منافقین اور دورِ جدید کی منافقت

مسلمانوں اور اسلام کا ایک بہت بڑا دشمن وہ طبقہ ھے جسے منافقیں کہا جاتا ھے ۔ قرآن پاک اور آحادیثِ مبارکہ میں اس بدبخت طبقہ کا ذکر آیا ھے ۔ جب سے اسلام معرض وجود میں آیا ھے  اُس وقت سے آج تک منافقت ھر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رھی ھے  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانہ میں منافقین کی اچھی خاصی تعداد مدینہ منورہ میں موجود تھی اور بعد کے زمانوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رھا ۔  عبد اللہ بن ابی سارے قبائل کو اس بات پر آمادہ کر چکا تھا کہ اسے سردار منتخب کر لیا جائے اس کے بنائے گئے تمام منصوبے اس وقت ناکام ہو گئے جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ  تشریف لے آئے۔ابنِ ابی کو اس بات کا  بہت رنج تھا ، پروردگار تو دلوں کے حال سے واقف ہے اس لیے اس کے تمام تیار کردہ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ نہ پاتے اسکے خواب حقیقت ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے ۔ اگر سورہ توبہ پڑھیں تو اس میں منافقین کا تفصیل سے ذکر موجود ہے ۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاد کے لیے لوگوں کو تیارکرنا شروع کیا ۔ دوسری طرف جہاد کو ناکام کرنے میں عبداللہ بن ابی پیش پیش تھا۔منافقین مذاق کرتے کہ مسلمان اپنی مالی حالت دیکھیں اور چلے ہیں روم فتح کرنے کو۔لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، آگے جو ہوا وہ تاریخ میں رقم ہے۔اہل ایمان نے ثابت کیا کہ جنگیں بندوں کی تعداد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان کی قوت سے فتح کی جاتی ہیں۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی رنج و الم اور تکالیف سے بھرپور رہی ۔آپ کی مکہ میں بسر کی گئی زندگی کا کوئی دن ہوگا جو تکالیف سے خالی ہو۔یہاں تک کہ آپ  کو مدینہ منورہ آنا پڑا، یہاں بھی منافقین چین نہ لینے دیتے روز نت نئے منصوبے لیکن آپ کے عزم و ہمت میں کبھی کمی نہ آئی نہ کبھی حوصلہ ہارا بلکہ اپنے عظیم مقصد کی تکمیل میں مصروف رہے اور پھر رب کریم نے فرمایا۔عنقریب آپ کا رب اپکو اتنا عطا کرے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذمہ داری کو اس احسن طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچایا کہ رب کریم  کا ارشاد ہوا اور ہم نے آپکو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ سے ہمیں زندگی کی ہر مشکل کا حل ملتا ہے۔دور حاضر میں گر کوئی مخلص شخص منافقین کے نرغے میں گھرا ہو تو اسکے لیے واحد حل آپ کی ذات کامل میں موجود ہے۔موجودہ زمانے میں منافقت کی بیماری بہت بڑھ گئی ۔آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں آپ کو مخلصی کے لبادے میں چھپے بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جو  پاؤ گوشت کے حصول کے لیے آپکی بھینس ذبح کر دیں۔ ۔یہ آپکی قوت ارادی اور حوصلے کا امتحان ہوتا ہے کہ آپ ان مشکلات و مسائل پر کیسے عبور حاصل کرتے ہیں۔بیش بہا چیلنج آپ کو ملیں گے مصائب کے انبار لوگوں کے منفی رویے سازشی عناصر، حاسدین غرض جو منفی قوتیں ہوں گی آپکے راستے کی رکاوٹ بننے کی بھرپور کوشش کریں گی۔پاس بیٹھے شخص کا اپنے بارے میں اسکی نیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔جس پر آپ اندھا اعتماد کر رہے ہوتے ہیں وہ اگل دن آپکے حریف کے دستر خواں پر روٹیاں  توڑ رہا ہوتا ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دم  خم والا ساتھ ملے۔اگر ہزار حاسدوں،منافقوں کے بیچ کوئی ایک دم خم والا ساتھی ملے تو زندگی کے سفر میں پیش آنے والی مصیبتیں اور رنج و غم کو درگزر کیا جاسکتا ہے۔ہم سب کے لیے ہر مسئلے کا حل آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں موجود ہے۔آج اگر عبداللہ بن ابی جیسے کردار آپکی زندگی میں آ بھی جائیں تو آپ کو کیا کرنا چاہیے۔لازمی بات ہے سرکار دو عالم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کو سامنے رکھیں۔قصہ مختصر .... ہمارے اردگرد آپکو عبداللہ بن ابی کے بہت سے پیروکار ملیں گے اور انکی لوگ ستائش بھی کر رہے ہونگے حالانکہ حالات و واقعات ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ اس بندے نے کیسے لوگوں کو بیوقوف بنایا ہے اور چوہدراہٹ کی گدی حاصل کی۔پہلے پہل لوگ ایسے شخص کے لیے شاطر کا لفظ استعمال کرتے تھے مگر اب جب سے لوگوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفاد کے لیے چپ رہنا شروع کر دیا ہے اور کہنا شروع کر دیا کہ “ یار بندہ بہت کام کا ہے “ اللہ کریم ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین 

تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ھے کہ میر جعفر اور میر صادق  اور اُن جیسے منافقوں نے مسلمانوں کو شدید نقصان سے دوچار کیا  ۔ آج بھی یہ منافق مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ھوئے ھیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقعہ ھاتھ سے نہیں جانے دیتے وطنِ عزیز کو تباھی کے کنارے پر لانے میں بھی ان ھی شیطانوں کا بہت بڑا کردار ھے البتہ وقت کے ساتھ ساتھ منافقت کی شکلیں بھی زمانے کے اعتبار سے تبدیل ھوتی رھتی ھیں آج کے جدید دور میں بھی یہ سنگین اور خطرناک  مرض پورے زور  وشور سے اپنی جدید شکل میں موجود ھے 

 آحادیث  مبارکہ کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے جس کے مفھوم کے مطابق رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعد کے زمانے میں لوگوں کے درمیان سے امانت  اُٹھ جائے گی  لوگ خائن هو جائیں گے مگر یہ زوال صرف باطنی اعتبار سے آئے گا جہاں تک ظاہر کا تعلق ہے معاملہ اس سے بالکل مختلف هو گا چنانچہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے جس کا مفھوم یہ ھے کہ یعنی ایک آدمی کے بارے کہا جائے گا کہ وه کتنا زیاده عقل مند ہے، وه کتنا زیاده خوش گفتار ہے، وه کتنا زبردست ہے- حالانکہ اس کے دل میں رائی کے ایک دانہ کے برابر بهی ایمان نہ هو گا-  ( صحیح البخاری، کتاب الفتح )

اس حدیث میں غالبا ان منافقین کا ذکر کیا گیا ہے جو صنعتی تہذیب کے دور میں پیدا هونے والے تهے- منافقت دراصل مفاد پرستانہ کردار کا دوسرا نام ہے- یعنی آدمی کے اندر ایمان و اخلاق کی روح موجود نہ هو- مگر مادی فائدے کے لئے یا لوگوں کے درمیان اچها بننے کے لئے وه ظاہری طور پر ایمان و اخلاق کی نمائش کرے ۔ وطنِ عزیز میں جعلی پیر بھی اس کی بہت بڑی مثال ھیں  جو خود تو ایمان  سے فارغ  ھیں ھی اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کے ایمان پر بھی ڈاکہ ڈالتے ھیں  ۔ بظاھر تو یہ بہت نیک ، پارسا  اور لوگوں کے پیشوا بنے پھرتے ھیں اور باطن میں شیطانیت ھر طرح سے ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ھوئی ھوتی ھے 

آج کے دور کی منافقت عین وہی چیز ہے جس کو موجوده زمانے میں پروفیشنل اخلاق کہا جاتا ہے موجوده زمانے میں اس قسم کے مصنوعی اخلاق کے  مادی فائدے ہزاروں گنا بڑھ گئے ھوئے ہیں- اسی کے ساتھ مصنوعی اخلاق کے وسائل میں بهی بہت زیاده اضافہ هو گیا ہے اس زمانی فرق نے منافقانہ روش اختیار کرنے کے محرکات میں بہت زیاده اضافہ کر دیا ہے اس بنا پر یہ بات بالکل فطری ہے کہ صنعتی تہذیب کے دور میں ایسے شاندار منافقین ظہور میں آئے ھیں  جن کا ظہور قدیم زمانہ میں ممکن نہ تها نئے دور کی منافقت کو دوسرے لفظوں میں پروفیشنل اسلام بهی کہا جا سکتا ہے- دور جدید کے پر رونق اسباب و وسائل نے پروفیشنل اسلام کو  لوگوں کی نظر میں اتنا زیاده شاندار بنا دیا ہے جو بظاہر مخلصانہ اسلام میں بهی شاید موجود نہیں-

آج کل باطن میں کچھ اور ظاھر میں کچھ کو دانشمندی خیال کیا جاتا ھے اسلام کا نام صرف اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا  ھے  یہی وہ کھلم کھلا منافقت ھے  جسے آختیار کرکے بیچارے سیدھے سادھے  لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ھے اس مکروہ فعل کے بعد بھی بظاھر حاجی صاحب اسی طرح حاجی صاحب ھی رھتے ھیں صوفی صاحب اسی طرح صوفی صاحب ھی رھتے ھیں پیر صاحب اسی طرح پیر صاحب ھی رھتے ھیں  وغیرہ وغیرہ یہ بدطینت لوگ اس میں خوشی محسوس کرتے ھیں کہ ھم نے لوگوں کو بیوقوف بنا لیا ھے لیکن حقیقت یہ ھے  کہ یہ بدقسمت اور بدطینت لوگ اپنے آپ کو ھی دھوکہ دیتے ھیں اور خود ھی بیوقوف بنے ھوئے ھیں  مرنے کےبعد جب آنکھ کھلےگی تو معلوم ھو جائےگا کسی دوسرے  کو دھوکہ دیا تھا یا پھر اپنے آپ کو  ھی دھوکے میں مبتلا کیا تھا لیکن اُس وقت معلوم ھونے کا کوئی فائدہ انہیں حاصل نہیں ھوگا  ۔

Share: