*قسط نمبر (13) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*


حلف الفضول کا آمن معاہدہ اور رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس میں شرکت

جنگ فجار کے بعد اسی حرمت والے مہینے یعنی ذوالقعدہ میں “حلف الفضول “ کا آمن  معاہدہ طے پایا ۔ چند قبائل جن میں بنی ہاشم ، بنی مُطّلب ، بنی اَسَدَ بن عبد العزیٰ ، بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تَیم بن مُرّہ  شامل تھے نے اس کا اہتمام کیا۔ یہ لوگ عبداللہ بن جُدْعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے…کیونکہ وہ سن وشرف میں ممتاز تھا …مذکورہ بالا قبائل نے آپس میں عہد وپیمان کیے کہ مکہ مکرمہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا۔ خواہ وہ مکے کا رہنے والاہویا کہیں اور کا ، یہ سب قبائل اس کی مدد اور حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرفِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سُرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر  دورِ اسلام میں اس عہد وپیمان کے لیے مجھے بلایا جاتا تو میں بخوشی اس پر لبیک کہتا۔ 

اس معاہدے کی روح چونکہ عصبیت کی تہہ سے اٹھنے والی جاہلی حمیت کے منافی تھی اس لئے کچھ قبائل نے اس کی مخالفت کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ اس معاہدے میں شامل قبائل بھی کافی طاقتور تھے اس لئے مخالفت کے باوجود یہ معاہدہ مکہ مکرمہ میں نافذ ھو گیا

اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا  رھنے والا ایک شخص تجارت کا سامان لے کر مکہ مکرمہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا اور زبردستی اُس کی بیٹی کو کنیز بنا کر اپنے گھر لے گیا ۔  اس نے حلیف قبائل عبد الدار ، مخزوم ، جمح ، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے بھی اس کی داد رسی نہ کی ۔ اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے۔ جن میں اپنی مظلومیت  کی داستان درد بھرے لہجے میں بیان کی ۔ اس کا فوری نتیجہ برآمد ھوا اور حضور اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص  مکہ مکرمہ میں بے یار ومدد گار کیوں ہے ؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں پیش پیش تھے پہلے معاہدہ طے پایا اور بعد میں پھر ان قبائل کے یہ لوگ  عاص بن وائل سے زبیدی کا حق  دلوانے کے لئے اس زبیدی کو اپنے ساتھ لے کر عاص بن وائل کے دروازے پر پہنچے۔ اسے باہر بلایا گیا اور سب نے یک زبان  ھو کر کہا کہ اس مظلوم پر تم نے کیوں ظلم ڈھایا ہے؟ اس ظالم نے کہا: مَیں نے کوئی ظلم نہیں کیا، وہ لڑکی کنیز ہے۔ جب مال کا سودا کیا تھا تو یہ لڑکی بھی مَیں نے اِس شخص سے خرید لی تھی۔ عاص بن وائل کا جواب سن کر وفد کے لوگوں نے زبیدی سے وضاحت مانگی تو اس نے کہا: خانہ کعبہ کی عظمت وتقدس کی قسم! مَیں نے اپنی لڑکی بیچی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کنیز ہے، وہ میری بیٹی ہے اور اس شخص نے اپنی قوت کے بل بوتے پر زبردستی اسے اغوا کرکے اپنے گھر میں ڈال لیا ہے۔ اس پر وفد کے لوگوں نے سختی کے ساتھ عاص بن وائل سے بات کی تو اس بدبخت نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور زبیدی کی لڑکی اسے واپس دینا پڑی۔


رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے معجزۂ بارانِ  رحمت 

ابن عساکر نے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کیا ہے کہ میں مکہ مکرمہ  آیا۔ اس زمانے میں  عرب کے لوگ  شدید قسم کے قحط سے دوچار تھے۔  کیونکہ پورے  عرب میں انتہائی خوفناک قحط پڑ گیا تھا اہلِ مکہ کے کچھ لوگوں  نے  بارش کے لئے بتوں سے فریاد کرنے کا ارادہ کیا مگر ایک حسین و جمیل بوڑھے نے مکہ والوں سے کہا کہ اے اہلِ مکہ! ہمارے اندر ابو طالب موجود ہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین بھی ہیں۔ ہمیں ان کے پاس چل کر دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔ چنانچہ سردارانِ عرب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کرنے لگے کہ اے ابو طالب ! قحط کی آگ نے سارے عرب کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔ جانور گھاس پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور انسان دانہ پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ قافلوں کی آمدورفت بند ہو چکی ہے اور ہر طرف بربادی و ویرانی کا دور دورہ ہے۔ آپ بارش کے لئے دعا کیجیے۔ اہلِ عرب کی فریاد سن کر ابو طالب کا دل بھر آیا اور حضور آکرم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر حرم کعبہ میں گئے۔ اور حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔ دعا کے درمیان حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھا دیا ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً ہی اس زور کا بارانِ رحمت برسا کہ عرب کی زمین سیراب ہو گئی۔ جنگلوں اور میدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ چٹیل میدانوں کی زمینیں سر سبز و شاداب ہو گئیں۔ قحط دفع ہو گیا اور قحط کٹ گیا اور سارا عرب خوش حال اور نہال ہو گیا                                                                                                  

چنانچہ ابوطالب نے اپنے اس طویل قصیدہ میں جس کو انہوں نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں نظم کیا ہے اس واقعہ کو  ایک شعر میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ          

                                                                                                                                                   وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهه

ثِمَالُ الْيَتَامِيْ عِصْمَة لِّـلْاَرَامِلِ


یعنی وہ (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ایسے گورے رنگ والے ہیں کہ ان کے رخ انور کے ذریعہ بدلی سے بارش طلب کی جاتی ہے                                                                                                     وہ یتیموں  کا ٹھکانا اور بیواؤں کے نگہبان ہیں 

                                  

         (زرقانی علی المواهب )


نبوت سے قبل رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے کاروباری مشاغل 

یہ بات تو متواتر روایات سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی سعد کی بکریاں چرائیں اور آپ مکہ مکرمہ میں بھی  قریش کی بکریاں اُجرت پر چراتے رہے تاھم یہ کوئی باقاعدہ معاشی پیشہ نہیں تھا بلکہ آپ کا آصل  خاندانی پیشہ تجارت  ھی تھا چونکہ جزیرہٴ عرب ایک بالکل بے آب وگیاہ علاقہ تھا جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا  اور چونکہ اس دور میں اہلِ عرب علم و ہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے؛ اس لیے ان کے لیے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پاسکتا تھا ویسے بھی جزیرہٴ نما عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف ملکوں کے درمیان ایک بہترین مقام اتصال تھا؛ اس لیے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا اور وہ تجارت کے سلسلے میں دور دراز کے ممالک کی طرف سیاحی کرتے رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لے کر بحیرہٴ روم تک اور دوسری جانب جنوبِ عرب میں عمان و یمن سے لے کر شمال میں فلسطین و شام تک چلتے رہتے تھے۔ اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہراہیں انھیں کے قبضے میں تھیں اور ان کے بڑے بڑے تجارتی کارواں مال و اسباب سے لدے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفر شمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان و یمن کی طرف۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گذر بسر کرتا اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں لگائے رکھتا قا فلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے۔

    یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی بہ نسبت  زیادہ آسودہ  حال تھے، ان میں سے قبیلہٴ قریش کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا؛ بلکہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت خود اللہ جل شانہ نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے: لإیلافِ قریشٍ إیْلَافِہِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّیْفِ (القریش )”            چین و عرب کی تجارت عرب سے ہوکر یورپ جاتی تھی قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا ،مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انھوں جو تجارتی معاہدے کر رکھے تھے اور رحلةَ الشتاء والصیف کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے وہ سب جانتے ہیں

    رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانوادہٴ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں اور اسی تجارتی ماحول میں نشوو نما پائی لہٰذا آپ تجارت جیسے مقدس پیشے سے الگ کیسے رہ سکتے تھے آپ کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے دادا کی وفات کے بعد انھوں نے آپ کی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ سفر پر بھی لے جانے لگے ۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی خاندانی پیشہ تجارت تھا اور آپ بچپن ہی میں ابوطالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرماچکے تھے، جس سے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہوچکا تھا؛ اس لیے آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے چچا ابوطالب کے کندھوں کو جو پہلے سے ہی کثیر العیال تھے مزید گراں بار کرنا نہیں چاہتے تھے؛ اس لیے آپ نے تجارت کو جاری رکھتے ہوئے ذریعہٴ معاش کے لیے اسی پیشہ کو اختیار فرمایا اور تجارت کی غرض سے شام و بصرہ اور بحرین و یمن کا سفر فرمایا اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ آپ نے تجارت کا کاروبار کیا کہ آپ کے شرکا اور تمام اہل بازار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے۔ ایک کامیاب تاجر کے لیے امانت، سچائی ، وعدے کی پابندی اور خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں، ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے، اس کی مثال تاریخِ عالم میں نادرِ روزگار ہے۔ آپ جلد ہی اپنے ان اوصاف کی وجہ سے مکہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہوگئے اور پوری قوم میں آپ کا نام صادق اور امین مشہور ہوگیا، آپ کی راست بازی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر فردِ بشر کے دل پر بیٹھ گیا اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مال دار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ ان کے سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے؛ بلکہ انھوں نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاجرِ امین کے لقب سے نوازا۔


رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تجارت کا طریقہ کار

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملہ سچائی اور امانت داری سے کرتے اور ہر معاملے میں سچا وعدہ کرتے اور جو وعدہ کرتے اس کو پورا ہی کرتے۔ آپ کے تجارتی ساتھی عبد اللہ بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معاملہ کیا میرے ذمے کچھ دینا باقی تھا میں نے عرض کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں اتفاق سے گھر جانے کے بعد اپنا وعدہ بھول گیا، تین روز بعد یاد آیا کہ میں آپ سے واپسی کا وعدہ کرکے آیا تھا، یاد آتے ہی فورا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر پہونچا معلوم ہوا کہ دو روز گذرگئے، آج تیسرا دن ہے وہ مکان پر نہیں آئے، گھر والے خود پریشان ہیں، میں یہاں سے روانہ ہوا اور جہاں جہاں خیال تھا، سب جگہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا کہیں نہیں ملے تو احتیاطا وعدہ گاہ پر پہونچا میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ آپ اسی مقام پر موجود ہیں اور میرا انتظار کررہے ہیں اور زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلسل تین دن انتظار کی زحمت اٹھانے کے بعد بھی جب میں نے معذرت کی تو آپ نہ ناراض ہوئے، نہ لڑائی جھگڑا کیا او رنہ ڈانٹ ڈپٹ کی صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے اور وہ بھی دھیمی آواز میں ”یَا فَتٰی! لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ أَنَا ھٰھُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُکَ“

(سنن أبي داؤد) 

کہ ارے بھائی! تونے مجھے زحمت دی میں تین دن سے اسی جگہ تمہارا انتظار کررہاہوں۔(سیرة المصطفیٰ ) 

تجارت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔ عبد اللہ بن سائب فرماتے ہیں  کہ میں زمانہٴ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریکِ تجارت تھا، جب مدینہ منورہ حاضرہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو پہچانتے بھی ہو؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! کُنْتُ شَرِیْکِيْ فَنِعْمَ الشَّرِیْکُ لاَتُدَارِيْ وَلاَ تُمَارِيْآپ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے۔ (سیرة المصطفیٰ) قیس بن سائب مخزومی فرماتے ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے شریک تجارت تھے ”وَکَانَ خَیْرَ شَرِیْکٍ لَایُمَارِيْ وَلَایُشَارِيْ“ آپ بہترین شریکِ تجارت تھے، نہ جھگڑتے تھے اور نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے۔ (حوالہ بالا)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاروبار کے ایک ساتھی کا نام   ابوبکر تھا  وہ بھی مکہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے، وہ کبھی کبھی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔(سیرة النبی)

عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا سامانِ تجارت ان میلوں میں لے جایا کرتے، آپ کی دیانت داری کی بنا پر آپ کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ۔ ایک دفعہ ایک میلے میں آپ بیس اونٹ لائے؛ مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا تو اپنے غلام کو تاکید کرگئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے، اس کی نصف قیمت وصول کی جائے ۔ فارغ ہوکر آپ واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہوچکے تھے ۔ غلام سے دریافت کیا تو اس نے معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بابت بتانا یاد نہ رہا اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کرلی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریداروں کاپ پتہ دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے پر بڑا ملال تھا، فوراً غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر ان کی تلاش میں چل دیے ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کو پالیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں، وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد بن عبد اللہ کے تمام اونٹ خریدنے کے لیے بھیجا تھا اور تاکید کی تھی کہ اس کے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا، ہم وہاں تین دن تک محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو تلاش کرتے رہے، آخر تین دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا، آپ نے فرمایا بھائیو ! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہے، سودا کرتے ہوئے میرا ملازم بتانا بھول گیا، اب وہ اونٹ مجھے دے دو اور اس کی قیمت واپس لے لو، یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے ابھی تک انھیں اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا؛ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ دیکھتے ہی فورا پہچان لیا اور اُن سے اونٹ لے کر اس کی قیمت واپس کردی۔ بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو انھوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہوسکتا، فوراً خدمتِ اقدس میں پہنچے اور شرفِ اسلام سے بہرہ مند ہوگئے۔ محدث میگزین )

آپ نے بیرون تجارت میں بھی حصہ لیا اور آپ مکہ میں گھوم پھرکر بھی کاروبار کیا کرتے تھے۔ الغرض ابو طالب کے ساتھ آپ بچپن ہی میں بعض تجارتی سفر کرچکے تھے۔ ہر قسم کا تجربہ حاصل ہوچکا تھا اور آپ کے حسنِ معاملہ کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی۔ نوخیز و نوجوان محمد صلی اللہ علیہ وسلم گلہ بانی سے آگے بڑھ کر میدانِ تجارت میں آئے تو آپ کے تعلقات وسیع ہوئے۔ لوگوں کو آپ کو آزمانے اور پرکھنے کا موقع ملا؛ مگر یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو زیادہ قریب سے دیکھا وہی آپ کے سب سے زیادہ گرویدہ ہوئے اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ صرف دس بارہ سال کے عرصے میں آپ کی غیر معمولی امانت داری، راست بازی اور سچائی نے سب ہی مکہ والوں کو یہاں تک موہ لیا کہ وہ آپ کا نام لینا بے ادبی سمجھنے لگے، یہی مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور سیٹھ جن کو اپنی دولت پرناز تھا، جن کو اپنے بین الاقوامی تعلقات پر فخر تھا کہ ان کے تجارتی قافلے شام، یمن اور فارس وغیرہ جاتے ہیں افریقہ کے بازاروں میں ان کا لین دین ہوتا ہے، ان ملکوں کے امیروں اور بادشاہوں سے ان کی راہ و رسم ہے، ان سے اپنی بات منواسکتے ہیں، یہی روٴسائے قریش جو اپنے سوا کسی کو نظر میں نہیں لاتے تھے، جو دوسروں کی گردنیں اپنے سامنے جھکوانا چاہتے تھے، جن کے مشاعروں کی جان ان کے وہ فخریہ قصیدے ہوا کرتے تھے، جن میں وہ اپنی عظمت اور بڑائی کے ترانے گاتے اور کوئی ان کا توڑ کرتا تو لڑ پڑتے تھے، یہاں تک کہ خوں ریز جنگ کی نوبت آجاتی تھی۔ دنیا جانتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ یتیمِ عبد اللہ کی غیر معمولی سچائی اور امانت داری نے ان سیٹھوں اور رئیسوں کو اس حد تک متاثر اور گرویدہ بنادیا تھا کہ وہ آپ کو ”الصادق یا الامین“ ہی کہتے تھے، نام لینا بے ادبی سمجھتے تھے، یہ دو لفظ یہاں تک زبانوں پر چڑھ گئے کہ انھوں نے قومی لقب کی حیثیت اختیار کرلی  اور آپ انہیں القاب سے مکہ مکرمہ میں پہچانے جانےلگے ۔

جاری ھے


Share: