قسط نمبر (27) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 مسجد جانے اور باجماعت نماز کی فضيلت :

 نماز کی فضیلت كے بارے ميں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے إرشادات آحاديث مباركه كي كتابوں سے ذكر كيے جا چکے هيں كه مردوں كے لئے حكم يه هے كه وه مسجد جاكر باجماعت نماز ادا كریں  - بہت سے حضرات نماز پڑھتے ہیں لیکن جماعت کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم سے جس طرح نماز کے متعلق بہت سخت تاکید آئی ہے اسی طرح جماعت کے متعلق بھی بہت سے تاکیدیں وارد ہوئی ہیں

 رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ ہو تی ہے۔ (البخاری و مسلم والترمذی )

فائده : جب آدمی نے نماز پڑھني هي ہے اورذياده سے ذياده ثواب کی طلب بهي ہے تو بهتر يهي هے کہ مسجد میں جاکر جماعت سے پڑھ لے تاکہ اتنا بڑا ثواب حاصل ہوجائے آخر دنيا كيلئے بهي تو هم زياده نفع كمانے كي كوشش كرتے هيں اور زياده نفع كيلئے دن رات إيك كرديتے هيں  ليكن آفسوس دين كے بڑے نفع سے بھی بے توجہی کی جاتی ہے اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ ہم لوگوں کو دین کی پرواہ نہیں اس کا نفع ہم لوگوں کی نگاہ میں نفع نہیں - جماعت کی نماز کے لئے جانے میں كاروبار كا نقصان سمجھا جاتا ہے اور مسجد جانے کی بھی دقت کہی جاتی ہے لیکن جن لوگوں کے یہاں ﷲ جل شانہ کی عظمت ہے اﷲ کے وعدوں پر ان کو اطمینان ويقين ہے اس کے اجرو ثواب کی کوئی قیمت ہے اس کے یہاں إس قسم كے عذر کچھ بھی وقعت نہیں رکھتے ایسے ہی لوگوں کی ﷲ جل شانہ نے قرآن پاک میں تعریف فرمائی ہے

مسجد جانے اور باجماعت نماز كے بيشمار فضائل بهي آحاديث مباركه ميں وارد هوئے هيں إنتهائى إختصار كے ساتهـ چند فضائل كا ذكر كيا جائے گا تاكه هميں باجماعت نماز كي قدرو قيمت كا پته چل جائے چونكه هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے إس لئے إسے زياده زياده قيمتي بنانا ھماری اپنی ھی ضرورت ھے 


 آحاديثِ مباركه 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص عشاء کی نماز باجماعت پڑھے تو گویا وہ آدھی رات تک قیام کرتا رہا۔ جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم صفوں کے درمیان ایک سے دوسرے کونے تک چلتے اور ہمارے کندھوں، سینوں کو ہاتھ لگا کر سیدھا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ تم باہم اختلاف نہ کرو، وگرنہ تمہارے دلوں میں اختلاف ہو جائے گا‘‘۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے پہلی صف والوں پر رحمتیں بھیجتے ہیں‘‘ (صحیح ابن حبان)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’صفوں کو درست کرو، کندھوں کے درمیان برابری کرو، صفوں میں خلل کو بند کرو، اپنے ساتھیوں کے لئے نرمی پیدا کرو اور شیطان کے لئے خالی جگہ نہ چھوڑو، جو صفوں کو ملاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ملا دیتا ہے، جو توڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دیتا ہے‘‘ (صحیح ابن خزیمہ)۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کے لئے نماز کا حصہ رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے (صحیح مسلم:)

یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے اس سے بڑھ کر اور کیا خیروبرکت ہو گی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص مسلسل چالیس روز تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دو پروانے لکھ دیتا ہے، ایک جہنم سے آزادی اور دوسری منافقت سے  بری ھونے کا 

(ترغیب و  ترھیب )

رسول  کریم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص فجر کی نماز باجماعت پڑھتا ہے ، پھر بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتا ہے حتی کہ سورج طلوع ہو جائے، پھر دو رکعت نفل پڑھتا ہے تو اس کے لئے حج و عمرے کا ثواب مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: مکمل مکمل یعنی مکمل اجر و ثواب ملے گا‘‘۔ (ترغیب:)۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو اپنے گھر میں طہارت کرے پھر اللہ کے کسی گھر میں جائے کہ اللہ کے فرضوں میں سے کسی فرض کو ادا کرے تو اس کے قدم ایسے ہوں گے کہ ایک (قدم رکھنے سے) اس کے گناہ معاف ہوں گے جبکہ دوسرے سے اس کے درجات بلند ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے: "پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو شخص صبح کو یا شام کو مسجد میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جنت میں ضیافت (مہمانی) تیار کی ہر صبح اور شام میں"۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "آدمی کی جماعت سے نماز اس کے گھر اور بازار کی نماز سے بیس پر کئی درجے افضل ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی نے جب وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کو آیا اور نماز کے علاوہ کسی (حاجت) نے نہیں اٹھایا اور نماز کے علاوہ اس کا اور کوئی ارادہ نہیں ہوا تو وہ کوئی قدم نہیں رکھتا مگر اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور ایک گناہ گھٹا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے (اس کیلئے ویسا ہی اجر لکھا جاتا ہے گویا) وہ نماز ہی میں ہے اور فرشتے اس كے لئے دعائے خیر کرتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ) پہ رہتا ہے۔ اور فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ تو اس پر رحم کر یا اللہ تو اس کو بخش دے، یا اللہ تو اس کی توبہ قبول کر، جب تک کہ وہ ایذا نہیں دیتا یا جب تک وہ حدث نہیں کرتا (وضو نہیں توڑتا)" (متفق علیہ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو وہ باتیں نہ بتاؤں جن سے گناہ مٹ جائیں اور درجے بلند ہوں؟" لوگوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "وضو کا پورا کرنا سختی اور تکلیف میں (اچھی طرح وضو کرنا) اور مسجد کی طرف قدموں کا کثرت سے ہونا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے۔"

(رباط کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک نفس کا عبادت کے لئے روکنا اور دوسرا وہ رباط جو جہاد میں ہوتا ہے) (صحیح مسلم)

إيك حديث ميں هے كه نمازي جب نماز کے ارادہ سے چلتا ہے کوئی اور ارادہ اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتا تو جو قدم بھی رکھتا ہے اس کی وجہ سے ایک نیکی بڑھ جاتی ہے اور ایک خطا معاف ہو جاتی ہے اور پھرجب نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک وہ با وضو بیٹھا رہے گا فرشتے اس کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے وہ نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے

اگر هم غور كريں تو معلوم هوگا كه اس امت پر ﷲ تعالی کی طرف سے انعامات کی بے پناه بارش هوئی هے جیسا کہ اور بھی بہت سے جگہ اس کا ظہور ہے اس لئے اول پچیس درجہ تھا بعد میں ستائیس ہو گیا بعص شراح نے ایک عجیب بات سمجھی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس پچیس درجه والي حدیث کا ثواب ستائیس درجه والی حدیث سے بہت زیادہ ہے اس لئے کہ اس حدیث میں یہ ارشاد نہیں کہ وہ پچیس درجہ کی زیادتی ہے بلکہ یہ ارشاد ہے کہ پچیس درجہ المضاعف ہو تی ہے جس کا ترجمہ دو چند اور دو گنا ہوگا  یعنی یہ کہ پچیس مرتبہ تک دو گنا اجر ہوتا چلا جاتا ہے اس صورت میں جماعت کی ایک نماز کا ثواب تین کروڑ پینتیس لاکھ چون ہزار چار سو بتیس (۳۳۵۵۴۴۳۲) درجہ ہوا حق تعالیٰ شا نُہ‘ کی رحمت سے یہ ثواب کچھ بعید نہیں اس كي رحمت بهت وسيع هے وه جتنا مرضي ثواب اپنے بندے كو عطا فرمادے اسے كوئى روكنے والا نهيں

اور غور كا مقام هے كه جب نماز کے چھوڑنے کا گناہ ایک حقبہ ہے تو اس کے پڑھنے کا ثواب یہ ہونا قرین قیاس بھی ہے حديث مباركه ميں حضورؐ آكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اس طرف بهي اشارہ فرمایا کہ یہ تو خود ہی غور کر لینے کی چیز ہے کہ جماعت کی نماز میں کس قدر اجر و ثواب اور کس کس طرح حسنات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ جو شخص گھرسے وضو کر کے محض نماز هی كي نیت سے مسجد میں جائے تو اس کے ہر ہر قدم پر ایک نیکی کا اضافہ اور ایک خطا کی معافی ہوتی چلی جاتی ہے

بنو سلمہ مدینہ طیبہ میں ایک قبیلہ تھا ان کے مکانات مسجد سے دور تھے انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب ہی کہیں منتقل ہو جائیں حضورؐ أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا وہیں رہو تمہارے مسجد تک آنے کا ہر ہر قدم لکھا جاتا ہے ایک اور حدیث میں هے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے نماز کو جائے وہ ایسا ہے جیسا کہ گھر سے احرام باندھ کر حج کو جائے اس کے بعد حضور اکرم صلی الله عليه وآله وسلم ایک اور فضیلت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ جب نماز پڑھ چکا تو اس کے بعد جب تک مصلے پر رہے فرشتے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں فرشتے اﷲ کے مقبول اور معصوم بندے ہیں ان کی دعا کی برکات خود ظاہر ہیں

حضرت سالم حداد رحمة الله عليه ایک بزرگ هوئے هيں تجارت کرتے تھے جب آذان کی آواز سنتے تو رنگ متغیرہو جاتا اور زرد پڑ جاتا بے قرار ہو جاتے دکان کھلی چھوڑ کر عاشقانه شعر پڑهتے هوئے مسجد كي طرف روانه هوحاتے

محمد بن سما ایک بزرگ عالم هوئے ہیں جو امام ابو یوسف رحمة الله عليه اور امام محمد رحمة الله عليه کے شاگرد ہیں ایک سو تین برس کی عمر میں انتقال ہوا اس وقت دو سو رکعات نفل روزانہ پڑھنے کا معمول  تھا کہتے ہیں کہ مسلسل چالیس برس تک میری ایک مرتبہ کے علاوہ تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی صرف ایک مرتبہ جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا ہے اس کی مشغولی کی وجہ سے تکبیر اولی فوت ہو گئی تھی یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری جماعت کی نماز فوت ہو گئی تھی تو میں نے اس وجہ سے کہ جماعت کی نماز کا ثواب پچیس درجہ زیادہ ہے اس نماز کو پچیس دفعہ پڑھا تاکہ وہ عدد پورا ہوجائے تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ محمد پچیس دفعہ نماز تو پڑھ لی مگر ملائکہ کی آمین کا کیا ہو گا ملائکہ کی آمین کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے احادیث میں یہ ارشاد نبوی صلى الله عليه وآله وسلم آیا ہے کہ جب امام سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہتا ہے تو ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں جس شخص کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہو جاتی ہے اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو خواب میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے اس قصے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جماعت کا ثواب مجموعی طور سے جو حاصل ہوتا ہے وہ اکیلے میں حاصل ہو ہی نہیں سکتا چاہے ایک ہزار مرتبہ اس نماز کو پڑھ لے اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایک آمین کی موافقت ہی صرف نہیں بلکہ مجمع کی شرکت نماز سے فراغت کے بعد ملائکہ کی دعا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے ان کے علاوہ اور بہت سے خصوصیات ہیں جو جماعت ہی میں پائی جاتی ہیں ایک ضروری امر یہ بھی قابل غور ہے علماء نے فرمايا هے کہ فرشتوں کی اس دعا کا مستحق جب ہی ہو گا جب نماز صحيح معنوں ميں نماز بھی ہو اور اگر ایسے ہی پڑھی کہ پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر منہ پر مار دی گئی تو پھر فرشتوں کی دعا کا مستحق نہیں ہوتا۔ الله تعالى هم سب كو نماز باجماعت اور خوب خوب سنوار كر پڑهنے كي توفيق عنايت فرمائے - آمين ثم آمين يا رب العلمين


نفلي نمازوں کی فضيلت :

پانچ وقت کی نمازیں تو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں، ان کے علاوہ نفلی نمازیں ہیں، وہ جتنی چاہے پڑھے، بعض خاص نمازوں کے فضائل بھی رسول كريم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بیان فرمائے هيں، مثلاً: تہجد کی نماز، اِشراق، چاشت، اوّابین، نمازِ استخارہ، نمازِ حاجت وغیرہ۔ نفلي نمازين مسجد كي بجائے اپنے گهر ميں ادا كرنا ذياده أفضل هيے تاهم اگر گهر ميں إيسا ماجول ميسر نه هو تو مسجد ميں بهي ادا كرنے ميں كوئى حرج نهيں جو شخص جتني نفل نمازوں كا إهتمام كرے گا اس كي فرض نمازوں ميں أتنا هي خشوع اور خضوع ذياده هوگا اور يه ظاهر سي بات هے جو شخص نفلي نمازوں كا إهتمام كرتا رهے گا أس كي فرض نمازوں كي حفاظت الله كريم كي طرف سے هوتي رهے گي اور نفلي نمازوں كا يه ذخيره اسے قيامت والے دن فائده دے گا چنانچه إيك جديث كا مفهوم هے كه قيامت والے دن اگر كسي كي فرض نمازوں ميں كمي هوگئى تو الله تعالى كے حكم سے نوافل ميں سے پورا كرليا جائے گا إس لئے هر مسلمان كو نفل نمازوں كا ذخيره بهي اپنے پاس ركهنا چاهيے جس طرح فرض نمازوں كے فضائل آحاديث كي كتابوں ميں موجود هيں إسي طرح نفل نمازوں كے فضائل بهي آحاديث كي كتابوں ميں كافي زياده وارد هوئے هيں - نوافل مكروه أوقات كے علاوه جب جي چاهے اور جتنے چاهے ادا كيے جاسكتے هيں ليكن كچهـ نفلي نمازوں كے بهي أوقات مقرر هيں اور انكے فضائل بهي آحاديث مباركه ميں موجود هيں:


1. نمازِ تہجد كي فضيلت:

یہ نماز تنہائی میں اللہ تعاليٰ سے مناجات اورملاقات کا دروازہ ہے اور انوار و تجلیات کا خاص وقت ہے۔ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے فرائض كي بعد يه نماز سب سے أفضل هے

اس کی کم از کم دو (2) رکعتیں ہیں۔ اور زياده سے زياده بارہ (12) رکعات کا مشائخ كا معمول ہے۔ بعد نمازِ عشاء سو کر جس وقت بھی اٹھ جائیں پڑھ سکتے ہیں۔بہتر أوقات نصف شب یا آخر شب هيں

حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اﷲ تعاليٰ کو تمام (نفل) نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب صلاۃ داؤد علیہ السلام ہے، وہ آدھی رات سوتے، (پھر اٹھ کر) ایک تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نمازِ تہجد ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، سنن ترمذی، صحیح ابن حبان، مسند احمد)


2. نمازِ اشراق كي فضيلت:

اس کا وقت طلوعِ آفتاب سے 20 منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ أفضل يه هے كه اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اُٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کریں۔ اس کی رکعات کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ چھ (6) ہیں۔ اس نماز سے باطن کو نور ملتا ہے اور قلب کو سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص نمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک ذکرِ الٰہی میں مشغول رہا پھر دو رکعت نماز ادا کی تو اسے پورے حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔‘‘(ترمذی)

حضرت ابوذر اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ (حدیث قدسی) روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعاليٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو میرے لیے شروع دن میں چار رکعتیں پڑھ میں اس دن کے اختتام تک تیری کفایت فرماؤں گا۔‘‘ (ترمذی اور ابوداؤد)


3. نمازِ چاشت(ضحى) كي فضيلت:

اس نماز کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر ہوتا ہے . جب طلوعِ آفتاب اورآغازِ ظہر کے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔ اس کی کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (12) رکعات ہیں۔ کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ آٹھ (8) رکعات بھی بیان کی گئی ہیں۔

احادیث نبوی صلى الله عليه وآله سلم میں اس نماز کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں: حضرت انس رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعاليٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔‘‘ (ترمذی اور ابن ماجہ )

حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے چاشت کی دو رکعتیں پڑھیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا، اور جو چار پڑھے عابدین میں لکھا جائے گا، اور جو چھ پڑھے اس دن اس کی کفایت کی جائے گی اور جو آٹھ پڑھے اللہ تعاليٰ اسے قانتین میں لکھے گا اور جو بارہ پڑھے اللہ تعاليٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل بنائے گا۔‘‘(طبرانی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چاشت کی دو رکعتوں کی پابندی کرے اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ ( مسند احمد و سننِ ترمذی اورسننِ ابن ماجہ )


4. نمازِ اوّابین كي فضيلت:

یہ مغرب اور عشاء کے درمیان کی نماز ہے جو چھ (6)   رکعات ہے۔ یہ نماز اجر میں بارہ سال کی عبادت کے برابر بیان کی گئی ہے۔ اس کی فضیلت اور انوار و برکات بھی نمازِ تہجد جیسی ہیں۔ اس کا معمول پختگی سے اپنایا جائے خواہ مختصررکعات ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ خاص قبولیت، قرب، تجلیات اور انعامات کا وقت ہے۔ اس کے اسرار بے شمار ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا: ’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات نفل اس طرح (مسلسل) پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو اس کے لیے یہ نوافل بارہ برس کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔‘‘ (ترمذی اورابن ماجہ )

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (طبرانی)


5. نمازِ توبہ كي فضيلت:

مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت دو رکعت نفل نمازِ توبہ ادا کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً گناہ سرزد ہونے کے بعد اس نماز کے پڑھنے سے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ امام ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حِبان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ وضو کر کے نماز پڑھے، پھر استغفار کرے تو اللہ تعاليٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ پھر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اﷲَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اﷲُ ص وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَهُمْ يَعْلَمُوْنَo (آل عمران)

’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اِصرار بھی نہیں کرتےo ‘‘


6. نمازِ تسبیح (صلاة التسبيح ) كي فضيلت:

اس نماز کی چار رکعات ہیں، مکروہ اوقات کے علاوہ ان کو جب چاہیں ادا کیا جا سکتا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد ثنا پڑھیں۔

سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.

’’اے اﷲ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘

ثنا کے بعد پندرہ (15) بار درج ذیل تسبیح پڑھیں:

سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُِﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَر.

پھر تعوذ، تسمیہ، سورۃ الفاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر دس (10) بار یہی تسبیح پڑھیں،

پھر رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمُ. کے بعد دس (10) بار،

پھر رکوع سے اٹھ کر سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کے بعد دس (10) بار،

پھر سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی کے بعد دس (10) بار،

پھر سجدے سے اٹھ کر جلسہ میں دس (10) بار،

پھر دوسرے سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی کے بعددس (10) بار پڑھیں۔

پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہو جائیں اور تسمیہ یعنی بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo سے پہلے پندرہ (15) بار اسی تسبیح کو پڑھیں اور بعد ازاں سورت فاتحہ، پھر اسی طریقے سے چاروں رکعات مکمل کریں۔ ہر رکعت میں پچھتر (75) بار اور چاروں رکعات میں کل ملا کر تین سو (300) بار یہ تسبیح پڑھی جائے گی.

امام ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور بیہقی سمیت اہل علم کی ایک جماعت نے اپنی اپنی کتب میں بیان کیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے چچا جان! کیا میں آپ سے صلہ رحمی نہ کروں؟ کیا میں آپ کو عطیہ نہ دوں؟ کیا میں آپ کو نفع نہ پہنچاؤں؟ کیا آپ کو دس خصلتوں والا نہ بنا دوں؟ کہ جب تک آپ ان پر عمل پیرا رہیں تو اللہ تعاليٰ آپ کے اگلے پچھلے، پرانے، نئے، غلطی سے یا جان بوجھ کر، چھوٹے، بڑے، پوشیدہ اور ظاہر ہونے والے تمام گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ (اس کے بعد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نمازِ تسبیح کا طریقہ سکھایا۔) پھر فرمایا:’’ اگر روزانہ ایک مرتبہ پڑھ سکو تو پڑھو، اگر یہ نہ ہو سکے توہر جمعہ کو، اگر اس طرح بھی نہ کر سکو تو مہینہ میں ایک بار، اگر ہر مہینے نہ پڑھ سکو تو سال میں ایک بار اور اگرایسا بھی نہ ہو سکے تو عمر بھر میں ایک بار پڑھ لو۔‘‘


7.نمازِ حاجت كي فضيلت:

جب کسی کو کوئی حاجت پیش آئے تو وہ اللہ کی تائید و نصرت کے لیے کم از کم دو رکعت نفل بطور حاجت پڑھے۔۔ اس نماز کی برکت سے اللہ تعاليٰ حاجت پوری فرما دیتا ہے۔

طریقہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں اس کے دو طریقے ملتے ہیں:

ترمذی، ابن ماجہ، حاکم، بزار اور طبرانی نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو اللہ تعاليٰ یا کسی انسان کی طرف کوئی حاجت ہو تو اسے چاہیے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نفل پڑھے اور پھر اللہ تعاليٰ کی حمد و ثنا اور بارگاہ رسالت میں تحفۂ درود پیش کر کے یہ دعا مانگے:

لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ الْحَلِيْمُ الْکَرِيْمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، اَلْحَمْدُِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَ عَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِيْ ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَيْتَهَا يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ.

ترمذی، ابن ماجہ، احمد بن حنبل، حاکم، ابن خزیمہ، بیہقی اور طبرانی نے بروایت حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نے ایک نابینا صحابی کو اس کی حاجت برآری کے لیے دو رکعت نماز کے بعد درج ذیل الفاظ کے ساتھ دُعا کرنے کی تلقین فرمائی جس کی برکت سے اللہ تعاليٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی:

اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسَاَلُکَ وَاَتَوَجَّهُ اِلَيْکَ بِنَبِيِکَ مُحَمَّدٍ نَّبِيِ الرَّحْمَةِ، اِنِّی تَوَجَّهْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی هٰذِهِ لِتُقضٰی لِيْ، اَللّٰهُمَّ! فَشَفِّعْهُ فِيَ.


8. نمازِ استخارہ كي فضيلت:

اگر کوئی شخص کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا چاہتا ہو تو دو رکعت نمازِ استخارہ پڑھے۔ پھر درج ذیل دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَاَسْاَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ، وَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ. اَللّٰهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ (يہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) خَيْرٌ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِيْ، فَاقْدُرْهُ وَيَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِيْهِ، وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هذَا الْاَمْرَ(یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) شَرٌّ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِيْ فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِيْ بهِ.

صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو تمام معاملات میں استخارہ کی اس طرح تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآن کی سورت تعلیم فرماتے تھے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’جب تو کسی کام کا ارادہ کرے تو اپنے رب سے اس میں سات (7) بار استخارہ کر پھر جس کی طرف تمہارا دل مائل ہو تو اس کام کے کرنے میں تمہارے لیے خیر ہے۔‘‘


9. نمازِ تحیۃ الوضوء كي فضيلت:

وضو کے فوراً بعد دو رکعت نفل پڑھنا مستحب اور باعثِ خیر و برکت ہے۔

صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اچھی طرح وضو کرنے کے بعد ظاہر و باطن کی کامل توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے لئے جنت واجب ہو گئی.‘‘

ابوداؤد، بخاری، مسلم اور احمد بن حنبل نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔


10. نمازِ تحیّۃ المسجد كي فضيلت:

یہ مکروہ اوقات کے علاوہ مسجد میں داخل ہونے پر پڑھی جاتی ہے جو دو رکعت پر مشتمل ہے۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں اس نماز کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

بخاری نے کتاب الصلوۃ، کتاب التہجد اور مسلم نے کتاب صلوۃ المسافرین میں حضرت قتادہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔


11. نمازِ اِستسقاء كي فضيلت:

اﷲ تعاليٰ کی بارگاہ سے بارانِ رحمت کے نزول کے لیے ادا کی جانے والی  نماز نماز اِستسقاء کہلاتی ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو نمازِ اِستسقاء کا بار بار پڑھنا مستحب ہے اور تین دن تک اسے متواتر پڑھا جائے تاکہ اﷲ تعاليٰ اپنا لطف و کرم فرمائے۔ اس کے پڑھنے کا مسنون طریقہ ایسا ہی ہے جیسا کہ دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے مگر بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سورۃ الاعليٰ اور دوسری میں سورۃ الغاشیہ پڑھی جائے۔ نماز کے بعد امام خطبہ پڑھے اور دونوں خطبوں کے درمیان جلسہ کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی خطبہ پڑھے اور خطبہ میں دُعا اور تسبیح و اِستغفار کرے اور اثنائے خطبہ میں چادر لوٹ دے یعنی اوپر کا کنارہ نیچے اور نیچے کا اوپر کر دے۔ خطبہ سے فارغ ہو کر قبلہ رُخ ہوکر دُعا کرے۔

نماز استسقاء پڑھنے کے لئے کوئی معین وقت نہیں ہے؛ البتہ مکروہ اوقات کے سوا دن کے پہلے حصے میں نمازِ اِستسقاء پڑھنا سنت ہے۔


12-نمازِ کسوف اور نمازِ خسوف كي فضيلت اور  ان کے پڑھنے کا طریقہ:

کسوف کا معنی سورج گرہن اور خسوف کا معنی چاند گرہن ہے۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جس دن (آپ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو سورج گرہن لگا۔ لوگوں نے کہا : ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کے مرنے جینے سے ان کو گرہن نہیں لگتا پس جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘(مسلم)


نماز کسوف کا طریقہ:

جب سورج گرہن ہو تو چاہئے کہ امام کے پیچھے دو رکعتیں پڑھے جن میں بہت لمبی قرات ہو اور رکوع سجدے بھی خوب دیر تک ہوں، دو رکعتیں پڑھ کر قبلہ رُو بیٹھے رہیں اور سورج صاف ہونے تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔


نمازِ خسوف کا طریقہ:

چاند گرہن کے وقت بھی چاند صاف ہونے تک نماز پڑھتے رہیں، مگر علیحدہ علیحدہ اپنے گھروں میں پڑھیں، اس میں جماعت نہیں۔َََُُْٰ


13- نمازِ جنازه كي فضيلت اور طريقه:

مسلمان میت کی نماز جنازہ زنده مسلمانوں پرفرض کفایہ ہے یعنی اگرچند آدمی بھی پڑھ لیں تو سب کے ذمے سے فرض ساقط ہو جائے گا اگر كسي نے بهي نه پڑهي تو سب گنہگار ہوں گے، اس نماز میں رکوع سجدہ نہیں هوتا بلكه چار تكبيروں كے ساتهـ ادا كي جاتي هے. يه نماز میت کے لیے اجتماعی دعا کرنے کے لیے مشروع کی گئی ہے؛کیونکہ مومنین کے ایک گروہ کا اکٹھا ہوکر میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا، عجیب تاثیر رکھتا ہے، میت پر رحمت الہٰی کے نزول میں دیر نہیں لگتی ،یعنی انفرادی دعا کی بہ نسبت اجتماعی دعا میں قبولیت کی شان زیادہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: جو آدمی ایمان کی صفت کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے اوراس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہوگا، جن میں سے ہر قیراط گویا احد پہاڑ کے برابر ہوگا اورجو آدمی صرف نماز جنازہ پڑھ کے واپس آجائے(دفن ہونے تک ساتھ نہ رہے) تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہوگا۔(بخاری)

"حدیث کا مقصد جنازے کے ساتھ جانے اس پر نماز پڑھنے اور دفن میں شرکت کرنے کی ترغیب دینا اور اِس کی فضیلت بیان کرنا ہے، اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ اس پر یہ عظیم ثواب تب ہی ملے گا جب کہ یہ عمل ایمان ویقین کی بنیاد پر اور ثواب ہی کی نیت سے کیا گیا ہو ؛یعنی اس عمل کا اصل محرک اللہ اوررسول کی باتوں پر ایمان ویقین اورآخرت کے ثواب کی امید ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص صرف تعلق اوررشتہ داری کے خیال سے یا میت کے گھر والوں کا جی خوش کرنے ہی کی نیت سے یا ایسے ہی کسی دوسرے مقصد سے جنازہ کے ساتھ گیا اورنماز جنازہ اوردفن میں شریک ہوا، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے حکم اورآخرت کا ثواب اس کے پیش نظر تھا ہی نہیں تو وہ اس ثواب کا مستحق نہیں ہوگا، حدیث کے الفاظ "ایمانا واحتسابا" کا یہی مطلب ہے "۔


نمازِ جنازہ کی امامت کا مستحق:

نماز جنازہ امیر المومنین پڑھائیں گے یا پھر نائب امیر یا قاضی شہر یا پھر میت کا ولی یا پھر جو امام مسجد میں مقرر کردہ ہیں وہ پڑھائیں گے۔

نمازِ جنازہ کا مسنون طریقہ:

میت کو آگے رکھ کر امام اس کے سینہ کے سامنے اس طرح رہے کہ میت اس کے اور قبلہ کے درمیان ہو جائے اور لوگ اس امام کے پیچھے تین یا پانچ یا سات صف بنائیں پھر نیت کرکے امام بآواز بلند اور مقتدی آہستہ تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لیں پھر "سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ" آخرتک آہستہ پڑھیں؛ پھر امام آواز سے اورمقتدی آہستہ بغیر ہاتھ اٹھائے اور بغیر سر اٹھائے دوسری مرتبہ "اللہُ أَکْبَرْ" کہے اس کے بعد درود شریف پڑھیں جو نماز میں پڑھی جاتی ہے، اس کے بعد دوسری تکبیر کی طرح تیسری تکبیر کہیں اس کے بعد منقول دعا پڑھیں ؛پھر چوتھی تکبیر کہہ کر دونوں طرف سلام پھیردیں۔


بالغ مرد و عورت کی دعا:

"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا،اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ"۔ (ترمذی)


نابالغ لڑکے کی دعا:

"اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا وَسَلَفًا وَاجَعَلْہُ لَنَا أَجْرًاوَذُخْرًا وَاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَ مُشَفَّعًا"۔

(لسنن الکبری للبیہقی)


نابالغ لڑکی کی دعا:

"اَللَّھُّمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرْطًا وَاجْعَلْھَالَنَا أَجْرًا وَذُخْرًا وَاجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً"۔

(السنن الکبری لبیہقی)



جاری ھے ۔۔۔۔۔۔

Share: