جب سے اسلام معرض وجود میں آیا ھے اُس وقت سے آج تک منافقت ھر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رھی ھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانہ میں منافقین کی اچھی خاصی تعداد مدینہ منورہ میں موجود تھی اور بعد کے زمانوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رھا میر جعفر اور میر صادق اور اُن جیسے منافقوں نے مسلمانوں کو شدید نقصان سے دوچار کیا آج بھی یہ منافق مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ھوئے ھیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقعہ ھاتھ سے نہیں جانے دیتے وطنِ عزیز کو تباھی کے کنارے پر لانے میں بھی ان ھی شیطانوں کا بہت بڑا کردار ھے البتہ وقت کے ساتھ ساتھ منافقت کی شکلیں بھی زمانے کے اعتبار سے تبدیل ھوتی رھتی ھیں آج کے جدید دور میں بھی یہ سنگین اور خطرناک مرض پورے زور وشور سے اپنی جدید شکل میں موجود ھے
آحادیث مبارکہ کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے جس کے مفھوم کے مطابق رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعد کے زمانے میں لوگوں کے درمیان سے امانت اُٹھ جائے گی لوگ خائن هو جائیں گے مگر یہ زوال صرف باطنی اعتبار سے آئے گا جہاں تک ظاہر کا تعلق ہے معاملہ اس سے بالکل مختلف هو گا چنانچہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے جس کا مفھوم یہ ھے کہ یعنی ایک آدمی کے بارے کہا جائے گا کہ وه کتنا زیاده عقل مند ہے، وه کتنا زیاده خوش گفتار ہے، وه کتنا زبردست ہے- حالانکہ اس کے دل میں رائی کے ایک دانہ کے برابر بهی ایمان نہ هو گا-
( صحیح البخاری، کتاب الفتح )
اس حدیث میں غالبا ان منافقین کا ذکر کیا گیا ہے جو صنعتی تہذیب کے دور میں پیدا هونے والے تهے- منافقت دراصل مفاد پرستانہ کردار کا دوسرا نام ہے- یعنی آدمی کے اندر ایمان و اخلاق کی روح موجود نہ هو- مگر مادی فائدے کے لئے یا لوگوں کے درمیان اچها بننے کے لئے وه ظاہری طور پر ایمان و اخلاق کی نمائش کرے وطنِ عزیز میں جعلی پیر بھی اس کی بہت بڑی مثال ھیں جو خود تو ایمان سے فارغ ھیں ھی اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کے ایمان پر بھی ڈاکہ ڈالتے ھیں بظاھر تو یہ بہت نیک ، پارسا اور لوگوں کے پیشوا بنے پھرتے ھیں اور باطن میں شیطانیت ھر طرح سے ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ھوئی ھوتی ھے
آج کے دور کی منافقت عین وہی چیز ہے جس کو موجوده زمانے میں پروفیشنل اخلاق کہا جاتا ہے موجوده زمانے میں اس قسم کے مصنوعی اخلاق کے مادی فائدے ہزاروں گنا بڑھ گئے ھوئے ہیں- اسی کے ساتھ مصنوعی اخلاق کے وسائل میں بهی بہت زیاده اضافہ هو گیا ہے اس زمانی فرق نے منافقانہ روش اختیار کرنے کے محرکات میں بہت زیاده اضافہ کر دیا ہے اس بنا پر یہ بات بالکل فطری ہے کہ صنعتی تہذیب کے دور میں ایسے شاندار منافقین ظہور میں آئے ھیں جن کا ظہور قدیم زمانہ میں ممکن نہ تها نئے دور کی منافقت کو دوسرے لفظوں میں پروفیشنل اسلام بهی کہا جا سکتا ہے- دور جدید کے پر رونق اسباب و وسائل نے پروفیشنل اسلام کو لوگوں کی نظر میں اتنا زیاده شاندار بنا دیا ہے جو بظاہر مخلصانہ اسلام میں بهی شاید موجود نہیں-
آج کل باطن میں کچھ اور ظاھر میں کچھ کو دانشمندی خیال کیا جاتا ھے اسلام کا نام صرف اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ھے یہی وہ کھلم کھلا منافقت ھے جسے آختیار کرکے بیچارے سیدھے سادھے لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ھے اس مکروہ فعل کے بعد بھی بظاھر حاجی صاحب اسی طرح حاجی صاحب ھی رھتے ھیں صوفی صاحب اسی طرح صوفی صاحب ھی رھتے ھیں پیر صاحب اسی طرح پیر صاحب ھی رھتے ھیں وغیرہ وغیرہ یہ بدطینت لوگ اس میں خوشی محسوس کرتے ھیں کہ ھم نے لوگوں کو بیوقوف بنا لیا ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ یہ بدقسمت اور بدطینت لوگ اپنے آپ کو ھی دھوکہ دیتے ھیں اور خود ھی بیوقوف بنے ھوئے ھیں مرنے کےبعد جب آنکھ کھلےگی تو معلوم ھو جائےگا کسی دوسرے کو دھوکہ دیا تھا یا پھر اپنے آپ کو ھی دھوکے میں مبتلا کیا تھا لیکن اُس وقت معلوم ھونے کا کوئی فائدہ انہیں حاصل نہیں ھوگا بقول شاعر؛
اب پچھتائے کیا ھوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت