*قسط نمبر (11) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم*

 مدینہ منورہ کا سفر اور حضرت آمنہ کی وفات

رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم چھ سال کی عمر تک والدہ ماجدہ ہی کی آغوشِ محبت میں رہے۔لیکن جب سے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت آمنہ کے پاس آئے تھے ، اُسی وقت سے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی والدہ ماجدہ کے دل میں یہ شدید خواھش مچل رھی تھی ، کہ وہ اپنے جگر گوشے حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو لے کر مدینہ منورہ جائیں ، تاکہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے  والد مرحوم  کی قبر کی زیارت کر سکیں ۔  چنانچہ  حضرت آمنہ نے مدینہ منورہ جانے کا  مصمم ارادہ فرمایا ، کہ وہ اپنے متوفی شوہر کی یادِ وفا میں وھاں جاکر ان کی قبر کی خود بھی زیارت کریں گی اور اپنے محبوب شوھر کی محبوب نشانی یعنی رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بھی حاضری کروائیں گی ۔ چنانچہ وہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ، اپنی خادمہ اُمِّ ایمن اور اپنے سسر یعنی رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دادا عبد المطلب کی معیت میں کوئی چھ  سات دن  کی مسافت طے کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئیں اور وہاں ایک ماہ تک قیام  کیا ۔ ایک ماہ قیام کے بعد مکہ مکرمہ واپسی کا سفر شروع کیا ، لیکن ابھی زیادہ سفر طے نہیں کیا تھا کہ وہ بیمار ھو گئیں پھر یہ بیماری بہت زیادہ شدت اختیار کرتی چلی گئی،  یہاں تک کہ حضرت آمنہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقام اَبْوَاء میں پہنچ کر رحلت فرما گئیں۔  اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ سال کی عمر میں والدہ کی شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔ نھنے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو والدہ کی موت کا شدید صدمہ پہنچا۔   آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بی بی آمنہ کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  شدت غم میں اپنی ماں سے لپٹ کر بہت روئے۔ ام ایمن نے ان کو چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنی والدہ سے مسلسل چمٹ کر روتے رہے۔ حضرت آمنہ کو وھیں دفن کر دیا گیا  تدفین کے بعد رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ماں کی قبر سے چمٹ کر  بھی روتے رھے اسی طرح  شدید غم کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ام ایمن کے ھمراہ مکہ مکرمہ تشریف لے آئے

ہجرت کے بعد جب رسول کریم  (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کا گزر بنو نجار پر ہوا ، تو  والدہ صاحبہ کے ساتھ ا پنے قیامِ مدینہ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا اور والدہ صاحبہ کے ھمراہ جہاں قیام فرمایا تھا اس قیام گاہ کو دیکھ کر فرمایا: ’’ اس گھر میں میری والدہ مکرمہ مجھے لے کر ٹھہر ی تھیں ۔ میں بنی عَدِی بن نجَّار کے تالاب میں تیرا  کرتا  تھا 


رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم دادا کی پرورش میں

حضرت بی بی آمنہ کی وفات کے وقت  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت ام ایمن ان کے ساتھ تھے ۔ دورانِ سفر  بی بی آمنہ کے  آچانک انتقال  اور پھر ان کی تدفین کے بعد حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو  واپس مکہ مکرمہ لائیں اور آپ  کو غمزدہ حالت میں آپ کے دادا عبدالمطلب کے سپرد کر دیا ۔  پوتے کو  غمزدہ حالت میں دیکھ کر عبدالمطلب کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ھوگئیں۔  انہیں اپنا مرحوم بیٹا عبداللہ بھی یاد آیا ۔ اُنہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنی آغوش تربیت  میں لے لیا اور جب تک زندہ رھے انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ پرورش کرتے رھے۔  حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت کرتی رہیں۔  بوڑھے عبد المطلب کا دل اپنے اس یتیم پوتے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی محبت وشفقت کے جذبات سے لبریز تھا۔ کیونکہ اب بیچارے اس بوڑھے سردار کو  غم کے ایک نئے اور شدید جھٹکے  کا سامنا تھا۔  جس نے اس  بوڑھے سردار  کو نہ صرف یہ کہ بُری طرح ہلا کر رکھ دیا تھا  بلکہ اُس کے پرانے زخم بھی کرید دیئے تھے۔ عبد المطلب کے جذبات میں اپنے پوتے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایسی رِقّت تھی کہ ان کی اپنی صُلبی اوّلاد میں سے بھی کسی کے لیے ایسی رقت نہ تھی۔ قسمت نے رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تنہائی کے جس صحرا میں لا کھڑا کیا تھا ، عبد المطلب اس میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تنہا چھوڑنے کے لیے  کسی صورت  بھی تیار نہ تھے ۔ وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر چاہتے تھے اور  اپنے بڑوں کی طرح ان کا  بے حد احترام کرتے تھے۔ 

سیرت ابن ہشام میں ہے کہ عبد المطلب اپنے پوتےصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے لئے بہت ھی حسٌاس جذبات رکھتے تھے۔  یہاں تک کہ عبدالمطلب کے لیے خانہ کعبہ کے سائے میں جو فرش بچھایا جاتا  تھا ۔ اس پر کسی دوسرے کو بیٹھنے کی آجازت نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ عبدالمطلب کے اپنے تمام بیٹے بھی اس فرش پر نہیں بیٹھ سکتے تھے بلکہ وہ  فرش کے ارد گرد بیٹھا کرتے تھے  ۔  جب عبد المطلب تشریف لاتے تو  وہ اس فرش پر بیٹھتے تھے ۔ ان کی عظمت کے پیش نظر ان کا کوئی بیٹا  فرش پر نہ بیٹھ سکتا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی تشریف لاتے تو  سیدھے فرش ہی پر بیٹھ جاتے تھے ۔ ابھی آپ کم عمر بچے تھے ، اس لئے جب آپ فرش پر بیٹھتے تو عبدالمطلب کے بیٹے انہیں وہاں سے اُٹھا دیتے تھے ۔ لیکن جب وہ عبد المطلب  کی موجودگی میں  ایسا  کرتے  تو عبدالمطلب یہ دیکھ کر انہیں منع فرما دیتے اور فرماتے : میرے اس بیٹے کو فرش پر بیٹھنے سے منع مت کرو ۔  اللہ کی قسم ! میں جانتا ھوں اس بچے کی شان  بہت ھی نرالی ہے، یہ کہہ کر  وہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے فرش پر بٹھا لیتے۔ اپنے ہاتھ سے آپ کی پیٹھ سہلاتے اور اپ کی نقل وحرکت دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ 

عبدالمطلب بڑھاپے کی عمر میں  پہنچ چکے تھے ۔ انہیں سب سے زیادہ فکر اپنے پیارے پوتے کے حوالے سے رھتی تھی کہ میرے مرنے کے بعد ان کا کیا ھو گا ۔ لہذا جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر  مبارک  آٹھ برس کی ہو گئی تو آپ کے دادا  عبدالمطلب  بھی انتقال  فرما گئے۔   عبدالمطلب نے مرنے سے پہلے رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی پرورش کی ذمہ داری اپنے صاحبزادے اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سگے چچا ابو طالب کے سپرد کردی تھی اور انہیں وصیت بھی کر دی تھی کہ وہ رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی پرورش انتہائی شفقت اور محبت سے کریں ۔ ابو طالب نے اپنی  پوری زندگی میں اس وصیت پر پورا پورا عمل کیا


رسول کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم چچا کی کفالت میں 

عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو طالب نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی آغوشِ تربیت میں لے لیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نیک خصلتوں اور دل لبھا دینے والی بچپن کی پیاری پیاری اداؤں نے ابو طالب کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ایسا گرویدہ بنا دیا کہ مکان کے اندر اور باہر ہر وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ ہی رکھتے۔ اپنے ساتھ کھلاتے پلاتے، اپنے پاس ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بستر بچھاتے اور ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔

حضرت ابو طالب آپ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس قدر محبت کر تے تھے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی  اکثر اوقات ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا تے تھے کیونکہ انہیں مسلسل یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں کو ئی دشمن رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رات کے وقت سوتے ہو ئے قتل نہ کر دے۔ لہذا شعب ابی طالب کے  قیام کے دوران حضرت ابو طالب کا  ھمیشہ یہی وطیرہ رہا کہ رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد وہ نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کے بستر سے اٹھا کرکہیں اور سلا دیتے تھے اور اُن صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  کو سلا دیتے تھے 

ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولا ہو یا کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہو، یا کبھی کسی کو کوئی ایذا پہنچائی ہو، یا بیہودہ لڑکوں کی صحبت میں  گئے ہوں یا کبھی کوئی خلافِ تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق، نیک اطوار، نرم گفتار، بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔

ابو طالب نے اپنے بھتیجے کا حقِ کفالت بڑے آحسن طریقہ سے ادا کیا۔ نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی اولاد میں شامل کیا بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ درجہ دیا  ھمیشہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت  اعزاز واحترام سے نوازا۔ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک  رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ھر طرح کی مدد و قوت پہنچاتے رھے  آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے اپنی حمایت کا سایہ  ھمیشہ دراز رکھا یہاں تک کہ  آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دوستوں کو اپنا دوست  اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دشمنوں کو  اپنا دشمن سمجھتے رھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دشمنوں کے مقابلے  میں کھلم کھلا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ساتھ دیتے 

جاری ھے

Share: