سورۂ فاتحہ اور اس کے فضائل


بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ


اَ لْحَـمْدُ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (1) 

سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے۔


اَلرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ (2) 

بڑا مہربان نہایت رحم والا


مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (3) 

جزا کے دن کا مالک


اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (4) 

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں


اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِـيْـمَ (5) 

ہمیں سیدھا راستہ دکھا


صِرَاطَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْۙ غَيْـرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْـهِـمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ (6) 

ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا، نہ کہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ جو گمراہ ہوئے۔


 سورۂ الفاتحہ کے بہت سے فضائل احادیثِ مبارکہ میں وارد ھوئے ہیں، جو علماءِ کرام نے تفاسیر میں سورۂ فاتحہ کے تحت بھی ذکر فرمائے ہیں، ان فضائل میں سے چند درج ذیل ہیں:


سورہ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے اور آخری تین میں انسان کی طرف سے دعاء و درخواست کا مضمون ہے جو رب العزت نے اپنی رحمت سےخود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی ایک آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں کچھ حمد و ثناء کا پہلو ہے کچھ دعاء و درخواست کا۔


صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورہ فاتحہ) میرے اور بندے کےدرمیان دوحصوں میں تقسیم کی گئی ہے نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے  لیے اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی ہے اور جب وہ کہتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرےبندے نے میری تعریف و ثناء بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرےبندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے؛ کیوں کہ  اس میں ایک پہلو حق تعالیٰ کی حمد و ثناء کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعا  و درخواست کا اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی،  پھر جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ(آخرتک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب میرے بندے کے لیے ہے اور اس کو وہ چیز ملےگی جو اس نے مانگی۔  (مظہری  بحوالہ معارف القرآن)


رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ سورۂ فاتحہ کی نظیر نہ تورات میں نازل ہوئی، نہ انجیل اور زبور میں اور نہ خود قرآن کریم میں کوئی دوسری سورت اس کی مثل ہے۔


نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سورۂ فاتحہ ہر بیماری کی شفاء ہے۔


اسی طرح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی سب سورتوں میں عظیم ترین الحمد للہ رب العالمین ہے !

مشائخ نے لکھا ہے کہ اگر سورہ فاتحہ کو ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا جائے تو ہر بیماری سے شفا ہوتی ہے‘اس سورہ کے 30 نام اور بھی مذکور ہوئے ہیں اور شاید قرآن حکیم کی یہی واحد سورہ ہے جو اتنے بہت سارے ناموں سے مشہور ہے سورہ فاتحہ‘ چونکہ اس سورہ سے قرآن حکیم کا افتتاح ہوتا ہے اس لیے یہ سورہ فاتحہ کہلاتی ہے۔ اس کا پورا نام فاتحہ الکتاب یعنی کتاب کا افتتاح کرنے والی سورہ ہے اس سورہ کو افضل القرآن کا نام بھی دیا گیا ہے اور یہ نام اس کی عظمت و رفعت پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ احادیث میں بھی اس سورہ کے 30 نام اور بھی مذکور ہوئے ہیں اور شاید قرآن حکیم کی یہی واحد سورہ ہے جو اتنے بہت سارے ناموں سے مشہور ہے۔ اس کا ایک نام ام القرآن ہے۔ اسے ام القرآن اس لیے کہتے ہیں کہ یہ سورہ قرآن حکیم کے تمام مضامین کا نچوڑ ہے اور تمام روحانی عقائد کی بنیاد ہے۔ بعض علماءنے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ متن ہے اور پورا قرآن اس متن کی شرح ہے۔ اس سورہ کو ”سورہ الشفا“ بھی کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورہ مختلف بیماریوں کیلئے وجہ شفا ثابت ہوئی ہے۔ تفسیر بیضاوی میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ تمام جسمانی بیماریوں کیلئے شفاءہے۔ اس سورہ کا ایک نام ”کافیہ“ بھی ہے۔ یہ سورہ ایک مومن کیلئے ہر اعتبار سے کافی ہے۔ یہ سورہ دوسروں کی محتاجی سے روکتی ہے۔ ایک بار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر سورہ فاتحہ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیں اور بقیہ تمام قرآن فاتحہ کے علاوہ ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھدیں تو سورہ فاتحہ کا وزن سات قرآنوں کے برابر ہوگا۔ (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر عزیزی) اس سورہ کا ایک نام ”کنز“ بھی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سورہ عرش الٰہی کے خصوصی خزانوں میں سے عطاءکی گئی ہے۔ صوفیاءسے منقول ہے کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں تھا وہ سب کلام پاک میں موجود ہے اور جو کچھ قرآن حکیم میں ہے۔ اس کا خلاصہ سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ سورہ فاتحہ میں ہے اس کا خلاصہ بسم اللہ میں ہے۔ ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس جیسی سورہ نازل نہیں ہوئی نہ توریت میں نہ زبور میں نہ انجیل میں اور نہ بقیہ قرآن میں۔ (معارف القرآن) مشائخ نے لکھا ہے کہ اگر سورہ فاتحہ کو ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا جائے تو ہر بیماری سے شفا ہوتی ہے۔  ہر نماز کے بعد مسجد میں سر رکھ کر (خواتین گھر میں ) سورہ فاتحہ اس طریقے سے پڑھیں جب اِیَّاکَ نَعبُدُوَاِیَّاکَ نَستَعِینُ پر پہنچے تو اس کا21 مرتبہ تکرار کرے پھر سورہ فاتحہ مکمل کرکے سجدہ سے سر اٹھائے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت کیلئے دعا مانگے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی ہر جائز دلی مراد بہت جلد پوری کردیں گے۔ 

مسند احمد میں سیدنا ابوسعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب نماز سے فارغ ہو کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تک کس کام میں تھے؟“، میں کہا: یا رسول اللہ ! میں نماز میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالی کا یہ فرمان تم نے نہیں سنا؟ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّ‌سُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ» 

(الأنفال)

اے ایمان والو! اللہ کے رسول جب تمہیں پکاریں، تم جواب دو “، 


اچھا سنو! میں تمھیں مسجد سے نکلنے سے پہلے بتلا دوں گا کہ قرآن پاک میں سب سے بڑی سورت کونسی ہے؟“ پھر میرا ہاتھ پکڑے ہوئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے جانے کا ارادہ کیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ یاد دلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورۃ «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھ کو دیا گیا ہے“ ۔ اسی طرح یہ روایت صحیح بخاری شریف، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی دوسری سندوں کے ساتھ ہے۔ 

‏‏‏‏

واقدی نے یہ واقعہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان کیا ہے۔ موطا مالک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو آواز دی، وہ نماز میں مشغول تھے، فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا، اس وقت مسجد سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ مسجد سے نکلنے سے پہلے تجھے ایسی سورت بتاؤں کہ تورات، انجیل اور قرآن میں اس کے مثل نہیں۔‏‏‏‏“ اب میں نے اپنی چال سست کر دی اور پوچھا، یا رسول اللہ ! وہ سورت کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کے شروع میں تم کیا پڑھتے ہو؟“ میں کہا «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» پوری سورت تک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی وہ سورت ہے، سبع مثانی اور قرآنی عظیم جو مجھے دیا گیا ہے“ ۔ (مسند احمد)



اس حدیث کے اور بھی بہت سے انداز بیان ہیں، مثلاً مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں پکارا تو یہ نماز میں تھے “ التفات کیا، مگر جواب نہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پکارا، سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے نماز مختصر کر دی اور فارغ ہو کر جلدی سے حاضر خدمت ہوئے السلام علیکم عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دے کر فرمایا: ”ابی! تم نے مجھے جواب کیوں نہ دیا؟“ کہا یا رسول اللہ ! میں نماز میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی آیت پڑھ کر فرمایا: ”کیا تم نے یہ آیت نہیں سنی؟“ کہا اے اللہ کے رسول ! غلطی ہوئی اب ایسا نہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک ایسی سورت بتاؤں کہ تورات، انجیل، زبور اور قرآن میں اس جیسی سورت نہ ہو۔‏‏‏‏“ میں کہا ضرور ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں سے جانے سے پہلے ہی میں تمہیں بتادوں گا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ تھامے ہوئے اور باتیں کرتے رہے اور میں نے اپنی چال دھیمی کر دی کہ ایسا نہ ہو کہ وہ بات رہ جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر چلے جائیں۔ آخر جب دروازے کے قریب پہنچ گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ وعدہ یاد دلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں کیا پڑھتے ہو؟“، میں نے ام القرآن پڑھ کو سنائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تورات، انجیل، زبور اور قرآن میں اس جیسی کوئی اور سورت نہیں، یہ سبع مثانی ہے‏‏‏‏


ترمذی میں مزید یہ بھی ہے کہ یہی وہ بڑا قرآن ہے جو مجھے عطا فرمایا گیا ہے ، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن ترمذي:2875،قال الشيخ الألباني:صحیح) ‏‏‏‏

مسند احمد کی ایک مطول حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے۔ نسائی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یہ سورت اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تقسیم کر دی گئی ہے 


مسند احمد میں سیدنا عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت استنجے سے فارغ ہوئے ہی تھے، میں نے تین مرتبہ سلام کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بھی جواب نہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور میں غم و رنج کی حالت میں مسجد میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد طہارت کر کے تشریف لائے اور تین مرتبہ ہی میرے سلام کا جواب دیا۔ پھر فرمایا: ”اے جابر بن عبداللہ سنو! تمام قرآن میں بہترین سورت «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» آخر تک ہے“ ۔ (مسند احمد)

یہ حدیث اور اس جیسی اور احادیث سے استدلال کر کے اسحاق بن راہویہ، ابوبکر بن عربی ابن الحضار وغیرہ اکثر علماء نے کہا ہے کہ بعض آیتیں اور بعض سورتیں بعض پر فضیلت رکھتی ہیں۔‏‏‏‏“

صحیح بخاری شریف فضائل القرآن میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ سفر میں ایک جگہ اترے ہوئے تھے۔ ناگہاں ایک لونڈی آئی اور کہا کہ یہاں کے قبیلہ کے سردار کو سانپ نے کاٹ کھایا ہے، ہمارے آدمی یہاں موجود نہیں، آپ میں سے کوئی ایسا ہے کہ جھاڑ پھونک کر دے؟ ہم میں سے ایک شخص اٹھ کر اس کے ساتھ ہو لیا ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کچھ جھاڑ پھونک بھی جانتا ہے۔ اس نے وہاں جا کر کچھ پڑھ کر دم کر دیا اللہ کے فضل سے وہ بالکل اچھا ہو گیا، تیس بکریاں اس نے دیں اور ہماری مہمانی کے لیے دودھ بھی بہت سارا بھیجا۔ جب وہ واپس آئے تو ہم نے پوچھا: کیا تمہیں جھاڑ پھونک کا علم تھا؟ اس نے کہا میں نے تو صرف سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہے ہم نے کہا: اس آئے ہوئے مال کو ابھی نہ چھیڑو، پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھ لو۔ مدینہ میں آ کر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کیسے معلوم ہوا کہ یہ پڑھ کر دم کرنے کی سورت ہے؟“ فرمایا: ”اس مال کے حصے کر لو میرا بھی ایک حصہ لگانا“ ۔ 

صحیح مسلم شریف ، ابوداوَد، صحیح بخاری


مسلم کی بعض روایتوں میں ہے کہ دم کرنے والے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ 

مسلم اور نسائی میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے کہ اوپر سے ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ جبرئیل علیہ السلام نے اوپر دیکھ کر فرمایا آج آسمان کا وہ دروازہ کھلا ہے جو کبھی نہیں کھلا تھا۔ پھر وہاں سے ایک فرشتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا خوش ہو جائیے دو نور آپ کو ایسے دیے گئے ہیں کہ آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ایک ایک حرف پر نور ہے ۔ 

(صحیح مسلم)‏‏‏‏


حضرت ابو زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ کے کسی راستہ میں جارہا تھا ‘ آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو تہجد کی نماز میں ام القرآن ( سورة فاتحہ) ُ پڑھ رہا تھا ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہو کر اس سورت کو سنتے رہے حتی کہ اس نے وہ سورت ختم کرلی، آپ نے فرمایا : قرآن میں اس کی مثل (اور کوئی سورت) نہیں ہے ‘ امام طبرانی (رح) نے اس حدیث کو ” معجم اوسط “ میں روایت کیا ہے 


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس دن فاتحۃ الکتاب ( سورة فاتحہ) نازل ہوئی اس دن ابلیس بہت رویا تھا اور یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی تھی اس حدیث کو امام طبرانی (رح) نے ” معجم اوسط “ میں روایت کیا ہے اور اسکی سند صحیح ہے

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک آسیب زدہ لڑکے کو لایا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الفاتحہ اور کچھ دوسری آیات کے ساتھ  اس لڑکے  کو دم کیا اور اس کا مرض دور ھو گیا ۔ اس سورہ کو سورہ الشفاء بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ متعدد بیماریوں میں شفا کا باعث بنتی ہے ۔

Share: