نمازِ جمعہ
جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ موکد ہے۔ یعنی ظہر کی نماز سے اس کی تاکید زیادہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑے اللہ تعالٰیٰ اس کے دل پر مہر کر دے گا اور ایک روایت میں ہے وہ منافق ہے اور اللہ سے بے علاقہ۔ اور چونکہ اس کی فرضیت کا ثبوت دلیل قطعی سے ہے لہٰذا اس کا منکر کافر ہے ۔
نمازِ جمعہ کی فضیلت
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح سے وضو کیا، پھر جمعہ پڑھنے آیا اور خاموشی سے خطبہ سنا تو اس کے اس جمعہ سے لے کر گزشتہ جمعہ تک اور تین دن زائد کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الجمعة
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازہ پر فرشتے آنے والے کو لکھتے رہتے ہیں۔ جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں اور جب امام (خطبہ کے لیے) بیٹھ جاتا ہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اور آکر خطبہ سنتے ہیں۔ جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک اونٹ صدقہ کرتا ہے، اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتا ہے۔ اس کے بعد والا اس شخص کی مثل ہے جو مینڈھا صدقہ کرے پھر اس کی مثل ہے جو مرغی صدقہ کرے پھر اس کی مثل ہے جو انڈہ صدقہ کرے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الجمعة
3۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور جلدی (مسجد) میں حاضر ہوا اور امام کے قریب ہو کر خاموشی کے ساتھ غور سے خطبہ سنا تو اس کے لیے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ہے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح
جمعہ کے دن کی فضیلت
جمعہ کا دن ہفتے کے سارے دنوں کا سردار ہے، ایک حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر دن جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے، جمعہ کا دن ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کو جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن ان کو جنت سے نکالا (اور دُنیا میں) بھیجا گیا۔ اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن ان کی وفات ہوئی۔ بہت سی احادیث میں یہ مضمون ہے کہ جمعہ کے دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اس پر بندہٴ موٴمن جو دُعا کرے وہ قبول ہوتی ہے، جمعہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود پڑھنے کا حکم آیا ہے۔بہت سی احادیث میں جمعہ کی فضیلت آئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت ہے کہ آپ سے کسی یہودی سے کہا کہ اگر ہماری شریعت میں الیوم اکملت لکم دینکم والی آیت نازل ہوتی تو ہم لوگ اس دن کو جشن کا دن بنا لیتے تو حضرت عبداللہ ابن عباس نے کہا یہ آیت جمعہ کے دن نازل ہوئی ہے جو کافی فضیلت رکھتا ہے
1-حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا ’’جس دن میں سورج طلوع ہوتا ہے اس میں سب سے بہترین جمعہ کا دن ہے،اسی دن میں حضرت آدم عليه السلام پیدا ہوئے، اسی دن جنت میں داخل کیئے گئے، اور اسی دن اس سے نکالے گئے اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر جمعہ کے دن‘‘ (مسلم).
2-فضائلِ جمعہ میں نمازِ جمعہ کے بھی فضائل شامل ہیں، کیونکہ نماز اسلام کے فرائض اور مسلمانوں کے جمع ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس نے نمازکی ادائیگی میں غفلت برتی اللہ تعالیٰ اس کے قلب پر مہر لگا دیتے ہیں جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں مذکور ہے۔
3-جمعہ کے دن ایک گھڑی “ ساعةِ آجابت “ہوتی ہے اس میں دعا قبول کی جاتی ہے،حضرت ابوہریرہ ؓ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے: نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: (اس میں ایک گھڑی ایسی ہے، جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے) ۔[متفق عليه].
قبولیت دعا کی گھڑی میں حدیثِ رسول صلى الله عليه وآله وسلم کی روشنی میں ذیل کے دو قول قابل ترجیح ہیں۔
اول: وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے۔ (مسلم).
دوم: جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک، اور یہی قول راجح ہے۔
(زاد المعاد )
4- جمعہ کے دن کا صدقہ دیگر ایام کے صدقوں سے بہتر ہے۔
ابن قیم رحمه الله فرماتے ہیں: (ہفتے کے دیگر دنوں کے مقابلے جمعہ کے دن کے صدقہ کا ویسا ہی مقام ہے جیسا کہ سارے مہینوں میں رمضان کا مقام ومرتبہ ہے۔) حضرت کعب رضي الله تعالى عنه کی حدیث میں ہے: ’’...جمعہ کے دن صدقہ دیگر ایام کے مقابلے (ثواب کے اعتبار سے) عظیم ہے۔
5- یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ اپنے مومنین بندوں کے لیے جنت میں تجلی فرمائیں گے، حضرت انس بن مالک رضي الله تعالى عنه اللہ تعالیٰ کے فرمان " وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ " کے بارے میں فرماتے ہیں: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ہر جمعہ تجلی فرمانا ہے۔
6-جمعہ کا دن ہفتہ میں بار بار آنے والی عید ہے، حضرت عباس رضي الله تعالى عنه سے مروی کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا (یہ عید کا دن ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے طے کیا ہے، لہٰذا جسے جمعہ ملے وہ اس دن غسل کرے)[رواه ابن ماجه ].
7-یہ وہ دن ہے جس میں گناہوں کی معافی ہوتی ہے: حضرت سلمان رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے كه نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: (جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں)۔ [البخاري].
8-جمعہ كي نماز کے لیے چل کرجانے والے کے ہر قدم پر ایک برس کے روزے رکھنے اور قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے، حضرت اوس بن اوس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا (جس نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا، اور مسجد اول وقت پہنچ کر خطبہ اولی میں شریک رہا، اور امام سے قریب بیٹھ کر خاموشی سے خطبہ سنا، اس کے لیے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔) [أحمد].
الله أكبر!! جمعہ کے لیے جانے پر ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب؟! تو ان نعمتوں کو پانے والے کہاں ہے؟! ان عظیم لمحات کو گنوانے والے کہاں ہے؟!
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ [الحديد].
(یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے)
15-عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ ) کی نماز
عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ ) کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے،
پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام کی قراءت کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام دو خطبے دے،
نمازِ قصر
نماز إيك إيسا فريضه هے جو هر هوش وحواس والے بالغ مسلمان پر هر حالت ميں ضروري هے اگر إيك مسلمان بيمار هے اور كهڑا نهيں هوسكتا تو وه بيٹهـ كر نماز ادا كرے اگر بيٹهنے كي بهي سكت نهيں تو ليٹا هوا هي إشاره سے پڑهے ليكن نماز هر صورت ميں پڑهى جاني ضروري هے إسيطرح سفر ميں إنسان كے معمولات بالكل تبديل هوجاتے هيں ليكن نماز كي آدائيگي سفر ميں بهي ضروري هے البته سفر ميں نماز قصر كرنے كا حكم هے
شرعی اعتبار سے مسافر وہ شخص ہے جو کم از کم (54) میل (82 کلومیٹر) مسافت کے ارادے سے اپنے علاقے سے باہر سفر پر روانہ ہو چکا ہو۔ اس پر واجب ہے کہ فقط فرض نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت فرض والی نماز میں دو فرض پڑھے۔ دو يا تين ركعت والى فرض نماز پورى هي پڑهني ھو گی چنانچہ قرآنِ حکیم میں حكم إلہی هے:
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَفْتِنَکُمُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْاط اِنَّ الْکٰفِرِيْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًاo (النساء)
’’اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیںo‘‘
مسافر اگر ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں قصر نہ کرے اور پوری رکعات پڑھے تو وہ حكم ربي كي خلاف ورزي اور كفران نعمت كا مرتكب هوكر گنہگار ہوگا، یہ ایسے هی هے جیسے کوئی ظہر کی چھ رکعات فرض پڑھے تو بجائے ثواب کے اسے گناہ ہوگا۔ لیکن اگر مسافر لاعلمی میں قصر کرنا بھول گیا اور اُس نے دو کی بجائے چار رکعات پڑھ لیں اور نماز ختم ہونے سے پہلے یاد آیا اور دوسری رکعت کے آخری قعدہ میں التحیات پڑھنے کی مقدار بیٹھ گیا اور سجدہ سہو کر لیا تو اس کی دو رکعات فرض ہو جائیں گی اور دو نفل اور اگر دوسری رکعت میں نہ بیٹھا تو چاروں رکعات نفل ہوںگی، لہٰذا فرض نماز دوبارہ پڑھے گا۔
قضا نمازوں كي آدائيگى:
نماز كا فريضه كسي بهي صورت ميں ساقط نهيں هوتا اگر كسي وجه سے كسي كي كوئى نماز قضا هوجائے تو وه جلد ازجلد ادا كرنے كي فكر كرے ۔ قضا نمازوں كي دو قسميں هيں
1- پهلي قسم يه كه اگر كسي كي كسي وجه سے إيك دو يا إس سے زائد نمازيں قضا هوگئيں هوں تو وه اب يه نمازيں قضا پڑهے گا إس ميں صرف فرائض اور وتر ادا كيے جائيں گے
2- ۔ دوسري قسم يه كه اگر کسی شخص کی بہت سی نمازیں قضا هو چکی ہوں جن کے بارے میں اسے علم نہ ہو کہ کس وقت کی نمازیں زیادہ قضا ہوئیں اور کس وقت کی کم يا اگر کسی شخص نے بلوغت کے کافی عرصہ گزر جانے کے بعد نمازپڑھنا شروع کی ہو یا کبھی پڑھتا ہو اور کبھی چھوڑ دیتا ہو يا بالكل نماز پڑهي هي نه هو تو إن سب صورتوں ميں قضا نمازيں پڑهنے كو قضائے عمری كهتے هيں:
جاری ھے۔۔۔۔۔۔