسی ہوتی۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کی شہادت نے ملت اسلامیہ کو بہت متاثر کیا۔ یہاں تک کہ خود یزید کابیٹا معاویہ جسے یزید کی موت کے بعد خلیفہ مقرر کیا گیا تھا ،  دل برداشتہ ہو کر خلافت سے ہی دست بردار ہوگیا۔ اگرچہ امویوں نے اپنی قوت اور استقلال کی بدولت حکومت کو وقتی طور پر اپنے خاندن میں محفوظ کرلیا لیکن خلیفہ مروان ثانی کے زمانہ تک کھلم کھلا اور زیر زمین کئی تحریکیں مسلسل اس بات کے لیے کوشاں رہیں کہ وہ امویوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔


عباسی تحریک کی کامیابیاں 

عباسیوں نے امویوں کے خلاف اس ردعمل سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کے داعی ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے اور اموی مظالم کی داستان اس قدر پر زور اور پر تاثیر انداز میں پیش کی کہ عوام کے جذبات بھڑک اٹھے۔ چنانچہ عباسیوں نے بھی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے انتقام کو اپنے مقاصد کے لیے نہایت کامیابی سے استعمال کیا۔


شہادتِ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حق پرستوں کے لیے  ایک عظیم مثال

اس واقعہ کا سب سے بڑا اہم نتیجہ یہ تھا کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کا کردار عین حق کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا ایک مینار بن گیا۔ حریت ، آزادی ، اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا توامام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کی قربانی کو مشعل راہ پایا۔ آپ ہی سے مسلمانوں نے سیکھا کہ جبر و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہونا عین رضائے الٰہی ہے۔


واقعۂ کربلا کی اھمیت

اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی۔ لٰہذا جمہور صہابہ و تابعین  اس تبدیلی کو اسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدانِ عمل میں اترے ، راہِ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدانِ کربلا میں گزری وہ جور و جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور کہ اسلام کے نام لیواؤں پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کی جو خود کو مسلمان کہتے تھے بڑا روح فرسا ہے۔ مزید براں، حضرت امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ کا جو تعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھا اسے بھی ظالموں نے نگاہ میں نہ رکھا۔ نواسہ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میدانِ کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اور سر کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا گیا۔ اس سے یزید کے عمال کی آمرانہ ذہنیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ یہاں یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح ، ملی ، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں تو انسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے۔ لٰہذا ان حقائق کی روشنی میں سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ اسلام کے نام پر سیاہ دھبہ ہے کیونکہ اس سے اسلامی نظامِ حکومت میں ایسی خرابی کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس سانحہ کو اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی قرار دیں تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہوگا۔ کیونکہ جہاں تک حق و انصاف ، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کے نظامِ شورائیت کی نفی تھی۔ لٰہذا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ تاھم واقعۂ کربلا مسلم اُمہ کے لئے ایک ایسے سیاہ داغ کی حیثیت رکھتا  ھے جسے قیامت تک مٹانا  ناممکن ھے

Share: