*قسط نمبر (8) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*


اُمٌُِ  رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمنہ  بنت وھب


تعارف

آپ کو رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی والدہ ماجدہ ھونے کا عظیم اعزاز حاصل ھے  آپ کے والد کا نام وہب بن عبد مناف تھا۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو قریش ہی کا ایک ذیلی قبیلہ تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب رسول کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جدِ امجد عبد مناف بن قصی سے ملتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبد اللہ بن عبد المطلب شادی کے کچھ عرصہ بعد حضوراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً چھ ماہ پہلے وفات پا گئے تھے فخر ِ کائنات، سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنتِ وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ کا تعلق قریش کے ایک معزز ترین خاندان سے تھا۔ آپ کے والد وہب بن عبد مناف شرافت اور فطری قابلیت کی بنیاد پر بنو زہرہ کے سردار تھے۔ جب کہ آپ کے دادا عبد مناف بن زہرہ تھے، جن کے نام کو ان کے چچا زاد عبد مناف بن قصی کے نام کے ساتھ ملا کر دونوں کو ”منافان“ کہا جاتا تھا۔ یہ عظمت اور رفعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ کو ورثے میں ملی کہ آپ منافان یعنی عبدمناف بن قصی اور عبدمناف بن زہرہ کی عزت و عظمت کے وارث تھے۔

سیدہ آمنہ  کا اپنی والدہ کی جہت سے بھی نسب کم عزت والا نہیں تھا۔ آپ کی والدہ کا نام برہ بنتِ عبدالعزیٰ بن عثمان بن عبدالدار بن قصی بن کلاب تھا۔ جب کہ آپ کی نانی ام حبیب بنت ِ اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی جیسی شان دار خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے نسب پر فخر کرتے ہوئے فرماتے تھے: ۔

”اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے مجھے پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا… ہر آلائش سے پاک کرکے ہر آلودگی سے صاف کرکے۔ جہاں کہیں دو شاخیں پھوٹیں وہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے اُس شاخ میں منتقل کیا جو دوسری سے بہتر تھی۔“


حضرت آمنہ  کی پاکیزہ حیات

رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ کی زندگی بڑی پاکیزہ اور بے داغ تھی۔ آپ اپنے قبیلہ میں “سیرت النساء “کے نام سے مشہور تھیں آپ گلستانِ قریش کی کلی، بنوزہرہ کی بیٹی اور نہایت پردہ دار خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین نے آپ کا سراپا بیان نہیں کیا۔ لیکن آپ ؓکے پاکیزہ سیرت و کردار کی خوشبو پورے مکہ مکرمہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے چچا وہب بن عبد مناف کی تربیت میں پرورش پائی تھی۔ آپ ؓکے خاندان کے زمانہ قدیم سے بنو عبد مناف کے ساتھ اچھے روابط چلے آرہے تھے۔ نمایاں اور قابل فخر سرگرمیوں میں آپ  کا خاندان قریش کے ساتھ برابر شریک رہا۔ حلف الفضول اور حلف المتطیبین دونوں میں بنو ہاشم کے ساتھ شامل تھا۔ حضرت عبدالمطلب نے اپنے عزیز ترین بیٹے حضرت عبداللہ کی شادی کے لیے سیدہ آمنہ بنت ِ وہب کا انتخاب کیا۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ شادی کے روز قریش کی عورتوں میں حسب و نسب کے اعتبار سے سب سے افضل حضرت آمنہ تھیں۔

آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی والدہ آمنہ اور ان کے والد وھب کے متعلق ابن جریر طبری ؒ لکھتے ہیں :

وَوَھْبٌ یَوْمئٔذٍ سَیّدُ بنی زھْرَۃ سِنًّا وَشَرْفًا فَزَوَّجَۃ آمنَۃ بنت وَھْبٍ وَھِیَ یَوْمَءذٍ افضَلُ اِمْرَأۃ مِنْ قریْشٍ(۲)

’’اور وہب نے جو اس وقت بنی زھرہ کا بلحاظ ِعمر کے بھی اور بلحاظِ شرف و بزرگی کے بھی سردار تھا۔اپنی بیٹی آمنہ کا نکاح (حضرت ) عبد  اللہ  سے کردیا اور (حضرت) آمنہ اس وقت قریشی عورتوں  میں  سب سے افضل تھیں ۔ ‘‘ حضرت آمنہ  کو بت پرستی سے نفرت تھی جیسا کہ ان کے اشعار سے بھی ظاھر ھے وہ دینِ ابراھیمی کی پیروکار تھیں 

  رحمت عالم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اپنے اعزّہ و ہم وطن لوگوں  کے سامنے اپنا تابناک ماضی بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ  اللہ  ہی کی بندگی کرو کامیاب ہوجائو گے۔ اسی دلیل کو بطورِ فخر  اللہ تعالی  یوں  بیان کرتے ہیں :

لَـقَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ عَزِيۡزٌ عَلَيۡهِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِيۡصٌ عَلَيۡكُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ‏ ۞

بیشک تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک عظیم رسول آگئے ہیں تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر بہت شاق ہے۔ تمہاری فلاح پر وہ بہت حریص ہیں مومنوں پر بہت شفیق اور نہایت مہربان ہیں

حضرت عبداللہ نے بہت کم عمر پائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے چند ماہ پہلے قریش کے شرفاء کی طرح حسبِ معمول سامانِ تجارت لے کر غزہ (فلسطین) گئے۔ واپسی میں بیمار ہوگئے۔ جب قریش کا قافلہ مدینہ پہنچا تو آپ کے مرض نے شدت اختیار کرلی۔ وہ مجبوراً اپنے والد کی ننھیال بنونجار کے یہاں ٹھہر گئے اور وہیں آپ کا انتقال ہوگیا۔


حضرت آمنہ کی صفات

سرزمین مکہ پر کچھ لوگ ایسے تھے جو  ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے اور ان میں سے ایک خاندان وہ بھی تھا کہ جو جناب عبد مناف سے جا ملتا تھا ۔حضرت آمنہ اس خاندان کی ایک   چشم وچراغ  تھیں  کہ جو  جناب وہب ابن عبد مناف کی بیٹی تھیں حضرت آمنہ کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں کہ : میں اس ماں کا بیٹا ہوں جس نے انتہائی سادہ زندگی گزاری اور اکثر خشک گوشت کھا کر گزارا کیا کرتی تھیں

«بره‏»حضرت آمنہ کی ماں کا نام ہے ان کا خاندان ایک شریف خاندان تھا کہ جو معروف تھا خاندان «بني‏‌کلاب‏»  کے نام سے، یہ خاندان بھی جناب عبد مناف کے خاندان سے متصل ہوتا ہے. حضرت آمنه کے بارےمیں یہ ہے کہ وہ توحید پرست تھیں اور اپنے قبیلہ میں ان کا مقام و منزلت  اعلی درجہ پر تھا قبیلے کے بزرگ ان کا بہت احترام کرتے تھے.

حضرت آمنہ کی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت عبد المطلب نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ سے کہا کہ بیٹا کیا میں آمنہ کا رشتہ مانگنے جاؤں ؟ پھر فرمایا : دیکھو بیٹا خدا کی قسم ہمارے خاندان میں آمنہ سے بڑھ کر نیک، شریف اور پاکیزہ لڑکی نہیں ہے آمنہ ایک با حیا، عاقل اور دین دار لڑکی ہے.  «قریش خاندان کی لڑکیوں میں حضرت آمنہ کا بہت بڑا احترام تھا »


حضرت آمنہ کی شاعری

حضرت آمنہ عربی کی ایک عمدہ شاعرہ  بھی تھیں آپ کی شاعری کا ظہور دو مواقع پر ھوا ایک  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ کی وفات پر آپ نے مرثیہ کے اشعار کہے جو حضرت عبداللہ کے حالات میں ذکر ھوئے مرثیہ  کے یہ اشعار فن شاعری کا ایک عمدہ شاھکارھیں 

دوسرا  حضرت عبداللہ بن عبدا لمطلب کی قبر کی زیارت سے واپسی پر ابواء کے مقام پر  اُنہیں فرشتہ اجل نے آلیا جب ان کی موت کا وقت قریب آ گیا تو انہوں نے  اپنے پیارے جگر گوشے رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر نگاہِ  شفقت و محبت ڈالی اور فی البدیھہ اشعار میں رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو  اپنی آخری وصیت فرمائی  اُن کے  یہ اشعار تاریخ  اور سیرت کی کتابوں کے صفہات میں  آج بھی محفوظ  ھیں 

بارك فيك الله من غلام * يا ابن الذي من حومة الحمام

اللہ تمہیں بابرکت لڑکا بنائے، اے اس باپ کے بیٹے جو جنگ کی سختی کے مقام سے نہیں گھبراتا۔


نجا بعون الملك المنعام * فودي غداة الضرب بالسهام

نعمت دینے والے بادشاہ کی مدد سے بچ گیا، جس دن قرعہ اندازی ہوئی، تو اس کی دیت ،


بمائة من إبل سوام * إن صح ما أبصرت في منامي

سو اونٹ ٹھہری، اگر وہ بات صحیح ہے جو میں نے خواب میں دیکھی،


فأنت مبعوث إلى الأنام * من عند ذي الجلال والاكرام

تو تم ذی الجلال والاکرام کی طرف سے تمام لوگوں کے لئےبھیجے گئے ہو ۔


تبعث في الحل وفي الحرام * تبعث بالتحقيق والإسلام

ارض حل و حرم کے طرف، حق اور اسلام کے ساتھ۔


دين أبيك البر إبراهام * تبعث بالتخفيف والإسلام

تمہارے نیک باپ ابراہیم کے دین کے ساتھ، جواسلام ہے اور آسانی والا دین ہے ۔


أن لا تواليها مع الأقوام * فالله أنهاك عن الأصنام

تمہیں وصیت کرتی ہوں کہ خدا کے لئے قوم کے ساتھ بتوں سے محبت نہ کرنا۔

ان اشعار کے بعد وہ فرمانے لگیں : اے بیٹے! ہر زندہ نے مرنا ہے، ہر نیا پرانا ہوگا، ہر بڑا فنا ہونے والا ہے، میں  مر رہی ہوں  لیکن میری یاد (تمہارے ذریعے) باقی رہے گی، میں  خیر چھوڑ کر جا رہی ہوں ، میں ( اللہ  کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ) نے ایک پاکیزہ انسان( حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کو جنم دیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے بعد عرب کی روایت کے مطابق سیدہ آمنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رضاعت کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہ کے حوالے  کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بصورت اشعار بیان کیے تھے اس  طرح خواتین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدہ  حضرت آمنہ کو پہلی نعت گو خاتون ہونے کا شرف حاصل ہوا


حضرت آمنہ کی وفات اور تدفین 

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو سیدہ آمنہ آپ کو لے کر آپ کے ننھیال یثرب چلی گئیں تاکہ وہ اپنے ماموں سے ملیں اور اپنے والد عبد اللہ کی قبر کی زیارت بھی کریں ۔ وہاں ایک ماہ قیام کے بعد مکے کو واپسی ہوئی تو مقام ابوا پہنچ کر ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ 577ء تھا مقامِ ابواء  ابوا ھی میں آپ کی تدفین ھوئی


 ’مرقدِ اُمّ ِرسولﷺ

جہاں  حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی والدہ کی قبر ہے۔ یہ جگہ (اَلْاَبواء) مدینہ سے مکہ کی شاہ راہ پر ’’حُجْفَہ‘‘سے ۲۳ میل دور ہے۔ مستورہ، ابواء سے ۲۸ کلومیٹر مغرب میں  ہے، آج کل اسے’’ خریبہ ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ ابواء میں  داخل ہوتے ہی دائیں  ہاتھ پر چھوٹی سی پہاڑی پر سیّدہ آمنہ (اُمّ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی قبر ہے جو دور ہی سے نظر آ جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے چاروں  طرف پتھر رکھے ہوئے ہیں ۔ ابواء کا علاقہ ۱۲ کلومیٹر لمبا اور تین کلومیٹر چوڑاہے۔ شمال کی جانب سے اسے پہاڑ نے گھیر رکھا  ھے گویا  جہاں اُن کی  قبر مبارک ھے وہ جگہ ایک پتھریلا علاقہ ہے جو ایک پہاڑی کا ہموار حصہ ھے


رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر حاضری 

  آخری حج کے سفر کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی والدہ ماجدہ کی قبر مبارک کی زیارت کی اور ان کو یاد کر کے  بہت  روئے  چنانچہ حدیث مبارکہ میں اس کا ذکرھے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْرَ أُمِّهِ فَبَكَى، وَأَبْكَى مَنْ حَوْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي تَعَالَى عَلَى أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَهَا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، فَاسْتَأْذَنْتُ أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأَذِنَ لِي، فَزُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ بِالْمَوْتِ»

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر آئے تو رو پڑے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو (بھی) رلا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی مغفرت طلب کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی، پھر میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت چاہی تو مجھے اس کی اجازت دے دی گئی، تو تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ موت کو یاد دلاتی ہے

(سنن ابي داود،  سنن ابن ماجہ)

جاری ھے ۔۔۔۔۔


Share: