عورت کی وراثت اور پاکستان میں سماجی و قانونی حیثیت کا اسلامی تعلیما ت کی روشنی میں تحقیقی جائزہ


وراثت کے قوانین کسی ریاست کی قانون سازی کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ وراثت ہی کے ذریعے کسی مرنے والے کی جائیداد منصفانہ طریقے سے دوسروں تک منتقل ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں بہت سے لوگوں کا کاروبارِ زندگی اسی وراثتی جائیداد پر منحصر ہوتا ہے۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس میں وراثتی قوانین بھی قرآن و سنت کے احکامات کے مطابق رائج کیے گئے ہیں ،لیکن پاکستانی معاشرے میں عملی صورتحال یہ ہے کہ عورتوں کو اکثرو بیشتر ان کے شرعی و قانونی حق وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔با لخصوص غیر منقولہ جائیداد کے معاملے میں۔ اس مقالہ میں عورت کے شرعی حق وراثت کو بیان کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں تقسیم وراثت کے موقع پر عورتوں کی ورا ثت کی عملی صورتحال کو بیان 


گیا ہے اور خصوصی طور پر پاکستان میں وراثت کے قوانین کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔


اسلام سے پہلے عربوں کی نظر میں تو عورت خود مال کی حیثیت رکھتی تھی جسے وراثت کے طور پر تقسیم کیا جاتا تھا۔مرنے والے کی میراث صرف طاقتور مردوں کو ملتی تھی، اور نابالغ بچے اور عورتیں محروم رہ جاتے تھے۔


علامہ ابو بکرجصاصؒ زمانہ جاہلیت میں وراثت کی تقسیم کے طریقہء کار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:


" اہلِ جاہلیت دو چیزوں کی بنیاد پر وراثت کے حقدار ہوتے تھے۔ ایک نسب دوسرا سبب، بہرحال نسب کے ذریعے جو لوگ وراثت کے حق دار ہوتے تھے۔ ان میں نہ تو چھوٹے بچے وارث ہوتے اور نہ عورتیں بلکہ وہ لوگ وارث ہوتے تھے جو گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑائی کر سکیں اور مالِ غنیمت حاصل کر سکیں" ([1])


اسلام میں عورت کی وراثت:


اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں کے درمیان وراثت کی تقسیم ان ہی اسباب کی بناء پر ہوتی رہی جن کے ذریعے دور جاہلیت میں ہوتی تھی۔اسلام نےآ غاز میں لوگوں کو ان کی سابقہ حالت پر چھوڑے رکھا پھر طریقہء جاہلیت کو منسوخ قرار دے کر اپنا منصفانہ و عادلانہ نظام اور مکمل اصول و ضوابط مقرر کر دئیے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوا۔


لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا۔([2])


’’ اور جو مال ماں ،باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ کر مر جائیں تھوڑا ہو یا بہت ان میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کے بھی حصے اللہ کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔‘‘ 


اور پھر دوسری آیت میں مزید وضاحت فرما دی۔


يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۔([3])


’’ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ‘‘ قرآن مجید کا یہ ایک ایسا قاعدوضابطہ ہے جس نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو وراثت کا حقدار بنا دیا اور دونوں کے حصے بھی مقرر فرما دئیے اور ساتھ ہی یہ اصول بھی معلوم ہو گیا کہ جب مرنے والے کی اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو ان کے حصے میں جو ماں آئے گا وہ اس طرح تقسیم ہو گا کہ ہر لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دو گنا ملے گا۔


مرد اور عورت کی وراثت کی تقسیم میں اختلاف کا فلسفہ و حکمت:


اسلام نے مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی میراث میں حصہ دار بنا دیا اگرچہ مرد اور عورت کے حصوں کے تناسب میں فرق ہے لیکن اس فرق میں بھی کئی حکمتیں اور اجتماعی مصالح پوشیدہ ہیں۔اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم بھی حکمت و مصلحت سے سے خالی نہیں ہوتا۔ مفسرین ،علماء ،فقہاء اور اصحاب فکر و دانش نے مرد اور عورت کے حصوں کی کمی و بیشی کی حکمت و مصالح کو اپنی سمجھ اوربصیرت کی روشنی میں بیان کرنے کی سعی کی ہے۔


متقدمین مفسرین میں علامہ ابنِ کثیر ؒ اس فرق کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :


’’ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے حصوں میں فرق اس لیے رکھا ہے کہ مردوں کے ذمے جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمے نہیں مثلاً اپنے متعلقین کے کھانے پینے اور دیگر اخراجات کی کفالت اور کسب اور مشقتیں، اس لیے انہیں (مردوں کو) ان کی حاجت کے مطابق عورتوں سے دو گنا دلوایا۔‘‘([4])


امام فخر الدینؒ رازی فرماتے ہیں کہ عورت کے اخراجات کم ہیں کیونکہ اس کا خرچ اس کا شوہر برداشت کرتا ہے اور مرد کے اخراجات زیادہ ہیں کیونکہ اسے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اسے مال کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایک اور وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’عورت میں عقل کی کمی ہوتی ہے ،اس لیے زیادہ مال اس کے لیے فساد کا باعث ہو سکتا ہے جب کہ مرد میں زیادہ عقل ہوتی ہے وہ مال کو خرچ کرنا جانتا ہے وہ زیادہ لوگوں سے ملتا ہے جب کہ عورت کا واسطہ کم لوگوں سے پڑتا ہے ‘‘([5])


شاہ ولی اللہ اس تقسیم کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :


"حقوق کی حفاظت و حمایت مردوں کا کام ہے اور مرد کو کئی ایک موقعوں پر خرچ کرنا پڑتا ہے وہ ہمیشہ مصارف کے زیرِ بار رہتے ہیں ۔اس لیے مناسب اور قرین صواب یہی ہے کہ میراث میں انھی کو زیادہ مستحق سمجھا جائے"([6])


ڈاکٹر اسرار احمد لکھتے ہیں :


"اسلام معاشی کفالت کا تمام تر بوجھ مرد کے کندھوں پر ڈالتا ہے اور انہی جسمانی ساخت ،توانائیوں اور 


صلاحیتوں کے لحاظ سے وہی اس کو اٹھانے کے قابل ہے لہذا وراثت میں عورت کے مقابلے میں اس کا دوہرا حصہ رکھا گیا ہے ۔بیٹی کو جو کچھ ملے گا وہ اسے بیوی کی حیثیت سے لے کر شوہر کے گھر چلی جائے گی اور یہ اس کی ذاتی ملکیت ہو گی۔ پہلے سے اگر شادی شدہ ہے تو اس کو یہ ورثہ ذاتی طور پر مل جائے گا۔ اس کی اپنی کفالت شوہر کے ذمے ہے ،لہذا ماں باپ سے ملنے والا ورثہ اس کی ذاتی ملکیت کی حیثیت سے رہے گا اس لیے منطقی و عقلی طور پر دیکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ بیٹی کو بیٹے سے نصف حصہ دیا جائے گا۔ معاصر علماء و فقہاء کی آراء کے مطابق عورت کا حصہ مرد سے آدھا اس کی جسمانی کمزوری اور عقلی صلاحیتوں کی کمی کی وجہ سے ہر گز نہیں ہے جیسا کہ متقدمین اور چند معاصر علماء خیال کرتے ہیں ۔بلکہ یہ نقطہ ء نظر آج کل کے دور میں درست ثابت نہیں ہوتا جہاں خواتین زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں"([7])


عصرِ حاضر کے چند علماء و مفکرین سے کئے گئے سوالات کی روشنی میں مرد اور عورت کی وراثت کی تقسیم کی جو حکمت سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ وراثت کی تقسیم کی بنیاد نفع پہنچانا ہے ۔جو زیادہ نفع دے گا اس کا حصہ زیادہ ہے جو نفع کم دے گا اس کا حصہ کم ہے ۔عورت بیوی ، ماں اور بہن کی حیثیت سے جو نفع پہنچاتی ہے اس حساب سے اس کی وراثت ہے اور یہی اس کی حکمت ہے ۔خاندان کی معاشی کفالت کا ذمہ دار مرد ہے ۔عورت پر کسی قسم کا کوئی خرچ نہیں ہے یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی گہری حکمت پر مبنی ہے ۔انسان اپنی تمام تر علمی صلاحیتوں کے استعمال کے باوجود نہ تو اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کو جان سکتا ہے اور نہ اس کو پوری طرح سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہاں پر ایک اور بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وراثت میں بیٹے کوبیٹی کے مقابلے میں دگنا حصہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کا معاشی کفیل ہوتا ہے اگر معاشی کفیل کسی جگہ پر بیٹے کی جگہ بیٹی بن جائے تو کیا اسے بیٹے کے برابر حصہ دیا جا سکتا ہے؟


اس سوال کے جواب میں علماء و فقہا کی رائے ہےکہ عام طور پر خاندان کا معاشی کفیل مرد ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اور استثنائی صورت میں کلئیے اور قانون تبدیل نہیں ہوتے اس لئے اسلام کا قانون اور اصول اٹل ہے اس میں تبدیلی کسی حال میں نہیں کی جا سکتی۔ استثنائی صورتوں میں شریعت متبادل راستے دیتی ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے ۔عمومی قانون عمومی ضروریات کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے اس میں


جزوی و استثنائی صورتوں کا زیادہ تر لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ 


اگر کوئی ایسی صورت ہو جس میں کسی ضرورت یا اضافی خدمت کے باعث مرنے والاکسی وارث کو اس کے 


حصے کے علاوہ اپنے وارثوں کو وصیت کے ذریعے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے ۔لہذا ایسی بیٹی کو جس نے بیٹے کی طرح ذمہ داریوں کو ادا کیا وہ ترکے میں اس بیٹی کے لیےوصیت کر سکتا ہے ۔اس سے قانونِ وراثت میں مقرر کردہ حصوں میں تبدیلی کرنے کی ضرورت نہیں۔


اسلام میں عورت کی وراثت کی مختلف صورتیں:


کسی معاشرے میں انسان کی قدرو منزلت اس کی معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔جس کے پاس مال و جائیداد ہے ، اس کی سب ہی قدر کرتے ہیں ،اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو محکوم بنا لیا جاتا ہے۔ اسلام کو سوا دنیا کے باقی سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے کمزور رکھا اور پھر معاشی کمزوری اس کی بے بسی ،مظلومیت اور بے چارگی کا سبب بن گئی عورت کی اس مظلومیت کا جدید مغربی تہذیب نے مداوا کرنا چاہا اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر فیکٹریوں اور اداروں میں کام پر لگا دیا اس طرح اس کا گھر سے باہر نکل کر کمانا دوسری خرابیوں کا باعث بن گیا۔ 


ان حالات میں اسلام اعتدال کا راستہ اختیار کرتا ہے اسلام نے عورت کو وراثت کا حق دیا کہ وہ اپنے مال کی مالک و خود مختار ہے۔ کیونکہ اس پر معاشی ذمہ داری کسی کی نہیں بلکہ وہ سب سے وصول کرتی ہے۔اس لیے مال اس کے پاس محفوظ رہتا ہے مرد کا حصہ عورت سے دو گنا ہے کہ اس نے ہر حال میں عورت اور بچوں، والدین پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔لہذاٰ نتیجتاً عورت کی معاشی حالت اتنی مضبوط و مستحکم ہوتی ہے کہ بسا اوقات وہ مرد سے بہتر حالت میں ہوتی ہے۔اسلام کے عطا کردہ معاشی حقوق پر ایک مسلمان عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے۔([8]) اسلام عورت کو ماں، بیٹی، بہن ، بیوی،پوتی اور دادی تمام حیثیتوں میں وراثت کے حقوق عطا کرتا ہے ۔ ذیل میں ان تمام حیثیتوں میں عورت کو ملنے والی وراثت کو مختصراً بیان کیا جاتا ہے:


بیٹی کی میراث:


قرآنِ مجید میں حقیقی یا صلبی بیٹی کا حصہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔


فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَھَا النِّصْفُ۔([9])


’’ اگر بیٹیاں دو سے زائد ہوں تو ان کے لیے ترکہ میں سے دو تہائی ہے اور اگر بیٹی ایک ہے تو اس کے لیے 


نصف ترکہ ہے۔‘‘ 


بیٹی کی میراث کی تین حالتیں ہیں:۔۱۔ اگر بغیر بھائی یا بھتیجے کے ایک ہی ہے تو اس کو ترکہ کا نصف ملے گا۔۲۔ دو یا دو سے زیادہ ہوں تو ان کو ترکہ کا دو تہائی (دوثلث) ملے گا۔۳۔ اگر بیٹی کے ساتھ بیٹا بھی موجود ہو تو بیٹے کے مقابلے میں نصف ملے گا۔ میت کی اگر صرف بیٹی یا بیٹیاں ہوں تو بحیثیت ذوی الفروض حصہ پاتی ہے ۔لیکن اگر میت کا اگر کوئی بیٹا بھی ہو تو پھر بیٹی عصبہ ہو جائے گی۔([10])


آئمہ اربعہ کے مسلک کے مطابق بیٹی اگر ایک ہو تو اس کے لیے نصف ترکہ ہے ۔ لیکن شیعہ جعفریہ کے مطابق اگر بیٹی تنہا وارث ہے تو بیٹی کل ترکہ کی مستحق ہو گی۔([11])بیوی کی میراث:زوجہ کے حقوق وراثت کی دو شکلیں ہیں۔۱۔ اگر میت کی اولاد نہ ہو تو بیوی کو چوتھا حصہ ۴؍۱ ملے گا۔۲۔ اگر میت کی اولاد ہو یا اولاد کی اولاد ہو تو بیوی کو آٹھواں ۸؍۱ حصہّ ملے گا۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو سب اسی حصہّ  میں شریک ہوں گی۔([12]) ماں کی میراث:ماں کی میراث کی تین حالتیں ہیں۔۱۔ اگر میت کی اولاد یا اولاد کی اولاد (بیٹا،بیٹی یا پوتا پوتی)موجود ہو یا دو یا دو سے زائد بھائی ،بہن خواہ حقیقی ہوں یا اخیافی یا علاتی تو ماں کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا۔۲۔ اگر میت کے ورثاء میں زوجین میں سے کوئی ایک (شوہر یا زوجہ) ہو تو شوہر یا زوجہ کا حصہّ نکال کر ماں کو باقی ترکے کا تہائی ۳؍۱ ملے گا۔ ۳۔ اگر میت کا شوہر اور والدین ہوں یا زوجہ اور والدین ہو تو حق زوجین ادا کرنے کے بعد بقایا ترکے میں سے ماں کو ایک تہائی حصہ دیا جائے گا۔اگر باپ کی بجائے دادا ہو تو ماں کو کل ترکے کا تہائی دیا جائے گا[13]حقیقی بہن کی میراث: حقیقی بہن کی میراث کی پانچ شکلیں ہیں۱۔ اگر ایک بہن ہو اور کوئی حقیقی بھائی یا بھتیجا نہ ہو تو وہ نصف ترکہ کی حقدار ہو گی ۔۲۔ اگر بہنوں کے ساتھ حقیقی بھائی بھی ہوں تو عصبہ ہو کر باقاعدہ ’’ ذکر و انثیٰ‘‘ ایک نسبت دو کے حساب سے نصف حصہ پائے گی۔۳۔ اگر کوئی بھائی یا بھتیجا نہ ہو اور دو بہنیں ہوں یا زیادہ تو دو تہائی ۳؍۲ کی حقدار ہوں گی۔۴۔ میت کا اگر حقیقی بھائی نہ ہو بلکہ بہن یا بہنیں اور ایک بیٹی یا پوتی یا پڑپوتی ہو تو نصف ترکہ بیٹی کو ملے گا اور باقی بہنوں کو۔اگر پوتی یا پڑپوتی ایک سے زائد ہو تو وہ ثلث ۳؍۲ کی حقدار ہوں گی اور بقیہ ایک ثلث ۲؍۱ بہنوں کو ملے گا۔۵۔ میت کا اگر باپ ہو یا بیٹے یا پوتے یا پڑپوتے ہوں تو حقیقی ،علاقی ،بھائی بہنیں سب محروم رہیں گے۔([14]) علاتی بہن کی میراث:


علاتی بہن اس بہن کو کہتے ہیں جس کا رشتہ باپ کی طرف سے ہو اور ماں کی طرف سے نہ ہو۔علاقی بہن بھائی کو اولاد ’’ اب‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلام میں ورثہ کے استحقاق میں علاقی بہنوں کے مقابلے میں حقیقی بہنوں کو تقدم حاصل ہوتا ہے کیونکہ حقیقی بہن اقرب ہوتی ہیں اور ’’ الا قرب یسقط الابعد ‘‘ کے اصول کے مطابق حقیقی بہن علاقی بہن کو محجوب کر کے خود میراث کی مستحق قرار پاتی ہے۔([15])


علاتی بہن کے احکام کی سات شکلیں ہیں


۱۔ اگر ایک بہن ہو اور کوئی حقیقی بھائی نہ ہوتو ترکے کا نصف ملے گا۔۲۔ اگر دو بہنیں بغیر حقیقی بھائی کےہوں تو دو ثلث کی حقدار ہوں گی۔۳۔ اگر میت کی ایک حقیقی بہن ہو تو علاتی بہن سدس ۶؍۱ کی حقدار ہو گی ۔۴۔ میت کی دو حقیقی بہنیں ہوں اور کوئی بھائی نہ ہو تو علاتی بہن محروم ہو گی۔۵۔ علاتی بہن کے ساتھ علاتی بھائی بھی ہوں تو ان کے ساتھ یہ بھی عصبہ ہو کر بحیثیت ذکرو انثیٰ ایک 


نسبت دو کے حساب سے حصہ لے گی۔۶۔ اگر میت کا بھائی نہ ہو بیٹیاں اور پوتیاں ہوں اس کے ساتھ علاقی بہن عصبہ ہو کر حصہ لے گی۔۷۔ میت کا اگر باپ ہو یا بیٹے یا پوتے یا پڑپوتے ہوں تو حقیقی و علاقی بہن بھائی محروم رہیں گے اور اگر میت کا حقیقی بھائی موجود ہو تو علاتی بہن و بھائی محروم رہیں گے۔([16]) جدہ (نانی و دادی) کی میراث:


عربی زبان میں جدہ کا لفظ نانی و دادی دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ خواہ وہ کتنی ہی بالائی پشت میں ہوں ۔جدہ کی میراث کی تین صورتیں ہیں:۔۱۔ ایک دادی ہو یا ایک ہی طبقے کی چند دادیاں ہوں اور میت کے ماں یا باپ نہ ہوں تو ان کو چھٹا حصہ ملے گا۔اسی طرح اگر ایک نانی یا ایک ہی طبقے کی چند نانیاں ہوں اور میت کی ماں نہ ہو تو ان کو چھٹا حصہ منفرداً یا مشترکاً دیا جائے گا۔۲۔ میت کا اگر دادا ہو تب بھی حقیقی دادی کو حصہ ملے گا مگر دادا کے اوپر کی دادیاں محروم ہو جائیں گی اور اگر میت کی ماں ہو تو نانی و دادی سب محروم رہیں گی۔۳۔ اگر کوئی اوپر کی ایسی دادی زندہ ہو کہ وہ دوسرے رشتے سے نانی بھی ہو اور اس کے طبقے میں کوئی دوسری دادی ہو جو نانی نہ ہو تو امام ابو یوسف کے نزدیک دونوں چھٹے حصے میں مساوی طور پر شریک ہوں گی۔ اور امام محمد کے نزدیک ایک ایک قرابت والی کو ایک حصہ اور دو قرابت والی کو دو حصے دئیے جائیں گے۔([17]) پوتی کی میراث:پوتیوں کے حقوق عام طور پر بیٹیوں کی طرح ہیں۱۔ اگر بیٹی نہ ہو اور ایک پوتی ہے تو نصف کی حقدار ہے۔۲۔ اگر بیٹی نہ ہو اور دو یا دو سے زیادہ پوتیاں ہوں تو ثلث ۳؍۲ کی حقدار ہوں گی۔۳۔ اگر ایک بیٹی ہو اور ایک یا زیادہ پوتیاں ہوں تو سدس ۶؍۱ کی حقدار ہوں گی۔۴۔ اگر دو بیٹیاں ہوں یا زیادہ تو پوتیاں وراثت سے محروم رہیں گی۔۵۔ اگر پوتیوں کے ساتھ کوئی بھائی بھتیجا بھی ہو تو بقیہ ایک ثلث مال ان میں باقاعدہ ذکرو انثیٰ تقسیم ہو گا اور اس صورت میں وہ عصبہ کہلائیں گی۔۶۔ اگر میت کا بیٹا موجود ہو تو اس صورت میں پوتیاں محروم رہیں گی۔([18])ظاہریہ بھی اسی مسلک کے قائل ہیں ۔([19]) ۔جب کہ شیعہ امامیہ بیٹے کی اولاد خواہ لڑکا ہو یا لڑکی بیٹے کے قائم مقام ہو کر وہی حصہ پائے گی جو اس کے باپ کا تھا۔([20])


یعنی شیعہ امامیہ اس صورتحال میں Principal of Representationکے اصول پر کاربند ہیں۔


اسلام کا قانونِ وراثت پوری طرح فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہے اور مرد اور عورت دونوں کے حقوق کا محافظ ہے۔ عورت کا جو بھی نام اور حیثیت ہے اسلام اس کو ہر حیثیت اور صورت میں وراثت کا حقدار سمجھتا ہے۔ آج اسلام کو تنگ نظر ،عدم مساوات کا علمبردار اور مرد اور عورت کے مابین فرق کرنے والا کہا جاتا ہے۔ حقیقت کے سامنے آنے پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی مذہب یا تہذیب عورت کو معاشی لحاظ سے اتنا مضبوط و مستحکم نہیں بنا سکی کیونکہ اسلام عورت کو نہ صرف حق وراثت دیتا ہے بلکہ اسے تحفظات بھی فراہم کرتا ہے ۔اسی طرح ایک مسلمان عورت بعض اوقات معاشی لحاظ سے مرد سے ذیادہ مستحکم ہوتی ہے۔


تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں اسلام کے ابتدائی زمانے تک عورت اپنے حقوق حاصل کرتی رہی ہے اورعملاًبھی اسے وراثت کے حوالے سے جائیداد کا مالک سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن جوں جوں عرب معاشرے پر عجمی معاشروں کے اثرات مرتب ہوئے اور ان کی تہذیب اور ر سم و رواج مسلم معاشروں کا حصہ بننے لگے۔تو عورت کے دوسرے حقوق کی طرح ان کا وراثتی حق بھی نظرانداز کیا جانے لگا اورآج صورتحال یہ ہے کہ عملی طور پر عورت کا حق وراثت مسلم معاشروں میں پامال ہو رہا ہے۔خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں ہندو رسم و رواج کے پیشِ نظر عورتوں کو وراثت سے مختلف حیلوں بہانوں سے محروم رکھنے کی وباروز افزوں ہے۔ آ ج بھی پاکستانی معاشرے میں عورتوں کو ان کے شرعی حق وراثت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ آئندہ سطور میں پاکستانی معاشرے میں عورت کی وراثت کی عملی صورتحال کا جائزہ لیا جائےگا ۔


پاکستانی سماج میں عورت کی وراثت کی عملی صورتحال:


اسلام اور قانون عورت کے حق وراثت اور حق جائیداد و ملکیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر پاکستان میں عملی 


صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ برادری میں یہی کوشش ہوتی ہے کہ کاروبار اور کارخانے وغیرہ تو اولاد نرینہ کو ملیں اور بیٹیوں کو جہیز دے دو۔ گزشتہ سالوں میں کی گئی زرعی اصلاحات میں زمین کی زیادہ سے زیادہ ملکیت کی حد مقرر کی ہے ۔سرکاری حد سے زیادہ زرعی زمینوں کو حکومت کے حوالے کرنے سے بچانے کے لیے خاندان کی عورتوں کے نام کر دیا جاتا ہے۔


جاگیردار اور زمیندار لوگ تو حیلے بہانے سے اپنی لڑکیوں کی شادیاں خاندان سے باہر کرتے ہی نہیں کہ کہیں جائیداد خاندان سے باہر نہ چلی جائے ۔ان کی دیکھا دیکھی عام لوگوں نے بھی اپنی بہنوں بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنا شروع کر دیا ہے([21])پاکستان کے ہر صوبے میں عورت کی وراثت کے حوالے سے صورتحال افسوسناک ہے۔


ذیل میں ہر صوبے میں عورت کی وراثت کی صورتحال کا ایک مختصر اً جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔


پنجاب:


پنجاب میں لڑکی کو لڑکے کی موجودگی میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا۔ سیالکوٹ اور اردگرد کے دوسرے اضلاع میں جائیداد کا اصل وارث لڑکا ہوتا ہے لیکن لڑکیوں کو جہیز کے نام سے باپ نے جو کچھ علیحدہ رکھا ہو وہ دے دیا جاتا ہے۔([22]) عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں عورتوں کی وراثت کی عملی صورتحال کچھ یوں ہے کہ اگر صرف لڑکیاں ہی وارث ہوں تو غیر منقولہ جائیداد عورتوں کے نام نہیں کی جاتی۔ زمین چچا کے قبضے میں رہتی ہے ۔ملتان اور بہاولپور کے علاقوں میں ’’ حق بخشوانا‘‘ لڑکیوں کی شادی نہ کرنا اورقرآن سے شادی کر دینا تاکہ جائیداد خاندان سے باہر نہ جائے۔بہن کو زبردستی بھائیوں کے حق میں جائیداد سے دستبردار کرا لیا جاتا ہے۔([23]) لیکن عورتوں میں اب تعلیم کے ساتھ ساتھ آگہی بڑی تیزی سے آ رہی ہے۔ بیٹیاں عدالتوں میں مقدمات بھی دائر کر رہی ہیں۔([24])پنجاب کے بعض علاقوں میں اب بھی جدی پشتی طریقہء تقسیم جائیداد جاری ہے۔ جاٹوں، اعوانوں اور گوجروں کے رواج کے مطابق ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں جائیداد کی تقسیم ’’چونڈا ونڈ‘‘ کی ایک رسم کے تحت ہوتی ہے۔ یعنی جتنی بیویاں ہوں ان کی تعداد پر جائیداد تقسیم کی جاتی ہے اور اولاد کی تعداد کو یکسر نظر اندازکر دیا جاتا ہے ۔زمین کو اولادِ نرینہ کی تعداد پر تقسیم کیا جاتا ہے جسے ’’پگ ونڈ‘‘ کہتے ہیں۔


اب معاشرتی حقوق میں انصاف پسندی کے عام رجحان کی وجہ سے مذکورہ رسم آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے اور اولاد کی تعداد کے مطابق فرداًفرداً سب کو قانونی و شرعی حصہ ملنے لگا ہے۔ پنجاب کے بعض علاقوں میں عورت کو بادل نخواستہ کچھ نہ کچھ حصہّ دینا پڑتا ہے۔ غیر منقولہ جائیداد میں بھی سال میں دو بار حصہ بٹایا جاتا ہے۔([25])سندھ:


سندھ کے علاقوں میں عمومی طور پر عورت کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا۔ عورت کا جہیز ہی اس کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اردو بولنے والے خاندانوں میں بیٹیوں کو بھاری جہیز وراثت کے نام پر دیا جاتا ہے اور اگر عورت کو حصہ بھی دیا جاتا ہے تو عورت اس سے عموماً دستبردار ہو جاتی ہے ۔تھر کے علاقے میں عورت وراثت لے سکتی ہے۔ جاگیر دار خاندانوں میں ’’ حق بخشوانا‘‘ کی رسم پر عمل کیا جاتا ہے۔عورتوں کو اراضی کی وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے بعض حالات میں نقدی یا پھر گھر دیا جاتا ہے۔ سندھی بیوہ عورت کو بچوں کے حق میں زبر دستی وراثت سے دستبردار کرایا جاتا ہے۔([26])


جاگیردار عورت کی جائیداد پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں بعض اوقات جائیداد کی وجہ سے عورتوں کو خفیہ طور پر قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔([27])سندھ میں قرآن سے شادی جیسا مکروہ فعل متبرک خیال کیا جاتا ہے ۔ لڑکی قرآن سے شادی کے نام پر لڑکی سے نکاح کا حق بخشوا لیتے ہیں تاکہ جائیداد خاندان سے باہر نہ جائے۔ اس طرح لڑکی تمام عمر مایوسانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔([28]) جاگیردار گھرانوں میں لڑکیوں کی شادیاں ان کے چچا یا تایا زاد کے ساتھ کر دی جاتی ہے تاکہ جائیداد یا زمین خاندان سے باہر نہ جاسکے۔ 


جہاں خاندان میں شادی کرنا ممکن نہیں ہوتا وہاں بیٹی کو حق بخشوائی کے دستور پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کی شادی قرآن سے کر کے اسے شادی کے تمام فوائد سے محروم کر دیا جاتا ہے۔خیبر پختونخواہ:


سرحدی علاقوں میں عورتوں کو عام طور پر غیر منقولہ جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا۔ ڈیرہ اسماعیل 


خان،مردان ، صوابی میں کہیں کہیں بیٹیوں کو منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر زیورات اور گھریلو سازوسامان بیٹیوں بہنوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لڑکوں کی موجودگی میں 


عورتیں زمین کی وارث نہیں بن سکتیں۔([29])


بیواؤں کے لیے الگ سے وراثت کاکوئی تصور موجود نہیں ہے۔ اور عموماً انہیں جائیداد میں وارث کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا جاتا ۔([30])


پختون روایت میں زمین عزت کے تین بنیادی ستون میں سے ایک ہے۔ لہذاٰ یہ خاندان سے باہر نہیں جا سکتی ۔اسی سوچ کے تحت جائیداد بیٹیوں کے حوالے نہیں کی جاسکتی۔ ([31])


بلوچستان:


عمومی طور پر عورتوں کو وراثت نہیں دی جاتی۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ عورتوں کو نقد اور کچھ دوسری منقولہ جائیداد دی جائے ۔ قبائلی عورتیں جائیداد کی مکمل وارث نہیں بن سکتیں۔ ہزارہ جاتوں اور نو آباد لوگوں میں لڑکیوں کو جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہے لیکن اس کا تمام کنٹرول چچاؤں کے پاس ہوتا ہے۔([32])


بلوچستان میں بیواؤں کی جائیداد ہتھیانے کے لیے انہیں سسرال میں ہی کسی سے دوبارہ شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔([33]) بلوچی شوہربسترِ مرگ پر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کی جائیداد سے محروم رہ جاتی ہے ۔([34]) عورت کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے مردوں کو بستر مرگ پر بھی اپنے اللہ کے حکم کی پرواہ نہیں رہتی۔ وہ مرتے وقت اپنی بیوی کو طلاق دے کر بدترین عمل کے مرتکب ہونے سے بھی نہیں گھبراتے ۔صرف اسی بات کو اگر تصور میں لا کر دیکھا جائے تومحسوس ہوتا ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں عورتوں کے بنیادی حقوق کس بھونڈے انداز میں پامال ہوتے ہیں۔عورتوں کو جائیداد سے محروم رکھنے کے حیلے تراشے جاتے ہیں یہی نہیں عورتوں پر ظلم و تشدد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔


ایک اخبار ی اطلاع کے مطابق ایک شخص طالب شاہ اور اس کے بیٹے جعفر نے پندرہ سال سے لے کر چالیس سال تک کی تقریباً دو سو عورتوں کو مغربی پنجاب کے موضع جمن شاہ میں اپنے ڈیرے پر قید کئے رکھا جب سرکار نے مداخلت کی تو معلوم ہوا بعض عورتیں پچیس پچیس سال سے وہاں قید رکھی گئیں ہیں ان عورتوں میں اکثریت ان سرائیکی خواتین کی تھی جو اس علاقے کے جاگیرداروں کی بیٹیاں تھیں اور ان 


کو وہاں وراثت میں ملنے والی جائیداد سے بچنے کے لیے قید میں ڈالا گیا تھا([35])


ایک اور خبر کے مطابق محمد حسین نامی ایک شخص کا انتقال ہوا تو اس کی اولاد نرینہ نہ تھی بلکہ آٹھ بیٹیاں 


تھیں۔ مرحوم کافی اراضی کا مالک تھا جس کا انتظام اس کی وفات کے بعد بڑی بیٹی زبیدہ نے سنبھال لیا لیکن چچا نے زبردستی نہ صرف زمین پر قبضہ کر لیا بلکہ تین بیٹیوں کو بھی یر غمال بنا لیا۔ چنانچہ ہائیکورٹ کی مداخلت سے ان بیٹیوں کو رہائی نصیب ہوئی لیکن زمین کا تنازعہ جاری رہا۔([36]) اخبار ہی کی ایک اور خبر کے مطابق کمالیہ میں زمین کی خاطر ماں اور اس کی دو بیٹیوں شہناز اور رضیہ کو کمالیہ میں اس کے تین بیٹوں نے کلہاڑی سے قتل کر دیا کیونکہ ان بیٹیوں نے باپ کی جائیداد میں سے ماں اور بہنوں کا حصہ مانگا تھا۔([37])


عورتوں کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے شوہر کے قتل کا جھوٹا الزام بھی لگا دیا جاتا ہے۔ملتان کی سنٹرل جیل میں قید عورتوں کا سروے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر عورتوں پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کو قتل کیا ہے۔ یہ الزام ان پر اس لیے لگایا گیا کہ وہ شوہر کی جائیداد کی وارث یا حصہ دار نہ بن سکیں۔([38])


اس طرح کی بے شمار خبروں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں ۔آئے دن مختلف مقامات سے ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ جائیداد کے تقاضے پر عورتوں کو نہ صرف تنگ کیا جاتا ہے بلکہ ان پر جبرو تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ،جہاں زیادہ تر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد سے محروم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ وہاں ہمیں کچھ مثالیں ایسی بھی ملتی ہیں جن میں عورتوں کو جائیداد کا حق دیا جاتا ہے۔ اکثر علاقوں میں اگر لڑکی ساری عمر شادی کرنے سے انکار کرے تو پھر اسے جائیدا دی جاتی ہے تا کہ اسی خاندان میں رہے۔سندھ کے علاقے تھر میں اگر کوئی شخص صرف بیٹیاں چھوڑ کر مر جائے تو عموماً بیٹیاں اس کی جائیداد کی مالک بن جاتی ہیں۔([39])


کچھ پڑھے لکھے زمیندار گھرانوں اور شہروں میں آباد خاندانوں میں بیٹیوں کو وراثت میں سے ان کا جائز حق دے دیا جاتا ہے۔


کچھ ایسی روایات موجود ہیں کہ جائیداد کی بجائے بہنوں کو دوسرے طریقوں سے جائیداد کی تلافی کی جاتی ہے مثلاً پنجاب میں ’’ نانک‘‘ کی روایت ہے جہاں بھائیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بہن کی بیٹی کے جہیز کا انتظام کرے یا کم از کم تمام عمر بھانجے ، بھانجیوں کو تحفے ،تحائف دیتا رہے اور ان کی پرورش میں بہن کی مدد کرے۔کوہستان میں اس روایت کو ’’ پالنا‘‘ کہتے ہیں۔اس کے تحت بھائی اپنی بہنوں کے بچوں کو پیسے دیتے ہیں۔([40])


شیعہ فقہ کے مطابق اگر کسی شخص کے بیٹے نہ ہوں تو بیٹیاں کل جائیداد کی وارث بن سکتی ہیں۔ایسے بہت سے خاندانوں کی مثالیں موجود ہیں جن کی اولاد میں صرف بیٹیاں تھیں اور انہوں نے صرف اس لیے شیعہ ہونے کا اعلان کیا تا کہ ان کی بیٹیاں جائیداد کی وارث بن سکیں۔([41])


وراثت کی اسی صورتحال کے پیشِ نظر محققہ نے عورت کی وراثت کی صورتحال جاننے کے لیے ایک سروے کیا جس کی رپورٹ کو مرتب کیا گیا تویہ نتیجہ سامنے آیا کہ پاکستانی معاشرے میں عورت کی وراثت کی عملی صورتحال افسوسناک ہے ،مختلف حیلوں ، بہانوں سے ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا ہے یا حق بخشوا لیا جاتا ہے۔۸۵ فیصد عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ باقی ۱۵ فیصد عورتوں میں سے ۱۰ فیصد خواتین کو صرف منقولہ جائیداد میں سے حصہ دیا جاتا ہے اور صرف ۵فیصد خواتین ایسی ہیں جو منقولہ اور غیر منقولہ دونوں قسم کی جائیداد میں سے حق وراثت وصول کر پاتی ہیں۔ تقریباً کم و بیش ہر صوبے کی یہی صورتحال ہے۔ 


عملی طور پر عورت کا حق وراثت مسلم معاشروں میں پامال ہو رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ،برصغیر پاک و ہند میں ہندو رسم و رواج کے پیشِ نظر عورتوں کو وراثت سے مختلف حیلوں بہانوں سے محروم رکھنے کی وبا روز افزوں ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی ہندو رسم و رواج کا اثر لیتے ہوئے عورتوں کو ان کے شرعی حق وراثت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔رواجی قانون اور دستور کی وجہ سے عورتوں کو وراثت سے محروم رکھنا۔ عورتوں کو جہیز دے دینا وغیرہ۔ لیکن اس کی ایک اہم اور بڑی وجہ عورتوں میں تعلیم و شعور کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے وراثت کے حق اور قانون سے ناواقف رہتی ہیں۔ عورت جتنی پڑھی لکھی اور با شعور ہوتی ہے وہ اتنا ہی وراثت کے حق سے واقف ہوتی ہے۔ اور خاندان کی مخالفت و تنقید کے باوجود اپنا حق پالیتی ہیں۔


مشہور ماہرِ قانون اور عورتوں کی سماجی کارکن رشیدہ پٹیل لکھتی ہیں کہ وارث ہونے کے اسلامی قانونی حق سے مسلمان عورت کو اس سبب سے محروم رکھا جاتا ہے کہ وہ قانونی ضابطے جو مسلمان متوفی کی املاک کے بندوبست سے تعلق رکھتے ہیں، غیر اطمینان بخش ہیں ۔متوفی کی جائیداد بغیر کسی عدالتی کاروائی کی طرف رجوع کئے ورثاء میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ جہاں کہیں قرضوں یا اثاثوں کی وصولیاتی کاسوال ہوتا ہے، منقولہ اثاثوں کے لیے ایک صداقت نامہ وراثت اور جہاں غیر منقولہ جائیداد ہے قانونِ وراثت بابت ۱۹۲۵ء اہتمام ترکہ کے پروانے حاصل کرنا پڑتے ہیں ۔عام طور پر متوفی کے اثاثے مرحوم کے مرد ورثاء کی نگرانی اور قبضے میں ہوتے ہیں اور خواتین ورثاء کو ان اثاثوں کے وجود یا جگہ تک کا پتہ نہیں ہوتا۔ اثاثے عموماً بغیر کسی عدالتی کاروائی کئے تقسیم کر لیے جاتے ہیں۔ جب ورثاء میں جھگڑے پیدا ہوتے ہیں تو اہتمام ترکہ کی نالش دائر کی جاسکتی ہے ۔ لیکن اثاثوں سے نا واقفیت ،اسٹامپ ڈیوٹی ،مقدمہ بازی کے خرچ اور طوالت عدالت تک جانے پر عورتوں پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں، اس کی وجہ سے بھی خاتون کو جسے وراثت سے محروم رکھا گیا ہے ،عدالت تک جانے سے باز رکھتے ہیں۔([42]) ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی قرار دیا ہے کہ بہنوں کو وراثت میں سے حصہ نہ دینا ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔ مرد ورثاء مختلف طریقوں سے ان کی جائیداد اپنے نام کرا لیتے ہیں۔([43])


وراثت ایک بڑا پیچیدہ مگر اسلامی قانون کا ایک اہم اور مرکزی نقطہ ہے۔ نبی اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق علمِ وراثت کا سیکھنا نہایت ضروری ہے ۔قرآن مجید میں وراثت کے قوانین کو نہایت واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بعض مسلم ممالک میں وراثت کے قرآنی قوانین پر عمل کیا جاتا ہےجبکہ بعض مسلم ممالک میں وراثت کے قوانین میں جزوی ترامیم بھی کی گئی ہے۔ بعض معاملات میں شیعہ قانون سُنی قانونِ وراثت سے مختلف ہے۔ کہیں پر رواجی قوانین ہیں تو کہیں عادۃ کا قانون جو عورت کو مرد سے زیادہ یا برابر کے وراثتی حقوق عطا کرتا ہے۔ اسی بات کے پیشِ نظر پاکستان کے قوانین وراثت کا مختصر جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان میں وراثت کے قوانین میں کونسی جزوی ترامیم کی گئی ہیں یا پاکستانی قانون وراثت عورت کو کیا تحفظات فراہم کرتا ہے۔


عورت کی وراثت اور پاکستانی قوانین:


پاکستان میں رائج قانون وراثت کے بارے میں کئی ابہام پائے جاتے ہیں ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصے تک پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی اکثریتی علاقوں اور خاندانوں میں جانشینی اور وراثت مسلم قانون کے تحت نہیں بلکہ رواجی قانون کے تحت تقسیم ہوتی تھی اور اس بارے میں کوئی یکساں قانون نہیں تھا ۔۱۹۳۵ء میں صوبہ سرحد میں شریعت کے قانون کا اطلاق ہوا لیکن اس کے ساتھ 


ساتھ رواجی قانون بھی برقرار رہا۔ 


پاکستان بننے کے بعد ابتدائی سالوں میں صوبوں نے شریعت ایکٹ ۱۹۳۷ء میں ترامیم کے ذریعے عورتوں 


کو وراثت میں زرعی زمین حاصل کرنے کا حق دیا لیکن پھر بھی بہت سے معاہدات میں رواجی قانون ختم نہ ہوا۔


۱۹۶۳ء کے مسلم شخصی شریعت ایکٹ نے مسلمانوں کے لیے بہت سے معاملات بشمول وراثت میں مسلم قانون کا نفاذ کیا۔اس قانون نے ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۵ء کے شریعت ایکٹ کو منسوخ کر دیا اور نئے قانون کا نفاذ ہوا۔ ۱۹۶۲ء کے قانون کے نفاذ کے بعد بھی وراثت کے حوالے سے رواجی قانون کی صورتحال یکسر تبدیل نہ ہوئی کیونکہ ۱۸۷۲ء کا پنجاب لاء ایکٹ نافذ تھا جس کی دفعہ پانچ کے تحت وراثت خاندانوں میں جہاں رواج کا سلسلہ چلا آرہا تھا ان کے لیے وراثت و جانشینی میں ایک حد تک رواج کا اطلاق رہا۔ لیکن ۱۹۸۳ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے پنجاب لاء ز ایکٹ کی دفعہ پانچ کو کالعدم قرار دےدیا۔([44]) پاکستان میں آبادی کی اکثریت سنی اور حنفی فقہ کی پیرو کار ہے اس لیے پاکستانی قانونِ وراثت میں حنفی فقہ کی پیروی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں شیعوں پر شیعہ قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔


پاکستان کے قانونِ وراثت میں بیوی،ماں،بیٹی، بہن اور پوتی کی حیثیت سے خواتین کی وراثت کے حقوق کی بنیادی اصول کی روشنی میں وہی تقلید کی گئی ہے جس کا تذکرہ پہلے کیا جا چکا ہے۔ البتہ یتیم پوتے اور پوتی کے حق وراثت کے حوالے سے مسلم عائلی قوانین ۱۹۶۱ء کے لیے ترمیم کی گئی تھی۔


اسلامی قانون کے مطابق اگر کوئی مرحوم اپنا بیٹا اور پہلے سے مرنے والے بیٹے کی اولاد پیچھے چھوڑتا ہے تو یہ یتیم پوتے پوتیاں وراثت سے محروم رہیں گے۔پوتی کو ان حالات میں بعض اوقات حصہ ملتا ہے اور بعض حالات میں نہیں ملتا ۔


مسلم عائلی قوانین ۱۹۶۱ء کے لیے اس آرڈی نینس کی دفعہ نمبر ۴ میں یتیم پوتے کی وراثت کا قانون حسبِ ذیل الفاظ میں بیان ہوا ہے:۔


4. succession. In the event of the death of any son or daughter of porosities before the opening of succession. The children of such son or daughter ,if any, living at the time the succession opens, shall per stripes receive a share equivalent to the share which such son or daughter as the case maybe , would have received , if alive. ([45])


جس کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے کہ مورث اعلیٰ کی جانشینی کے فیصلے سے پہلے اگر اس کی کوئی بیٹی یا بیٹا مر جائے تو اس پہلے مرنے والے بیٹے یا بیٹی کی اولاد اگر ہو اور وہ جانشینی کے فیصلے کے وقت زندہ ہو تو وہ حصہ ملے گا جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو ملتا اگر وہ زندہ ہوتے۔ 


مثلاً مسلم فیملی لا ء ز آرڈی نینس ۱۹۶۱ء کی رُو سے اگر کوئی شخص مر جاےء اور وہ اپنے پیچھے ایک بیٹی اور ایک پوتی چھوڑ جائے تو بیٹی کو ۳؍۱ اور پوتی کو ۳؍۲ ملے گا۔([46]) جب کہ فقہ حنفی کے مطابق بیٹی کو ۲؍۱ ملے گا اور پوتی کو ۶؍۱ ملے گا۔ اس کی دلیل میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے بیٹی ،پوتی اور بہن کے متعلق فرمایا :۔ 


ان للبنت النصف والاابنۃ الابن السدس تکملۃ الثلثین وما بقی فلاخت۔([47]) ’’ بیٹی کو آدھا اور پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا۔ تاکہ ثلث کی تکمیل ہو جائے اور جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا‘‘ 


اس حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیٹی کے لیے نصف اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہے۔ جب کہ اگر پاکستان کے مسلم عائلی قوانین ۱۹۶۱ء کی روسے دیکھیں تو بیٹی کو ۳؍۱ اور پوتی کو ۳؍۲ دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اسلامی قانونِ وراثت سے انحراف ہے اور غیر منصفانہ ہے۔ اگر پہلے مرنے والے بیٹے کی بیٹی کو اس کے باپ کا حصہ دیتے ہیں تو پھر یہ قرآن کے متعین کردہ حصے سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ علماء نے بھی اس کی مخالفت کی اور اسے غیر منصفانہ قرار دیا۔


حافظ احمد یار اپنے تحقیقی مقالہ میں بیان کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے ۴ اگست ۱۹۵۵ء کو ایک ’’ شادی اور عائلی قوانین کا کمیشن ‘‘ مقرر کیا جسے مختصراً عائلی کمیشن کہا جا سکتا ہے۔ اس کمیشن کی اصل رپورٹ کا نوٹیفیکیشن ۲۰ جون ۱۹۵۶ء کو آیا تھا۔ اور اس مسئلے پر مولانا احتشام الحق تھانوی کا اختلافی نوٹ جون ۱۹۵۶ء کو آیا جس میں انھوں نے اس قانون سے اختلاف کیا اور متقدین فقہاء کا مو قف اختیار کیا ۔ ۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء کے مارشل لاء کے نتیجے میں جنرل ایوب خان ملک کے حکمران بنے اور ۱۹۵۹ء میں ’’ اپوا‘‘ ( انجمن بیگمات پاکستان) کی طرف سے عائلی کمیشن کی سفارشات کو قانوناً نافذ کرنے کے مطالبے پر ۲ مارچ ۱۹۶۱ء کو مسلم فیملی لاز آرڈی نینس کا صدارتی حکم جاری ہوا۔([48])


اِس آرڈی نینس پر دو طرح کا ردِ عمل سامنے آیا۔ جدت پسند حلقوں نے اس کی تائید اور حمایت کی۔ پنجاب 


کے ۱۴ علماء کے ایک بورڈ نے ( جس میں بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ چاروں مکتبِ فکر کے علماء شامل تھے) متفقہ طور پر آرڈی نینس کی دفعات نمبر ۴،۵،۶،۷ اور ۱۲ کو خلاف شریعت قرار دیا جن میں دفعہ ۴ یتیم پوتے،پوتی کی وراثت سے متعلق تھی مشرقی پاکستان کے علماء نے بھی ان قوانین کے خلاف احتجاج کیا ۱۹۶۲ء میں بھی مغربی پاکستان میں اس کے خلاف اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی گئی ۱۹۶۴ء اور ۱۹۶۷ء میں بھی اس پر بحث جاری رہی اور ۱۹۶۹ء میں بھی علماء کی کونسل نے اپنا موء قف حکومت کو بھجوایا۔ اس کے بعد تقریباً دس سال تک اس مسئلے پر خاموشی رہی اور یہ قانون بغیر کسی پیش رفت کے نافذ رہے۔([49])۱۵ نومبر ۱۹۷۸ء میں جنرل ضیا ء الحق نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ہدایت کی کہ وہ تمام عائلی قوانین بشمول یتیم پوتے کی وراثت کاازسرِ نو جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں۔کونسل نے ۳۰ اپریل ۱۹۷۹ ء کو اپنی سفارشات پیش کر دیں ،جس کے بعد وزارتِ قانون نے اپنے مراسلہ ۵ جنوری ۱۹۸۰ء میں یہ فیصلہ سنایا جس کی عبارت کا ترجمہ یوں ہے کہ:۔ 


"مسلم عائلی قوانین تمام کے تمام غیر اسلامی ہیں ،یہ کتاب سنت کے منافی ہیں ۔ان کے ذریعے ارتداد کی حد تک قرآنی قوانین میں ترمیم کی جسارت کی گئی ہے اور ان قوانین کا وجود مذہب اسلام اور ہمارے اسلامی ملک کے دامن پر ایک داغ ہے اور ایک سّیاہ دھبہ ہیں۔ ان قوانین کا نام و نشان بھی مٹا دینا چاہئے اور ان کو کاملاًمنسوخ کر کے اس داغ کو صاف کر دینا چاہیے۔ "([50])


لیکن عملاً سرکاری سطح پر اس فیصلے کے باوجود ان قوانین کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا ۔جس کی وجہ سے مارچ ۱۹۸۶ء میں بعض علماء نے عائلی قوانین کے خلاف قرآن و اسلام ہونے کے مسئلے کو دوبارہ چھیڑ دیا گیا اور وہی نظریہ اقربیت اور محجوب الاوارث والی مثالیں پیش کی گئیں۔


حافظ احمد یار ۱۹۶۱ء کے فیملی لاء کی شق ۴ پر محققانہ و مجتہدانہ نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے 


بنیادی چھ وارثوں ( ماں، باپ، بیوی، خاوند، بیٹی،بیٹا) میں سے حق وراثت سے صریح بغاوت ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔مما ترک الوالدان والاقرابون ۔([51])


’’ کہ وراثت ماں باپ سے بھی ملے گی اور بعض دوسرے قریبی رشتے داروں ( مثلاً بیوی،خاوند،بیٹا، بیٹی) 


سے بھی۔‘‘ 


لیکن عائلی قانون ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴ کے مطابق تو وراثت دینے کا حق صرف والدین کی طرف سے تسلیم کیا گیا ہے۔ اور الاقرابون ( جن میں خاوند اور بیوی لازماً شامل ہیں) سے وراثت پانے کے قرآنی حق کا ہی انکار کر دیا گیا۔ 


میاں بیوی کا وراثت میں حصہ تو قراآن کریم کا اتنا واضح حکم ہے کہ اس کو ترک کرنے کی کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی ۔اسی کے پیشِ نظر اہل سنت زوجین کو ذوی الفروض میں رکھ کر سب سے پہلے ان کا حصہ نکالتے ہیں۔ اسی لیے فقہ جعفری میں زوجین کو طبقات ورثاء سے الگ رکھا کہ زوجین ہر طبقے کے ساتھ وراثت پائیں گے وہ کبھی محجوب نہیں ہو سکتے۔ وراثت کو نسبی رشتے داروں تک محدود کرنے اور مرنے والے کی بیوہ کو بھی اس سے محروم کرنا تو ایک لحاظ سے ہندو رواجی قانون وراثت سے بھی بدتر ہے۔قرآن مجید کے مطابق تو بے اولاد بیوہ بھی اپنے خاوند کی وراثت کی لازماً حقدار ہے۔ امریکہ میں بھی اگر آدمی بغیر وصیت کے مر جائے تو حکومت اس کی مکمل جائیداد کی وارث ہوتی ہے البتہ مرنے والے کی صرف بیوہ اپنا حصہ حکومت سے طلب کر سکتی ہے اور اسے کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔([52])


قرآن پاک بیک وقت والدین ،زوجین اور اولاد (بیٹا،بیٹی) کو لازماً وارث بناتی ہے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی (بوقت تقسیم وراثت زندہ ہوتے ہوئے) کسی طرح محروم نہیں کیا جاسکتا۔عائلی قانون ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴ میں خلاف قرآن بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے مقرر کردہ چھ بنیادی وارثوں میں سے صرف دو ( بیٹا،بیٹی) کے لیے حق وراثت (جانشینی) تسلیم کیا گیا ہے۔ آخر مرنے والے خاوند ،مرنے والی بیوی یا مرنے والے ماں اور باپ کا حصہ کیوں نہ نکالا جائے اور پھر ان کے آگے ممکنہ وارثوں میں تقسیم کیا جائے؟ 


اور دوسری خلاف قرآن بات یہ ہے کہ مرنے والے بیٹے یا بیٹی ( بیٹوں یا بیٹیوں) کا حصہ نکال کر آگے ان


کے قرآنی شرعی وارثوں کی بجائے صرف ان کے بیٹوں ،بیٹیوں ہی میں تقسیم کیا گیا ہے ۔آخر مرنے والی بیوی کے خاوند یا مرنے والے خاوند کی بیوہ کو آپ قرآن کے کس حکم کے تحت وراثت سے محروم کر سکتے ہیں؟ ([53]) اور پھر اس قانون سازی نے ملک کے کتنے یتامیٰ کا مسئلہ حل کردیا ہے۔ اسی طرح دادا کی وراثت سے حصہ لینے والے یتیم تو شاید پورے ملک میں ایک سو فی لاکھ بھی مشکل ہوں گے۔ کیا باقی یتامیٰ کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے؟ کاش کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر ملک بھر کے یتامیٰ کے مسائل کے لئے قرآنی احکامات کے مطابق وصیت اور قانون کے نفاذ کے ذریعے قانون سازی کی جاتی۔


حکومتِ مصر نے اس مسئلہ کا حل ’’ وصیۃ الواجبۃ ‘‘ کا قانون نافذ کر کے کیا ہے۔ کہ میت کے پوتے پوتیوں ،نواسے نواسیاں میت کے ورثہ میں سے اپنے مرحوم والدین کے حصے کی مستحق ہو ں گی۔ جو ان کے والدین کو ملتا اگر وہ زندہ ہوتے لیکن ضروری تھا کہ وہ حصہ کل ترکے کی ایک تہائی ۳؍۱ تک ہو۔


اس کے برعکس پاکستان میں چونکہ محجوب الارث کو مورث کی وصیت سے متمتع ہونے کا بذریعہ قانون موقع ہی نہیں دیاگیا یعنی یہاں قرآنی قانون وصیت نافذ نہیں اس لیے یہاں اس مقصد کے لئے یعنی محجوب الارث کو کچھ دلانے کے لیے قرآن کے قانون وراثت میں ہی تحریف کر دی گئی۔


یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ میں حکومت مصر کا قانونی حل نسبتاً قرآن و سنت سے قریب تر اور اسلامی ہے۔جب کہ حکومت پاکستان کا حل (قانون) قرآن سے بیگانہ ، ہندو رواجی قانون سے قریب تر اور محض ’’ عوامی‘‘ ہے۔ ([54])


اسی طرح سے ۸ مارچ ۲۰۱۲ء میں پنجاب حکومت نے خواتین کے وراثتی حق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرتے ہوئے ایک قانون پاس کیا جس کی رو سے پنجاب میں خواتین کا وراثت میں حصہ یقینی بنانے کے لیے انتقال وراثت کے فوراً بعد جائیداد کی فوری تقسیم لازمی قرار دی گئی ہے۔ جائیداد کی منتقلی کے لیے فوت شدہ مالک اور تمام ورثاء بشمول شناختی کارڈ اور ب فارم ریونیو آفیسر کے سامنے پیش کرنا لازمی ہے تاکہ کوئی حقدار محروم نہ رہ جائے۔ وارثان کے ۳۰ یوم میں باہم رضامندی سے تقسیم جائیداد پر متفق نہ ہونے کی صورت میں ریونیو آفیسر مذکورہ جائیداد کو از خود تقسیم کردے گا۔ اور شکایت کی سماعت اور ازالہ کے لیے ہر ضلع میں District Enforcement of Inheritance Rights" committee" قائم کر


دی گئی۔([55])


عورت کی وراثت اور اسلامی تعلیمات:


وہ عورت جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے حسنِ سلوک اور اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے۔ آج انسان ان عورتوں سے ظالمانہ سلوک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورتوں کے حقوق کی اس قدر اہمیت ہے کہ قرآن مجید میں لڑکیوں کے حصّے کو اصل بنیاد قرار دیا اور اس اعتبار سے لڑکوں کا حصّہ بتایا۔اب ایسے لوگ جو بہنوں کو حصہ نہیں دیتے اور نا بالغ لڑکیوں کو بھی وراثت سے محروم رکھتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے وعید ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔


تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ۔ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ۔([56])


’’ یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم پر چلے گا تو اسے ایسی جنتوں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ہمیشہ رہیں گے اس میں اور یہی بڑی کامیابی ہےاور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے گا اور حدوں سے نکل جائے گا تو اسے آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔‘‘


پس جو لوگ اپنی بہنوں کو میراث میں حصہ نہیں دیتے اور ان کا حق دبا لیتے ہیں وہ لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نافرمان ہیں اور اپنی بہنوں کو میراث سے محروم کر کے اپنے لئے جہنم کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔


جو شخص کسی کی زمین ناحق لیتا ہے اس کے بارے میں فرمانِ رسولﷺ ہے:۔


عن سالم عن ابیہ،قال قال رسول ،من اخذ من الارض شیئاً بغیر حقہ خسف بہٰ یوم القیامۃ سبع ارضین۔([57])


" حضرت سالمؓ اپنے والد سے اور وہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی کی زمین کا کوئی حصہ بھی ناحق لے گا تو وہ قیامت کے دن اس زمین کے ساتھ سات زمینوں تک دھنسا یا جائیگا"


ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:


عن ابی ھریرہ ،عن النبیﷺ قال، من اخذ من الارض شبراً بغیر حقہٗ طوقہ من سبع ارضین۔([58])


’’ حضرت ابی ہریرہ سے روایت ہے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا جو کسی کی زمین میں سےایک بالشت بھی بغیر 


حق کے لے گا۔تو اسے سات زمینوں کا طوق بنا کر پہنایا جائے گا۔‘‘ 


کسی کی ایک بالشت زمین بھی لینے پر اللہ تعالیٰ اسے سخت سزا دیں گے کہ طوق بنا کر اسے گلے میں ڈال دی جائے گی اور وہ قیامت کے دن تک اس درد ناک عذاب میں مبتلا رہے گا۔ تو پھر لڑکیوں اور اپنی بہنوں کا حصہ نہ دینے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ اسی طرح اور متعدد احادیث میں ایسے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کو احادیث میں بدترین شخص کہا گیا ہے۔ ان کی جتنی بھی نیکیاں ہوں گی ان کے کسی کام نہ آئیں گی اگر انہوں نے کسی کا مال ناحق کھایا ہو گا تو ان کی نیکیاں مظلوم لوگوں میں بانٹ دی جائیں گی۔ اور انہیں جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ 


تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عورت کو میراث میں حصہ نہ دینا اسلام میں اور نبی پاک ﷺ کی نظر میں نہایت ہی برا فعل ہے ۔عورت حقیقی وارث ہے چاہے وہ بہن ہو،ماں ہو ،بیٹی ہو یا بیوی اور کسی وارث کو جائیداد سے محروم کرنا جائز نہیں ۔


حضرت انسؓ سے روایت ہے :عن انس قال قال رسول اللہ من فَرَّ میراث وارثہٗ قطع اللہ من الجنّۃ یوم القیامۃ۔([59]) ’’ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جوشخص اپنے کسی وارث کی میراث ختم کر دے گا۔ تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت والی میراث ختم کر دے گا۔‘‘ 


اس حدیث کی رو سے خود مرنے والا بھی داخل ہے جو اپنی موت سے قبل اپنے ما ل و جائیدا میں ناجائز اور غلط تصرف کر کے اپنے ورثاء کو جائیداد سے محروم کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ معاشرے میں دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر اولاد میں سے کسی لڑکے سے زیادہ لگاؤ ہے یا اس نے والدین کی زیادہ خدمت کی تو والد اپنی ساری جائیداد اس کے نام کر دیتا ہے۔ جس سے دوسرے وارث لڑکے اور لڑکیاں محروم رہ جاتے ہیں۔ ایسا کرنے والے جنت کی میراث سے محروم رہ جائیں گے۔([60])


بہنوں کے معاف کرنے کی صورتیں:۔


معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ بہنیں اپنا حصہ معاف کر دیتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بہنوں کے معاف کرنے سے معافی ہو جاتی ہے؟ حقیقت حال یہ ہے کہ بہنیں بادل نخواستہ معاف کر دیتی ہیں کہ ملنے والا تو کچھ ہے نہیں، کیوں بھائیوں سے ناراضگی مول لیں۔لیکن واضح رہے کہ اس طرح معاف کرنے سے شرعاً معافی نہیں ہوتی اور نہ ان کا حصہ ختم ہوتا ہے۔ میراث ایک جبری اور واجبی حق ہے ۔ہر حال میں وارث کو اس کا حق دینا قانون شریعت کی رو سے واجب و ضروری ہے۔ اگر کوئی وارث یہ کہہ دے کہ میں نے اپنا حق چھوڑ دیا تو صرف یہ کہنے سے میراث سے اس کا حق ساقط اور ختم نہیں ہو گا۔ فقہاء کرام کے نزدیک اگر کوئی وارث اپنی زبان سے یوں بھی کہہ دے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا یا لیتی تب بھی اس کے کہنے سے اسکا حق اور حصہ میراث ساقط نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے حصہ وراثت کا مستحق ،حقدار ہوگا۔ علامہ ابن نجیم اسی بات کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔


لو قال الوارث ترکت حق لم یبطل حقہ اذا لملک لا یبطل بالترک۔([61])


’’ اگر وارث نے کہا کہ میں نے اپنا حق چھوڑ دیا تو یہ کہنے سے اسکا حق باطل نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ ملکیت چھوڑنے سے باطل نہیں ہوتی۔‘‘


مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ باپ کے مرتے ہی جو لڑکیاں آمدنی اور زمین لینے سے انکار کر دیتی ہیں وہ انکار معتبر نہیں کیونکہ اس وقت صدمہ تازہ ہوتا ہے۔ اس صدمے سے ان کو نفع و نقصان کا خیال نہیں ہوتا۔ دوسرا رواج یہی پڑا ہو ا ہے کہ بہنوں کو میراث سے محروم سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنا حق لیتے ہوئے بدنامی سے ڈرتی ہے ۔تیسرے ان کو اپنے حق کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ کتنا ہے اور کس قدر ہے۔ جب صدمے کا وقت گزر جائے تو تم ان سے کہو کہ تمہارا شرعی حق ہے اور تم کو لینا پڑے گا۔([62])


نتائج بحث


مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وراثت ایک لازمی واجبی حق ہے۔ وارث ہر حال میں اس کا مستحق ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں جو لڑکیاں بادل نخواستہ اپنا حقِ وراثت معاف کر دیتی ہیں کہ ناراضگی سے بچ سکیں اس طرح ان کا حق ساقط نہیں ہوتا۔ بلکہ بھائیوں پر لازم ہے کہ ان کا حق 


انہیں دیں۔


اسی طرح عورتوں کو مختلف مواقع پر تحفہ تحائف دے دینا یا عید شب رات دینے سے بھی سبکدوش نہیں ہو سکتی۔یہ ایک غیر شرعی تصور ہے کہ جب لڑکیاں اپنے مرنے والے والدین کی میراث کا مطالبہ کرتی ہیں تو ان کے بھائی ناراض ہو جاتے ہیں اور تعلقات خراب ہونے کی دھمکی دیتے ہیں ۔بہنوں کی میراث طلب کرنے پر بھائیوں کا اس طرح ناراض ہو جانا نہایت غلط ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حقدار بنایا ہے


تو انہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان کا حق میراث غصب کریں۔


قرآن مجید میں ۱۳ افراد کے وراثت کے حصوں کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے ۸ عورتیں ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید عورتوں کے وراثت میں حصے کی اہمیت پر کتنا زور دیتا ہے ۔بدقسمتی سے رواج نے عورتوں میں زمین کی تقسیم کی حوصلہ شکنی کر کے انہیں ان کے حصے سے ہمیشہ محروم کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس قانونی وراثت کی خلاف ورزی کے نتیجے میں بڑی بڑی زمینداریاں وجود میں آ ئی ہیں اور زمینداروں کا ایسا طبقہ پیدا ہوا جس نے نہ صرف معاشر ے کی جدید کاری کاراستہ روکا ہے بلکہ خوشحالی میں بھی رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔ اس معاشی عدم توازن کا بدترین شکار عورتیں ہیں۔ جو اس عمل میں اپنے معاشی اور سماجی وجود سے محروم ہو چکی ہیں۔اس لیے ان رواجوں کو ختم کرنا اور عورتوں کے ملکیت اور وراثت کے حقوق بحال کرنا ،سوسائٹی اور ریا ست دونوں کے مفاد میں ہے۔ 


ہمارے معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ بیٹی کی وراثت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ہم نے بیٹی کی شادی تو کر دی ہے جو کچھ بیٹی کو جہیز کی شکل میں دے دیا ،اس سے اس کا حق ادا ہو گیا۔ یہ بالکل غلط ہے بیٹی کو جہیز دینا ایک غیر شرعی رسم ہے ۔جہیز دینے سے بیٹی کا وراثت میں حق ختم نہیں ہوتا ۔بیٹی کو کم دینا یا بالکل نہ دینا شرعاًظلم ہے یہ ساری نا انصافی دراصل اس جاہلانہ تصور کی بنیاد پر ہے۔ جو زمانہ جاہلیت سے چلی آ رہی ہے۔


زندگی میں بیٹی اور بیٹے کا حق برابر ہے۔ لہذاٰ ان کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے۔ناانصافی کر کے گناہ گار نہیں ہونا چاہیے۔عورت کے وراثتی حقوق سلب کرنا تمام برائیوں اور معاشرتی بگاڑ کا سبب ہے۔ اگر عورت کو اس کا معاشی حق دیا جائے تو معاشرے سے ہر طرح کے ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر مسلمان عورت کو اس کا وراثتی حق دینا شروع کر دیں تو دوسرے تمام


حقوق خود بخود اسے مل جائیں گے۔ 


سفارشات


وراثت کا موضوع اسلامی قوانین میں نہایت اہمیت کاحامل ہے۔ تحقیقی نتائج کو دیکھتے ہوئے چند سفارشات اہل علم کی نظر کی جاتی ہیں۔


* عورتوں میں اپنے وراثتی حقوق سے آگاہی پیدا کرنے کے لئے، وراثت کے موضوع کوسکول، کالج اور 


یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے نصاب میں شامل کیا جائے۔ مزید علماء ،فقہاء کرام عوام الناس کے اندر یہ شعور پیدا کریں کہ وہ اپنی بہنوں،ماؤں اور بیٹیوں کو ان کے وراثتی حقوق ادا کریں۔ 


*حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین کو اپنے وراثتی حقوق سے آگاہی کے لئے پروگرام کو علاقائی زبانوں میں پیش کرنے کا انتظام کرے اور مزید برآں قانون سازی کر ے کہ عورتوں کو ان کے حق وراثت سے محروم کرنے پر نہ صرف سزا مقرر کی جائے بلکہ قانونی رہنمائی کے عمل کو آسان بنایا جائے۔ 


* عورتوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے خاندان کا کردار بھی بڑا اہم ہے۔ تاکہ ہم اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کر کے ان کو معاشی و معاشرتی حوالے سے مضبوط ومستحکم بناسکیں۔ 


Share: