قسط نمبر (17) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

  نبوت سے پہلے رسول پاک  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غارِ حراء  میں عبادت وریاضت 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کی عمر شریف جب سینتیس برس کے قریب ہو ئی  تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ذات اقدس میں ایک نیا اور غیر معمولی انقلاب رونما ہو گیا کہ خلافِ معمول آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم  بہت خلوت پسند ہو گئے اور  آپ کو اکیلے تنہائی میں بیٹھ کر خدا کی عبادت کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اکثر اوقات غور و فکر میں پائے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا بیشتر وقت مناظرِ قدرت کے مشاہدہ کرنے اور کائنات فطرت کے مطالعہ میں صرف ہوتا تھا۔ آپ دن رات خالقِ کائنات کی ذات و صفات کے تصور میں مستغرق اور اپنی قوم کے بگڑے ہوئے حالات کے سدھار اور  اس کی تدبیروں کے سوچ بچار میں  مصروف رہنے لگے۔     (بخاری) 

آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اکثر کئی کئی دنوں کا کھانا اور پانی وغیرہ ساتھ لے کر غار  حراء کے پرسکون ماحول کے اندر خدا کی عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ جب کھانا اور پانی وغیرہ  ختم ہو جاتا تو کبھی خود گھر پر آکر  کھانے پینے کی آشیاء لے جاتے اور کبھی ایسا بھی ھوتا کہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کھانا  غار میں خود پہنچا دیا کرتی تھیں یا پھر خادم کے ھاتھ بجھوا دیا کرتی تھیں  ۔ آج بھی یہ نورانی غار اپنی اصلی حالت میں موجود ھے اور  اُن مقاماتِ مقدسہ میں سے ھے جو آج بھی اسی شکل میں موجود ھیں جس شکل میں رسول کریم  کے زمانہ میں تھیں  زائرین بڑے شوق  و عقیدت سے اس کی زیارت  کرتے ھیں  اور یہاں بیٹھ کر دعائیں مانگتے ھیں 

بعض روایات سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ نبوت سے قبل  غارِ حراء  میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  عبادت کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے، اور کئی کئی دن وہاں خلوت میں گزارا کرتے تھے، لیکن وہ عبادت کس قسم کی تھی تو اس سلسلے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں:-

بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نبوت سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے مطابق عبادت کرتے تھے، 

بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اپنے اجتہاد اور رائے سے عبادت کرتے تھے،  

بعض شارحین نے لکھا ہے کہ  غارِ حرا میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی عبادت غور و فکر اور عبرت پذیری پر مشتمل تھی۔ 


غرض نبوت سے قبل  غار حراء میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی عبادت تو احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، البتہ عبادت کی کیفیت کیا تھی اس کے بارے کوئی قطعی ثبوت احادیث میں موجود  نہیں ہے۔

اس پر سیرت نگاروں کا اتفاق ھے کہ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی محبوب ہو گئی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ستو اور پانی وغیرہ لے کر غار حراء میں تشریف لے جایا کرتے  اور کئی کئی دن وھاں گوشہ نشین رھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس غار میں  تشریف لے جاتے تو  بعض اوقات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جاتیں اور قریب ہی کسی جگہ موجود رہتیں۔  بعض روایتوں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کا  پورا مہینہ اس غار میں قیام فرماتے۔ صلہ رحمی فرماتے آنے جانے والے مسکینوں کو کھانا کھلاتے اور بقیہ اوقات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے، کائنات کے مشاہدات  اور اس کے پیچھے کار فرما قدرتِ نادرہ پر غور فرماتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تنہائی پسندی بھی درحقیقت تدبیرِ الہی کا  ھی ایک حصہ تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے والے کارِ عظیم کے لیے تیار کر رہے تھے گویا جب اللہ تعالیٰ نے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو امانتِ کبریٰ کا بوجھ اٹھانے، روئے زمین کو بدلنے اور خطہِ تاریخ کو موڑنے کے لیے تیار کرنا چاہا تو رسالت کی ذمہ داری عائد کرنے  سے تین  ساڑھے تین سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خلوت نشینی مقدر کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خلوت میں  کئی کئی دن تک کائنات کے  وجود  اور اس کی تخلیق پر غور و فکر کرتے اور اس وجود کے پیچھے چھپے ہوئے غیب کے اندر تدبر فرماتے  یہ سب کچھ رب ذوالجلال کی مشیت کے مطابق  ھی ھو رھا  تھا تاکہ جب اللہ تعالیٰ کا اذن نبوت ہو تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مستعد  ھو کر اس بارِ عظیم  کو بآسانی اُٹھا سکیں 


غارِ حراء “ سرچشمۂ ھدایت  کے پھوٹنے کا مقام 

غارِ حراء  مکہ مکرمہ کا نہایت ہی مبارک، باعظمت اور مقدس تاریخی مقام ہے یہ غار  مکہ مکرمہ کے ایک پہاڑ جبل نور  کے پہلو میں واقع  ھے  یہ پہاڑ خانہ کعبہ سے تقریباً  ساڑھے تین میل کےفاصلے پر  واقع ہے۔ 

اسی غار میں پہلی وحی نازل ہوئی۔ یہ غار پہاڑ کی چوٹی پر نہیں ھے  بلکہ اس تک پہنچنے کے لیے پہاڑ کی چوٹی سے  ساٹھ ستر میٹر نیچے مغرب کی سمت اُترنا  پڑتا ہے۔ نشیب میں اتر کر راستہ پھر بلندی کی طرف جاتا ہے جہاں غار حراء واقع ہے یعنی یہ غار پہاڑ کے اندر نہیں بلکہ اس کے پہلو میں تقریباً خیمے کی شکل میں اور ذرا باہر کو ھٹ کر ہے۔ کم و بیش نصف میٹر موٹے اور پونے دو میٹر تک چوڑے اور تین چار میٹر لمبے چٹانی تختے پہاڑ کے ساتھ اس طرح ٹکے ہوئے ہیں کہ یہ مثلث جیسا غار بن گیا ہے جس کا ہر ضلع اڑھائی میٹر لمبا اور قاعدہ تقریباً ایک میٹر ہے۔ غار کی لمبائی سوا دو میٹر ہے اور اس کی اونچائی آگے کو بتدریج کم ہوتی گئی ہے۔ غار کا رخ ایسا ہے کہ  سورج  کی تپش اندر نہیں آتی البتہ ھوا اور روشنی اندر آتی ھے 

پہلے یہ  پہاڑ  مکہ شہر سے باھر ھوا کرتا تھا لیکن اب  چونکہ مکہ مکرمہ شہر بہت  وسیع ہوگیا  ھے اس لئے جبلِ نور  اب تقریباِ شہر کے وسط میں آ گیا ھے 

اللہ  کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِعلانِ نبوت سے قبل اِسی غارِحرا میں ذِکر و فکر  اور عِبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چند روز کی خوراک ساتھ لے کر جبل نور پر  تشریف لیجاتے  اور اس غار میں غور و فکر اور عبادت فرماتے تھے۔ یہیں ایک روز جبرائیل علیہ السلام امین نمودار ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سب سے پہلی وحی نازل ھوئی

غارِ حراء کو  نبی کریم  کے عبادت کے لئے مخصوص کرنے کی وجہ بعض علماء نے یہ  بتائی ھے کہ آپ  نے عبادت کرنے کے لئے غارِ حرا كو اس لئے خاص فرمایا کہ اس غار کو دیگر غاروں پر اضافی فضیلت حاصل ہے کیونکہ اس میں لوگوں سے دوری، دِل جمعی کے ساتھ عبادت اور بَیْتُ اللہ شریف کی زیارت ہوتی تھی، گویا غارِ حرا میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کیلئےتین عبادتیں جمع ہوگئی تھیں 

۱- تنہائی، 

۲-عبادت 

۳- بَیْتُ اللہ کی زیارت 


جبکہ دیگر غاروں میں یہ تین باتیں نہیں۔    یہ غارجبلِ  نور میں قبلہ رُخ واقع ہے یہاں سے خانہ کعبہ کا نظارہ  بھی ھو جاتا ھے جبلِ نور  مکہ سے طائف جانے والے راستے پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس پہاڑ  کی بلندی 639 میٹر کے لگ بھگ  ہے۔ جبل نور اپنے  دامن میں کچھ پھیلاؤ رکھتا ہے اور پھر اس کے بعد قریباً سیدھا اوپر کو اٹھتا چلا گیا ہے تاہم اس کی چوٹی نوکیلی نہیں۔ پہاڑ کے دامن میں نصف کلومیٹر تک راستہ ہموار ہے اور آگے چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ اوپر چڑھنے کا راستہ مشرقی سمت سے ہے اور چکر کھاتے ہوئے اوپر جاتا ہے۔

آج بھی غار حراء کو سرچشمہ ھدایت قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہیں سے انسان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی پر مبنی پیغام کا آغاز ہوا اور دنیا کے کونے کونے تک جا پہنچا۔ غار کے اندر داخل ہونے کا راستہ اس کے شمال کی سمت سے ہے اور وہاں سے خانہ کعبہ کا براہ راست نظارہ ممکن ہے۔


غار حراء اندر سے کوئی بہت کھلی جگہ نہیں۔ وہاں ایک  وقت میں زیادہ سے زیادہ  پانچ چھ افراد بیٹھ  سکتے ہیں۔تاھم بیک وقت نماز پڑھنے کی گنجائش اتنی ھی ھے کہ بمشکل دو آدمی نماز پڑھ سکتے ھیں 

غار حراء تک پہنچنے کے لیے اچھی خاصی جسمانی  ریاضت اور طاقت کی ضرورت  ھوتی ہے کیونکہ چڑھائی چڑھتے ہوئے وہاں تک پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ جبلِ نور  کی چوٹی پر پہنچ کر وہاں سے غار حرا کے اندر جانے کے لیے مزید 20 میٹر  نیچے کی طرف چلنا پڑتا ہے۔  کہا جاتا ھے کہ دنیا کے کسی اور مقام پر ایسی  کوئی غار  موجود نہیں ۔ یہ غار باہر سے کافی حد تک اونٹ کی کوہان سے مشابہت رکھتی ہے۔

یہ  بات بھی یاد رھنی چاھیے کہ غارِ حراء ایک بابرکت اور تاریخی مقام تو ضرور ھے تاھم حج یا عمرہ کا کوئی بھی عمل اس غار سے وابستہ نہیں ھے  کسی حاجی یا زائر کا اس پہاڑ کی زیارت کے لئےجانا لازمی اُمور میں سے نہیں ھے اگر  بالفرض کوئی حاجی یا زائر وہاں نہ جا سکے یا قصداً وھاں نہ جائے یا پہاڑ کے اوپر نہ جائے  تو اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ھے

جاری ھے ۔۔۔۔۔۔


Share: