*قسط نمبر (5) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*


ہاشم

حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پَر دادا ’’ ہاشم ‘‘ بڑی شان و شوکت کے مالک تھے۔ ان کا اصلی نام ’’ عمرو ‘‘ تھا .  انتہائی بہادر، بے حد سخی، اور اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے۔ ایک سال عرب میں بہت سخت قحط پڑ گیا اور لوگ دانے دانے کو محتاج ہو گئے تو یہ ملکِ شام سے خشک روٹیاں خرید کر حج کے دنوں میں مکہ  مکرمہ پہنچے اور روٹیوں کا چورا کر کے اونٹ کے گوشت کے شوربے میں ثرید بنا کر تمام حاجیوں کو خوب پیٹ بھر کر کھلایا۔ اس دن سے لوگ ان کو ’’ ہاشم ‘‘(روٹیوں کا چورا کرنے والا) کہنے لگے۔

   (مدارج النبوة )

ھاشم چونکہ ’’ عبدمناف ‘‘ کے سب لڑکوں میں بڑے اور با صلاحیت تھے اس لئے عبد مناف کے بعد کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے . بہت حسین و خوبصورت اور وجیہ تھے . ان کی  ایک  (آخری) شادی مدینہ منورہ میں قبیلہ خزرج کے ایک سردار عمرو کی صاحبزادی سے ہوئی  تھی جن کا نام ’’ سلمیٰ ‘‘ تھا۔ اور ان کے صاحبزادے ’’ عبد المطلب ‘‘ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے . چونکہ ہاشم  ملک شام کے راستہ میں بمقام ’’ غزہ ‘‘ انتقال کر گئے تھے اس لئے عبدالمطلب مدینہ ہی میں اپنے نانا کے گھر پلے بڑھے، اور جب سات یا آٹھ سال کے ہو گئے تو مکہ آکر اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہنے لگے۔

عبد مناف کے کئی بیٹے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کے پر دادا ہاشم، اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پر دادا عبد الشمس، اور نوفل بن عبدمناف جو کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پر دادا ہیں

ہاشم  کو مکہ مکرمہ کے صاحبان مناصب میں ایک بلند مقام حاصل تھا۔ وہ بنی ہاشم تک پہنچنے والے مختلف سلسلہ ہائے نسب کے مورث اعلی ہیں۔ حلف المطیبین کے بعد سقایة (حجاج کو پانی فراہم کرنے) اور رفادة (حجاج کو کھانا فراہم کرنے) کے دو مناصب ان کو سونپ دیئے گئے تھے۔ مراسمات حج کی تعظیم اور اپنے دو مناصب سے بخوبی عہدہ برآ ہونے کے لئے ہمیشہ پوری تندھی سے کوشاں رہے۔

ہاشم سلسلۂ بنی ہاشم کے مورث اعلی اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پر دادا (یا جدّ ثانی) اور اپنے عصر کے معاریف اور اکابرین میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا  آصل نام عمرو تھا  اور اعلی مرتبت و منزلت نیز بلند قد و قامت کی وجہ سے عمرو الُعلیٰ اور جود و سخا کی وجہ سے ہاشم کہلاتے تھے ۔  قحط سالی میں ان کا خوان ضیافت ہر وقت بچھا رہتا تھا اور لوگوں کو  پیٹ بھر کر کھانا کھلایا کرتے تھے۔ ہاشم تجارت پیشہ اور نہایت خوبرو انسان تھے ۔ہاشم کے تین بھائی تھے:  "عبد الشمس"، "مطلب" اور "نوفل"۔

ہاشم نے ہی قریش کے لئے سردیوں (شتاء) اور گرمیوں (صیف) والے دو تجارتی سفروں کا تعین کیا  تھا جن کی طرف اللہ تعالی  نے سورہ قریش میں اشارہ فرمایا گیا  ہے ۔ انہوں نے مکیوں کی تجارت کی سطح بلند کرنے کے لئے "غسان" کے امیر سے تجارتی معاہدہ منعقد کیا۔

ہاشم نے اور کئی معاہدے منعقد کر کے قریش کی تجارت کو رونق دی اور ان معاہدوں کے تحت قریش جاڑے میں شام کے سفر پر اور گرمی میں حبشہ اور یمن کا سفر اختیار کرتے تھے۔

ہاشم نے قحط سالی کے موقع پر قریش کے لئے کھانے پینے کا مناسب انتظام کیا اور انہیں بھوک سے نجات دلائی۔ ہاشم ہر سال زائرین کعبہ کو اشیاء خورد و نوش دینے کے لئے کوشاں رھتے تھے ۔ نیز انہوں نے کنویں کھدوا کر حاجیوں کو آب رسانی  کا کام بھی آسان بنا دیا تھا ۔ مروی ہے کہ مکہ مکرمہ کے باسی ایک سال شدید قحط سے دوچار تھے ۔ چنانچہ ہاشم نے شام سے بڑی مقدار میں گندم اور آٹا خریدا اور اونٹوں پر لاد کر مکہ منتقل کیا اور اونٹوں کو نحر کرکے بڑے دیگوں میں پکوایا؛ گندم سے آٹا اور آٹے سے روٹیاں تیار کروا کر لوگوں کو کھانے کے لئے بلوایا اور شوربے میں روٹیاں توڑ کر ثرید تیار کرکے گوشت کے ہمراہ لوگوں کو کھلا دیا اور یہ سلسلہ قحط کے خاتمے تک جاری رکھا۔ اس عمل کی وجہ سے انہيں "ہاشم" کا لقب ملا کیونکہ ہاشم "توڑنے والے کو کہتے ہیں اور ہاشم شوربے میں روٹی توڑ توڑ کر قحط زدگان کو کھلاتے رہے تھے۔ چنانچہ عرب شاعر "عبداللہ بن زبعری" نے ان کی شان میں کہا: 

“وہ عمرو العلی (بلند مرتبہ عمر) ہیں جنہوں نے اپنے قوم کے لئے ثرید تیار کیا جبکہ مکہ کے مرد قحط زدہ تھے”

 انہوں نے اپنی قوم کے لئے کاروان تجارت تشکیل دینے کی روایت کی بنیاد رکھی۔  ایک کاروان جاڑے میں نکلتا تھا اور دوسرا گرمیوں میں۔ ہاشم ان تمام امور بالا کے بدولت قریش کے ہاں اعلی مقام و منزلت پر فائز ہوئے تھے۔

ہاشم اور ان کے بھائی عبدالشمس ایک ساتھ ھی پیدا ہوئے تھے، پیدائش کے وقت دونوں کے بدن ایک دوسرے سے پیوست تھے۔ جس وقت انہیں ایک دوسرے سے  تلوار سے جدا کیا گیا تو دونوں کا خون زمین پر بہہ گیا اور عربوں نے اس واقعہ کو سخت بدشگونی خیال کیا کہ اب ان کی اولادوں کے درمیان تلوار چلتی رھے گی یہ محض  اتفاق تھا کہ بدقسمتی سے یہ بدشگونی صحیح ثابت ہوئی اور حضرت ہاشم اور عبدالشمس کی اولادوں  میں ہمیشہ ہی کشمکش اور لڑائی چلتی  رہی۔ عبدالشمس کا لڑکا امیہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے بھائی  ہاشم کی مخالفت شروع کی۔ چنانچہ یہیں سے بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان مخالفت اور دشمنی شروع ہوئی، جو ظہورِ اسلام کے بعد تک بھی جاری رہی۔

 ہاشم اس فرض کو انجام دینے میں جو ان کے ذمہ تھا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی حج کا زمانہ شروع ہوتا تو وہ قبیلہ قریش کی پوری طاقت و قوت اور تمام وسائل اور امکانات کو حجاج بیت اللہ کی خدمت کے لیے بروئے کار لاتے، اور زمانہ حج کے دوران جس قدر پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی اسے فراہم کرتے تھے۔ لوگوں کی خاطرداری، مہمان نوازی اور حاجت مندوں کی مدد کرنے میں وہ بے مثال یکتائے زمانہ تھے، اسی وجہ سے انہیں سیدالبطحا کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔  ہاشم کے پاس اونٹ کافی تعداد میں تھے، چنانچہ جس سال اہل مکہ قحط و خشک سالی شکار  کا ہوئے تو انہوں نے اپنے بہت سے اونٹ قربان کر دیئے اور اس طرح لوگوں کے لیے کھانے کا سامان فراہم کیا۔


ھاشم کی وفات

ھاشم تجارت کیلئے ملک شام تشریف لے گئے۔ راستے میں یثرب یعنی مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں قبیلہ بنی نجار کی ایک خاتون سلمی بنت عمرو سے شادی کرلی اور کچھ دن وہیں ٹہرے رہے پھر بیوی کو حالت حمل میں ہی چھوڑ کر  بغرض تجارت ملک شام روانہ ہو گئے اور وہاں جا کر فلسطین کے شہر غزہ میں انتقال کر گئے۔ ادھر سلمی کے بطن سے بچہ ہوا یہ سن 497ء کی بات ہے چونکہ بچے کے سر کے بالوں میں سفیدی تھی اس لئے سلمی نے اسکا نام شیبہ رکھا اور یثرب میں میں اپنے میکے ہی کے اندر اس کی پرورش کی۔ آگے چل کر یہی شیبہ عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوئے جو رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دادا ھیں ۔ عرصے تک خاندانِ ہاشم کو ان کے وجود کا علم نہ ہو سکا تھا علم ھونے پر ان کے چچا “مطلب “انہیں  مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ لے کر آئے


ھاشم کی اولاد

ہاشم نے کئی شادیاں کیں اور ان سے چار بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کے باپ بنے۔ ان کے بیٹوں کے نام  شیبہ یعنی عبدالمُطَّلِب، اسد، ابو صَیفی، اور نَضلہ۔اور بیٹیوں کے نام الشّفاء، خالدۃ، رقیۃ، حبیبۃ اور ضعیفۃ ہیں۔

Share: