*قسط نمبر (3 ) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کا خاندانی پس منظر

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس امر میں تو  کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں  ھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ھیں  گویا حضرت ابراھیم علیہ السلام آپ کے جدّ امجد ھیں 

حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم علیہ السلام بَابِل(جو آج کے حساب سے عراق بنتا ہے) میں پیدا ہوئے۔ آپ علیہ السلام کے والد کانام "آزر" تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد بت پرست تھے بلکہ وہ بت ساز بھی تھے یعنی بت بنایا بھی کرتے تھے ۔جس شہر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے وہ دنیاوی اعتبار سےاس دور کی تہذیب اور ایجادات کے عروج پر تھا۔اور یہ شہر بت پرستی اور بتوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالی ھے 

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَاَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هٰذَا رَبِّىْ ۖ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ (سورۃ الانعام آیت 76)

پھر جب رات نے اس پر اندھیرا کیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتے۔(ترجمہ مولانا احمد علی لاہوریؒ)

اس آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم بہت ساری چیزوں کی پوجا کرتی تھی اور اس میں،زمین سورج،چاند ستارے یہ بھی شامل تھے۔جب رات کو اللہ تعالیٰ نے ستارے کو غروب کردیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تم کہتے ہو یہ ہمارا رب ہے یہ تو ڈوب گیا اور ڈوبنے والا رب نہیں ہوتا۔

اس آیت مبارکہ کو اس لیے بیان کیا تاکہ جو بات سمجھائی تھی کہ نبی کی تعلیم کا محور "توحید "ہوتا ہے۔اس بات کو ذہن نشین کرنے کے لیے آپ کے سامنے بیان کردی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان عبرانی تھی،آپ علیہ السلام کے دو بیویاں تھیں ایک بیوی کا نام "سارہ "اور دوسری بیوی کا نام "ہاجرہ"تھا۔بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو پہلی اولاد نصیب فرمائی تھی وہ حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔اور دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام تھے جو حضرت سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کو اللہ پاک نے نبوت کی سعادت سے نوازا تھا  ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام۔ یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں دو سلسلے چلے۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے انہیں بھی اللہ پاک نے سعادتِ نبوت سے نوازا تھا ان کا لقب ’’اسرائیل‘‘ تھا جو کہ عبرانی زبان میں ’’عبد اللہ‘‘ کو کہتے ہیں یعنی اللہ کا بندہ ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام سے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا، اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں تقریباً تین ہزار نبی ورسول  مبعوث فرمائے۔ جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے صرف ایک ہی رسول  ہوئے جو کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جنہیں ذبیح اللہ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ھے کی ھی اولاد میں سے قریش کا خاندان تھا


حضرت اسماعیل علیہ السلام 

حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے تھے۔ قرآن نے انہیں صادق الوعد کا لقب دیا  آپ حضرت  ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ بچے ہی تھے کہ ابراہیم علیہ السلام ان کو ان کی والدہ ہاجرہ کو اس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ اور عالم اسلام کا قبلہ ہے


قربانی کا واقعہ

ایک دن ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدیم پائیں گے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی۔ اے ابراہیم! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم احساس کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں اور ہم نے اس کے لیے ذبح عظیم کا فدیہ دیا۔ مفسرین کا بیان ہے کہ خدا کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحیٰ مناتے ہیں۔


تعمیر کعبہ

اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مدد سے مکے میں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور اس طرح دنیا میں اللہ کا پہلا گھر تیار ہوا

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قبلیہ جُرہم(جو زمزم کا کنواں نکلنے پر وہاں آکر آباد ہوئے تھے)میں پرورش پائی اور انہی لوگوں سے عربی زبان دیکھی۔(تاریخ ابن خلدون)

حضرت اسماعیل علیہ السلام کا پہلا نکاح عمارہ بنت سعید سے ہوا بعد ازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عمارہ بنت سعید کو طلاق دی اور دوسری شادی قبیلہ جرہم کے سردارمَضَاض بن عمر وجرہمی کی بیٹی سیدہ بنت مضاض سے کی ۔ اور سیدہ بن مضاض کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارہ بیٹے پیدا ہوئے ان میں سے دو بیٹوں  کی اولاد کو  شہرت حاصل ہوئی ان دو میں سے ایک بیٹے کا نام " قَیدَار" تھا اور انہیں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب مبارک آکر ملتا ہے


خاندانِ قریش

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلسلۂ نسب کی تیرہویں پشت میں نضر بن کنانہ نام کے ایک بزرگ گزرے ہیں، ان کی اولاد کو ’’قریش‘‘ کہا جاتا ہے، قریش عرب کا ایک مشہور، طاقت وَر اور ذی عزت قبیلہ تھا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اسی قبیلے کے ایک خاندان بنو ہاشم میں سے ہیں، اس لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم قریشی بھی ہیں اور ہاشمی بھی، جیسا کہ کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نسب نا مہ سے ظاہر ہے، محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔


قریش  کی وجہ تسمیہ 

اہلِ لغت نے ’’قریش‘‘ کی وجہ تسمیہ (یہ نام پڑنے) کی مختلف وجوہات ذکر کی ہیں:

1- بعض کہتے ہیں کہ ’’قریش‘‘ تصغیر ہے، قرش کی، جس کے معنی سمندر کے ایک طاقت ور جانور کے ہیں، جو اپنے سے چھوٹے سمندی جانوروں پر غالب رہتا ہے یا بہت بڑی مچھلی جو چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے، چوں کہ یہ قبیلہ بہادر تھا اس وجہ سے اس کا یہ نام معروف ہوا۔

2- قرش کے معنی جمع کرنے کے بھی ہیں، چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جدِ امجد قصی بن کلاب نے متفرق قوموں کو مکہ میں جمع کیا تھا، اس وجہ سے قریش کو قریش کہا گیا۔


3- ایک قول یہ بھی ہے کہ قرش کے معنی کسب کے ہیں اور یہ لوگ تجارت پیشہ تھے اس وجہ سے قریش کہلائے۔ اسی طرح اور بھی بعض معانی لفظ قرش کے لغت میں ملتے ہیں، اور ان معانی سے قریش کی وجہ تسمیہ ظاہر ہوتی ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے قبل بھی عرب کے تمام قبیلوں میں خاندانِ قریش کو خاص امتیاز حاصل تھا۔ خانہ کعبہ جو تمام عرب کا دینی مرکز تھا اس کے متولی یہی قریش تھے اور مکہ مکرمہ کی ریاست بھی انہی سے متعلق تھی۔ قبیلہ قریش کی بڑی بڑی شاخیں مندرجہ ذیل تھیں:


قبیلۂ قریش کی بڑی بڑی شاخیں

بنو ہاشم

بنو امیہ

بنو نوفل

بنو عبدالدار

بنو اسد

بنو تمیم

بنو مخزوم

بنو عدی

بنو عبد مناف

بنو سہم

ان کے علاوہ دیگر شاخیں بھی تھیں


ذمہ داریاں

مکہ معظمہ کی تمام ذمہ داری کے عہدے انہی شاخوں میں بٹے ہوئے تھے ان عہدوں اور ان کے متعلقین کی تفصیل درج ذیل ہے:


سداتہ، 

 کعبہ کی حفاظت اور اس کی خدمت

 محافظ کعبہ ہی کے پاس کعبہ کی کنجی رہتی تھی اور وہی لوگوں کو اس کی زیارت کراتا تھا۔ یہ عہدہ بنی ہاشم کے خاندان میں تھا اور نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے زمانہ میں آپ کے دادا عبد المطلب اس عہدے پر مقرر تھے ۔


سقایہ، 

 پانی کا انتظام 

مکہ معظمہ میں پانی کی قلت تھی اور موسم حج میں ہزا رہا زائرین کے جمع ہو جانے کی وجہ سے پانی کا خاص انتظام کیا جاتا تھا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ چمڑے کے حوض بنوا کر اُنہیں صحنِ کعبہ میں رکھ دیا جاتا تھا اور اُس کے آس پاس کے پانی کے چشموں سے پانی منگوا کر اُنہیں بھر دیا جاتا تھا۔ جب تک چاہِ زمزم دوبارہ صاف نہ ہو گیا یہ دستور جاری رہا۔ سقایہ کی خدمت بنی ہاشم سے متعلق تھی۔


رفادہ زائرین، 

کعبہ کی مہمانداری

کعبہ کی مہمانداری کے لیے قریش کے تمام خاندان ایک قسم کا چندہ ادا کرتے تھے اس چندہ سے غریب زائرین کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا یہ خدمت پہلے بنی نوفل سے متعلق تھی پھر بنی ہاشم کے حصے میں آئی۔


عُقاب، 

قومی جھنڈا

عقاب قریش کے قومی جھنڈے کا نام تھا جب لڑائی کا زمانہ ہوتا تھا تو اسے نکالا جاتا تھا اگر اتفاق رائے سے کوئی معزز شخص جھنڈا اُٹھانے کے لیے تجویز ہو گیا تب تو اسے دے دیا جاتا تھا ورنہ جھنڈے کا محافظ جو بنو امیہ کے خاندان میں سے ہوتا تھا، یہ خدمت انجام دیتا تھا۔


ندوہ، 

قومی اسمبلی

ندوہ مکہ کی قومی اسمبلی تھی۔ قریش مشورہ کرنے کے لیے یہیں جمع ہوتے تھے یہیں جنگ و صلح اور دوسرے بڑے بڑے معاملات کے فیصلے ہوتے تھے اور قریش کی شادیاں بھی یہیں ہوتی تھیں ( ندوہ ) کا انتظام بنی عبد الدار سے متعلق تھا۔


قیادہ، 

 قافلہ کی راہنمائی

جس شخص سے یہ منصب متعلق ہوتا تھا اسے خاص معاملات میں مشورہ لیا جاتا تھا۔ قریش کسی معاملہ کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے مشیر کی رائے ضرور حاصل کر لیتے تھے۔ یہ منصب بنی اسد سے متعلق تھا۔


قبہ، 

سامانِ حرب کی جگہ

جب مکہ والے لڑائی کے لیے نکلنے کا ارادہ کرتے تو ایک خیمہ نصب کیا جاتا اس خیمہ میں لڑائی کا سامان جمع کر دیا جاتا تھا۔ یہ ذمہ داری بھی قریش کے کسی خاندان سے متعلق ہوتی تھی۔


حکومہ،

 آپس کے لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کرنا 

یہ منصب بنو ھاشم کے پاس تھا


سفارہ، 

 ایلچی گری

جب کسی دشمن قبیلہ سے صلح کی بات چیت ہوتی تو کسی سمجھ دار آدمی کو اس کام کے لیے مقرر کیا جاتا۔ ابتدا اسلام میں قریش کے آخری سفیر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ بن خطاب تھے۔


اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ، قریش، عرب کا سب سے زیادہ معزز قبیلہ تھا۔ پھر قریش میں بھی بنی ہاشم کا خاندان سب سے زیادہ ممتاز تھا کیونکہ اکثر بڑے بڑے عہدے انہی سے متعلق تھے۔


قریش کے فضائل

قرآن پاک میں ایک مکمل سورة قبیلۂ قریش کے متعلق نازل ھوئی ھے  جسے سورہ القریش کہا جاتا ھے یہ کتنی بڑی سعادت اور  فضیلت ھے کہ قریش کا یہ ذکر اس سورہ کی صورت میں قرآن پاک کا حصہ ھے اور یہ قیامت تک تلاوت کی جاتی رھے گی


احادیثِ مبارکہ میں قریش کے بہت

سے فضائل وارد ہوئے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:


(1) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب کیا، اور اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو منتخب کیا، اور کنانہ کی اولاد میں سے ’’قریش‘‘ کو منتخب کیا، اور قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب کیا، اور مجھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو) بنو ہاشم میں سے منتخب کیا۔‘‘ (رواہ الترمذی، وقال: ہذا حدیث صحیح)


(2) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’تمام لوگ خیر اور شر میں قریش کے تابع ہیں۔‘‘ (رواہ مسلم)


(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’قریش، انصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، غفار اور اشجع (سب قبیلوں کے نام ہیں) میرے دوست اور مدد گار ہیں، ان کا اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی مولیٰ نہیں ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)


(4) حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو قریش کو ذلیل کرنا چاہے، اللہ اسے ذلیل کرے۔‘‘ (رواہ الترمذی)

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پر بہت سی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں جن میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  و سلم کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے وہیں آپ کے رشتہ داروں  اور قبیلہ کی بھی تفصیل ذکر کی گئی ہے، اس لیے اس موضوع پر تفصیل کے لیے سیرت مبارکہ کی کتابوں سے  مستفید  ھوا جا سکتا ھے خصوصاْ عربی زبان میں تصنیف شدہ کتابوں میں  اس موضوع پر کافی  تفصیل موجود  ہے۔

جاری  ھے ۔۔۔۔


Share: