بر صغیر کے دو نمبریے پیر

    آپ کو کھبی ایسے پیر صاحب سے دورانِ سفر ملاقات کا اتفاق ھوا ھو گا  جو اپنے مریدوں کو  اپنی زیارت کروانے کی غرض سے ایک سے دوسرے شہر جا رھے ھوتے ھیں ۔ لمبی لمبی داڑھی  ،ھاتھ میں تسبیح اور سر پر  بے ترتیبی سے  رکھی  ھوئی  پگڑی  ، لمبا اور کافی چوڑا چوغہ زیب تن کے ھوئے یہ جاھل پیر کسی بہروہیے سے کم نہیں لگ رھے ھوتے۔   اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آپ  نے کون سے  مدرسہ سے پڑھا ھوا ھے  تو جھٹ جواب دیں گے  کہ ھم خاندانی پیر ھیں ۔ پشت در پشت  پیر بنتے  چلے آرھے ھیں۔   میرے دادا پیر تھے ۔ اس کے بعد میرے والد صاحب  گدی نشین ھوئے ۔ والد صاحب کے بعد اب میں گدی نشین پیر ھوں اور ھمارے مریدوں کی تعداد سینکڑوں میں ھے ھم لوگ باطنی علم رکھتے ھیں  جو سینہ بسینہ منتقل ھوتا ھے ۔ مدارس میں پڑھایا جانے والا علم اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں بلکہ مولویوں کے پاس باطنی علم تو سرے سے ھوتا ھی نہیں  وغیرہ وغیرہ گویا بغضِ علماء ان جعلی پیروں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ھوا ھوتا ھے ۔ عموماً اس طرح کے جعلی پیر مزاروں اور نام نہاد آستانوں پر تقریباً ھر وقت دستیاب ھوتے ھیں تاھم آپ کو مساجد میں ان کی شکل نظر آنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ھو گی کیونکہ مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے سے ان نام نہاد پیروں کو خاصی الرجی ھوتی ھے ۔ اگر آپ ان سے دین کے روزمرہ کے مسائل کے بارے میں سوال کریں تو ان  کو دوسرے مسائل تو کیا وضو اور نماز کے فرائض تک سےبھی واقفیت نہیں ھوتی ۔ تیمم کا تو شاید انہوں نے نام ھی نہیں سنا ھوتا اور اسی طرح کے دوسرے بنیادی مسائل سے یہ بالکل ناواقف ھوتے ھیں ۔ تو جناب  یہ ھیں ھمارے معاشرے کے بدنما نمونے یعنی برصغیر کے جاھل پیر جو اپنے ساتھ اپنے ماننے والوں کی بھی آخرت برباد کر رھے ھیں 

ایک بات یہاں عرض کر دوں کہ میرا مقصد تصوف، صوفیاء یا حقیقی پیران ، مشائخ کرام کے خلاف لکھنا ھرگز نہیں ھے ۔ میں خود تصوف و طریقت  کا قائل ہوں لیکن قائل ہونے کا  یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو اپنی زبان سے میاں مٹھو بن بیٹھے ہم اس کو ھی ولی یا پیر مان لیں۔ اسلاف امت میں سلاسل طریقت، تصوف، مشائخ کرام  کی بیعت و ارادت کرنا سب ثابت ہے۔ لیکن افسوس ناک  امر یہ ہے، خاص طور پر ہمارے ہاں بر صغیر میں یہ المیہ ہے کہ پیری مریدی تصوف و طریقت، معرفت و سلوک کو چھوڑ کر فقط ایک رسم  بن کر رہ گئی ہے اور دنیا کمانے کا ایک دھندہ بن گئی ہے۔ ہر شہر میں گلی گلی کوئی بابا  جعلی پیر بیٹھا ہے جس کا شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں ھے۔ کوئی لمبے لمبے بال رکھ کر، کوئی ہاتھ کی پانچ انگلیوں میں دس انگوٹھیاں پہن کر سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور دین کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان جعلی پیروں اور بابا لوگوں کو نماز اور شریعت کی پرواہ تک نہیں۔ ستم بالائے ستم تو یہ کہ عوام الناس نے بھی دین کو اس قدر معاذ اللہ ثم معاذ اللہ حقیر سمجھ رکھا ہے کہ اگر سر درد ہو تو ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر دوائی نہیں لیتے لیکن شریعت اور اسلام کا مسئلہ ہو، طریقت اور تصوف کی بات ہو تو کسی بھی جاہل کے سامنے جا بیٹھتے ہیں۔ پیر یا شیخ کی شرائط کیا ہوتی ہیں، کون پیر بننے کا اھل ہو سکتا ہے اور کون نہیں؟ ان باتوں کا گلی گلی بیٹھے ان نام نہاد جاہل پیروں کو علم ہے نہ ان پیروں کے پاس جانے والی عوام کو۔ ہمارے ہاں دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ جس کے دادا، پردادا  پیر تھے آج ان کی اولادیں پیر بنی بیٹھی ہیں اور سیدھے سادھے عوام ان کی اندھی محبت میں گم ہیں۔ جبکہ حدیث مبارکہ میں تو یہ مضمون بھی ملتا ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا تھا کہ اے فاطمہ( رضی اللہ تعالی عنہا ) ! یہ نہ سمجھنا کہ تم آخری نبی کی بیٹی ہو، بلکہ اعمال دارومدار کرتے ہیں، اور سیدہ کائنات رضی اللہ تعالی عنہا  ساری ساری رات سجدوں میں گزارتی تھیں ، صحابہ رضوان اللہ علیہم  میں سے کوئی ایک بھی نماز چھوڑ کر اللہ والا نہیں بنا بلکہ اُن کی تو برسوں تکبیرِ اولی بھی فوت نہیں ھوتی تھی۔؟ اسلاف امت میں ہمیں کہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کسی شیخ، بزرگ، پیر کی اولاد بھی ضرور پیر ھی بنی ہو ھاں اگر وہ دینی قابلیت کی حامل اور شریعت اور طریقت کی عامل ھے تو وہ اور بات ھے لیکن ھمارے ھاں تو عام روٹین یہ ھے کسی کا والد فوت ہوا تو شریعت و طریقت کے علم سے جاہل بیٹا جو باپ کا جنازہ تک نہ پڑھا سکتا ہو وہ باپ کا گدی نشین بن گیا ہو۔ آپ تاریخ کھنگال کر دیکھ لیں آپ کو کہیں کسی امام طریقت و شریعت کی اولاد (جو علم و عمل سے جاہل ہو) اپنے بڑوں کے جانے کے بعد گدی سنبھالتی نظر نہ آئے گی۔

باپ فوت ہوا تو اب اس کا بیٹا، بھتیجا، بھانجا سب پیر بن گئے یہ جاہلانہ رسم ہندؤوں کی ھے۔ ان کا پروہت مر جاتا ھے تو اس کے خاندان میں سے اس کے بعد کے بڑے کو پروہت بنا دیا جاتا ھے یا پھر یہ رسم فرعونوں کی تھی کہ باپ مرتا تو بیٹا باپ کے تخت پر بیٹھ جاتا اور پھر وہ فرعون کہلاتا۔ دینِ اسلام میں تو قطعاً یہ نہیں ھے ۔ اگر طریقت اور پیری مریدی اسی رسم کا نام ہوتا تو امام طریقت، تصوف کے موضوع پر قلم اٹھانے والے پہلے امام، امام قشیری رحمہ اللہ کی اولاد در اولاد کی گدی آج بھی چل رہی ہوتی۔ اگر طریقت اسی چیز کا نام ہوتا تو حضرت علی ہجویری   رحمہ اللہ کی اولاد آج تک گدی نشین چلی آ رہی ہوتی۔ علی ھذا القیاس۔ ہمارے ہاں ہر مرنے والے پیر کی اولاد پیر بن جاتی ہے۔ عوام تو عوام حیران کن بات یہ ھے کہ  بعض اوقات علماء، مفتیان کرام بھی کسی پیر صاحب کے جاہل صاحبزادے کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ کیا طریقت اور تصوف اسی جہالت کا نام ہے؟؟ حالانکہ تصوف و طریقت بغیر شریعت کے علم کے ممکن ہی نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ اس کو اپنا دوست اور ولی بنا لے جو اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی شریعت کو جانتا ھی نہ ھو اور نہ ھی اس پر عمل کرتا ہو، جو اللہ و رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے آحکام  نہ جانتا ھو نہ  مانتا ھو وہ عاشق اور ولی تو ھرگز نہیں بلکہ شیطان کا چیلہ ھی ھو سکتا ھے ۔ آپ اسماء الرجال و تاریخ کی کتب کے سمندر میں غوطہ زنی کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلاف میں جو جو بھی آئمہ طریقت کہلوائے وہ سب شریعت کے باعمل عالم بھی تھے، اپنے دور کے محدث اور فقیہ تھے۔ کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے شریعت کی الف بے نہ دیکھی ہو، جس کو نماز کے واجبات تک کا علم نہ ہویا وہ  بےنمازی ہو یا وہ باجماعت نماز کا تارک ھو ۔ جسے اتنا بھی علم نہ ہو کہ سجدہ کرنے کی شرائط میں کتنی ہڈیوں کا زمین پر لگنا لازم ہے اور وہ شیخ اور پیر بن گیا ہو۔ آپ کسی کی بھی سوانح پڑھ لیں آپ کو ان کے اساتذہ میں بے شمار حضرات محدثین و فقہاء ملیں گے۔ وہ پیر، شیخ یا اللہ کا ولی کیسے ہو سکتا ہے جو اللہ کے محبوب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے دین سے جاہل ہو، جس کا ہر عمل اللہ تعالی اور اُس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے حکم اور ان کی سنت کے مخالف ہو، کیا ایسے جاہل کو اللہ اپنا ولی بنائے گا؟؟

پیران کرام، مشائخ کرام کا کام فقط تعویذ  دے دینا، چھو منتر کرنا، دین کو پس پشت ڈال کر گمراہ کن اشعار پر مبنی سماع کروانا، خود ساختہ ذکر کی مجالس برپا کرنا اور دھمالیں ڈالنا وغیرہ تو نہیں تھا۔ اولیاء تو وہ تھے جو اپنے مریدین کو نمازوں کا پابند بناتے تھے اُنھیں پانچ وقت مسجد جانے والا، تکبیرِ اولی سے نماز ادا کرنے والا  بناتے تھے  ان کو قرآن وسنت  کی تعلیم دیتے تھے۔ لیکن آج کل تو پیر، بابا لوگ خود مسجد سے دور ھی رھتے ھیں بعض تو سرے سے نماز ھی  نہیں پڑھتے اور اگر کوئی پوچھ لے کہ پیر صاحب نے نماز کب ادا کرنی ہے تو ان کے پڑھے لکھے جاہل مرید فرماتے ہیں کہ پیر صاحب  نماز مراقبے میں ھی ادا فرما لیتے ہیں، حیرت ہے ایسے پیر نماز تو مراقبے میں ادا کرتے ہیں لیکن مرغ و بریانی کے چٹ پٹے کھانے ہوش و حواس میں کھاتے ہیں۔ 

اولیاء، پیران کرام، مشائخ تو وہ تھے جو شریعت پر عمل پیرا ہوتے تھے، جن کے سامنے اگر کوئی غیر عورت آ جاتی تو وہ خود نظریں جھکا لیتے، اس کو پردے کا حکم دیتے لیکن آج کل یہ بدبخت اپنے آپ کو پیر کہلوانے والے پیری  کے نام پر عورتوں سے گلے ملتے ہیں اور ان کی عزتوں پر ڈاکہ ڈالتے ھیں ۔ یاد رکھیں کہ ایسا کوئی بھی شخص چاہے اس کے سر پر عمامہ یا ٹوپی  ہو، لمبا تڑنگا جبہ پہن کر بیٹھا ہو یا اپنے آپ کو درویش ثابت کرنے کے لئے ایک تہبند میں بیٹھا ہو،  تسبیح پہ تسبیح کرتا ھو ، ہوا میں اڑ کر دکھاتا ہو، گھنٹوں دھمالیں ڈالتا ہو، وہ زبان سے الفاظ نکالے تو بات پوری ہو جاتی  ہو، جو کچھ بھی ہو لیکن اگر اس کا عمل شریعت کے حکمِ قطعی یا صریح حکم کے منافی ہے تو وہ جادوگر، دجال تو ہو سکتا ہے، وہ شیطان کا چمچہ تو ہو سکتا ہے اللہ کا ولی قطعاً نہیں ہو سکتا۔ لازمی نہیں کہ جس کی بات پوری ہو جائے وہ اللہ کا ولی بھی ہو، دجال کے بارے میں احادیث کا مفہوم ہے کہ وہ جو چاہے گا کرے گا۔ لہذا ایسا شخص جس کا کوئی عمل شریعت کے منافی ہے تو وہ اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا۔ جس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ مرد کے لئے سونا پہننا یا چاندی کی ایک وقت میں ایک نگینے والی ایک انگوٹھی سے زیادہ پہننا حرام ہے۔ لہذا جو شخص سونا یا کئی کئی انگوٹھیاں پہنے بیٹھا ہو، وہ خود حرام فعل کا مرتکب ہو کر گناہ کبیرہ کر رہا ہے تو وہ دوسروں کی تربیت کیا خاک کرے گا؟


 اسلافِ امت کی تعلیمات کی روشنی میں پیر، شیخ کی کچھ شرائط  

۱۔ پیر یا شیخ کا سلسلہ طریقت حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  تک مستقل اور متصل ہو۔ یہ لازمی نہیں کہ وہ سید زادہ اور آل رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہو۔ لیکن اس کا طریقت کا سلسلہ کہ اسے خود کس سے اجازتِ طریقت ہے /مرید کرنے کی اجازت کس سے ہے۔ اسی طرح مکمل سلسلہ/چین حضور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  تک ہو۔

۲۔ پیر صاحب کا عقیدہ درست ہو۔ اور عقیدہ درست اس وقت ہو گا جب پیر صاحب کو عقیدہ کا علم بھی  ہو گا۔ ستم تو یہ کہ اگر موجودہ پیروں سے عقیدہ کی لفظی اور اصطلاحی تعریف پوچھ لی جائے تو دودھ کا دوھ پانی کا پانی ہو جائے۔ اور ظلم کی انتہاء کہ کئی آستانوں، پیروں، بابا لوگوں کی باتیں سنو تو حددرجہ کفر بکتے ہیں۔ شطحیات کے نام پر طرح طرح کے الاپ شناپ بولتے ہیں۔ جس کو عقیدہ کا علم ہی نہ ہو، یہ ہی علم نہ ہو کہ کون کون سے نظریات کا تعلق عقیدہ سے ہے تو اس کا عقیدہ درست کیا خاک ہو گا؟؟

۳۔ پیر باعمل عالم دین ہو۔ مقولہ ہے کہ”علم نتواں خدارا شناخت“ بے علم/ جاہل کو اللہ تعالی کی معرفت نصیب نہیں ہوتی۔جو علم سے ہی جاہل ہے، عالم ہی نہیں ہے تو عارف کیسے ہو سکتا ہے؟؟ لہذا جو اپنے آپ کو پیر کہے تو پہلے دیکھ لیں کہ اس نے کم از کم شریعت کا علم کس سے پڑھا ھوا ہے؟؟ آیا شریعت اور دین کا علم پڑھا بھی ہے کہ نہیں؟؟ کیونکہ بغیر علم کے عبادت کرنے والا شیطان کے ہاتھ میں مسخرہ ہوتا ہے۔ حکایات و روایات اس پر دال ہیں کہ فقط عابد کو شیطان باآسانی برباد کر دیتا ہے۔ احادیث مطہرہ کا مفہوم بھی ہے کہ شیطان کے لئے ایک عالم ایک ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔ لہذا جس نے علمِ شریعت و دین کو پڑھا ہی نہیں، جو قرآن کے احکامات، متشابہات، تفسیر، ناسخ و منسوخ وغیرہ، حدیث کے احکام، علل وغیرہ یا فقہ کے اصول و مسائل کو نہیں جانتا تو وہ دوسروں کی تربیت کیسے کر سکتا ہے اور دوسروں کا پیر اور شیخ کیسے بن سکتا ہے؟؟ ستم تو یہ کہ ہمارے ہاں ایسے جاہل شخص کو جسے طریقت کا معنی نہیں معلوم، جو شریعت کی شین سے بھی واقف نہیں ہے اسے پیر طریقت اور رہبر شریعت کے القابات دے کر دین کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے۔

۴۔ پیر فاسق و فاجر  نہ ہو۔ یعنی کہ وہ احکام جو گناہ کبیرہ ہیں، جن سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ وہ کام کرنے والا نہ ہو۔ لہذا ایسا شخص جو نماز نہیں پڑھتا، عورتوں کو یا اپنی مریدنیوں کو پیری کے نام پر گلے لگاتا ہے، ہاتھ میں کئی کئی انگوٹھیاں پہنتا ہے، ننگا تڑنگا رہتا ہے، کوئی بھی عمل شریعت کے حکمِ قطعی کے خلاف کرتا ہے، وہ چاہے کرامت کے نام پر سمندر کا رخ  بھی موڑ دے، تو وہ جادوگر تو ہو سکتا ہے لیکن اللہ کا ولی یا پیر نہیں ہو سکتا۔

مسلمان بھائیوں سے گذارش ھے کہ خدارا اپنے ایمان اور دین کو ایسے بدبختوں سے محفوظ رکھیں۔ ان پڑھ جاہل پیر، گلی گلی بیٹھے بابے، ہر الٹے سیدھے کام کے لئے تعویذ بیچتے لوگ قطعاً پیر نہیں ہو سکتے۔ اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو ان کے پاس جانے سے روکیں۔ یہ لوگ دیندار اور کسی اللہ کے ولی یا بزرگ کے نہیں بلکہ دین کے دشمن اور ہندؤوں کے پروہتوں کے گدی نشین ہیں۔ کوئی بزرگ فوت ہوں تو ان کی اولاد اگر شریعت و دین کے علم سے جاہل ہے، ان کے اعمال احکامِ شریعت سے منافی ہیں وہ قطعاً پیر نہیں ہو سکتے اور ایسے جاہل لوگوں کو بزرگوں کا گدی نشین بنانا، ان کی بیعت کرنا، ان کا ادب کرنا سب حرام اور گناہ ہے۔

احباب اقتدار کی بھی یہ  اخلاقی اور شرعی ذمہ داری بنتی ھے کہ انہیں ایسے لوگوں کے خلاف باقاعدہ آپریشن کرنا چاہئے اور ان کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے کیونکہ اس طرح سے دین کا نام بگاڑنا، دین کو بیچنا، دین کے نام پر بے غیرتی کرنا، حرام کاموں کو اپنی کرامت کہنا، گھٹیا حرکتوں کو مجذوبیت کہنا، دین کے مخالف کام کرکے پہنچی ہوئی شخصیت بننا، لوگوں کو دین و شریعت سے دور کرنا بھی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے دین کی صریحاً گستاخی ہے۔۔ 

Share: