*قسط نمبر (6) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*


حضرت عبدالمطلب

حضرت عبدالمطلب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دادا تھے حضرت ہاشم کی وفات کے بعد ان کے بھائی ”مطلب“ کو قبیلہ قریش کا سردار مقرر کیا گیا، اور جب ان کی وفات ہوگئی تو ھاشم کے فرزند حضرت ”شیبہ“ کو جنہیں لوگ عبدالمطلب کہتے تھے، قریش کی سرداری سپرد کی گئی۔


حضرت عبدالمطلب  کا بچپن

کہا جاتا ھے آپ کے والد ہاشم بن عبد مناف نے آپ کی والدہ ماجدہ سلمی بنت عمرو سے اس شرط پر نکاح کیا تھا کہ وہ جو بھی بچہ جنے گی وہ میکے میں جنے گی چنانچہ حضرت ہاشم اپنی زوجہ کو اس کے میکے مدینہ میں چھوڑ کر خود تجارت کی غرض سے ملک شام چلے گئے اور وہیں  غزہ میں  اُن کا انتقال ھو گیا ۔ چنانچہ حضرت عبد المطلب کی ولادت یثرب یعنی مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ سات آٹھ برس  کی عمر تک مدینہ منورہ میں ہی رہے۔ 

ایک  روایت کے مطابق محمد بن عمرو بن واقد الاسلمی کہتے ہیں کہ ثابت بن المنذر بن حرام  جو صحابئ رسول حضرت حسان بن ثابت  رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ماجد ھیں ، عمرہ کے لیے مدینہ منورہ  سے مکہ مکرمہ گئے وہاں  ان کی ملاقات حضرت مطلب بن عبد مناف سے ھوئی  جو ان کے دوست بھی تھے (باتوں باتوں میں) ثابت نے مطلب سے کہا: اگر تو اپنے بھتیجے شیبہ کو ہمارے قبیلہ میں دیکھتا تو اس کے شکل و شمائل میں تجھے خوبی و خوبروئی و ہیبت و شرافت نظر آتی ، میں نے دیکھا ہے کہ وہ اپنے ماموں زاد بھائیوں میں تیر اندازی کر رہا ہے جب تیر نشانہ پر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے

انا ابن عمرو العلی

میں بلند و مرتبہ عمرو (ہاشم) کا فرزند ہوں

مطلب نے  یہ سن کر  بے قرار ھو گئے اور کہا میں جب تک وہاں نہ جاؤں اور اپنے بھتیجے کو ساتھ نہ لاؤں مجھے چین نہیں آسکتا میں اس کام میں اتنی بھی تاخیر برداشت نہیں کر سکتا کہ شام ہو جائے (اتنی جلدی ہے کہ آج دن کے اختتام ہونے کا بھی انتظار نہیں کر سکتا)۔  ثابت: میری رائے یہ ھے کہ اس کی والدہ سلمی تیرے سپرد  نہیں کر ے گی اور نہ ھی اس کے ماموں تجھے لے جانے دیں گے۔ اگر تو اسے وہیں اپنے ننھیال میں اس وقت تک  رھنے دے کہ وہ خود بخود تیرے پاس برضا و رغبت آ جائے تو اس میں تیرا کیا حرج ہے؟ مطلب نے کہا کہ میں تو اسے وہاں نہ چھوڑوں گا کہ وہ اپنی قوم کے ماثر و فضائل سے بیگانہ بنا رہے ، تجھے یہ تو معلوم ہی ہے کہ اس کا حسب و نسب و مجد و مشرف سب کچھ اس کی قوم کے ساتھ ہے۔ چنانچہ حضرت مطلب بن عبد مناف مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ روانہ ھو گئے اور وھاں پہنچ کر ادھر ایک گوشہ میں فروکش رہے۔ شیبہ کو دریافت کرتے رہے حتی کہ وہ اپنے ننھیالی لڑکوں میں تیر اندازی کرتے ہوئے انھیں مل گئے۔ مطلب نے انہیں دیکھا تو باپ کی شباہت ان میں نظر آئی ، فوراً پہچان لیا ،  بھائی یاد آگیا ، آنکھیں اشکبار ھو گئیں  بھتیجے کو گلے سے لگایا ، اسے حلہ یمانی پہنایا اور بے اختیار کہنے لگے :

"میں نے شیبہ کو پہچان لیا ، میں نے شیبہ کو پہچان لیا  یہ پہچان کر میری آنکھیں اس پر آنسوؤں کے ڈونگرے برسانے لگیں ھیں " سلمی کو پتہ چلا تو اس نے پیغام بھیج کر مطلب بن عبد مناف کو اپنے ہاں فروکش ہونے کی دعوت دی جس کے جواب میں مطلب نے کہا میں جب تک اپنے بھتیجے کو نہ پاؤں گا اور اسے اس کے شہر و قوم میں نہ لے جاؤں گا اس وقت تک گرہ بھی نہیں کھولنا چاہتا (یعنی کہیں نہیں ٹھہرناچاھتا  ) سلمی نے کہا: میں تو اس کو تیرے ساتھ نہیں بھیجوں گی ۔ سلمی نے اس جواب میں مطلب کے ساتھ درشتی و خشونت ظاہر کی تو مطلب  نے کہا ایسا نہ کر ، میں تو بغیر اسے ساتھ لیے واپس جانے والا نہیں۔ میرا بھتیجا یہاں غیر قوم میں ہے اور اجنبی ہے۔ ہم لوگ اس کے خاندان کے ہیں کہ ہماری شرافت اور اپنے قومی شہر میں قیام کرنا یہاں کی اقامت سے اس کے لیے بہت بہتر ہے اور پھر وہ جہاں کہیں بھی ہو گا بہرحال تیرا ہی بیٹا ھو گا  شیبہ نے اپنے چچا المطلب سے کہا کہ میں اپنی ماں کو تب تک نہ چھوڑوں گا جب تک وہ مجھے اس کی اجازت نہ دے تو پھر سلمی نے اجازت دے دی اور شیبہ کو مطلب کے حوالے کر دیا۔ کیونکہ ان کے والد ھاشم کی وفات ان کی پیدائش سے کچھ ماہ پیشتر ہو گئی تھی چنانچہ  ان کو ان کے چچا مطلب نے ھی پالا تھا ۔ حضرت عبد المطلب اپنے آباؤ اجداد کی طرح دینِ ابراہیمی  کے پیروکار تھے اور موت تک اسی پر قائم تھے


حضرت عبدالمطلب کی وجہ تسمیہ

جب حضرت مطلب بن عبد مناف حضرت عبد المطلب کو مدینہ سے مکہ لے کر آ رہے تھے تو راستے میں جو بھی مطلب سے پوچھتے کہ یہ پیچھے کون ہے تو حضرت مطلب بتاتے یہ میرا غلام (عبد) ہے جو مدینہ سے خرید کر لا رہا ہوں اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عبدالمطلب مناسب لباس بھی نہیں پہنے ہوئے تھے ، راستے میں آفتاب کی تمازت سے اور تکلیف بھی اٹھائی تھی اس لیے تکان کی وجہ سے چہرہ کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔ مکہ میں آ کر مطلب نے شیبہ کو عمدہ لباس پہنا کر بنو عبدمناف کے اشراف کی مجلس میں لا کر بیٹھایا۔ اور سب کو بتایا یہ میرا بھتیجا شیبہ بن ہاشم ہے۔ چونکہ راستے میں حضرت مطلب نے شیبہ کو عبد کہا تھا اس لیے آپ عبد المطلب مشہور ہو گئے

حضرت عبدالمطلب اپنے ذاتی کمالات و فضائل اور اوصاف کی بناء پر لوگوں میں بہت محبوب تھے اور خاص حیثیت کے مالک تھے۔ وہ عاجز اور مجبور لوگوں کے حامی اور ان کے پشت و پناہ تھے۔ ان کی جود و بخشش کا یہ عالم تھا کہ ان کے دستر خوان سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ پرندے اور حیوانات بھی فیضیاب ہوتے تھے، اسی وجہ سے انہیں ”فیاض“ کا لقب دیا گیا تھا۔

رسولِ خدا کے دادا بہت ہی دانشمند و بردبار شخص تھے۔ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اخلاق کی بلندی، جور و ستم سے کنارہ کشی، برائیوں سے بچنے اور پست باتوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کا یہ قول تھا کہ ظالم آدمی اپنے کیے کی سزا اسی دنیا میں پاتا ہے اور اگر اسے اپنے کیے کا بدلہ اس دنیا میں نہیں ملتا تو آخرت میں یہ صلہ اسے ضرور ملے گا۔

اپنے اس عقیدے کی بنا پر انہوں نے اپنی زندگی میں نہ کبھی شراب کو ہاتھ لگایا، نہ کسی بے گناہ کو قتل کیا اور نہ ہی کسی برے کام کی طرف رغبت کی، بلکہ اس کے برخلاف نیک کاموں کی ایسی روایات قائم کیں جن کی دین اسلام نے بھی تائید کی۔ ان کی قائم کردہ بعض روایات درج ذیل ہیں: 

باپ کی کسی زوجہ کو بیٹے کے لیے حرام کرنا۔

 مال و دولت کا ہر سال پانچواں حصہ (خمس) راہ خدا میں خرچ کرنا۔

چاہ زمزم کا ”سقایتہ الحاج“ نام رکھنا۔

 قتل کے بدلے سو اونٹ بطور خون بہا ادا کرنا۔

 کعبہ کے گرد سات مرتبہ طواف کرنا۔

تاریخ کی کتابوں میں ان کی قائم کردہ دیگر روایات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:

منت مان لینے کے بعد اسے پورا کرنا،

 چور کا ہاتھ کاٹنا، 

لڑکیوں کے قتل کی ممانعت اور مذمت،

 شراب و زنا کو حرام قرار دینے کا حکم جاری کرنا 

اور برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف نہ کرنا وغیرہ۔


واقعہ عام الفیل

حضرت عبدالمطلب کے دور میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک واقعہ ”عام الفیل“ تھا۔ اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن کے حکمران ابرہہ نے اس ملک پر اپنا تسلط برقرار کرنے کے بعد یہ محسوس کیا کہ اس کی حکومت کے گرد و نواح میں آباد عرب کی خاص توجہ کعبہ پر مرکوز ہے اور وہ ہر سال کثیر تعداد میں اس کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ اس نے سوچا کہ عربوں کا یہ عمل اس کے نیز ان حبشی لوگوں کے لیے جو یمن اور جزیرہ نما عرب کے دیگر مقامات پر آباد ہیں کوئی مصیبت پیدا نہ کر دے۔ چنانچہ اس نے یمن میں ”قیس“ نام کا بہت بڑا گرجا تیار کیا اور تمام لوگوں کو وہاں آنے کی دعوت دی تاکہ کعبہ جانے کی بجائے لوگ اس کے بنائے ہوئے کلیسا میں زیارت کی غرض سے آئیں۔ اس کے اس اقدام کو لوگوں نے ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ بعض نے تو اس کے کلیسا کی بے حرمتی بھی کی۔ لوگوں کے اس رویے سے ابرہہ کو سخت طیش آ گیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ ان کے اس جرم کی پاداش میں کعبہ کا وجود ہی ختم کر دے گا۔ اس مقصد کے تحت اس نے عظیم لشکر تیار کیا جس میں جنگجو ہاتھی پیش پیش تھے۔ چنانچہ پورے جنگی ساز و سامان سے لیس ہو کر وہ مکہ کی جانب روانہ ہوا۔ سردار قریش حضرت عبدالمطلب اور دیگر اہل شہر کو جب ابرہہ کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے شہر خالی کر دیا اور نتیجے کا انتظار کرنے لگے۔

جنگی ساز و سامان سے لیس اور طاقت کے نشے میں چور جب ابرہہ کا لشکر کعبہ کی طرف بڑھا تو ابابیل جیسے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی منقاروں اور پنجوں میں کنکریاں لے کر اس کے لشکر پر چھا گئے اور انہیں ان پر برسانا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے ان کے جسم ایسے چور چور ہو گئے جیسے چبایا ہوا بھوسا۔  اللہ پاک  کے حکم سے معجزہ کی شکل میں ابرہہ کے لشکر کی جس طرح تباہی و بربادی ہوئی اس کی تائید قرآن مجید کے سورہ فیل  میں موجود ھے یہ واقعہ بیشتر اہل سیئر کے بقول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے محرم کے مہینے میں پیش آیا تھا لہذا یہ 571ءکی فروری کے اواخر یا مارچ کے اوائل کا واقعہ ہے۔ یہ درحقیقت  اھلِ قریش  کے لئے اللہ پاک کی ایک کھلی ھوئی نشانی تھی جو اللہ پاک  نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے گھر کعبة اللہ کے لئے ظاہر فرمائی تھی


حضرت عبدالمطلب کا خواب اور چاہِ زم زم کی دوبارہ کھدائی

حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کے ساتھ بیت اللہ کے پاس سب سے پہلے آباد ہونے والے بنو جرہم کی بے اعتدالیاں جب حد سے بڑھ گئیں، مکہ آنے والے حاجیوں پر ان کے ظلم اور زیادتیوں میں بہت اضافہ ہو گیا تو اللہ تعالی نے ان سے اقتدار چھیننے اور انھیں مکہ سے نکالنے کے اسباب مہیا کر دیے۔ ان کے آخری سردار عمرو بن حارث جرہمی نے کعبے کے نفیس اور قیمتی تحائف اور رکن یمانی کا پتھر چاہ زمزم میں پھینک دیے اور چاہ زمزم کو توڑ پھوڑ کر اس طرح بھرا کہ اس کا نشان ہی مٹا دیا اور خود  بھاگ گیا۔ اس پر مدتیں بیت چکی تھیں۔ زمزم اور اس کا محل وقوع لوگوں کے ذہنوں تک سے محو ہو گیا تھا۔ لیکن اب ابراہیم علیہ اسلام کی نسل میں سے وہ فرد فرید اس دنیا میں آنے والا تھا جو خود اور اس کے ماننے والے سیدنا اسماعیل کے بعد آب زمزم کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔

سیدنا علی بن ابی طالب فرماتے ہیں: عبد المطلب کو خواب کے ذریعے سے اس جگہ کے کھودنے کا حکم دیا گیا اور اس جگہ کی علامات اور نشانات خواب ہی میں بتائے گئے۔ عبدالمطلب نے بیان کیا: میں حطیم میں سو رہا تھا۔ خواب میں ایک آنے والا میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا: برہ کھودو۔ میں نے دریافت کیا: برہ کیا ہے؟ تو وہ شخص چلا گیا۔ اگلے روز میں پھر اسی جگہ سویا۔ میں نے پھر خواب میں دیکھا کہ وہ شخص کہہ رہا ہے: مضنونہ کھودو ، میں نے دریافت کیا: مضنونہ کیا ہے؟ وہ شخص جواب دیے بغیر چلا گیا۔ تیسرے روز پھر اسی جگہ خواب میں دیکھا کہ وہ شخص کہہ رہا ہے: طیبہ کھودو ، میں نے پوچھا: طیبہ کیا ہے؟ وہ شخص پھر چلا گیا۔ چوتھے روز پھر اسی جگہ یہ خواب دیکھا تو وہ شخص کہنے لگا: زمزم کھودو ، میں نے کہا: زمزم کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: وہ (کنواں ہے جس کا پانی) نہ کبھی ختم ہوگا نہ کبھی کم ہوگا اور وہ حاجیوں کی بہت بڑی تعداد کو سیراب کرے گا۔ پھر اس جگہ کے کچھ نشانات اور علامات بتائی گئیں کہ وہاں چیونٹیوں کا بل ہوگا اور وہ گوبر اور خون کے درمیان میں ہے جہاں سفید پروں والا ایک کوا چونچ مار رہا ہوگا۔ یہ جگہ دو بتوں اساف اور نائلہ کے درمیان میں تھی جہاں قریش اپنے جانوروں کو ذبح کیا کرتے تھے۔ اس طرح بار بار دیکھنے اور نشانات أجاگر ہونے سے عبدالمطلب کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب سچا ہے۔ یہ واقعہ رسول اللہ کے والد جناب عبد اللہ کی پیدائش سے پہلے پیش آیا۔


حضرت عبدالمطلب کے خواب کی عملی تعبیر

عبدالمطلب نے قریش کو اپنا خواب سنایا اور کہا: میرا ارادہ اس جگہ کو کھودنے کا ہے ۔ قریش نے مخالفت کی مگر عبدالمطلب نے مخالفت کی کوئی پرواہ نہ کی۔ وہ اپنے بیٹے حارث (اس وقت آپ کا یہی ایک بیٹا تھا) کے ساتھ اس جگہ پہنچ گئے اور بتائے گئے نشان کے مطابق وہ جگہ کھودنی شروع کر دی ۔ عبد المطلب کھودتے جاتے تھے اور حارث بن عبد المطلب مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے جاتے تھے۔ جب باپ اور بیٹا کنواں کھود رہے تھے تو اس موقع پر جب قریش نے ان کا مذاق اڑایا تو حضرت عبد المطلب نے نذر مانی کہ اللہ تعالی نے اگر انہیں دس بیٹے عطا کیے اور وہ ان کے لیے قوت کا ذریعہ بنے اور دشمن سے مدافعت میں کام آئے تو وہ ایک بیٹے کو کعبہ کے پاس ذبح کر دیں گے۔  تین روز کی کھودائی کے بعد زم زم کچھ آثار نظر آئے تو عبدالمطلب نے خوشی سے نعرہ لگایا: هذا طوى إسمعيل یہی اسمعیل کا کنواں ہے۔ جب قریش کو پتہ چلا کہ عبد المطلب اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں تو وہ سب مل کر آئے اور کہنے لگے: اے عبد المطلب ! یہ کنواں ہمارے باپ اسماعیل کا ہے۔ اس پر ہمارا بھی حق ہے، اس لیے اس کے جملہ حقوق میں ہمیں بھی شرکت کا موقع دو- عبد المطلب نے جواب دیا: ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔ یہ فضیلت میرے ہی لیے خاص کی گئی ہے۔ تمھارا اس میں کوئی حصہ نہیں لیکن قریش اپنے دعوے پر اصرار کرتے رہے، آخر کار یہ طے پایا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ بنو سعد بذیم کی ایک کاہنہ سے کرایا جائے ۔ یہ عورت شام کی سرحد کے پاس  رھتی تھی

 

حضرت عبدالمطلب کو  چاہِ زمزم کی حوالگی 

عبدالمطلب اور قریش کے چند دیگر افراد کاہنہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب یہ قافلہ شام اور حجاز کے درمیان میں پہنچا تو ان کے پانی کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔ جب حمرا کی شدید گرمی اور پیاس نے انھیں ستایا تو انھیں اپنی موت یقینی نظر آنے گئی ۔ عبد المطلب نے یہ صورت حال دیکھی تو اپنے ساتھیوں سے پوچھا: ہمیں کیا کرنا چا ہے؟ وہ کہنے لگے: موجودہ اضطراب انگیز حالت میں تو ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ،تم ہی کچھ بتاؤ۔ عبد المطلب کہنے لگے : ہمیں باقی ماندہ توانائی مجمتع کر کے اپنی اپنی قبریں کھودنی چا ہیں۔ ہم میں سے جو شخص فوت ہو جائے ، اس کے ساتھی مل کر اسے دفن کر دیں یہاں تک کہ آخر میں جو شخص بچ جائے، وہ دفن ہونے سے رہ بھی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ سب کے ضائع ہونے سے بہتر یہی ہے کہ کوئی ایک ضائع ہو۔ انھوں نے کہا: تمھاری بات ٹھیک ہے، چنانچہ وہ سب اپنی اپنی قبر کھودنے لگے ۔ انھیں موت سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے بعد عبد المطلب نے ان سے کہا: اس طرح بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے سے بہتر ہے کہ ہم پانی کی تلاش جاری رکھیں، ہوسکتا ہے اللہ تعالی پانی کی طرف ہماری رہنمائی کر دے۔ وہ اس ارادے سے اپنی سواریوں کی طرف بڑھے۔ جب عبد المطلب نے اپنے اونٹ کو اٹھایا تو اس کے پاؤں کے نیچے سے میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا۔ یہ دیکھ کر سب نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا۔ انھوں نے خود بھی پانی پیا، اپنی سواریوں کو بھی پلایا اور اپنے مشکیزوں میں بھی بھر لیا، پھر وہ سب کہنے لگے: اے عبد المطلب ! ہمارے اور تمھارے درمیان میں فیصلہ ہو گیا ہے۔ اب اس کاہنہ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم تم سے زمزم کے بارے میں بھی نہیں جھگڑیں گے۔ اب زمزم پر تمھارا ہی حق مسلم ہے


  چاہِ زمزم سے خزانے کی برامدگی 

ابن ہشام کے مطابق زمزم کی کھدائی کے وقت سونے کے دو ہرن اور کچھ تلواریں اور زرہیں بھی ملیں۔ یہ دیکھ کر قریش نے کہا: اے عبد المطلب ! ان چیزوں پر ہمارا بھی حق ہے۔ عبدالمطلب نے ان چیزوں میں ان کا حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: اگر تم حصہ لینے پر مصر ہوتو آؤ فال کے تیر نکلوائیں۔ جس کا تیر نکل آئے، وہ حقدار ہو گا اور جس کا نہ نکلے، وہ محروم تصور کیا جائے گا۔ انھوں نے پوچھا: یہ فال گیری کیسے ہوگی؟ عبدالمطلب نے کہا: دو تیر کعبہ کے، دو میرے اور دو تمھارے لیے ہوں گے۔ جس کے تیر جس چیز پر نکل آئے، وہ چیز اسے مل جائے گی اور جس کے نہ نکلے، وہ اس سے محروم رہے گا۔ سب نے کہا: یہ ٹھیک ہے اور انصاف کی بات ہے۔ اس پر عبد المطلب نے دو زرد تیر کعبہ کے لیے اور دو سیاہ تیر اپنے لیے اور دو سفید تیر قریش کے تیار کرکے وہ تیر پانسا دار  کے حوالے کیے اور خود عبد المطلب کھڑے ہو کر دعا کرنے لگے۔ پانسا دار نے فال نکالی تو کعبہ کے دو زرد تیر ہرنوں کے نام نکلے اور عبدالمطلب کے دو سیاہ تیر تلواروں اور زرہوں کے لیے نکلے مگر قریش کے تیر نا کام رہے۔ عبد المطلب نے ان تلواروں سے بیت اللہ کا دروازہ بنادیا اور سونے کے دو ہرن، جو کعبے کے حصے میں آئے تھے، انھیں پگھلا کر کعبے کا دروازہ سونے سے مرصع کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کعبے کا دروازہ سونے سے مزین کیا گیا۔ عبدالمطلب نے زمزم کو بلاتخصیص سب لوگوں کے لیے وقف کر دیا


 حضرت عبدالمطلب  کی نذر

حضرت عبد المطلب نے زمزم کے کھودنے کے وقت جب قریش کی جانب سے رکاوٹیں دیکھیں تو منت مانی تھی کہ اگر انہیں دس لڑکے ہوں گے اور وہ سن بلوغ کوپہنچ کر قریش کے مقابلے میں ان کی حفاظت کریں گے تو ان میں سے ایک لڑکے کو کعبۃ اللہ کے پاس اللہ تعالی (کی خوشنودی) کے لیے ذبح کر دیں گے۔ جب انہیں پورے دس لڑکے ہوئے اور انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ وہ ان کی حفاظت کریں گے تو ان سب کو جمع کیا اور اپنی نذر کی انہیں خبر دی اور انہیں اللہ تعالی کی نذر پوری کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اپنے والد ماجد کی بات مانی اور دریافت کیا کہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ حضرت عبد المطلب نے کہا کہ تم میں سے ہر شخص ایک ایک تیر لے اور اس پر اپنے نام لکھ کر میرے پاس لائے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور عبد المطلب کے پاس آئے۔ حضرت عبد المطلب انہیں لے کر کعبۃ اللہ کے اندر ہبل کے پاس آئے اور ہبل ایک باولی پر تھا اور یہ باولی وہ تھی جس پر بیت اللہ کی نذر و نیاز میں جو چیزیں آئیں وہاں جمع رہتی تھی اور ہبل کے پاس سات تیر رکھے تھے اور ہر تیر پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ ایک پر خون بہا دوسرے پر ہاں تیسرے پرنہیں چھوتھے پر تمہیں میں سے پانچویں پر تم میں ملا ہوا چھٹے پر تم میں سے نہیں ساتویں پر پانیوں کے متعلق کچھ لکھا تھا۔ حضرت عبد المطلب اس تیروں والے کے پاس آ کر کہا کہ میرے ان بچوں کے یہ تیر ہلا کر نکالو اور جو نذر انہوں نے مانی تھی اس کی کیفیت بھی اسے سنا دی۔ ان میں سے ہر ایک لڑکے نے اپنا تیر اس کو دیا جس پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ عبد اللہ عبدالمطلب کے بہت چہیتے فرزند تھے اور یہی دیکھ رہے تھے کہ اگر تیر ان پر سے نکل گیا تو گویا وہ خود بچ گئے۔ جب تیر والے نے تیر لیے تا کہ انہیں حرکت دے کر نکالے تو عبد المطلب ہبل کے پاس کھڑے ہو کر اللہ سے دعا کرنے لگے۔ جب تیروں والے نے تیر چلائے تو حضرت عبد اللہ کا نام نکلا۔ پھر تو عبدالمطلب نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور چھری لی اور انہیں لے کر اساف و نائلہ والے مقام  پر آئے تا کہ انہیں ذبح کریں۔ قریش اس مقام پر اپنے جانور ذبح کرتے تھے جب قریش نے دیکھا تو وہ اپنی مجلس چھوڑ کر ان کے پاس آئے اور کہا عبدالمطلب تم کیا کرنا چاہتے پوں۔ انہوں نے کہا میں اسے ذبح کرنا چاہتا ہوں۔ جب قریش اور آپ کے دوسرے لڑکوں نے دیکھا تو کہا خدا کی قسم اس کو ہرگز ذبح نہ کیجئے جب تک آپ مجبور نہ ہو جائیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو ہر ایک شخص ہمیشہ اپنے بچے کو لایا کرے گا کہ اس کو ذبح کرے۔ اس طرح انسانی نسل باقی نہ رہے گی۔ مغیرہ بن عبد اللہ نے کہا خدا کی قسم ایسا ہرگز نہ کیجئے جب تک کہ آپ مجبور نہ ہو جائیں۔ اگر ان کا عوض ہمارے مال سے ہو سکے تو ہم ان کا فدیہ اپنے مال سے دیں گے۔ قریش اور ان کے دوسرے بچوں نے کہا ان کو ذبح نہ کیجئے 


حضرت عبداللہ کے بدلہ میں سو اونٹوں کی قربانی

 بالآخر یہ طے ھوا کہ  عباللہ اور دس اونٹوں کو پاس پاس رکھو اور ان دونوں پر تیروں کے ذریعے قرعہ ڈالو اگر تیر  عبداللہ  پر پڑے تو اونٹوں کو اور بڑھاتے جاؤ یہاں تک کہ تمہارا پروردگار راضی ہو جائے (اور) اونٹوں پر تیر نکل آئے تو اس کی بجائے اونٹ ذبح کر دو۔ اس طرح تمہارا رب بھی تم سے راضی ہو گیا اور تمہارا لڑکا بھی بچ جائے گا۔ سب اس رائے پر متفق ہو گئے تو عبدالمطلب اللہ تعالی سے دعا کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت عبد اللہ کو اور دس اونٹوں کو وہاں لے آئے۔ اس حالت میں کہ عبدالمطلب ہبل کے پاس کھڑے ہو کر اللہ عزوجل سے دعا کر رہے تھے۔ پھر تیر نکالا گیا تو حضرت عبد اللہ پر نکلا۔ تو دس اونٹ زیادہ کیے اور اونٹوں کی تعداد بیس ہو گئی اس طرح بڑھتی بڑھتی جب اونٹوں کی تعداد سو ہو گئی تو تب جا کر تیر اونٹوں پر نکلا۔ وہاں پر موجود قریش اور دوسرے لوگوں نے کہا اے عبدالمطلب اب تم اپنے رب کی رضامندی کو پہنچ گئے۔ عبدالمطلب نے کہا اللہ قسم ایسا نہیں یہاں تک کہ تین دفعہ اونٹوں پر ہی تیر نکلے۔ پھر یہ عمل تین بار کیا گیا اور ہر بار ہی تیر اونٹوں پر نکلا۔ عبدالمطلب نے اللہ اکبر کی تکبیر کہی۔ عبدالمطلب کی لڑکیاں اپنے بھائی حضرت عبد اللہ کو لے گئیں۔ حضرت عبدالمطلب نے صفا و مروہ کے درمیان میں اونٹوں کو لے جا کر قربانی کی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عبدالمطلب نے جب ان اونٹوں کی قربانی کی تو ہر ایک کے لیے ان کو چھوڑ دیا (جو چاہیے گوشت کھائے روک نہ رکھی)۔ انسان یا درندہ یا طیور کوئی بھی ہو کسی کی ممانعت نہ کی البتہ خود نہ کچھ کھایا نہ آپ کی اولاد میں سے کسی نے کوئی فائدہ اٹھایا۔ عکرمہ عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ان دنوں دس اونٹوں کی دیت (خون بہا) ہوتی تھی (دستور تھا کہ ایک جان کے بدلے دس اونٹ دیے جائیں) عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک جان کا بدلہ سو اونٹ قرار دیا۔ جس کے بعد قریش اور عرب میں بھی یہی دستور ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے بھی اس کو برقرار رکھا


بنی خزاء کے ساتھ اتفاق واتحاد کا معائدہ

عبدالمطلب کے متعلق روایت ہے کہ وہ تمام قریش میں سب سے زیادہ خوش رو ، سب سے زیادہ بلند و بالا ، سب سے زیادہ بردبار ، سب سے زیادہ فیاض اور سب سے زیادہ مہلکات سے دور رہنے والے شخص تھے بادشاہ  تک ان کی تعظیم وتکریم کرتے تھے جب تک زندہ رہے قریش کے سردار بنے رہے۔ قبیلہ خزاعہ کے کچھ لوگوں نے آ کر ان سے کہا کہ ہم سب لوگ گھر کے اعتبار سے آپس میں ہمسایہ و ھمجوار ہیں  آؤ  باہمی امداد ونصرت کا عہدہ پیمان کر لیں عبدالمطلب نے یہ درخواست قبول کر لی اور بنی ھاشم کے سات شخصوں کو لے کر دارالندوہ کی طرف نکلے اس معائدے میں  عبد الشمس بن عبد مناف  اور نوفل بن عبد مناف کی اولاد میں سے کسی نے شرکت  نہیں کی۔ عبد المطلب اپنی جماعت کو لیے ہوئے دارالندوہ میں آئے۔ جہاں دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کی مدد و تعاون کے لیے عہد و پیمان کیے اور لوگوں کی اطلاع کے لئے ایک عہد نامہ لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا عبدالمطلب نے اس معائدے کے متعلق اپنی اولاد کو بھی وصیت لکھی کہ

“اگر میری موت آ گئی تو میرے اور فرزندان عمرو و خزاعی کے درمیان میں جو معاہدہ  ھے  وہ اس پر قائم رہیں اورٹوٹنے نہ دیں 

میں نے جو عہد کیا ہے اس کی حفاظت کریں اور ایسا نہ ہو کسی طرح کے ظلم وعذر کے باعث اس کی خلاف ورزی ہو۔

اے زبیر! خاندان فہر کہ وہی تیری قوم والے ہیں ان سب میں سے یہی لوگ ہیں کہ انہوں نے پرانی قسم کی حفاظت کی اور تیرے باپ کے حلیف بنے۔

اسی بنا پر عبد المطلب نے اپنے بیٹے زبیر بن عبد المطلب کو اس عہد و پیمان کی وصیت کی۔ زبیر نے ابوطالب سے اور ابوطالب نے یہی وصیت عباس بن عبد المطلب سے کی تھی۔


حضرت عبدالمطلب کی وفات

آپ کی وفات 579ء میں ہوئی تھی۔ آپ کی وفات یوم الفجار سے بیشتر ہوئی تھی۔ اس وقت آپ کی عمر 82 سال تھی دوسری روایتوں  کے مطابق  آپ کی عمر 110 سال ،92 سال ، 120 سال ،140  سال اور 144 سال تک  بتائی گئی ہے۔ آپ کو حجون قبرستان میں اپنے جداعلیٰ قصی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ کی وفات پر کئی دنوں تک بازار بند رہے اور منڈیوں میں کاروبار معطل رہے۔ 

حضرت ام ایمن بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت عبدالمطلب کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پلنگ کے پیچھے کھڑے رو رہے تھے ، اس وقت آپ کی عمر مبارک آٹھ سال تھی۔ 


حضرت عبدالمطلب  کی اولاد

حضرت  عبد المطلب  نے مختلف اوقات میں  چھ شادیاں کی تھیں جن سے مندرجہ ذیل اولاد پیدا ھوئیں

حضرت عبداللہ ( رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے والد گرامی)

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ، 

حضرت عباس رضی اللہ عنہ

ابو طالب (جن کا نام عبد مناف تھا)، 

ابو لہب (جس کا نام عبد العزی تھا)، 

زبیر، 

حارث 

عبد الکعبہ، 

مقوم، 

ضرار، 

قثم، 

مغیرہ (جس کا نام حجل تھا) 

اور غیداق (جس کا نام مصعب تھا)۔ 

بعض مورخین نے نوفل اور عوام کا بھی  ذکر کیا ہے۔

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، 

حضرت اروی رضی اللہ عنہا، 

ام حکیم، 

عاتکہ، 

امیمہ،

برہ

جاری ھے۔۔۔۔۔

  

Share: