*قسط نمبر (16) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*

 قبل از نبوت رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک شمائل و خصائص 

نبی اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بچپن ہی سے آعلی اخلاق اور عمدہ صفات کے حامل تھے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زندگی بھی نبوت ملنے سے پہلے ہی تمام برائیوں سے پاک تھی۔ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تمام لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے ،غریبوں کا بوجھ اٹھاتے اور مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کرتے اور کبھی وعدہ خلافی نہ کیا کرتے تھے۔ (بخاری)

 آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا  مبارک  وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا مجموعہ تھا جو متفرق طور پر لوگوں میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بچپن  ہی سے صحیح سوچ، دوربینی اور حق پسندی کے آعلی معیار پر فائز تھے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اپنی آعلی و آرفع  فکر  ، عقلِ سلیم  اور نورانی  فطرت  سے اس وقت کے معاشرے کے تمام معاملات اور احوال کا گہرائی سے جائزہ لیا اور اس وقت لوگ جن بیہودہ حرکتوں میں مشغول تھے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان سے کھلم کھلا بیزاری کا اظہار کیا۔ جس وقت آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی قوم میں برائیاں عام تھیں اس وقت بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اپنے آپ کو ہر قسم کی برائیوں سے دور رکھا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے پوری پاکیزگی اور بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان  جوانی کی زندگی کا وقت گزارا۔ اچھے کام میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم شرکت فرماتے اور ہر برے کام سے دور رہتے تھے۔ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے نبوت سے پہلے بھی غیر اللہ کے لئے منعقد کئے گئے تہواروں میں کھبی بھی شرکت  نہیں فرمائی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو بچپن ہی سے بتوں  سے نفرت تھی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ان کی قسم کھانا کبھی گوارا نہیں فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی سامنے غیراللہ کے نام پر ذبح کئے گئے جانور کا گوشت پیش  کیا گیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اسے کھانے سے انکار کر دیا ۔(بخاری۔عن ابن عمر ؓ )

آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنی  قوم میں بہت بلند کردار، فاضلانہ اخلاق اور بہترین عادات کی و جہ سے ممتاز تھے۔ سیّدہ خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں  جس کا مفہوم یہ ھے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بےسہارہ لوگوں  کا سہارہ بنتے مسافروں کے طعام وقیام کا بندوبست فرماتے ، مہمان کی میزبانی فرماتے  اورمصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے تھے۔ (بخاری)

آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ مجھے جوانی میں کبھی عیش پرستی اور بدکاری کی ہمت نہیں پڑی بلکہ میرے رب نے مجھے ان تمام برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا جو جاھلیت  کے زمانہ  میں مکہ کے نوجوانوں میں عام تھیں ۔ (بیہقی)

آپ صلی اللہ علیہ و سلم  دوراندیشی  اور حق پسندی کا بلند مینار تھے۔  اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حُسنِ فراست اور ، پختگی فکر  جیسی عظیم صفات سے مالا مال کیا ھوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی طویل خاموشی سے مسلسل غور حوض ، تدبیر وتفکیر اور حق کی کرید میں مدد لیتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان تمام برائیوں سے الگ رہتے ہوئے پوری بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان  اپنی جوانی کی زندگی کا سفر طے کیا یعنی لوگوں کے اچھے کام میں شرکت فرما لیتے  ورنہ اپنی مقررہ تنہائی کی طرف پلٹ جاتے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے پہلے بھی شراب کو کبھی منہ نہ لگایا حالانہ اس وقت کے معاشرے میں شراب نوشی عام تھی اور اسے بُرا  بھی نہیں سمجھا جاتا تھا آپ نے  غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ کھبی  نہیں کھایا اور بتوں کے لیے منائے جانے والے تہواروں  اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی۔ 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے شدید نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی  حتٰی کہ لات و عُزیٰ کی قسم  کہنا تو درکنار کسی دوسرے سے سننا بھی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو گوارا نہ تھا۔ 

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ  قدم قدم پر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی حفاظت و نصرت ذات باری تعالی کی طرف سے ھو رھی تھی۔ ابنِ اثیر کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: “اہلِ جاہلیت جو کام کرتے تھے مجھے دو دفعہ کے علاوہ کبھی  بھی ان کا خیال نہیں گذرا لیکن ان دونوں مواقع پر ہر دفعہ اللہ تعالٰی نے میرے اور اس کام کے درمیان رکاوٹ ڈال  کر مجھے محفوظ فرما دیا  اس کے بعد پھر کبھی مجھے اس کا خیال تک بھی نہ گذرا یہاں تک کہ اللہ نے مجھے نبوت  سے مشرف فرما دیا۔ 

پہلی مرتبہ  کچھ یوں ہوا کہ جو لڑکا  میرے ساتھ بکریاں چرایا کرتا تھا ایک رات میں  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے  اُسے کہا: آج کی رات تم میری  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بکریاں دیکھو اور میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مکہ میں جا کر شبانہ قصہ گوئی کی محفل میں شرکت کر لوں! اس نے کہا ٹھیک ہے۔  میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نکلا اور ابھی مکہ کے پہلے ہی گھر کے پاس پہنچا تھا کہ باجے کی آواز سنائی پڑی۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا فلاں کی فلاں سے شادی ہے۔ میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  وھاں بیٹھ گیا لیکن  اللہ پاک نے میرے کان بند کر دیےاور مجھ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر  گہری نیند طاری ھو گئی پھر اگلے دن سورج کی تپش  ہی سے میری آنکھ کھلی اور میں  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے ساتھی کے پاس واپس چلا گیا۔ اس کے پوچھنے پر میں  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اُسے تفصیلات بتائیں۔ 

دوسری دفعہ ایک رات پھر میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اپنے ساتھی سے یہی بات کہی اور مکہ پہنچا تو پھر اسی رات کی طرح کا واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد پھر کبھی ایسا ارادہ نہ ہوا

صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عباس  رضی اللہ تعالی عنہ پتھر ڈھو رہے تھے۔ حضرت عباس  رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا: اپنا تہبند اپنے کاندھے پر رکھ لو۔ پتھر سے حفاظت رہے گی، لیکن جونہی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ایسا کیا آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم زمین پر جا گرے۔ نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھ گئیں۔ افاقہ ہوتے ہی آواز لگائی: میرا تہبند ۔ میرا تہبند اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا تہبند آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو باندھ دیا گیا۔

نبی  کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم میں بلند کردار،  آعلی اخلاق اور کریمانہ عادات کے لحاظ سے ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سب سے زیادہ بامروت، سب سے زیادہ خوش اخلاق، سب سے بڑھ کر دور اندیش، سب سے زیادہ راست گو، سب سے نرم پہلو، سب سے زیادہ پاک نفس، خیر میں سب سے زیادہ کریم، سب سے زیادہ نیک عمل کرنے والے ، سب سے بڑھ کر پابندِ عہد اور سب سے بڑے امانت دار تھے، حتٰی کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی قوم نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا نام ہی “امین“ رکھ دیا تھا کیونکہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اعمالِ صالحہ اور خصالِ حمیدہ کا پیکر تھے۔ جیسا کہ حضرت خدیجہ  رضی اللی تعالی عنہ کا قول اوپر گزرا وہ فرماتی ھیں “ آپ صلی اللہ علیہ و سلم غریبوں کی مدد فرماتے   تھے، بے سہاروں کا بندوبست فرماتے تھے، مہمان کی میزبانی کرتے تھے اور مصائبِ حق میں اعانت فرماتے تھے 


رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لقب “ اُمٌِی “ اور اس کی حکمت

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا  ایک لقب  “اُمّی” ہے  پہلی آسمانی کتابوں میں بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا یہ لقب مذکور ھے بظاھر اس لفظ کے دو معنی  ھو سکتے ہیں

 اولاً  یہ کہ ” اُم القریٰ ” کی طرف  آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی نسبت ہے۔ “اُم القریٰ” مکہ مکرمہ ھی  کا نام  ہے اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مکہ مکرمہ کےباسی تھے لہٰذا “اُمی” کے ایک معنی  تو “ مکہ مکرمہ کے رہنے والے  “ ھوئے 


ثانیاً یہ کہ عرب  میں لفظ  “ اُمٌی “ اُس  شخص کے لئے استعمال ھوتا  تھا جس نے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ھو چنانچہ حدیثِ مبارکہ ھے

اُمّ المومنین حضرت عائشہ بنت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہما فرماتی ہیں

 ’’ثُمَّ حُبِّبَ اِلَیْہِ الْخَلَاءُ فَکَانَ یَخْلُوْ بِغَارِ حِرَاء‘‘۔ (بخاری) 

پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو خلوت اور تنہائی محبوب بنا دی گئی اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  غارِ حرا میں جاکر خلوت گزیں ہوئے۔

ایک دن غارِ حرا میں  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حسبِ معمول عبادت میں مشغول تھے کہ فرشتہ وحی لے کر آیا اور سلام کیا۔ پھر یہ کہا

 ’’اِقْرَأْ‘‘ (پڑھیے)۔ 

آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا ’’مَا اَنَا بِقَارِئٍ۔‘‘ (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔) 

تین مرتبہ معانقۂ جبرئیل کے بعد آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی اور پانچ آیتیں جو سورۂ علق کی ابتدائی ہیں، آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے پڑھیں۔

O اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ

O خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ

O اِقْرَأْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ

O عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَم

آپ اپنے رب کے نام سے  پڑھیے جس نے پیدا کیا

 جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ 

آپ پڑھیے اور آپ کا رب نہایت کریم ہے  وہ جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔

وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں۔


رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ذات کے حوالے سے “ اُمّی” کے معنی یہ ھوئے کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے دنیا میں کسی انسان یا جن  سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ یہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نہیں پڑھایا لکھایا۔ مگر خداوند قدوس نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس قدر علم عطا فرمایا کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا سینہ اولین و آخرین کے علوم و معارف کا خزینہ بن گیا۔ اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر ایسی کتاب نازل ہوئی جس کی شان ’’تِبْيَانًا لِّکُلِّ شَيْئٍ‘‘ (ہر ہر چیز کا روشن بیان) ہے 

حضرت مولانا جامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا ھے                                                                                                                                             

            نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت                          

بغمزہ سبق آموز صد مدرس شد                                            

یعنی میرے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نہ کبھی مکتب میں گئے، نہ  پڑھنا لکھنا سیکھا مگر اپنے چشم و ابرو کے اشارہ سے                                                                                                            سینکڑوں مدرسوں کو سبق پڑھا دیا 


مولانا ظفر علی خان  اپنے نعتیہ کلام میں فرماتے ھیں 

جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا

وہ راز  اک کملی والے نے بتلادیا چند اشاروں  میں


ظاہر ہے کہ جس  ھستی کو  براہ راست علم عطا کرنے والے خود خالق  و مالک  اللہ جل جلالہ ہو ں  تو بھلا اس کو  مخلوق میں سے کسی استاد سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہو سکتی ھے                                                                                     

آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے “امی “ لقب ہونے کے حقیقی راز کو تو رب علام الغیوب کے سوا  کوئی اور نہیں  جان سکتا لیکن  علماء نے “ اُمی “ لقب میں چند حکمتیں اور فوائد  بیان فرمائے ھیں                                                                                        

اوّل یہ کہ تمام دنیا کو علم و حکمت سکھانے والے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں  اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو علم براہ راست اللہ پاک نے عطا فرمایا ھے  کسی انسان کو آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا استاد نہیں بنایا گیا  تاکہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے۔ 

دوم یہ کہ کوئی شخص کبھی یہ خیال  بھی نہ کر سکے کہ فلاں آدمی حضور  آکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا استاد تھا  تو شاید وہ حضور آکرم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ  علم والا ھو                                                                             

سوم  یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم چونکہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس لیے انہوں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے خود ہی قرآن کی آیتوں کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن ان  (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ) کا اپنا ھی  بنایا ہوا کلام ہے۔ 

چہارم  یہ کہ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ساری دنیا کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینا شروع کریں تو اس وقت کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پہلی اور پرانی کتابوں کو دیکھ دیکھ کر اس قسم کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

پنجم۔ یہ کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا کوئی استاد ہوتا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس  کا ادب اور تعظیم کرنی پڑتی، حالانکہ حضوراکرم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو خالق کائنات نے اس لیے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تعظیم کرے، اس لیے اللہ جل شانہ نے اس کو گوارا نہیں فرمایا کہ میرا محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرے اور کوئی اس  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا استاد ہو۔

ششم یہ کہ اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا کوئی اُستاد ھوتا تو رسول کریم کی تعلیمات کو سن کر  وہ یہ دعوی کر سکتا تھا کہ یہ تعلیمات تو میں نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو سکھلائی ھوئی  ھیں وغیرہ وغیرہ 


جاری ھے ۔۔۔۔،


Share: