*قسط نمبر (10) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*


واقعۂ شَقّ ِ صدر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بہت سے محیر العقول  واقعات سے بھری پڑی ہے۔ بہت سے حیران کن واقعات آپ کی ولادت مبارک  سے پہلے  اور ولادت مبارک کے وقت بھی رونما  ھوئے اور پھر نبوت ملنے سے پہلے اورنبوت ملنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رھا ۔  ایسے تمام حیران کن واقعات جو کسی نبی کو نبوت ملنے سے پہلے پیش آئیں” ارھاصات“ کہلاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بچپن کی زندگی میں ملتا ہے کہ اُن کا سینہ فرشتوں نے چاک کر کے اُن کا دل دھویا تھا اس واقعہ کو  شَقّ ِ صَدر کے  نام سے یاد کیا جاتا ھے 

لغت میں کسی شے کے کھل جانے کو شق کہتے ہیں۔ ’’شق صدر سے مراد وہی واقعہ ھے جو روایات کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن میں اس وقت پیش آیا تھا جب آپ حضرت آمنہ کے گھر میں قیام پذیر تھے ۔ 

ان دنوں مکہ مکرمہ میں وبائی مرض کے پھیلنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدت رضاعت ختم ہونے کے بعد بھی حضرت آمنہ ہی کے گھر طائف کے علاقے میں رہے یہاں تک کہ ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال شَقّ ِ صَدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے) کا واقعہ پیش آیا۔


  شَقّ ِ صَدر کے بارے میں روایات

شَقّ ِ صَدر کا واقعہ بہت سے محدثین نے  اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے   چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت جبریل نے آپ کو پکڑ کر لٹایا اور سینہ چاک کر کے دل نکالا، پھر دل سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: یہ تم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے شیطان کا حصہ ہے، پھر دل کو طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے جوڑکر اس کی جگہ لوٹا دیا۔ ادھر بچے دوڑ کر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی  رضائی ماں، یعنی حضرت حلیمہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: ھمارے بھائی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو  قتل کر دیا گیا۔ بی بی حلیمہ سعدیہ اور ان کے گھر کے لوگ جھٹ پٹ پہنچے ، دیکھا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پریشان کھڑے تھے اور اُن کے چہرہ مبارک کا رنگ اترا ہوا تھا 

طبری نے تاریخ طبری میں اور یعقوبی نے تاریخ یعقوبی میں بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ دوسرے سیرت نگاروں نے بھی یہ واقعہ قلم بند کیا ہے۔ ابن ہشام نے بھی اپنی کتاب میں اسے ’’واقعہ شق صدر‘‘ کے عنوان سے  لکھا ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ کہتی ھیں کہ ’خدا کی قسم آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رضائی بھائی کے ساتھ ہماری بکریوں کے ساتھ ہمارے گھر کے پیچھے ہی تھے کہ آپ کا  رضائی بھائی ہانپتا کانپتا ہمارے پاس آیا اور مجھ سے اور اپنے باپ سے کہا میرا جو قریشی بھائی ہے اس کو دو شخصوں نے جو سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں پکڑ لیا ھے اور اس کو لٹا کر اس کا پیٹ چاک کر ڈالا ھے  اور اس کو مار رہے ہیں ، یہ سنتے ہی  میں اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے رضائی والد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی طرف دوڑے تو ہم نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اس حال میں کھڑا پایا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے چہرے کا رنگ فق ھو رھا تھا میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو گلے لگایا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے رضائی والد نے بھی آپ کو گلے لگایا۔ اور ہم نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کہا: میرے پیارے بیٹے تجھے کیا ہوا۔ فرمایا: میرے پاس دو شخص جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے آئے اور مجھے لٹا کر میرا پیٹ چاک کیا۔ اور اُنھوں نے اس میں کوئی چیز تلاش کی میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھی پھر ہم آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو لے کر اپنے ڈیرے کی طرف لوٹے۔

صحیح مسلم میں یہ روایت اس طرح سے ہے: ’’روی مسلم بن حجاج عن انس بن مالک ان رسول اللہ(ص)اتاہ جبرئیل و ھو یلعب مع الغلمان فاخذہ و صرعہ،فشق عن قلبہ فاستخرج القلب فاستخرج منہ علقۃ فقال: ھذا حظ الشیطان منک، ثم غسلہ فی طست من ذھب بماء زمزم، ثم لامہ ثم اعادہ فی مکانہ۔ ’’جاء الغلمان یسعون الی امہ۔ یعنی ظئرہ۔ فقالوا:ان محمدا قدقتل فاستقبلوہ وھو منتقع اللون، قال انس: وقد کنت اری اثر ذلک المخیط فی صدرہ‘‘ 

مسلم نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ ایک دن جب رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، جبرائیل اُن  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے نزدیک آئے اور اُنہیں پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا سینہ چاک کر کے اُس میں سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا دل نکال  کر اُس میں سے ایک خون کا لوتھڑا نکال کر کہا یہ تم میں شیطان کا حصہ ہے، پھر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دل کو سونے کے ایک طشت میں رکھ کر آب زمزم سے دھویا اور پھر اُسے اُسی طرح اپنی جگہ رکھ کر سینہ بند کر دیا۔ بچے اپنی ماں کے پاس دوڑے ہوئے آئے اور ماں سے کہا: محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم قتل ہو گئے ہیں! وہ سب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی طرف آئے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا رنگ اُڑاہو اتھا! انس کہتے ہیں: میں نے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے سینے میں ٹانکے لگے ہوئے دیکھے ہیں۔شق صدر کا واقعہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زندگی میں  ایک سے زیادہ بار  رونما ہوا ہے،نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد۔  اس سلسلہ میں بعض عرب شعرا نے  اشعار بھی کہے ہیں اسی طرح بعض مفسرین نے تو قرآن پاک کی  آیت مبارکہ     أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ  کی تطبیق بھی اسی واقعہ سے کی ہے اور اس  واقعہ کو اس  آیت مبارکہ کا شان نزول قرار دیا ھے 


شق صدر کتنی بار ہوا ؟

حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سورۂ “الم نشرح” کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ چار مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس سینہ چاک کیا گیا اور اس میں نور و حکمت کا خزینہ بھرا گیا۔

پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تھے جس کا ذکر ہو چکا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان وسوسوں اور خیالات سے محفوظ رہیں جن میں بچے مبتلا ہو کر کھیل کود اور شرارتوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ 

دوسری بار دس برس کی عمر میں ہوا تا کہ جوانی کی پر آشوب شہوتوں کے خطرات سے آپ بے خوف ہو جائیں۔ 

تیسری بار غارِ حرا میں شق صدر ہوا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب میں نور سکینہ بھر دیا گیا تا کہ آپ وحی الٰہی کے عظیم اور گراں بار بوجھ کو برداشت کر سکیں ۔ 

چوتھی مرتبہ شب معراج میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مبارک سینہ چاک کر کے نور و حکمت کے خزانوں سے معمور کیا گیا، تا کہ آپ کے قلب مبارک میں اتنی وسعت اور صلاحیت پیدا ہو جائے کہ آپ دیدار الٰہی عزوجل کی تجلیوں، اور کلام ربانی کی ہیبتوں اور عظمتوں کے متحمل ہو سکیں۔


 رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اپنی ماں کے پاس واپسی

شق صدر کے واقعہ سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے شوہر دونوں بے حد گھبرائے اور شوہر نے کہا کہ حلیمہ! (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) مجھے ڈر ہے کہ ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اوپر شاید کچھ آسیب کا اثر ھو گیا ہے لہٰذا تم بہت جلد ان  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اس کے بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں کیونکہ انہیں اس واقعہ سے یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اب ہم کماحقہ ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حفاظت نہ کر سکیں گے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب مکہ معظمہ پہنچ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ  کے سپرد کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم تو بڑی خواہش اور چاہ کے ساتھ میرے بچے کو دوبارہ اپنے گھر لے گئی تھیں پھر اس قدر جلد واپس لے آنے کی وجہ کیا ہے؟ جب حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شکم چاک کرنے کا واقعہ بیان کیا اور آسیب کا شبہ ظاہر کیا تو حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہر گز نہیں، خدا کی قسم! میرے نور نظر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  پر ہرگز ہرگز کبھی بھی کسی جن یا شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ میرے بیٹے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی بڑی شان ہے۔ پھر ایام حمل اور وقت ولادت کے حیرت انگیز واقعات سنا کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مطمئن کر دیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی والدہ ماجدہ کے سپرد کر کے اپنے گاؤں  طائف میں واپس چلی آئیں اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کی آغوشِ تربیت میں پرورش پانے لگے 


رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی بچپن کی عادات

حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا تھا  جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زبان کھلی تو سب سے اول جو کلام آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا

اللَّهُ أَكْبَرُ   اللَّهُ أَكْبَرُ   الْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعٰـلَمِيْنَ  وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے کپڑوں میں بول و براز نہیں فرمایا۔ بلکہ ہمیشہ ایک معین وقت پر رفع حاجت فرماتے۔ اگر کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی شرم گاہ کھل جاتی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  رو رو کر فریاد کرتے۔ اور جب تک شرم گاہ نہ چھپ جاتی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو چین اور قرار نہیں آتا تھا اور اگر شرم گاہ چھپانے میں مجھ سے کچھ تاخیر ہو جاتی تو غیب سے کوئی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی شرم گاہ چھپا دیتا۔ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہوئے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں شریک نہیں ہوتے تھے لڑکے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم فرماتے کہ میں کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں۔                                                                                                                     (مدارج النبوة )                                                                                                     


 حضرت حلیمہ سعدیہ سے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محبّت

حضرت حلیمہ سعدیہ سے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی محبّت کا یہ عالم تھا کہ اعلانِ نبوّت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد جب  بھی وہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوتیں، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سب کام چھوڑ کر اُن کا استقبال کرتے اور فرطِ محبّت سے’’میری ماں، میری ماں‘‘ کہتے ہوئے اُن سے لپٹ جاتے، اُن کے لیے اپنی چادر بچھاتے، خاطر مدارات کرتے اور اسی محبّت کا اظہار اپنے رضاعی بہن، بھائیوں کے ساتھ بھی  فرمایا کرتے تھے 

 

*حضرت اُمٌِ ایمن*

جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے تو حضرت “امِ ایمن” جو آپکے والد ماجد کی باندی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خاطر داری اور خدمت گزاری میں دن رات جی جان سے مصروف رہنے لگیں۔ امِ ایمن کا نام “برکۃ” ہے  یہی آپ کو کھانا کھلاتی تھیں کپڑے پہناتی تھیں آپ کے کپڑے دھویا کرتی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا تھا جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔

رضی الله تعالیٰ عنهم)

جاری ھے

Share: