قسط نمبر (26) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 قیامت والے دن سب سے پہلے نماز کا  حساب 

روزِ محشر تمام اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کی بابت استفسار کیا جائے گا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے  کہ سب سے پہلے بندے سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا، وہ نماز ہے۔ پس اگر یہ (حساب) ٹھیک ہوگیا تو اس کا سارا عمل ٹھیک ہوجائے گا اور اگر یہ خراب ہوگیا تو اس کا سارا عمل خراب ہوجائے گا۔ (اخرجہ الطبرانی)

اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "قیامت کے دن لوگوں کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ (پھر آپ نے) فرمایا "اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں (اس کے باوجود پوچھیں گے تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے) کہ میرے بندے کی نماز دیکھو اس نے پوری کی ہے یا کم رکھی ہے؟ اگر نماز پوری ہوگی تو اس کے لئے پوری نماز لکھ دی جائے گی۔ اور اگر کم ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے "دیکھو آیا میرے بندے کے پاس نفل نمازوں میں سے کچھ ہے؟" پھر اگر نفل میں سے کچھ ہوا تو فرمائیں گے کہ "میرے بندے کے فرائض کو اس کے نوافل میں سے پورا کردو۔" پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائیں گے۔" (سنن ابی داود)


نماز قائم کرنے والوں اور اس کے قیام کا حکم دینے والوں کی تعریف:

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا 0 وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا 0

ترجمہ: "اور اس کتاب میں اسماعیل کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ وعدے کے سچے تھے، اور رسول اور نبی تھے۔ اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔" (سورۃ المریم)


گھر والوں کو نماز کا حکم  دینا 

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اتباع كرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم ديں

-فرمانِ الٰہی ہے:

وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى0

ترجمہ: "اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو، اور خود بھی اُس پر ثابت قدم رہو۔ ہم تم سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو تمہیں ہم دیں گے۔ اور بہتر انجام تقویٰ ہی کا ہے۔ (سورۃ طہٰ)


أولاد كو نماز كا حكم  دینا 

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے  ارشاد فرمایا: "اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں، نماز کا حکم کرو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز کے لئے سرزنش کرو اور ان کے سونے کے بستر الگ کردو" (رواہ الترمذی )


نماز کی دیگر عبادات کے مقابلے میں خاصیتیں:


نماز کو ایمان کا نام دیا جانا:

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ0

ترجمہ: "اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کردے۔ درحقیقت اللہ لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (البقرۃ)

اس آیت میں ایمان سے مراد وہ نمازیں ہیں جو بیت المقدس کی جانب رُخ کرکے ادا کی گئیں۔ اور یہاں نماز کو "ایمان" کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ ایک مسلمان کے قول اور عمل دونوں کی تصدیق کرتی ہے۔


دیگر عبادات کے مقابلے میں خصوصیت سے نماز کا ذکر:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اُتْلُ مَآ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ ۗ وَلَـذِكْرُ اللّـٰهِ اَكْبَـرُ ۗ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ 0

جو کتاب تیری طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو، بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے، اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔(العنکبوت)

  اس آیت مبارکہ میں کتاب کی تلاوت بمعنی "اس کی اتباع اور اس میں جو اوامر و نواہی ہیں ان پر عمل درآمد کرنا" کے ہے۔ اس میں نماز بھی شامل ہوجاتی ہے مگر اس کے بعد نماز کا دیگر شرعی امور سے علیحدہ طور پر، بطورِ خاص بھی ذکر کیا گیا۔


ایک اور مقام پر فرمایا:

وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ

ترجمہ: "اور ہم نے وحی کے ذریعے انہیں نیکیاں کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کی تھی (الانبیاء)

ایک مرتبہ تو "فعل الخیرات" میں نماز بھی داخل ہوگئی کیونکہ یہ بھی ایک عظیم فعلِ خیر ہے مگر اس کی اہمیت کے پیشِ نظر دوبارہ الگ سے بھی اس کا ذکر کیا گیا۔


قرآن مجید میں بیشتر عبادات کے ساتھ اولیت کے ساتھ نماز کا تذکرہ:

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ0

ترجمہ: "کہہ دو کہ: "بے شک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے"۔ (الانعام)


ایک اور مقام پر فرمایا:

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الکوثر)

ترجمہ: "لہٰذا تم اپنے رب (کی خوشنودی) کیلئے نماز پڑھو، اور قربانی کرو"

ان آیات میں زکوٰۃ اور قربانی کے ساتھ نماز کا ذکر ہے اور ان عبادات کے ذکر پر مقدم بھی ہے۔ ان کے علاوہ بھی دیگر کثیر آیات میں نماز کے ساتھ  دیگر عبادات کا ذکر موجود ہے۔


نماز ہر حال میں فرض ہے:

نماز کی دیگر عبادات کے مقابلے میں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر حال میں فرض ہے ( عورت کی حالتِ حیض و نفاس کے علاوه)  باقی تمام حالات میں چاہے انسان مریض ہو، سفر میں ہو، حالتِ خوف میں ہو یا اس کے علاوہ کسی حال میں۔ یہ ضرور ہے کہ خصوصی حالات میں اس کی ادائیگی میں سہولت کی خاطر کبھی رکعات میں تخفیف کی گئی ہے اور کبھی بیٹھ کر، لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔


 نماز میں جمیع اعضائے انسانی کی عبادت:

نماز دیگر عبادات سے یوں بھی ممتاز ہے کہ اس میں انسان کے تمام اعضاء استعمال ہوتے ہیں حتیٰ کہ نماز کی ادائیگی کے وقت کسی سوچ کا دل میں لانا بھی ممنوع ہے۔ زبان ذکر میں مشغول ہوتی ہے اور ہاتھ پاؤں قیام، رکوع، سجود و تشہد میں۔


تارکِ نماز قرآن و حدیث کی روشنی میں:


1:تارکِ نماز كا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو سجدہ نه کرسکنا:

يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ 0 خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ 0

ترجمہ: "جس دن ساق کھول دی جائے گی، اور ان کو سجدے کیلئے بلایا جائے گا تو یہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔ اس وقت بھی انہیں سجدے کیلئے بلایا جاتا تھا جب یہ لوگ صحیح سالم تھے، (اس وقت قدرت کے باوجود یہ انکار کرتے تھے)" (سورۃ القلم)

ان آیات سے علمائے کرام نے دلیل لی ہے کہ تارکِ نماز بھی اس وقت میں کفار اور منافقین کی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرسکے گا جیسا کہ نمازی مسلمان اس موقع پر کریں گے۔ اگرچہ وہ مسلمانوں میں سے ہو۔ کیونکہ انہیں بھی سجدے (نماز) کا حکم دیا گیا تھا جیسا کہ دیگر مسلمانوں کو دیا گیا تھا۔


2: نماز نہ پڑھنا دوزخ جانے کا ایک بہت بڑا سبب:

كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ 0 إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ 0 فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ 0 عَنِ الْمُجْرِمِينَ 0 مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ 0 قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ 0

ترجمہ: "ہر شخص اپنے اعمال  کی وجہ سے گروی رکھا ہوا ہے، سوائے دائیں ہاتھ والوں کے کہ وہ جنتوں میں ہوں گے۔ وہ پوچھ رہے ہوں گے۔ مجرموں کے بارے میں، کہ "تمہیں کس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟" وہ کہیں گے کہ : "ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے،" (المدثر)


3: آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز كا فرق ہے

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز ہے۔ پس جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا" (مسلم)


4:تركِ نماز سے كفر واقع هونا:

حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے، چنانچہ جس نے بھی نماز ترک کی اس نے کفر کیا" (ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ وغيرهما)


مسجد میں نماز با جماعت کی اہمیت:

نماز كي إهميت كے ضمن ميں يه بهي جاننا ضروري هے كه مرد كے لئے فرض نماز مسجد ميں جاكر باجماعت ادا كرنے كا حكم هے  بغیر کسی شرعی عذر کے مسجد میں جا کر باجماعت نماز کا اھتمام نہ کرنا بہت بڑی محرومی کی بات ھے ۔ مسجد میں جاکر با جماعت نماز کی آدائیگی كي بهي بهت هي إهميت قرآن وحديث ميں وارد هوئى هے :

الله تعالى نے قرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا :

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ 0

 نماز قائم كرو - ذكوة ادا كرو اور ركوع كرنے والوں كے ساتهـ ركوع كرو (البقره)

إس آيت مباركه ميں الله تعالى نے نماز جماعت كے ساتهـ ادا كرنے كا حكم فرمايا هے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ : جو شخص اللہ تعالی سے قیامت کے دن مسلمان ہو کر ملاقات کرنا چاہتا ہے تو اسے نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیۓ اور " بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے۔ ان ہدایت کے طریقوں میں یہ بات بھی شامل ہے که :" اس مسجد میں نماز ادا کی جائے جس میں اذان دی جاتی ہے۔۔ اور اگر تم نماز اپنے اپنے گھروں میں پڑھوگے جیسے (جماعت سے) پیچھے رہنے والا شخص اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبي کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت كو چھوڑ دوگے۔ اور اگر نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت چھوڑدوگے تو گمراہ ہو جاؤ گے اور جب کوئى شخص اچھا وضو کرکے مسجد جاۓ تو اللہ تعالی ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے، ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک برائى مٹا دیتا ہے۔ (مسلم)

رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے زمانه ميں جماعت سے سوائے کھلے منافق کے کوئى پیچھے نہیں رہتا تها يهاں تك كه بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لیۓ آجاتا تھا۔

حضرت عبدالله ابن عمر رضی اللہ تعالی عنه سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اکیلے شخص کی نمازسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا 27 درجہ زیادہ (ثواب رکھتا) ہے۔(بخاری ، مسلم )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:" اس ذات کی قسم جس کے قبضئه قدرت میں میری جان ہے البتہ میں نے ارادہ کیا کہ لکڑی کے جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لیۓ کہوں پھر ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو نماز (جماعت) میں حاضر نہیں ہوتے- (بخاری ، مسلم )۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نابینا  صحابی (حضرت عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ) آئے انہوں نے اپنے اندھے ہونے کا عذر پیش کر کے اپنے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت چاهی کیونکہ انہیں کوئى مسجد میں لے کر آنے والا نہیں تھا۔ تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے پوچھا: اذان سنتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن مكتوم رضي الله تعالى عنه نے کہا-جی ہاں! آپ(صلى الله عليه وآله وسلم) نے فرمایا:" تو پھر تم نماز كي جماعت میں حاضر ہو (مسلم )۔

یہ تمام احادیث نماز کے اہمیت اور مردوں کے لیۓ مسجد میں  باجماعت نماز ادا کرنے پر دلالت كرتي ہیں۔ اور پھر نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے اس ارشاد کی جانب نظر کیجیے کہ آپ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے والے مردوں پر اتنے غضبناک ہوتے ہیں کے ان کے گھروں کو جلانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ اور ایک نابینا صحابی کو بھی گھر پر نماز پڑھنے کی آجازت نہیں دیتے بلکہ اسے بھی مسجد میں آکر باجماعت پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

کـچھ لوگ نماز تو پڑهتے هيں ليكن مسجد جانا كوئى ضرورى نهيں سمجهتے بلکہ اپنے گھر یا دکان وغیرہ میں ھی  با جماعت یا اکیلے نماز ادا کر لیتے ھیں اور پھر بہت ڈھٹائی سے اس طرح کے سوال كرتے هيں کہ کیا مسجد میں جا کر نماز باجماعت ادا كرنا فرض هے؟ کیا گھر پر جماعت نہیں کروائی جا سکتی ؟ تو  ان بدنصیب لوگوں کو  يه  بات سمجھنی چاھیے کہ  نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی اتنی واضح احادیث کی موجودگی میں کیا اس بحث کی کوئى ضرورت باقي ره جاتي ہے کہ مسجد جانا اور باجماعت نماز ادا كرنا فرض ہے یا سنت ھے  یا نفل ھے۔ جب ہمیں نبئ کریم صلى الله عليه وآله وسلم کا واضح حکم مل گیا هے تو همارے لئے عافيت اور كاميابي كا راسته يهي ره جاتا هے كه هميں بهانه بازي سے كام لينے كي بجائے اپنے پيارے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كے فرمان پر سر تسلیم خم کرکے اس پر عمل پیرا ہو جانا چاہیۓ۔ اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!


نماز کی فضيلت َ :

نماز کی فضیلت كے بارے ميں  آیاتِ قرانیہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بے شمار إرشادات آحاديث كي كتابوں ميں ذكر كيے گئے  بطور تبرك چند فضائل كا ذكر  یہاں كيا جائے گا تاكه معلوم هو كه نماز كتني قيمتي چيز هے اور هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے

نماز بے حیائی اور برے کاموں سے بچاتی ہے چنانچه ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ 0 (سورۃ العنکبوت)

ترجمہ: "(اے نبي صلى الله عليه وآله وسلم) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے، اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سب کو جانتا ہے"

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  نماز کے متعلق إرشادات:

نماز دین کا ستون هے - نماز مومن کی معراج هے- نمازایمان کی نشانی هے-

نماز شکر گزاری کا بھترین ذریعہ هے- نماز میزان عمل هے- ہر عمل نماز کے تابع هے- يوم قیامت پہلا سوال نماز کے بارے میں هوگا - نمازی کے ساتھ ہر چیز خدا کی عبادت گزارهے- نمازی کا گھر آسمان والوں کے لئے نور هے- نماز گناہوں سے دوری کا ذریعہ هے- نماز گناہوں کی نابودی کا سبب هے - نماز شیطان کو دفع کرنے کا وسیلہ هے - نماز بلاؤں سے دوری كا سبب هے- نماز عذاب قبر سے بچنے كا ذريعه هے- نماز عبادت الہی کا مقررہ طریقہ ہے۔ نماز اسلام کی تعلیمات کے اہم ترین اجزا میں سے ہے۔ نمازی شهنشاہ کے محل کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے، اُس کے لیے دروازہ کھول هي دیا جائے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آله وسلم نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:)۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو نمازوں کی حفاظت کرے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ پڑھنا گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہ نہ کئے جائیں‘‘ (صحیح مسلم:)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے (یعنی فجر اور عصر)۔ (صحیح بخاری:)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب تک تم اپنے مصلے پر ہواس وقت تک فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نمازی بے وضو نہ ہو جائے‘‘۔

(صحیح مسلم:)۔

پیارے نبي صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’فجر کی دو رکعات (سنتیں) دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کیلئے نماز کا حصہ رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے (صحیح مسلم:)

یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے اس سے بڑھ کر اور کیا خیروبرکت ہو گی۔

فرمانِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآله و سلم ہے کہ جو شخص ہر روز بارہ رکعات (یعنی مؤكده سنتیں) پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند فرماتا ہے۔ سو تم کثرت سے سجدے کرو‘‘۔ (ترغیب:)۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے پوچھا: کون سا عمل افضل (اجر و ثواب میں زیادہ) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "نماز پڑھنا اپنے وقت پر" میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا" میں نے پوچھا کہ پھر کون سا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"۔ ( مسلم)

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:

"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "تم سجدے بہت کیا کرو اس لیے کہ ہر سجدے پر اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند کرے گا اور ایک گناہ معاف کرے گا"۔ (صحیح مسلم)

حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے پاس رہا کرتا اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "مانگ کیا مانگتا ہے؟" میں نے عرض کیا کہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا "کچھ اور" میں نے عرض کیا بس یہی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا "اچھا تم کثرتِ سجود سے میری مدد کرو"۔ (صحیح مسلم)

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم فرماتے تھے "جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز پڑھے تو اس کے وہ گناہ بخش دیئے جائیں گے جو اس نماز سے لے کر دوسری نماز تک ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)

عمرو بن سعید بن عاص رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا۔ پھر کہا "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے سنا آپ نے فرمایا "جو کوئی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے پھر اچھی طرح وضو کرے اور دل لگا کر نماز پڑھے، اور اچھی طرح رکوع اور سجدہ کرے تو یہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گی جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا کرے گا۔" (صحیح مسلم)

ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "پانچ نمازوں کی مثال اس میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو تم میں سے کسی ایک کے دروازے (کے پاس سے گزر رہی ہو) وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہے گی؟" صحابۂ کرام رضی عنہم اجمعین نے کہا "نہیں" آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: "پانچ نمازیں بھی گناہوں کو ختم کردیتی ہیں جیسا کہ پانی میل کو ختم کردیتا ہے" (صحیح مسلم)

رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہی کا فرمانِ مبارک ہے: "جس مسلمان کے پاس کسی فرض نماز کا وقت آپہنچتا ہے، وہ اس کیلئے اچھے وضو اور خشوع و ركوع کا اہتمام کرتا ہے تو وہ نماز اس کے پہلے گناہوں کیلئے کفارہ بن جائے گی، جب تک کہ بڑا گناہ نہ کیا جائے اور یہ قانون ساری زندگی جاری رہتا ہے" (صحیح مسلم)

رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: "پانچ نمازیں اللہ نے بندوں پر لکھ دی ہیں، جو ان کی پابندی کرتا ہے اور بے قدری کرکے انہیں ضائع نہیں کرتا، اللہ کا اس کیلئے وعدہ ہے کہ وہ اسے بہشت میں داخل کرے گا اور جو پابندی نہیں کرتا، اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وعدہ نہیں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو بخش دے" (رواہ احمد وغیرہُ )

آحادیث مبارکہ میں مذکور ھے کہ جو شخص پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرے گا الله تعالى أسے مندرجه زيل پانچ طرح سے أنعام وأكرام سے نوازيں گے :

(1) أس كے رزق كي تنگي دور كردي جائے گي

(2) أسے عذاب قبر سے محفوظ كرديا جائے گا

(3) أسے حشر كے ميداں ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جائے گا

(4) أسے پل صراط پر سے بجلي كي كڑك كي طرح گزار ديا جائے گا

(5) أسے بغير حساب كتاب جنت ميں داخل كرديا جائے گا

فائده: پانچ وقت كي نماز كا إهتمام كرنے كا مطلب يه هے كه وضو بهي آچهي طرح سے كرے اور وقت كي پابندي بهي كرے اور نماز بهي دهيان اور خشوع وخضوع سے ادا كرے- رزق كي تنگي دور هونے كا مطلب رزق ميں بركت اور دل كو إطمينان هونا هے- حشر كے ميدان ميں نامه أعمال داهنے هاتهـ ميں ديا جانا كاميابي كي نشاني هوگي يعني يه شخص كامياب هوجائے گا- پل صراط دوزخ كے اوپر إيك پل هوگا جس كي اونچائى - درمياني راسته اور أتروائى بهت زياده مسافت هوگي بجلي كي كڑك كا مطلب كه جس طرح آسماني بجلي چند سيكنڈ ميں كڑكتي هے إسي طرح يه شخص إس پل سے بهت تيزى سے پار هوجائے گا- آخري أنعام جنت ميں داخله هوگا جو كسي حساب وكتاب كي مشفت كے بغير عمل ميں آجائے گا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا بتلاؤ اگر کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو اور اس میں وہ ہرروز پانچ بارغسل کیا کرے تو کیا اس کا کچھ میل کچیل باقی رہ سکتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ بھی میل نہ رہیگا، تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: پانچوں وقت نمازوں کی یہی حالت ہے اللہ تعالیٰ ان کے سب گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ ’ (مسلم، )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں؛ جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے تمام گناہوں کے لیے کفارہ ہیں؛ جبکہ ان اعمال کو کرنے والا کبیرہ گناہوں سے بچے۔ (مسلم)

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم سردی کے موسم میں باہرتشریف لائے اور پتے درختوں پر سے گررہے تھے، آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی اس کے پتے اور بھی گرنے لگے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: ‘‘اے ابوذر! مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس سے اس کے گناہ ایسے ہی گرتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گررہے ہیں’’۔ (مسنداحمد)

حضرت ابومسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ مجھ سے ایک صاحب نے آپ کی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم سے یہ ارشاد سنا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضوکرے اور پھر فرض نماز پڑھے تو حق تعالیٰ شانہ اس دن وہ گناہ جو چلنے سے ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس کے ہاتھوں نے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے کانوں سے صادر ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس نے آنکھوں سے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں سب کو معاف فرمادیتے ہیں، حضرت ابوامامہ رضي الله تعالى عنه نے فرمایا میں نے یہ مضمون نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم سے کئی دفعہ سنا ہے۔ ( مسنداحمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ان پانچ فرض نمازوں کو پابندی سے پڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رہنے والوں میں شمار نہیں ہوتا۔ (’ صحیح ابن خزیم)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگی اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی، جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہوگا نہ (اس کے پورے ایمان دار ہونے کی) کوئی دلیل ہوگی نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا اور وہ قیامت کے دن فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان) ًِ

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جومسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے؛ پھرپورے خشوع اور اچھی طرح رکوع وسجود کے ساتھ نماز ادا کرے تو وہ نماز اس کے واسطے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائیگی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہوا ہو اور نماز کی یہ برکت اس کو ہمیشہ ہمیش حاصل ہوتی رہے گی۔ (مسلم)

"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی یہ تاثیر اور برکت ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور پچھلے گناہوں کی گندگی کو دھوڈالتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو؛ کیونکہ ان گناہوں کی نحوست اتنی غلیظ اور اس کے ناپاک اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں جن کا ازالہ صرف توبہ ہی سے ہوسکتا ہے، ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو یونہی معاف فرمادے اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں"

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہوکر پوری قلبی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ دورکعت نماز پڑھے تو جنت اس کے لیے ضرور واجب ہوجائیگی۔ (مسلم، مسنداحمد)

مذکورہ بالا احادیث مباركه کے علاوہ بےشمار احادیث مباركه ہیں جو نماز کی فضیلت کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں؛ جن كا إحاطه كرنا بهت مشكل هے چونکہ عمل کے لیے اتنی آحاديث مباركه بهي کافی ہیں، اس لیے اسی پر اکتفا کیا گیا ہے۔

کتنی  بدبختی ہے كه نماز کے بارے میں رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے ان تربیتی اور ترغیبی ارشادات کے باوجود امت کی إيك بڑی تعداد آج نماز سے غافل اور بے پرواہ ہے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے الطاف وعنایات سے محروم اور اپنی دنیا وآخرت کو برباد کررہی ہے چنانچه قرآن كريم ميں ارشاد هے 

‘‘وَمَا ظَلَمَھُمُ اللہ وَلٰکِنْ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ’’۔ ( آل عمران) ‘

ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنے آپ کو ضرر پہنچا رہے تھے

پانچوں نمازیں اپنی اپنی جگہ بہت اھمیت کی حامل ھیں "مغرب کی نماز بیج کے بمنزلہ ہے۔ عشا کی نماز جڑ کی مانند ہے جو تاریکی اور اندھیرے میں نشوونما پاتی ہے۔ صبح کی نماز زندگی کی کونپل کی طرح ہے جو زمین سے سر نکالتا ہے۔ ظہر کی نماز پتّوں اور شاخوں جیسی ہے۔ عصر کی نماز شجرِ عبادت کے ثمر کی مانند ہے۔ اور فرمایا ہے کہ جس کسی نے عصر کی نماز ضائع کی، اُس نے اپنے اہل و عیال اور مال پر ستم کیا۔"

نماز کے قائم کرنے میں اعضاء و جوارح کے اعمال اور زبان و قلب کے اذکار شامل ہیں، إن اعمال و اذکار میں سے ہر ایک اپنی ظاہری صورت کے علاوہ معنویت اور روحانیت کا حامل ہے، جو نمازی کے معراج اور اُس کے بلند حیاتی مدارج اور ٰالله تعالى کے تقرّب کا سبب بنتا ہے، اور اگر ظاہری حالت معنی کے معارف سے خالی ہو تو زبانی ذکر ایک بےمعنی لفظ، ایک بےمغز خول اور ایک بےجان جسم ہے، جس کی کوئی حقیقی قدر و قیمت نہیں"


جاری ھے 

Share: