شرک کی قباحت / دم و تعویذ کی شرعی حیثیت

از مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

 اللہ تعالیٰ ہی ہمارے معبود ، خالق، مالک ، مختارِ کل ، مشکل کشا اور حاجت روا ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات کےعلاوہ نہ کوئی ہمارا خالق ہے ، نہ مالک ہے ، نہ معبود و مسجود ہے نہ رازق و مختار ہے نہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔
شرک کسے کہتے ہیں؟:
اللہ تعالیٰ کی ذات میں یا اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت میں کسی اور کو شریک ٹھہرانا جو صفت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص اور مقرر ہے ۔
مشرک اللہ پر بہتان باندھتا ہے:
وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾
سورۃ النساء ، رقم الآیۃ: 48
ترجمہ: اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے تو یقیناً اس نے بہت بڑے گناہ کا بہتان باندھا۔ 
شرک ناقابل معافی جرم:
اِنَّ اللہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾
سورۃ النساء ، رقم الآیۃ: 116
ترجمہ: اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز معاف نہیں فرمائیں گے اور اس کے علاوہ جتنے گناہ ہیں ان میں سے جس کو چاہیں گے معاف فرما دیں گے۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو پکی بات ہے کہ وہ بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا۔
جنت حرام ؛جہنم واجب:
اِنَّہٗ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ الۡجَنَّۃَ وَ مَاۡوٰىہُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ﴿۷۲﴾
سورۃ المائدۃ ، رقم الآیۃ: 72
ترجمہ: بے شک جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک ٹھہراتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔
مشرک کے اعمال بے کار :
اُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ ۚ وَ فِی النَّارِ ہُمۡ خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۷﴾
سورۃ التوبۃ، رقم الآیۃ: 17
ترجمہ: یہی )مشرک( لوگ ہیں، ان کے اعمال بے کار اور رائیگاں ہوگئے اور یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگ میں رہیں گے۔
مشرک ناپاک ہے:
اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ
سورۃ التوبہ ،رقم الآیۃ: 28
ترجمہ: یقیناً اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والےناپاک ہیں۔
مشرک کی کوئی حیثیت نہیں:
وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ ﴿۳۱﴾
سورۃ الحج ، رقم الآیۃ: 31
ترجمہ: اور جو کوئی اللہ کےساتھ کسی کو بھی شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گرگیا، اب یا تو اسے پرندے اٹھا کر لے جائيں گے یا ہوا اسے دور دراز کی جگہ جاکر پھینک دے گی ۔
شرک بہت بڑا ظلم ہے:
اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾
سورۃ لقمان، رقم الآیۃ: 13
ترجمہ: یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
شرک فی الصفات:
بعض لوگ اللہ کی ذات میں تو کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے یعنی شرک فی الذات سے بچتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ کے ساتھ کسی اور کو بھی شریک ٹھہرا لیتے ہیں مثلاً : روزی دینا ، اولاد دینا ، پریشانیوں کو دور کرنا ، خوشیاں دینا، نفع اور نقصان دینا یہ ایسے کام ہیں جن کا مالک صرف اور صرف اللہ رب العزت ہے ۔ اللہ کے ماسواء کسی کو بھی خواہ وہ ولی ہو یا نبی ہو ، انسان ہو یا فرشتہ ہو، جاندار یا غیر جاندار ، زندہ ہو یا مردہ الغرض کسی کو بھی یہ قدرت اور اختیار نہیں کہ وہ روزی دے ، اولاد دے ، نفع پہنچائے یا نقصان سے بچائے، پریشانیوں کو دور کرے یا خوشیاں عطا کرے۔
غیر اللہ سے مدد مانگنا :
یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رکھ لیجیے کہ اسباب کو اختیار کیے بغیر مدد کرنا یہ اللہ رب العزت کا خاصہ ہے اگر کوئی انسان اللہ کے ماسواء کسی اور سے اس درجے کی مدد مانگتا ہے تو وہ توحید کی حقیقت سے غافل ہے ۔
اور اگر ایسے کاموں میں مدد مانگتا ہے جو بندے کی طاقت میں داخل ہیں اور اسباب اختیار کرنے سے پورے ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں کسی سے مدد مانگنا شرک نہیں ہو گا ۔ جیسے کسی بھوکے، پیاسے کو کھلا پلا کر اس کی مدد کرنا ، کسی مریض کو دوائی دے کر اس کے مرض کو دور کرنے میں مدد کرنا وغیرہ ۔
دم اور تعویذ جائز ہیں :
دم اور تعویذ بطور علاج جائز ہیں ، بعض لوگ تعویذ ہی کو نفع یا نقصان کا مالک سمجھ لیتے ہیں جو کہ کسی صورت درست نہیں۔ نفع دینے اور نقصان سے بچانے میں اصل ذات اللہ تعالیٰ ہی کی ہے لیکن اللہ رب العزت نے جیسے بعض دواؤں میں بعض بیماریوں کا علاج رکھ دیا ہے اور اسے اسباب میں داخل فرما دیا ہے اسی طرح بعض کلمات کو بعض بیماریوں کا علاج بنا دیا ہے اور اسے بھی اسباب میں داخل فرما دیا ہے۔
دم میں شرکیہ باتیں نہ ہوں:
عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ !كَيْفَ تَرٰى فِي ذَلِكَ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ ، لاَ بَأْسَ بِالرُّقٰى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ.
صحیح مسلم، رقم الحدیث:5783
ترجمہ: حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں دم تعویذ وغیرہ کرتے تھے اس کے بارے ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایسا کرنا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے وہ کلمات دکھلاؤ جن سے تم دم اور تعویذ کیا کرتے تھے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دم اور تعویذ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہاں اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ اس میں شرکیہ باتیں درج نہ ہوں۔
حدیث مبارک سے دم کرنے کا ثبوت:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا فِي سَفَرٍ فَمَرُّوا بِحَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَاسْتَضَافُوهُمْ فَلَمْ يُضِيفُوهُمْ ، فَقَالُوا لَهُمْ : هَلْ فِيكُمْ رَاقٍ ؟ فَإِنَّ سَيِّدَ الْحَيِّ لَدِيغٌ ، أَوْ مُصَابٌ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: نَعَمْ فَأَتَاهُ فَرَقَاهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَبَرَأَ الرَّجُلُ فَأُعْطِيَ قَطِيْعًا مِنْ غَنَمٍ فَأَبٰى أَنْ يَقْبَلَهَا وَقَالَ : حَتَّى أَذْكُرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، وَاللهِ مَا رَقَيْتُ إِلاَّ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَتَبَسَّمَ وَقَالَ : وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ؟ ثُمَّ قَالَ : خُذُوا مِنْهُمْ ، وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ مَعَكُمْ.
صحیح مسلم ، رقم الحدیث: 5784
ترجمہ: حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت ایک علاقے سے گزر رہی تھی، اس علاقے والوں سے کہا کہ ہم مسافر لوگ ہیں ہمیں مہمان بنا لو تو انہوں نے مہمان بنانے سے انکار کیا۔ )اللہ تعالیٰ کی شان ہے جنہوں نے انکار کیا اُس قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا یا کوئی بیماری لگ گئی جو علاج معالجہ ان کے پاس اس دور میں تھا کیا مگر افاقہ نہ ہوا۔
کچھ لوگوں نے کہا کہ جن لوگوں کو ہم نےمہمان بنانے سے انکار کیا ان سے پوچھو شاید ان کے پاس کوئی علاج ہو؟(وہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس آئے اور سارا معاملہ کہہ ڈالا کہ ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا یا یوں کہا کہ ہمارے سردار کو کوئی بیماری لگ گئی ہے ہم اس لیے آئے ہیں کہ آپ لوگوں میں سے کوئی بندہ علاج کر سکتا ہے؟ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جی ہاں! میرے پاس دَم موجود ہے میں اس کا علاج کروں گا،وہ وہاں چلے گئے سورۃ فاتحہ پڑھی اور سردار پر پھونک ماری،اللہ تعالیٰ نے سردار کو شفا عطا فرما دی۔اس پر اُن لوگوں نےاس صحابی رضی اللہ عنہ کو )تقریباً تیس) بکریوں کا ریوڑ دیا جسے اس صحابی نے فوراً اپنے کام میں لانے سے انکار کیا اور یہ فرمایا کہ جب تک میں اس بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لوں اس وقت تک استعمال میں نہیں لاؤں گا ۔ وہ صحابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ کو سارا ماجرا سنایا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور)اس عمل کی تائید کرتے ہوئے ازراہ محبت ( فرمایا: آپ کو کیسے پتہ چلا کہ سورۃ فاتحہ بطور دم بھی پڑھی جاتی ہے ۔ پھر فرمایا کہ ان بکریوں کو لے لو )یعنی اپنے استعمال میں لاؤ( اور ہاں ان میں میرا حصہ بھی رکھنا ۔
فائدہ: مذکورہ بالا حدیث مبارک کو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح البخاری میں کتاب الاجارہ کے تحت ذکر کیا ہے جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دم اور تعویذ پر اجرت لینا بھی درست ہے۔
جس طرح بعض مرتبہ دوائی اور طریقہ علاج بے اثر ہو جاتا ہے اسی طرح بعض مرتبہ دم اور تعویذ سے بھی کام پورا نہیں ہوتا۔
دم اور تعویذ کا فائدہ تقدیر کے مطابق ہوتا ہے:
عَنْ أَبِي خُزَامَةَ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا قَالَ هِيَ مِنْ قَدَرِ اللهِ۔
جامع الترمذی ، رقم الحدیث: 1991
ترجمہ: حضرت ابو خزامہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اللہ !تعویذ ، دوا اور ڈھال کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں : کیا یہ چیزیں اللہ کی تقدیر کو بدل سکتی ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان چیزوں سے جو فائدہ پہنچتا ہے وہ بھی تقدیر میں لکھے ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
بطور علاج دم اورتعویذ درست ہیں جیسا کہ دوائی بطور علاج استعمال کرنا درست ہے۔اسے حرام یا شرک کہہ دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔
چند کبیرہ گناہ:
عَنْ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللهِ أَكْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ للهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ أَنْ (ثُمَّ أَنْ) تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ قَالَ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَوَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ
صحیح البخاری ، رقم الحدیث: 4761
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کا شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے ہی تجھے پیدا فرمایا ہے ۔ سوال کیا کہ اس کے بعد ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کر ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہو جائے گی ۔ سوال کیا کہ اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا )بدکاری( کرے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق کے لیے سورۃ الفرقان کی مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام والی زندگی اور ایمان والی موت نصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
Share: