*قسط نمبر (14) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*

 رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا شام کی طرف دوسرا سفر اور نسطورا راھب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی نبوت کی پیشگوئی

جب رسول کریم صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی عمرِ مبارک  تقریباً پچیس سال کی ہوئی ۔ تو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے صدق و امانت کا شہرہ دور دور تک پہنچ چکا تھا ۔ یہاں تک کہ زبان خلق نے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو  صادق اور امین کا لقب دے دیا تھا ۔ حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا  مکہ مکرمہ کی ایک معزز مالدار خاتون تھیں اور اپنا مال تجارت کے لئے دوسروں کو دیا کرتی تھیں۔   شام کا  دوسرا سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تاجر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر کیا تھا 

قصہ کچھ اس طرح پیش آیا  تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا ابو طالب نے  رسولِ کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ اے  میرے پیارے بھتیجے! میں ایک ایسا شخص ہوں کہ  جس کے  پاس مال  زیادہ نہیں ھے ۔ زمانہ کی سختیاں ہم پر بڑھتی جا رہی ہیں، تمہاری قوم کا شام کی طرف  تجارتی سفر کرنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالی عنہا اپنا تجارتی سامان دوسروں کو دے کر بھیجا کرتی ہیں تم (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) بھی اجرت پر ان کا سامان لے جاؤ، اس سے تم  (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) کو  معقول معاوضہ مل جائے گا۔ 

دوسری طرف  حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بھی آپ کی شہرت سن رکھی تھی ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بھی یہ دلی خواھش تھی کہ رسول  کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ان  کا مال لے کر ملکِ شام جائیں حضرت ابو طالب کی  اس گفتگو  کا علم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  کو بھی  کسی طرح  ھو گیا تھا ۔ ان دنوں مکہ میں سیدہ خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہا  بنت خویلد  ھی سب سے زیادہ مال دار اور معزز خاتون  تھیں، جو دو بار بیوہ ہوچکی تھیں، انھوں نے باپ سے کثیر جائداد پائی تھی اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول کر رکھی تھی ۔ اب  اپنی تجارت کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں کسی ایسے امانت دار شخص کی ضرورت تھی جو کاروباری سلیقہ اور تجارتی تجربہ بھی رکھتا ہو۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر اگرچہ تقریبا پچیس سال کے لگ بھگ  ھی  تھی؛ مگر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اوصافِ حمیدہ کے چرچے شروع ہوگئے تھے، کاروباری سلیقے کی بھی شہرت ہو چکی تھی اور تجارتی قافلے کے ساتھ شام جاکر بیرونی تجارت کا بھی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو تجربہ ہو چکا تھا۔   تو حضرت خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہا  نے رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو  خود پیغام بیجھ کر اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سامانِ تجارت سرزمینِ شام کی طرف لے جائیں اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو یہ پیشکش  بھی کی  کہ وہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو دوسرے لوگوں کی نسبت دو گنا منافع دیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب سے مشورہ کیا  تو اس پر ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ تعالی نے تمہاری (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم )  جانب کھینچ کر بھیجا ہے ۔  چچا سے مشورہ کے بعد آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے  یہ پیش کش قبول فرمالی اور دوسری بار  قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، جب آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم  قافلے کے ساتھ شام میں پہنچے ۔ تو بازار بصرہ  میں ایک راہب نسطورا نام کی خانقاہ کے نزدیک اُترے ۔ وہ راہب میسرہ کی طرف آیا ۔ وہ میسرہ  کو پہلے سے ھی جانتا تھا ۔ اس نے میسرہ سے پوچھا کہ “ اے میسرہ ! یہ کون ہیں ؟ جو اس درخت کے نیچے اُترے ہیں “ ۔ میسرہ نے کہا ۔ یہ اہلِ حرم میں سے  قبیلۂ قریش کے ایک معزز شخص حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ھیں  ۔ راہب نے کہا ۔ اس درخت کے نیچے  سوائے نبی کے کبھی کوئی نہیں اُترا ۔ پھر اس نے پوچھا ۔ کیا ان  کی دونوں آنکھوں میں سُرخ ڈورے ھیں ؟ تو  میسرہ نے جواب دیا ۔ ہاں ۔  اُن ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی دونوں آنکھوں میں سرخ ڈورے ھیں اور وہ مستقل رھتے ھیں ، یہ سُن کر راہب بولا ۔ “ قیامت تک  کے لئے جس  عالمی آخری نبی نے آنا ھے  یہ وہی نبی ہیں اور یہی  خاتم الانبیاء ہیں “ ۔ کاش اللہ پاک مجھے اتنی عمر عنایت فرما دے کہ میں ان  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی نبوت کا زمانہ پا لوں جس وقت یہ مبعوث ہونگے “ ۔ اور میسرہ سے کہا کہ “ ان  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے جدا ھرگز نہ ہونا اور نیک نیتی کے ساتھ ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ رہنا ۔ کیونکہ الّٰلہ تعالٰی نے ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو نبوت کا  عظیم شرف عطا کیا ہے ۔ واپسی پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے بصرہ سے  بھی ایسا مال تلاش کیا جو مکہ مکرمہ میں بآسانی اور فوری فروخت ھو جائے ، آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے شام سے لایا ھوا یہ مال مکہ معظمہ میں فروخت کیا تو  اس سے بھی کافی نفع ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  نے شام جاتے وقت جب مال سپرد کیا تھا تو اپنے قابلِ اعتماد غلام میسرہ کو بھی  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ کردیا تھا۔  بہانہ یہ تھا کہ وہ  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت کرتے رہیں گے اور مقصد یہ بھی تھا کہ مال کی نگرانی بھی رکھیں گے  اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کا بھی گہرائی سے مطالعہ کریں گے ۔ سفر شام سے واپسی پر حضور  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کا نفع حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  کے سپرد کیا جو ماضی کے حاصل ھوئے منافع سے بہت زیادہ تھا اور میسرہ نے نہ صرف امانت داری؛ بلکہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے عام اخلاق کی بھی ایسی تعریف کی کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  جو اپنی زندگی کا یہ آخری دور کسی راست باز شخص  کے حوالے کرنا چاہتی تھیں،  دامانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کو گوہرِ مراد نظر آنے لگا ۔  چنانچہ سفرِ شام سے واپسی کے دو ماہ پچیس روز بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو نکاح کا پیام دے دیا،

ایک معجزہ اس سفر کے ختم پر یہ بھی ھوا کہ جب  حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم  بصرہ میں خرید و فروخت کر کے مکہ مکرمہ واپس آۓ ۔ حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا نے جو عورتوں کے درمیان ایک بالا خانے میں بیٹھی ھوئی تھیں ، آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو آتے ہوۓ دیکھا ۔ تو دو فرشتے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک پر دھوپ سے سایہ کئے ہوۓ تھے ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  کے دل پر اس کا بہت اثر ھوا . میسرہ نے بھی حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا سے بیان کیا کہ میں نے تمام سفر میں آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی حال دیکھا ہے ۔اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی کرامات اور نسطورا راہب کے قول و وصیت کی بھی خبر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  کو دی جس سے وہ اور بھی بہت متاثر ھوئیں ۔  الّٰلہ تعالٰی نے اس تجارت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  کو  بہت زیادہ  نفع دیا ۔ حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا نے جو دیکھا اور سُنا ۔ اُس سے اُنہیں  مکمل طور پر یہ  شرح صدر ہو گیا کہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم بیشک ساری مخلوق کی طرف الّٰلہ کے بھیجے ہوۓ رسول  ہیں ۔

اس سفر میں دو اور اھم واقعات رونما ھوئے۔  ایک تو یہی کہ جب قافلہ شام کے شہر بصرہ  میں پہنچا تو وہاں نسطورا راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں نبوت کی علامات پہچان کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے نبی آخر الزمان ہونے کی پیشین گوئی کی۔  دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی سامان فروخت کر لیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت بڑھ گئی۔ اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم اٹھاؤ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

     ”مَا حَلَفْتُ بِھِمَا قَطُّ، وَاِنّی الَأمُرُّفَأعْرِضُ عَنْھُمَا” ۔

    "میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی، میں تو ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان سے منہ موڑلیتا ہوں۔”  اس شخص نے یہ بات سن کر کہا: حق بات تو وہی ہے جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے کہی ھے۔ پھر اس شخص نے میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا: خدا کی قسم، یہ تو وہی نبی ہے جس کی صفات ہمارے علماء کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔

رسول اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی راست گوئی و صداقت، شرافت، امانت داری اور اخلاق و کردار کی بلندی کا ھر شخص قائل تھا۔ کاروان تجارت میں رسول اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا بابرکت و باسعادت وجود قریش کے تاجروں کے لئے نھایت ھی سودمند و منفعت بخش  رھا  اور انھیں توقع سے کہیں زیادہ منافع ملا، نیز رسول  کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو سب سے زیادہ نفع حاصل ھوا ۔ سفر کے خاتمہ پر ”میسرہ'' نے سفر کی پوری کیفیت حضرت خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہا  کو بتائی اور آپ کے فضائل و اخلاقی اوصاف و مکارم نیز کرامات  کے متعلق انہیں تفصیل سے آگاہ کیا جو بعد میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی  طرف سے رسول کریم   صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو پیامِ نکاح کا باعث بنا 


  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح 

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کے سفرِ شام سے واپسی پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے غلام ’’میسرہ‘‘نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ ان کو بتلائے۔   اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  بیوہ تھیں۔  ان کی دو شادیاں ہوچکی تھیں ۔ ان کی پاکدامنی کے سبب لوگ زمانۂ جاہلیت میں انکو” طاہرہ” کہا کرتے تھے ۔ ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ملتا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  نے امور مذکورہ بالا کو مدنظر رکھ کر واپس آنے کے قریباً تین مہینے بعد یعلی بن منیہ کی بہن نفیسہ کی وساطت سے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو نکاح کا پیغام بھیجا۔  اس سے پہلے بڑے بڑے سردار اور رئیس ان سے شادی کے خواہاں تھے اور انہیں نکاح کا پیغام بیجھ چکے تھے لیکن انہوں نے کسی کا بھی پیغام قبول نہ کیا تھا۔  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس پیغام کی خبر اپنے چچاؤں کو دی  ۔ جس کے بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد بن اسد کے پاس رشتہ لے کر آئے جبکہ دیگر اقوال کے مطابق حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، حضرت حمزہ  رضی اللہ عنہ رشتہ لے کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  کے چچا عمرو بن اسد کے پاس تشریف لائے تھے۔  انہوں نے بخوشی یہ رشتہ قبول کیا۔ تاریخِ معین پر ابو طالب اور امیر حمزہ اور دیگر روسائے خاندان سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  کے مکان پر گئے اور ان کے چچا عمر بن اسد نے اور بقول بعض دیگر کے ان کے بھائی عامر بن خویلد نے ان کا نکاح کر دیا۔  ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور 500 درہم مہر قرار پایا یہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی شادی تھی اور حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ کی تیسری شادی تھی ۔ مہر کی ادائیگی کی ذمہ داری ابو طالب نے خود اپنے سر لی،  جوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ادا کیا، اور خاندان کے ان ہی افراد کی موجودگی میں دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا   رشتہ ازدواج  میں منسلک ہوگئے مذکورہ نکاح نبوت ملنے سے پہلے ہوا تھا، اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حیات رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  کوئی دوسرا نکاح  نہیں کیا۔

بعض روایات میں حضرت ابوطالب کا یہ خطبۂ نکاح درج ذیل الفاظ میں موجود ہے:

"الحمد لله الذي جعلنا من ذرية إبراهيم، و زرع السماعيل، و جعل لنا بلدًا حرامًا، و بيتًا محجوجًا، و جعلنا الحكام على الناس، و أن محمداً بن عبد الله، ابن أخي، لايوازن به فتى من قريش إلا رجح به بركةً، وفضلاً و عدلاً و مجداً و نبلاً وإن كان في المال مقلاً، فإن المال عارية مسترجعة، و ضل زائل، وله في خديجة بنت خويلد رغبة ولها فيه مثل ذلك، و ما أردتم في ذلك فعليّ."

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے حوالے سے ایک پہلو ملحوظ رہنا چاہیے، جس سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طہارت و نزاہت اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ نکاح میں رغبت کی وجہ آشکارا ہوجاتی ہے، چناںچہ بعض روایات سے یہ بات معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا زاد  بھائی ورقہ بن نوفل جو زمانۂ جاہلیت میں ہی نصرانیت قبول کرچکے تھے، اور عبرانی زبان بھی جانتے تھے اور انجیل عبرانی میں پڑھ کر اپنے اقرباء کو اس کی روشنی میں وعظ و نصیحت بھی کرتے تھے اور وہ ایک آخری نبی کے آنے کی بشارت بھی سناتے رھتے تھے ، عمر کے اعتبار سے وہ  کافی بزرگ  ھو چکے تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان کے یہ نصائح  اور سچے نبی کی بشارت  بہت شوق و رغبت سے سنا کرتی تھیں،  انہوں نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ اس نبی عظیم الشان صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت کا زمانہ اب قریب  آ چکا ہے، اور اس حوالے سے انہوں نے ورقہ بن نوفل سے کافی کچھ سن رکھا تھا، چنانچہ  جب اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی صداقت و دیانت اور دیگر صفاتِ کمال کا ذکر سنا اور ورقہ بن نوفل کی بتلائی ہوئی بعض علاماتِ نبوت آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں پائیں تو اپنے غلام ’’میسرہ‘‘ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو مالِ تجارت دے کر اسی لیے بھیجا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے تجارتی و مالی معاملات اور سفر میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اخلاق و عادات کا مزید مشاہدہ کرسکیں، اسی لیے بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے غلام کو ہدایت کی تھی کہ سفر کے تمام واقعات نوٹ کرے اور واپسی پر پوری تفصیل بتائے، اسی ہدایت کی روشنی میں غلام نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی برکت وغیرہ کے حوالے سے جن کمالات کا مشاہدہ کیا تھا وہ سب تفصیل اس نے آ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو  بتادی، اس تفصیل سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو  یہ غالب گمان تو ہوگیا  تھا کہ  یہی اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں ۔ انہوں نے اپنے دل میں یہ سوچا کہ میرے لئے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ھے کہ میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی زوجیت کے رشتے  میں منسلک ہوجاؤں، چنانچہ صدیقہ طاہرہ و مطہرہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بالواسطہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو پیغامِ نکاح بھیج دیا، اور پھر جس ثمرے کی وہ منتظر تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی پہلی وحی کے نزول کے ساتھ ہی ان کی امید بر آئی اور فرطِ خوشی میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس اسی لیے ساتھ لے گئیں  کہ ورقہ بالمشافہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی گفتگو سن کر تصدیق کردیں کہ یہی وہ رسول ہیں جن کا ذکر انجیل و تورات  کی روشنی میں وہ کرتے آئے تھے۔ (معجم الوسيط):

نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی تقریب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے  دولت کدہ پر منعقد ہوئی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابوطالب اور چند دوسرے رشتہ داروں، مثلاً حضرت حمزہ  رضی اللہ عنہ کے ہمراہ وقتِ مقررہ پر ان کے گھر  تشریف لے گئے اور وہاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے رشتہ دار موجود تھے، جن میں عمرو بن اسد اور ورقہ بن نوفل قابلِ ذکر ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا، اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے کچھ اوصافِ حمیدہ اور فضل وکمال کا ذکر کیا، اور  قریش کی روایات کے مطابق نکاح منعقد ہوا۔ اور بعض تاریخی روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  کی طرف سے ورقہ بن نوفل نے جوابی کلمات کہے۔ شادی کے وقت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر25 سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  نسب و دولت اور سوجھ بوجھ میں اپنی قوم میں سب سے زیادہ معزز اور افضل خاتون تھیں۔ یہ پہلی خاتون تھیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور ان کی وفات تک کسی دوسری خآتون سے نکاح نہیں کیا ۔ حضرت ابراہیم  رضی اللہ عنہ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بقیہ تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کے بطن سے تھی۔ سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے انہی کے نام پر آپکی کنیت ابوالقاسم پڑی۔ پھر زینب رضی اللہ عنہ، رقیہ رضی اللہ عنہ، ام کلثوم رضی اللہ عنہ، فاطمہ رضی الہ عنہ اور عبداللہ پیدا ہوئے۔ عبداللہ کا لقب طیب اور طاہر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے،البتہ بچیوں میں سے ہر ایک نے اسلام کا زمانہ پایا مسلمان ہوئیں اور ہجرت کے شرف سے مشرف ہوئیں، لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سوا باقی سب کاانتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ہو گیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رحلت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھہ ماہ بعد ہوئی۔

واضح رہے کہ انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نبوت ملنے سے پہلے بھی دینِ حنیف پر ہوتے ہیں، چنانچہ آپ  بھی ملتِ ابراہیمی پر قائم تھے، اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی راستی اور طہارت بھی مسلم تھی، نیز ورقہ بن نوفل کی تعلیمات کی روشنی میں وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نبی آخر الزماں ہی سمجھ کر نکاح کر رہی تھیں، اس لیے یہ نکاح دینِ حنیف (ملتِ ابراہیمی) پر منعقد ہوا تھا۔ نیز دینِ اسلام آنے کے بعد بھی عرب کے دستور کے مطابق کیے گئے سابقہ نکاحوں کا بھی اعتبار کیا گیا، اور ایمان لانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تجدیدِ نکاح کا حکم نہیں دیا گیا

جاری ھے 

Share: