دولت کی مصیبت


وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکۡوٰی بِہَا جِبَاہُہُمۡ وَ جُنُوۡبُہُمۡ وَ ظُہُوۡرُہُمۡ ؕ ہٰذَا مَا کَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡنِزُوۡنَ O

’’ اور وہ لوگ جو جمع کرتے ہیں اپنے پاس سونا اور چاندی اور خر چ نہیں کرتے اس کو اللہ کی راہ میں‘تو ان کو بشارت دے دیجیے درد ناک عذاب کی.جس دن ان (سونے اور چاندی) کو تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں اور پھر داغا جائے گا ان سے ان کی پیشانیوں ‘ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو. (اور ساتھ کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے اپنے لیے اکٹھا کیا تھا ‘تو اب چکھو مزہ اس کا جو کچھ تم جمع کرتے تھے.‘‘

(سورہ التوبہ)


حدیثِ مبارکہ ھے کہ 

حضرت ابوذر  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس آیا- آپ اس وقت کعبہ کے سایہ میں بیٹهے هوئے تهے- آپ نے جب مجهے دیکها تو فرمایا کہ کعبہ کے رب کی قسم ، وه لوگ گهاٹے میں ہیں- میں نے کہا کہ میرے باپ اور ماں آپ پر فدا هوں ، وه کون لوگ ہیں- آپ نے فرمایا کہ زیاده مال والے ، سوا اس کے جس کو مال ملے تو وه اپنے آگے اور پیچهے ، اپنے دائیں اور بائیں اس کو خرچ کرے- اور ایسے لوگ بہت کم ہیں - (   متفق علیه   )


یاد رھے  مال خرچ کرنے سے  بھی فائدہ اسی شخص کو ملے گا جو حلال مال اللہ کی رضا کی خاطر خرچ کرے گا اگر مال حرام ھےتو ظاھر ھے اس کا فائدہ نہیں ھو گا اگر مال تو حلال ھے لیکن اللہ کی رضا کی نیت نہیں ھے بلکہ محض دکھاوے کے لئے یا پھر اللہ کے علاوہ کسی اور کی خوشنودی کے لئے خرچ کر رھا ھے تو پھر بھی اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ الٹا قیامت والے دن جوابدھی ھوگی اور دنیا کا عذاب اس شکل میں اُس پر مسلط رھے گا کہ زندگی میں اسے سکون نصیب نہیں ھو گا مثلاً 

ایک شخص معمولی حیثیت کا تها- پهر وه ترقی کر کے دولت مند بن گیا- جب وه معمولی حیثیت کا تها تو وه زیاده خوش ریتا تها- دولت آنے کے بعد وه پریشان رہنے لگا- اس کے ایک پرانے دوست نے پوچها، یار یہ تمہارا کیا حال هو گیا ہے- پہلے تم ہنستے بولتے تهے- هم لوگوں کے ساتھ کافی وقت بھی گزارتے تهے- اب تم اداس  اور پریشان نظر آنے لگے هو- مجلس میں بھی خاموش اور الگ تھلگ رھتے ھو اس نے جواب دیا، یار میرے اوپر دولت کی بجلی گری ہے " دولت نے مجھ کو نئے نئے مسائل میں الجها دیا ہے- بهیڑوں کا ایک فارم  بنایا ھوا ہے تو ھر وقت خیال لگا رھتا ہے کہ اتنی قیمتی بهیڑیں ہیں، پتہ نہیں ان کا کیا هو گا کہیں کسی بیماری سے مر نہ جائیں ۔ کئی ٹرک چل رہے ہیں تو اس کی فکر رھتی  ہے کہ کہیں ایکسیڈنٹ  نہ هو گیا هو- دکانیں ہیں تو ان کی پریشانی کہ ملازم کہیں گڑبڑ نہ کر رہے هوں فیکٹری ھے تو ھر وقت دھڑکہ لگا رھتا ھے کہیں گھاٹے میں نہ چلی جائے  پھر ھر وقت یہ پریشانی سر پر سوار رھتی ھے کہ اگر یہ دولت کم ھو گئی تو پھر میرا کیا بنےگا  بلکہ اس بھی زیادہ یہ پریشانی رھتی ھےکہ دولت میں زیادہ سے زیادہ آضافہ کیسے کروں  بچوں کی طرف سے الگ پریشانی ھے کہ بوجوہ مصروفیات میری عدم توجہ کیوجہ سے وہ خراب نہ ھو جائیں اور میری جمع کی ھوئی دولت کو ضائع نہ کر دیں  غرض جتنی زیاده دولت ہے اتنی ہی زیاده پریشانی اور  فکر ہے- سیلزٹیکس، انکم ٹیکس اور طرح طرح کے قانونی جهگڑے اس کے علاوه  دردِ سر بنے ھوئے ہیں- زندگی لطف سے خالی هو کر بس مسائل اور پیچیدگیوں کا مجموعہ بن گئ  ھوئی ہے- جو دولت آدمی کو سکون نہ دے بلکہ بے چین کر کے دے اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ وه ایک  آسمانی بجلی ہے جو آدمی کے اوپر گر پڑی ہے-

دولت کو اگر صرف اپنی  ھی ذات پر خرچ کیا جائے تو وه عذاب ہے مگر اگر اللہ کے راستہ میں خرچ کیا جائے تو وه نعمت بن جائے گی بشرطیکہ دولت لوٹ کھسوٹ ، غصب، سود، رشوت اور دوسرے غلط طریقوں سے جمع نہ کی گئی ھو

Share: