مرد اور عورت کی برابری کا نظریہ


اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّـٰهُ بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ 

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے


جدید دور نظریاتی کشمکش کا دور ھے  اس دور کو اگر نظریاتی جنگ کا دور کہا جائے تو غلط نہ ھو گا اس دور میں بہت سے باطل نظریات پروان چڑھ رھے ھیں  ان میں ایک نظریہ جو  بہت زیاده عام ہے، وه صنفی مساوات کا نظریہ ھے - اس نظریہ کو دور جدید کی بہت بڑی کامیابی سمجها جاتا ہے- مگر یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے- فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان فرق پایا جاتا ہے - پیدائشی طور پر عورت  اور مرد ایک دوسرے سے مختلف ھیں ۔ عورت اور مرد کے درمیان یہ فرق ایک گہری حکمت پر مبنی ہے- اس کی وجہ سے یہ ممکن هوتا ہے کہ دونوں اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشیر بنیں- حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے نظام کے مطابق صنفی حصے داری کا نظریہ زیاده درست نظریہ ہے، نہ کہ صنفی برابری کا نظریہ- انسان کی زندگی مسائل کا مجموعہ ہے- یہ مسائل ہمیشہ مختلف نوعیت کے هوتے ہیں- اس لیے بار بار یہ ضرورت هوتی ہے کہ زندگی کے دو ساتهیوں میں دو مختلف صفات هوں تاکہ ہر مسئلہ کو منیج کیا جا سکے- ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مسائل حیات کے حل میں اپنا اپنا حصہ ادا کر سکے- ایک شریک حیات ایک اعتبار سے اپنا حصہ ادا کرے، اور دوسرا شریک حیات دوسرے اعتبار سے-


فطرت کے نظام میں یکسانیت موجود نہیں، اس لیے اگر عورت اور مرد کے تعلق کو یکسانیت کے اصول پر قائم کیا جائے تو ہمیشہ جهگڑا هوتا رہے گا- ہر ایک ذمے داری کو دوسرے فریق کے اوپر ڈالے گا، اور پهر نزاع کبهی ختم نہ هو گا- اس کے برعکس، صنفی حصے داری کے اصول کو اختیار کرنے کی وجہ سے بلا اعلان تقسیم کا طریقہ رائج هو جائے گا- دونوں خود اپنے فطری تقاضے کے تحت اپنے اپنے دائرے میں مصروف کار رہیں گے- ایک دوسرے سے الجهنے کا طریقہ ختم هو جائے گا- اور ایک دوسرے سے معاونت کا طریقہ رائج هو جائے گا-

مرد اور عورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اور دونوں مل کر زندگی کے سفر کو جاری رکھتے ہیں۔ اس طرح مرد وعورت میں اصل رشتہ تو مل جل کر زندگی گزارنے کا ہے، تاہم جہاں اجتماعیت ہوتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی ہو، وہاں حقوق اور فرائض کی بحث کا چھڑنا ناگزیر ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان حقوق وفرائض کی بحث زمانہ قدیم سے موجود رہی ہے۔ البتہ اس دور میں اس بحث کا آہنگ بہت بلند ہوگیا ہے۔

مرد وعورت کے سلسلے میں عام طور سے دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں، ایک مطلق مساوات کا نظریہ ہے، جو مرد اور عورت کے درمیان ہر طرح کے فرق کو مٹادینے کا قائل ہے، تمام تر زور لگانے کے بعد بھی فرق تو نہیں مٹتا، البتہ زندگی کشمکش اور معرکہ آرائی کا شکار ہوجاتی ہے۔اور دوسرا نظریہ مطلق تفریق اور نابرابری کا ہے، جو مرد کی برتری کو اس قدر بڑھادیتا ہے کہ دونوں کے درمیان تعلق ظلم وجبر کی علامت بن جاتا ہے، اور محسوس ہوتا ہے کہ دونوں شوہر اور بیوی نہیں، بلکہ آقا اور غلام ہیں۔ قرآن مجید نے ایک تیسری صورت بتائی ہے، اور وہ یہ ہے کہ حقوق اور فرائض کے معاملے میں مرد اور عورت یکساں ہیں، البتہ دونوں کے درمیان مطلق مساوات نہیں ہے، بلکہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ (صرف ایک درجہ) تفوق حاصل ہے۔  چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے 

وَلَـهُـنَّ مِثْلُ الَّـذِىْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ (228) 

عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔

اس آیت میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا ذکر بھی ہے، اور مرد کی فوقیت کا ذکر بھی ہے۔ البتہ مطلق فوقیت کی بات نہیں ہے، بلکہ ایک درجہ فوقیت کی بات ہے۔

مساوات اور تفوق کے اس مرکب میں خاندانی نظام کے لیے بڑی برکتیں پوشیدہ ہیں۔ تفوق آمیز مساوات کے اس اصول کو عملی طور پر برتنے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد ہمیشہ مساوات کے پہلو پر نظر رکھے، اور گھر کے ہر معاملے میں عورت کو برابر کا مقام دے۔ دوسری طرف عورت مساوات کے پہلو کا ادراک رکھتے ہوئے بھی ہمیشہ اس ایک درجہ فرق پر نگاہ رکھے، اور جہاں تک ہوسکے اس ایک درجے کا لحاظ کرے۔ چونکہ فرق بہت تھوڑا ہے، اس لیے مرد کے لیے اسے نظر انداز کرنا اور برابری کی سطح پر رہ کر ازدواجی زندگی گزارنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، خاص طور سے اگر عورت کی طرف سے اس کی ایک درجہ فوقیت کو برتنے کی فکر موجود ہو۔ اسی طرح عورت کے لیے برابری سے آگے بڑھ کر اس ایک تھوڑے سے فرق کی رعایت کرلینا بار خاطر نہیں ہوگا، خاص طور سے اگر مرد کی طرف سے اس سلسلے میں رعایت اور نرمی کا معاملہ ہو۔

جس فیملی میں مرد کی نگاہ فرق پر اور عورت کی نگاہ برابری پر ہوتی ہے، وہاں لازمی طور سے کشمکش ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر مرد برابری پر اور عورت فرق پر توجہ دے، تو زندگی بہت سہل اور رواں ہوجاتی ہے۔مرد وعورت کے تعلقات میں ناہمواری اور کشیدگی اس وقت آتی ہے جب مرد اپنی فوقیت کا بہت زیادہ فرق قائم رکھنا چاہتا ہے، جو بسا اوقات عورت کی طاقت اور آمادگی دونوں سے باہر ہوتا ہے۔ جب کہ عورت مکمل برابری قائم رکھنا چاہتی ہے جو بہت سے مردوں پر شاق گزرتی ہے، اور اس طرح حقوق وواجبات کی کشمکش گھر کو تباہ کرڈالتی ہے۔قرآن مجید کی یہ رہنمائی مرد وعورت کو ایک دوسرے سے بہت قریب کردیتی ہے، اور مل جل کر زندگی گزارنے کا سازگار اور عملی ماحول فراہم کرتی ہے۔

جہاں تک عورتوں کے حقوق کی بات ہے اسلام ان کا سب سے بڑا علمبردار ہے لیکن وہ حقوق کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے معاملات میں اور حقوق میں توازن اور بیلنس کی بات بھی کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے مرد اور عورت کو الگ الگ صلاحیتیں، نفسیات اور استعدادات عطا فرمائی ہیں۔ اسلام نے حقوق اور فرائض کی تقسیم فطری امور کو سامنے رکھ کر، دونوں کے فطری تقاضے، ضروریات، اور دونوں کی فطری صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کی ہے، اور وہی متوازن اور فطری تقسیم ہے جو اسلام کرتا ہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو زندگی کا حق دلوایا، وراثت کا حق دلوایا، رائے کا حق دلوایا، علم کا حق دلوایا، معاشرے میں عزت اور احترام عطا کیا، اور عورت کو بطور ماں کے عزت و احترام، بطور بہن اور بیٹی کے شفقت، بطور بیوی کے محبت کے جذبات کی تلقین فرمائی۔ اور خود بھی اپنے عمل کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں اپنے خاندان میں اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔

آج عورت کے حقوق کے نام پر، اور عورت اور مرد کی مساوات کے نام پر جو آواز اٹھائی جا رہی ہے، اور بالخصوص مذہبی اقدار کو، آسمانی تعلیمات کو، اور ان میں سے بھی خصوصاً اسلامی تعلیمات و احکام کو جو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ غیر فطری بات ہے۔ عورت اور مرد کی مساوات مکمل طور پر ممکن ہی نہیں ہے اور فطرت کے بھی خلاف ہے۔ عورت اور مرد کی جسمانی ساخت الگ الگ ہے، نیچرل ڈیوٹیز الگ الگ ہیں، بہت سے معاملات ہیں جو مرد میں ہیں عورت میں نہیں ہیں، جو عورت میں ہیں مرد میں نہیں ہیں، عورت کی جسمانی ساخت مرد سے مختلف ہے، اس کی سائیکالوجی مرد سے مختلف ہے، اس کی قوت کار اور استعداد مرد سے مختلف ہے، لازمی بات ہے کہ فرق تو ہو گا۔ اس فرق کو ملحوظ رکھے بغیر کوئی بھی تقسیم کار یا مساوات اَن نیچرل غیر فطری بات ہے جس کی طرف دنیا کو بلایا جا رہا ہے۔ اور اس کا خمیازہ خود مغرب نے خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں، بکھرنے کی صورت میں خود مغرب بھگت رہا ہے۔ اور مغرب کے دانشور خاندانی نظام کی بحالی کے لیے چیخ و پکار کر رہے ہیں، لیکن وہ آسمانی تعلیمات کی طرف واپس آئے بغیر ممکن نہیں ہے۔

آج بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ، خلفائے راشدینؓ اور اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھ کر عورت کے حقوق کی بات کی جائے تو مسلمان اس کے سب سے زیادہ علمبردار ہیں، لیکن عورت اور مرد کی مساوات کے نام پر، عورت اور مرد کے حقوق کے نام پر جو غیر فطری اور غیر متوازن معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ اور بالخصوص پاکستان میں کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہے، دستور اسلامی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کی ضمانت دیتا ہے، اس لیے پاکستان میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جو اسلامی تہذیب کو، اسلامی تمدن کو، مسلمانوں کی ثقافتی اقدار کو، اور دستور کے تحفظات کو، دستور کی گارنٹیز اور ضمانتوں کو متاثر کرتا ہو۔

یہ حقیقت ھے کہ عورت کی مظلومیت کی بہت سی صورتیں ہیں جو پاکستان میں رائج ہیں، لیکن ان ساری صورتوں کو نظرانداز کر کے ایک دو باتوں پر فوکس کر کے جو اوپن سوسائٹی اور فری سوسائٹی قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ  اسلامی معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں ہے، اور عورتیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر سکتی ہیں، عورتوں کے حقوق کے لیے مردوں کو بھی جدوجہد کرنی چاہیے اور عورتوں کو بھی کرنی چاہیے۔ دستور کے دائرے میں، جمہوریت اور قانون کے دائرے میں، تہذیبی اقدار اور ثقافتی روایات کے دائرے میں، اور اسلامی تعلیمات کے دائرے میں ہر ایسی کوشش کی حمایت کی جانی چاہیے۔ اور ہر اس کوشش کی جو ان دائروں کو متاثر کرتی ہو، اس کی کھلم کھلا مخالفت بہت ضروری ہے۔ اور پاکستان کی سالمیت کا، اس کی نظریاتی شناخت کا، اور تہذیب و ثقافت کا، وہ تہذیب و ثقافت جس کی بنیاد پر مسلمانوں اور ہندؤوں کو الگ الگ قوم شمار کیا گیا تھا، اور قائد اعظم مرحوم تک سب مسلم تہذیب کے تحفظ کے نام پر دو قومی نظریے کی بات کرتے آ رہے ہیں اور جس کی بنیاد پر پاکستان تشکیل پایا ہے، اس کی نفی کرنا یہ پاکستان کے مقصد کے بھی خلاف ہے، نظریے کی بھی خلاف ہے، دستور کے بھی خلاف ہے، اور پاکستانی مسلمانوں کے، پاکستانیوں کے جذبات و روایات کے بھی خلاف ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو صحیح رخ پر ملک و قوم کی اور قوم کے تمام طبقات کے حقوق کی حمایت اور حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

Share: