*قسط نمبر (4) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*


قبیلہ بنو ھاشم

قریش میں چھوٹے بڑے بہت سے قبائل تھے ان قبائل میں قبیلہ بنو ھاشم کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا بنی ہاشم قرَیش کا مشہور قبیلہ تھا جو ہاشم (عمرو) بن عبد مناف بن قُصَیّ بن کِلاب (زید) سے منسوب ہے۔  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ یہ قبیلہ طلوع اسلام سے قبل بھی عرب کا مشہور اور بڑا قبیلہ تھا۔ طلوع اسلام کے وقت رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چچا ابوطالب اس قبیلے کے سردار تھے جن کی سربراہی میں اس قبیلے نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ہر ممکن حمایت کی اور ائمہؑ کرام کے زمانے میں بھی بہت سے مواقع پر یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ بنی عباس جو بنی ہاشم کا ایک زیلی قبیلہ تھا نے کئی صدیوں تک عالم اسلام پر حکومت کی۔ علاوہ ازیں اسلامی دنیا کے بعض دیگر حصوں میں بھی بنی ہاشم کے بعض خاندانوں نے حکومتیں قائم کیں ۔ بنی ہاشم رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے انتساب کی وجہ سے ہمیشہ مسلمانوں کے نزدیک نہایت  قابل احترام رہے ہیں۔

قریش میں قصی بن کلاب پہلے شخص تھے جنہوں نے پانچویں صدی عیسوی میں بعض عرب قبیلوں کو منظم کرکے اپنی قوت بڑھائی اور حجاز کے علاقے پر قابض ہو کر خانہ کعبہ کے متولی بن گئے۔ 480ء میں قصی کا انتقال ہوا تو عبد مناف بن قصی کی بجائے اس کا بھائی عبدالدار بر سر اقتدار آیا۔ عبد الدار کی وفات کے بعد عبد مناف کے بہنوئی اور بنی عبد الدار میں حکومتِ مکہ کے لیے فساد برپا ہوا۔ لیکن ذی اثر لوگوں کی مداخلت سے معاملہ سلجھ گیا، انھوں نے کعبے کی خدمات کو آپس میں بانٹ لیا اور عبد مناف کا بیٹا عبد الشمس بر سر اقتدار آیا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی اُس نے اپنے اختیارات و حقوق اپنے بھائی ہاشم کے سپرد کر دیے۔ ہاشم، دولت واقتدار کے باعث قریش میں بہت معزز سمجھے جاتے تھے۔ انھی کی اولاد بنی ہاشم کہلاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاشم کے پڑپوتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ ان کی اولاد اور خلفائے بنو عباس بھی بنی ہاشم تھے۔

پہلی جنگ عظیم تک بنی ہاشم کا ھی ایک فرد شریف حسین مکہ کا حاکم  رھا ۔ 1926میں  نجد سے تعلق رکھنے والے عبدالعزیز بن سعود نے مکے پر قبضہ کر لیا اور شریف مکہ حسین کو نکال دیا۔ مگر انگریزوں نے اس کے بیٹے امیر فیصل کو عراق کا اور امیر عبد اللہ کو اردن کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ 1958ء کے انقلاب میں عراق میں عبدالکریم قاسم نے اس خاندان کے شاہ فیصل  کی حکومت کا تختہ الٹ کر اسے  قتل کر دیا۔ اس وقت صرف اردن میں  ھاشمی خاندان کی حکومت  موجود ھے جہاں پر بنو ھاشم کے ایک  فرد شاہ عبداللہ حکمران ہیں۔


بنی ہاشم سے متعلق بعض  شرعی احکام

بنو ہاشم فقہ میں خاص احکام کا موضوع ہیں۔ خمس کا ایک حصہ ان ہاشمیوں کے لئے مختص ہے جو عبد المطلب بن ہاشم کی اولاد میں شمار ہوتے ہیں اور دوسری طرف بعض خاص اسثنائات کے سوا زکوٰة انہیں نہیں دی جاسکتی۔ عام مسلمانوں کے نزدیک اس طرح کی شرعی ممانعت کا سبب ان کی اعلی شان و منزلت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بنو ہاشم میں ہوئی۔ ان کے اہل ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل قرابت ہیں۔ ان کا مسلمانوں پر خاص حق ہے۔ ان پر صدقہ حرام ہے، اور ہدیہ حلال ہے۔ رہ گئے وہ لوگ جو ایمان نہیں لائے، ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ چونکہ ان لوگوں کی یہ قدر و قیمت صرف نسبت کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس میں اصل عنصر ایمانی روح ہے۔ جس کی عدم موجودگی میں تمام تر اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی بنی ہاشم وغیرہ کے وہ لوگ اس عزت و شرف کے مستحق ہیں، اور امت پر ان کے حقوق ہیں جو اہل سنت والجماعت کے مذہب و منہج پر چل رہے ہیں۔ جو لوگ نبی کے منہج سے ہٹ چکے ہیں ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ان کے حقوق ایمان کے ساتھ مشروط ھیں 


بنی ھاشم کی فضیلت

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا اس قبیلہ سے ھونا  ھی اس  قبیلہ کی سب سے بڑی فضیلت ھے چنانچہ حدیثِ مبارکہ ھے

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب کیا، اور اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو منتخب کیا، اور کنانہ کی اولاد میں سے ’’قریش‘‘ کو منتخب کیا، اور قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب کیا، اور مجھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو) بنو ہاشم میں سے منتخب کیا۔‘‘ (رواہ الترمذی، وقال: ہذا حدیث صحیح)

Share: