قسط نمبر (29) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 

دعوت و تبلیغ کا پہلا دور 

مکہ مکرمہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خفیہ دعوت و تبلیغ کے تین سال

وحی کی  کچھ عرصہ بندش کے بعد اللہ تعالی نے سورہ مدثر کی  ابتدائی آیات  مبارکہ نازل فرمائیں 

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے

يَآ اَيُّـهَا الْمُدَّثِّرُ (1)  - اے کپڑے میں لپٹنے والے۔

قُمْ فَاَنْذِرْ (2)  - اٹھو پھر (کافروں کو) ڈراؤ۔

وَرَبَّكَ فَكَـبِّـرْ (3)  - اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔

وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4)  - اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔

وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5)  - اور میل کچیل دور کرو۔

وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْـثِرُ (6) -اور بدلہ پانے کے لئے احسان نہ کرو۔

وَلِرَبِّكَ فَاصْبِـرْ (7)  -اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔


سورۂ مدثر کی درج بالا  آیات نازل ہونے کے بعد رسول  کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھے۔ آپ کی قوم چونکہ جفاکار تھی۔ بت پرستی اور درگاہ پرستی اس کا دین تھا۔ باپ دادا کی روش اس کی دلیل تھی۔ غرور وتکبر اور حمیت وانکار اس کا اخلاق تھا ۔ اس کے علاوہ وہ جزیرۃ العرب میں دینی پیشوائی کے صدر نشین تھے۔ اس کے اصل مرکز پر قابض اور اس کے وجود کے نگہبان تھے۔ اس لیے اس کیفیت کے پیش نظر حکمت کا تقاضا یہی تھاکہ پہلے پہل دعوت وتبلیغ کا کام خفیہ انجام دیا جائے، تاکہ اہل مکہ کے سامنے اچانک ایک ہیجان خیزصورت حال نہ آجائے۔
یہ بالکل فطری بات تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سب سے پہلے ان لوگوں پر اسلام پیش کرتے جن سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا سب سے گہرا ربط و تعلق تھا، یعنی اپنے گھر کے لوگوں اور دوستوں پر۔ چنانچہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سب سے پہلے انہیں دعوت دی۔ اس طرح آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ابتدا میں اپنی جان پہچان کے ان لوگوں کو حق کی طرف بلایا جن کے چہروں پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھلائی کے آثار دیکھ چکے تھے اور یہ جان چکے تھے کہ وہ حق اور خیر کو پسند کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے صدق وصلاح سے واقف ہیں۔
پھر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جنہیں اسلام کی دعوت دی ان میں سے ایک ایسی جماعت نے جسے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی عظمت ، جلالتِ نفس اور سچائی پر شبہ نہ گزرا تھا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعوت قبول کر لی۔ یہ اسلامی تاریخ میں سابقین اولین کے لقب سے مشہور ہیں۔ ان میں سر فہرست آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بیوی اُم المومنین حضرت خدیجہ ؓ رضی اللہ تعالی عنہا   آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ بن شراحیل کلبی رضی اللہ تعالی عنہ ،   آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے چچیرے بھائی حضرت علی بن ابی طالب، رضی اللہ تعالی عنه جو ابھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے زیر کفالت بچے تھے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ سب کے سب پہلے ہی دن مسلمان ہوگئے تھے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کی تبلیغ میں سرگرم ہوگئے۔ وہ بڑے ہر دلعزیزنرم خُو، پسندیدہ خصال کے حامل بااخلاق اور دریادل تھے ، ان کے پاس ان کی مروت ،دور اندیشی ، تجارت اور حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کی آمد ورفت لگی رہتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پاس آنے والوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے جس کو قابلِ اعتماد پایا اسے اب اسلام کی دعوت دینی شروع کردی۔ ان کی کوشش سے حضرت عثمان ؓ، حضرت زبیر ؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ مسلمان ہوئے۔ یہ بزرگ اسلام کا ہر اوَل دستہ تھے۔
ان کے بعد امینِ امت حضرت ابوعبیدہ ؓ عامر بن جراح ؓ ، ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومی ، ان کی بیوی ام سلمہ، ارقم بن ابی الارقم مخزومی ، عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی قدامہ اور عبداللہ ، اور عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبدمناف ، سعید بن زید عدوی ، اور ان کی بیوی، یعنی حضرت عمر ؓ کی بہن فاطمہ بنت خطاب عدویہ ، اور خباب بن اَرت تمیمی ، جعفر بن ابی طالب اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس ، خالد بن سعید بن عاص اموی ، ان کی بیوی امینہ بنت خلف، اور ان کے بھائی عمرو بن سعید بن عاص ، حاطب بن حارث جحمی ، ان کی بیوی فاطمہ بنت مجلل ، اور ان کے بھائی حطاب بن حارث ، اور ان کی بیوی فکیہہ بنت یسار ، اور ان کے ایک اور بھائی معمر بن حارث ، مطلب بن ازہر زہری اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف ، اور نعیم بن عبد اللہ بن نحام عدوی مسلمان ہوئے۔ یہ سب قبیلہ قریش کے مختلف خاندانوں اور شاخوں سے تعلق رکھتے تھے۔
قریش کے باہر سے جولوگ پہلے پہل اسلام لائے ان میں سر فہرست یہ ہیں : عبد اللہ بن مسعود ہذلی ، مسعود بن ربیعہ قاری ، عبد اللہ بن جحش اسدی ، ان کے بھائی احمد بن جحش ، بلال بن رباح حبشی ،صہیب بن سنان رومی ، عمار بن یاسر عنسی ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ ، اور عامر بن فہیرہ۔
عورتوں میں مذکورہ عورتوں کے علاوہ جو پہلے پہل اسلام لے آئیں ان کے نام یہ ہیں: أم ایمن برکۃ حبشیہ، حضرت عباس بن عبد المطلب کی بیوی أم الفضل لبابہ الکبریٰ بنت حارث ہلالیہ ، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی حضرت اسماء۔ (سیرت ابن ہشام ) 
یہ سب “السابقون الاولون “ کے لقب سے معروف ہیں۔  روایات سے معلوم ہوتا  ہے کہ جو لوگ اسلام کی طرف سبقت کرنے کے وصف سے موصوف کیے گئے تھے ان کی تعداد مردوں اور عورتوں کو ملا کر ایک سو تیس تک پہنچ جاتی ہے، لیکن یہ بات پورے یقین کے ساتھ نہیں  کہی جا سکتی کہ یہ سب لوگ اعلانیہ دعوت وتبلیغ سے پہلے اسلام لائے  تھے یا ہھر ان میں سے بعض لوگ اس سے متاخر بھی ہوئے تھے۔


ادھر سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد وحی کی آمد پورے تسلسل اور گرم رفتاری کے ساتھ جاری تھی۔ اس دور میں چھوٹی چھوٹی آیتیں نازل ہورہی تھیں۔ ان آیتوں کا خاتمہ یکساں قسم کے بڑے پرُ کشش الفاظ پر ہوتا تھا اور ان میں بڑی سکون بخش اور جاذب قلب تاثیر ہوتی تھی۔ جو اس پر سکون اور رِقت آمیز فضا کے عین مطابق ہوتی تھی پھر ان آیتوں میں تزکیہ نفس کی خوبیاں اور آلائش دنیا میں لت پت ہونے کی برائیاں بیان کی جاتی تھیں اور جنت وجہنم کا نقشہ اس طرح کھینچا جاتا تھا کہ گویا وہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ آیات اہل ایمان کو اس وقت کے انسانی معاشرے سے بالکل الگ ایک دوسری ہی فضا کی سیر کراتی تھیں۔
ابتداءً جو کچھ نازل ہوا اسی میں نماز کا حکم بھی تھا گویا شروع اسلام میں دو ھی حکم نازل ھوئے تھے ایک دعوت و تبلیغ کا اور دوسرا نماز کا ۔ علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور اسی طرح آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے صحابہ کرامؓ واقعۂ معراج سے پہلے بالاتفاق نماز پڑھتے تھے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ نماز پنجگانہ سے پہلے کوئی نماز فرض تھی یا نہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے ایک ایک نماز فرض تھی۔
حارث بن اسامہ نے ابن لَہِیْعَہ کے طریق سے موصولاً حضرت زید بن حارثہؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ابتداء میں جب وحی آئی تو آپ کے پاس حضرت جبریل تشریف لا ئے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو وضو کا طریقہ سکھایا۔ جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چُلّو پانی لے کر شرمگاہ پر چھینٹا مارا۔ ابن ماجہ نے بھی اس مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ براء بن عازبؓ اور ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ ابن عباس ؓ کی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ (نماز) اولین فرائض میں سے تھی۔ (مختصر السیرۃ)
ابن ہشام کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نماز کے وقت گھاٹیوں میں چلے جاتے تھے اور اپنی قوم سے چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ ایک بار ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور حضرت علیؓ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ پوچھا اور حقیقت معلوم ہوئی تو کہا کہ اس پر برقرار رہیں۔ (ابن ھشام)
یہ عبادت تھی جس کا اہل ایمان کو حکم دیا گیا تھا۔ اس وقت نماز کے علاوہ اور کسی بات کے حکم کا پتہ نہیں چلتا۔
البتہ وحی کے ذریعے توحید کے مختلف گوشے بیان کیے جاتے تھے ، تزکیۂ نفس کی رغبت دلائی جاتی تھی۔ مکارم اخلاق پر ابھارا جاتا تھا۔ ایسے بلیغ وعظ ہوتے تھے جن سے سینے کھل جاتے تھے۔ روحیں آسودہ ہوجاتیں تھیں  ۔
یوں تین برس گزر گئے اور دعوت وتبلیغ کا کام صرف قابلِ اعتماد افراد تک محدود رہا۔ مجمعوں اور مجلسوں میں اس کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن  پھر بھی اس دوران وہ قریش کے اندر خاصی معروف ہوگئی ، مکہ میں اسلام کا ذکر پھیل گیا اور لوگوں میں اس کا چرچا ہوگیا۔ بعض نے کسی کسی وقت نکیر بھی کی اور بعض اہل ایمان پر سختی بھی ہوئی لیکن مجموعی طور پر اس دعوت کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے بھی ان کے دین سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا۔ نہ ان کے معبودوں کے بارے میں  ابھی تک کوئی بات زبان سے نکالی  تھی 

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ کے ان تمام احکام پر عمل کیا جو تبلیغ کے سلسلے میں صادر ہوئے، مثلاً: سورۂ علق کی ابتدائی آیات کے بعد نازل ہونے والی آیات ملاحظہ ہوں:

(يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ◌ قُمْ فَاَنْذِرْ◌ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ◌ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ◌ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ◌ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ◌ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ◌) 

"اے کمبل اوڑھنے والے! اٹھ کھڑا ہو اور ڈرا، اور صرف اپنے رب کی بڑائی بیان کر، اور اپنے کپڑے پاک رکھ، اور ناپاکی چھوڑدے، اور حصول کثرت کے لیے احسان نہ کر اور اپنے رب ہی کے احکام پر صبر کر۔"  ((المثر7)) 

ان آیات نے اس دعوت کا مضمون بڑی وضاحت سے بیان کردیا ہے جسے لوگوں تک پہنچانے کی اللہ تعالیٰ نے تاکید  فرمائی تھی۔ 

 مکہ مکرمہ  میں اترنے والی تمام آیاتِ قرآنی اسی سلوب کی حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد:  (يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ◌) میں اشارہ ہے کہ کمبل اوڑھ کر لیٹنے اور بیوی بچوں کے درمیان راحت کی زندگی گزارنے کا وقت گزرچکا ہے۔ اب ہر قسم کی مادی اور معنوی جدوجہد کا مرحلہ آگیا ہے۔ (قُمْ فَاَنْذِرْ◌)   میں اشارہ ہے کہ اب تم پر فرض عائد ہو گیا کہ تم عالم گیر انسانیت کو اسلام کی دعوت دو۔  (وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ◌) میں  اشارہ ہے کہ کائنات میں کوئی چیز خالق کائنات اللہ تعالیٰ سے بڑی نہیں ہے، اس لیے تم پر لازم ہے کہ اس حقیقت کو علی الاعلان بیان کردو تاکہ سب لوگ بزرگ و برتر اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور تواضع اختیار کریں۔ یہی توحید مطلق ہے۔ (وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ◌) میں اشارہ  ہے کہ اللہ کے داعی کے  لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ظاہری اور باطنی طور پر  پاک صاف رکھے تاکہ وہ اپنے پیرو کاروں کے لیے ہمہ جہت طہارت کا بے مثالی نمونہ بن سکے۔ (وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ◌) میں اشارہ   ہے کہ خالص توحید اس بات کی متقاضی ہے کہ اللہ عزو جل کے سوا کسی چیز اور کسی فرد و بشر کی تقدیس و تعظیم نہ کی جائے۔(وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ◌) میں اشارہ  ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا خصوصی امتیاز یہ ہونا چاہیے کہ وہ زیادہ لینے کی نیت سے کسی کو کوئی چیز نہ دے کیونکہ وہ اعلیٰ اخلاق و آداب کا مکلّف ہے تاکہ پوری انسانیت کے لیے عظیم مثال بن سکے، اس لیے کہ رسول انسانیت کو مکارم اخلاق کی دعوت دینے والا ہوتا ہے۔ 

ان اہم امور کو نجام دینے اور ان سے مطلوبہ فوائد حاصل کرنے کے لیے ایک اہم حقیقت کا ادراک ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس انداز سے دعوت دینے کی ذمہ داری طرح طرح کی مشکلات اور مخالفین کی طرف سے ہر ممکن تکالیف پر صبر کیے بغیر ادا نہیں کی جاسکتی۔ اور متبعین کی تربیت کے لیے بھی صبر  کی اشد ضرورت ہے۔ اس پر آزمائشیں مستزاد ہیں، ان پر بھی صبر کرنا ہوگا۔ اس لیے سلسلۂ کلام کو اس نصیحت پر ختم فرمایا: (وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ◌) اس  کے بعد رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  دامن جھاڑ کر اپنے بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور تین سال تک مسلسل اسی انداز سے خفیہ طور پر دعوت دیتے رہے ۔ مؤرخ ابن اسحاق لکھتے ہیں: "مجھے ملنے والی معلومات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی سری دعوت کا دور آغازِ نبوت سے تین سال تک جاری رہا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اعلانیہ تبلیغ اور اظہار دین کا حکم دیا۔" ((السیرۃ النبوية لابن هشام 
حضرت  عمرو بن عبسہ رضی اللہ  عنہ کے اسلام لانے کے واقعے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء  میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے دعوت کا کام راز داری سے کیا۔ وہ کہتے ہیں: "میں بعثت کے ابتدائی دور میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس وقت آپ مکہ مکرمہ میں چھپے ہوئے تھے۔"  ((صحيح مسلم،)) 

آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے تبلیغ  کی ابتداء توحید کی دعوت اور شرک سے براءت و بیزاری سے کی۔ اس دور میں آپ کی ساری تگ و تاز انھی لوگوں تک محدود رہی جن سے آپ کا کوئی نہ کوئی رشتہ یا تعلق تھا، مثلاً: بیوی بیٹیاں، آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ، گھر پرورش پانے والے حضرت علی بن ابی طالب اورد وست یا جن پر آپ کو اعتماد تھا کہ وہ راز افشا نہیں کریں گے۔ ((السيرة النبوية لابن هشام:۔

خفیہ دعوت و تبلیغ کی حکمت

٭ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ابتداء  میں اسلام کی دعوت دینے میں جو مخفی طریق  کار اختیار کیا اس میں دراصل ہر زمان و مکان کے داعیانِ اسلام کے لیے یہ ہدایت اور تعلیم مضمر ہے کہ  احتیاط اور ظاہری اسباب کا خیال رکھنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ دعوتِ اسلامی کے مقاصد کے حصول کے لیے وہ تمام وسائل اختیار کرنے چاہئیں جو عقلِ سلیم کی روشنی میں ضروری نظر آئیں، البتہ یہ سوچ توکل علی اللہ پر  غالب نہیں آنی چاہیے۔ انسان کو وسائل و اسباب ضرور اختیار کرنے چاہئیں مگر ان اسباب پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ بھروسہ صرف اللہ کی ذات عالی پر رکھنا چاہیے۔ اسباب و تدابیر پر یقین رکھنا ایمان باللہ اور اسلامی دعوت کے مزاج کے منافی ہے ۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ اس دور میں نبئ اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی تبلیغ و دعوت کا یہ انداز ایک رہبر اور قائد کی سیاست کا تقاضا تھا، بحیثیت نبی منجاب اللہ آپ کو ایسی کوئی ہدایت نہیں ملی تھی۔  ((فقه السيرة النبوية)) 

٭ جمہور  فقہائے مسلمین کا اجماع و اتفاق ہے کہ "جب مسلمان کم تعداد یا تھوڑے سے جنگی ساز و سامان کی بنا پر اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ دشمن پر کوئی کاری ضرب لگا سکیں بلکہ خود ان کے بے فائدہ مارے جانے کا اغلب گمان ہو تو ایسی صورت میں اپنی جان بچانے کی مصلحت پر عمل کیا جائے کیونکہ جنگ کی صورت میں وہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا جو جنگ سے مقصود ہے، یعنی دین کی حفاظت و اشاعت۔ مشہور فقیہ عزالدین بن عبد السلام نے یہ بات خوب اچھی طرح واضح کی ۔  دکتور بوطی اس پر تبصرہ کرتے  ہوئے لکھتے ہیں: "گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ در حقیقت دین کا مفاد ہے کیونکہ دینی مصلحت بھی ایسی صورت میں یہی تقاضا کرتی ہے  کہ مسلمانوں کی جانیں محفوظ  رہیں تاکہ وہ آگے بڑھ کر ان دوسرے میدانوں میں جدو جہد کریں  جن میں فائدے کا زیادہ امکان ہو ورنہ اگر وہ مارے جاتے ہیں تو اس میں خود دین کا نقصان ہوگا اور کافروں کو کھیل کھیلنے کا موقع مل جائے گا اور وہ آسانی کے ساتھ دین کا خاتمہ کردیں گے۔ گویا ایسے حالات میں جنگ نہ کرنا دین کے ایک اہم یقینی فائدے کو ایک موہوم فائدے پر ترجیح دینا ہے۔"  ((فقه السيرة النبوية 


جاری ھے۔۔۔۔۔۔



Share: