*قسط نمبر (9) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*

 

رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت

امام الانبیاء ، سیّد المرسلین، حضرت محمد مصطفی آحمد مجتبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ولادت باسعادت ،آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی تشریف آوری اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بعثت تاریخِ عالم کا عظیم واقعہ اور ایک بے مثال انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔بلاشبہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی بعثت اور نبوت و رسالت امت پر اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔ارشادِ ربانی ہے:’’

وَمَآ اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا رَحْـمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ O

اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا  ھے 

رسول اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ولادت باسعادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی۔ مورخین اور سیرت نگاروں کا اس  کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ بعض نے 9 ربیع الاول اور بعض نے 12 ربیع الاول کی تاریخ بتلائی ہے البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ھے کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ولادت با سعادت  سوموار والے دن ھوئی ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ولادت سے قبل عرب کے نجومیوں اور اہل کتاب علماء میں کسی بڑی شخصیت کی ولادت کے تذکرے جاری تھے  اور اہل کتاب علماء  اپنی کتاب میں جس آخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد کے متعلق  جو علامتیں پڑھتے آئے تھے،ان علامتوں کے پیشِ نظر  انہیں اس بات احساس ہوگیا تھا کہ نبی  آخر الزماں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی آمد کا وقت اب قریب آچکا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ جو عرب کے نامور شاعر اور نعت گو تھے اور مدحت رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں آج تک شہرت رکھتے ہیں، اپنا آنکھوں دیکھا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ان کی عمر  سات سال کے لگ بھگ تھی اور وہ مدینہ منورہ (اس وقت یثرب نام تھا) میں رہتے تھے کہ ایک  دن ایک یہودی کو بلند مقام پر چیختے ہوئے سنا، وہ کہہ رہا تھا ’’اے یہودیو!‘‘ جب اس کی آواز سن کر لوگ اس کے اردگرد جمع ہوگئے اور پوچھا کہ اے کم بخت! تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو اس طرح چیخ رہا ہے؟ اس نے کہا: آج رات احمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا ستارہ طلوع ہو چکا ہے، جس میں وہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پیدا ہوں گے واقعہ کے راوی محمد بن اسحاقؒ نے حضرت حسان بن ثابتؓ کے بیٹے حضرت عبد الرحمان بن حسانؒ سے دریافت فرمایا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے وقت حضرت حسان بن ثابتؓ کی عمر کیا تھی؟ تو انہوں نے بتایا ساٹھ سال۔ گویا رسول پاک۔ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ولادت کے وقت ان کی عمر سات آٹھ سال رہی ہوگی، کیونکہ ہجرت کے وقت خود رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی عمر مبارک ترپن برس تھی۔ سیرۃ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں درج یہ واقعہ ایک مثال ہے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات تاریخ و سیرت کی کتابوں میں ملتے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ولادت نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے قبل ہی اہل علم لوگوں کو احساس ہو چکا تھا کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی تشریف آوری کا وقت ہو چکا ہے۔ بہت سے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ولادت ہوئی  ابن سعد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے فرمایا: جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہوگئے۔ امام احمد اور دارمی وغیرہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی روایت نقل فرمائی ہے۔ 


رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ  وسلم  کی ولادت با سعادت کے وقت رونما ھونے والے معجزات

روایات میں بتایا گیا ہے کہ ولادت کے وقت بعض معجزانہ واقعات نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پیش خیمے کے طور پر ظہور پذیر ہو

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں آیات و کرامات بے شمار ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں 

ایوان کسریٰ لرز اٹھا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے

  دریائے سادہ خشک ہو گیا اور اس کا پانی زیر زمین چلا گیا

 رود خانہ سادہ جسے وادی سادہ کہتے ہیں جاری ہو گیا حالانکہ اس سے قبل اسے منقتع ہوئے ایک ہزار سال گزر چکا تھا

 فارسیوں کا آتشگدہ بجھ گیا جو کہ ایک ہزار سال سے گرم تھا۔ 

کعبہ میں رکھے ہوئے بت منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔ 

یہ گویا اس جانب اشارہ تھا کہ اب دنیاوی جاہ و حشمت کے جھوٹے محل زمیں بوس ہونے والے ہیں اور خود ساختہ خداؤں کی عظمت ملیامیٹ ہونے والی ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے، جب حق کا پرچم بلند ہوگا، صداقت کا ستارہ طلوع ہوگا۔ باطل کی ظلمت دور ہوگی اور حق کی سحر دنیا پر چھا جائے گی۔رسول رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دادا عبد المطلب نے جب پوتے کی ولادت کی خبر سنی تو کعبہ میں جا کر سجدہ ریز ہوگئے اور اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا ۔ اور آپ کا نام “محمد “ تجویز کیا۔ جس کے معنی ھیں “ جس کی بہت زیادہ تعریف کی جائے “ یہ نام عرب میں معروف نہ تھا ،  جب عبدالمطلب کو اس نام کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ مجھے اُمید  ھے  کہ اس بچے کی بہت زیادہ تعریف کی جائے گی عبدالمطلب کی یہ بات حرف بحرف درست ثابت ھوئی ۔ بیوہ ماں نے جب اپنے شوہر کی نشانی کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے ،  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا چچا ابولہب ( جو  نبوت کے بعد  آپ کا  بڑا دشمن بن کر سامنے آیا)  نے جب بھتیجے کی پیدائش کی خبر سنی تو  اس کا دل باغ باغ ہو گیا اور خبر سنانے والی باندی ثویبہ کو آزاد کرتے ہوئے کہا کہ جاؤ تم میرے بھتیجے کو دودھ پلاؤ ۔ 


رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلانے والی خوش قسمت عورتیں

شیر مادر کے بعد رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلا دودھ  حضرت  ثوبیہ کا پیا حضرت  ثُوَیْبَہ الاسلمیہ ابولہب کی لونڈی تھیں جو بعد میں مشرف باسلام ہوئیں۔  حضرت ثویبہ نے حمزہ بن عبدالمطلب، جعفر بن ابی طالب ،زید ابن حارثہ اور ابوسلمہ بن عبدالاسد المخزومی کو بھی مختلف اوقات میں دودھ پلایا تھا۔ گویا سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ابو لہب کی لونڈی حضرت ثویبہ کا دودھ نوش فرمایا (  ابولہب نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پیدا ہونے کی خوشی میں اپنی لونڈی حضرت ثویبہ کو آزاد کیا تھا، ( اس کے مرنے کے بعد اس کو کسی نے خواب میں دیکھا پوچھا تیرا حال کیا ہے ؟ اس نے کہا حال تو بہت خراب ہے مگر پیر کے دن عذاب میں کمی ہوجاتی ہے کیونکہ میں نے حضور  اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پیدا ہونے کی خوشی میں لونڈی کو آزاد کیا تھا) تاھم محدثین کے اصولوں پر یہ حدیث پوری نہیں اُترتی  ویسے بھی یہاں پر خواب کا ذکر ھوا ھے اور خواب کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا  جا سکتا 

پھر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حضرت حلیمہ سعدیہ کے پاس جانے سے پہلے تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے دودھ سے سیراب ہوتے رہے 

اس کے بعد  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر دیا گیا اور حضرت حلیمہ سعدیہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں رکھ کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دودھ پینے کا  باقی زمانہ گزرا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا نبوت کا زمانہ پایا اور مشرف با اسلام ھوئیں اور جنت البقیع میں دفن ھوئیں 


رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ  وسلم حضرت حلیمہ سعدیہ کی آغوش میں 

مکہ کے شرفاء  میں یہ دستور چلا آرہا تھا کہ بچوں کی پرورش کیلئے آس پاس کے دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بچے وہاں کی صاف ستھری ہوا میں پرورش پاکر تندرست وتوانا ہو جائیں۔ نیز وہاں وہ خالص عربی زبان سیکھ جائیں۔ اصل میں مکہ ایک مرکزی شہر تھا، جہاں ہر خطے کے لوگ آتے جاتے رہتے تھے، جن کے اختلاط سے عربی زبان بھی خالص نہیں رہ پائی تھی۔ اُس زمانے میں عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا، مگر وہ لوگ  خالص عربی زبان  بولنے پر خاص توجہ دیتے تھے۔ یہاں شاعری اور سخنوری کا چرچا رہتا تھا اور گاؤں والوں کی زبان زیادہ مستند سمجھی جاتی تھی۔ اسی غرض سے رسول اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو بھی پرورش کیلئے ایک صحرائی خاتون حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے حوالے کیا گیا، جن کا تعلق قبیلہ بنی سعد سے تھا۔ حضرت حلیمہ سعدیہؓ ان عورتوں میں شامل تھیں، جو مکہ معظمہ کے شرفا کے بچے پرورش کیلئے حاصل کرنے کی غرض سے آئی تھیں۔ سیرۃ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے مطابق یہ واقعہ خود حضرت حلیمہ نے یوں بیان کیا ہے کہ میں اپنے قبیلے کی کچھ عورتوں کے ساتھ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلی۔ یہ زمانہ قحط کا تھا اور ہمارے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہ تھا۔ ایک بھورے رنگ کی گدھی پر سوار ہو کر نکلی اور ایک اونٹنی بھی ساتھ تھی، جس سے دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ نکلتا تھا۔ ہمارا شیر خوار بچہ بھوک کے سبب ساری ساری رات روتا تھا اور ہم سو نہ سکتے تھے۔ میری چھاتی میں اتنا دودھ نہ تھا کہ اپنے بچے کو پلاؤں اور نہ ہی ہماری اونٹنی کے پاس کچھ تھا۔ میں جس گدھی پر نکلی، وہ تھک گئی اور میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئی اور سب کے بعد میں مکہ مکرمہ  پہنچی۔ حضرت حلیمہ سعدیہ کا بیان ہے کہ کوئی عورت ایسی نہ تھی، جس پر ننھے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو، مگر کسی نے بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نہ لیا۔ کیونکہ ہمیں لڑکے کے باپ سے بھلائی کی امید رہتی تھی اور اسی سے انعام کی توقع رکھتے تھے۔ جب باپ نہ ہو تو دادا اور ماں سے کیا امید؟  ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے۔ بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں ، بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ کو لینا نہیں چاہتے تھے۔ ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا صرف مجھے ہی کوئی بچہ نہ مل سکا۔ جب واپسی کی باری آئی تو میں نے اپنے شوہر سے کہا: اللہ کی قسم ! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے لے کر جائیں اور تنہا مَیں کوئی بچہ لیے بغیر واپس جاؤں۔ میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں۔ شوہر نے کہا: کوئی حرج نہیں ! ممکن ہے اللہ اسی میں ہمارے لیے برکت دے۔ اس کے بعد میں نے جاکر بچہ لے لیا اور محض اس بناء پر لے لیا کہ کوئی اور بچہ نہ مل سکا یعنی مجبوراً آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو لے لیا تھا لیکن یہ کس کو معلوم تھا کہ اس یتیم بچے کی برکت سے حلیمہ سعدیہ کا ستارہ بھی بلندیوں پر جانے والا ھے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہ مزید  کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔ میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا۔ لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم! پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ پکڑ سکا۔ یہاں تک میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں: او ! ابو ذویب کی بیٹی ! ارے یہ کیا ہے ؟ ذراہم پر مہربانی کر۔ آخریہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر تُو سوار ہو کر آئی تھی ؟ میں کہتی : ہاں ہاں ! اللہ کی قسم یہ وہی ہے، وہ کہتیں۔ اس کا يقيناً کوئی خاص معاملہ ہے۔


حضرت حلیمہ سعدیہ کے ھاں  رسول پاک  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات کا ظہور

حضرت حلیمہ سعدیہ بیان کرتی ھیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی برکات سے مجھے اور میرے گھر والوں کو بار بار فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ جب میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو گود میں لے کر اپنی سواری پر بیٹھی تو میری حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا کہ میرے پستان دودھ سے بھر گئے اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا۔ اسی کے ساتھ آپ کے رضاعی بھائی نے بھی خوب خوب دودھ پیا اور پھر دونوں سوگئے۔ میرے شوہر بوڑھی اونٹنی کی طرف گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے تھن بھی دودھ سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی نے خوب جی بھر کر اونٹنی کا دودھ پیا اور رات بھر آرام سے سوئے۔ صبح کے وقت میرے شوہرنے کہا کہ حلیمہ! خدا کی قسم خوب سمجھ لے کہ تو نے ایک مبارک ذات کو پایا ہے۔ میں نے جواب دیا خدا کی قسم مجھے یہی امید تھی۔ جب میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اپنی گود میں لیا اور دودھ پلانے کی غرض سے اپنا دایاں پستان آپ کے دہن میں دیا تو آپ نے دودھ پینا شروع کر دیا۔ جب میں نے بایاں پستان آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم طرف کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  رک گئے اور اس طرف دہن مبارک نہ لگایا۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اس وقت سے ہی انصاف فرما دیا کہ ایک پستان کو اپنے دودھ شریک بھائی کیلئے چھوڑ دیا۔ حضرت حلیمہ سعدیہؓ فرماتی ہیں کہ میں اپنا دایاں پستان ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کیلئے محفوظ رکھتی اور بایاں اپنے بیٹے حمزہ کو دیتی تھیں۔ جب ہم مکہ سے اپنے گاؤں کی طرف گدھی پر سوار ہوکر واپس جا رہے تھے تو اس میں اتنی طاقت آگئی کہ پورے قافلے سے آگے نکل گئی۔ ساتھی عورتیں پوچھنے لگیں کہ حلیمہ! کیا یہ تیری وہ گدھی نہیں، جو مکہ آتے ہوئے تھی؟ آخر اسے کیا ہوگیا کہ اتنی تیز چلنے لگی؟ حضرت حلیمہؓ کے مطابق ان کا گاؤں بہت زیادہ قحط زدہ تھا، مگر جب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے ساتھ لائیں تو یہاں حالات ہی بدل گئے۔ وہ کہتی ہیں میری بکریاں چرنے جاتیں تو خوب چرکر آتیں اور خوب دودھ دیتیں۔ حالانکہ دوسروں کی بکریوں کے تھنوں سے قحط کے سبب ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا۔ پڑوسی اپنے چرواہوں سے کہتے کہ جہاں حلیمہ کی بکریاں چرتی ہیں، وہیں تم بھی اپنی بکریوں کو چراؤ۔ حضرت حلیمہؓ کے مطابق وہ دو سال تک یونہی آپ کی برکات سے مالا مال ہوتی رہیں اور آپ تندرست وتوانا ہو گئے۔ دوسرے بچے اس قدر تندرست نہ تھے۔ دو سال کے بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو واپس مکہ لے کر آئیں تو والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے اپنی حیثیت کے مطابق انعام و اکرام سے حضرت حلیمہ کو نوازا۔ حضرت حلیمہؓ آپ کی برکات کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں، لہٰذا دوبارہ اپنے ساتھ واپس لیتی آئیں۔ رسول محترم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے خود اپنی ولادت کا ذکر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اچھا (سنو) میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں۔ جب میں اپنی ماں کے شکم میں آیا تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا، جس سے سرزمین شام کے محل ان پر روشن ہوگئے۔ بنی سعد بن بکر کے قبیلے میں دودھ پی کر میں نے پرورش پائی۔‘‘

 (سیرت النبی، ابن ہشام)

جاری ھے ۔۔۔۔۔


Share: