قسط نمبر (31) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

 حضرت ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم نے دیا تھا

حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ دور جاہلیت میں ان کا شمار قریش کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔ جب  رسول کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے اسلام قبول کر لیا اور یوں وہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔ قبول اسلام کے بعد تیرہ برس مکہ میں گزارے جو سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کا دور تھا۔ بعد ازاں  رسول کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رفاقت میں مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی، نیز غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں  رسول کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔ جب  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں  مبتلا  ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں امامت کریں۔ پیر 12 ربیع الاول سنہ 11ھ کو   رسول کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے وفات پائی اور اسی دن حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہاتھوں پر مسلمانوں نے بیعت خلافت کی۔ منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اسلامی قلمرو میں والیوں، عاملوں اور قاضیوں کو مقرر کیا، جا بجا لشکر روانہ کیے، اسلام اور اس کے بعض فرائض سے انکار کرنے والے عرب قبائل سے جنگ کی یہاں تک کہ تمام جزیرہ عرب اسلامی حکومت کا مطیع ہو گیا۔ فتنہ ارتداد فرو ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عراق اور شام کو فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ کیا۔ ان کے عہد خلافت میں عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا علاقہ فتح ہو چکا تھا۔ پیر 22 جمادی الاخری سنہ 13ھ کو تریسٹھ برس کی عمر میں خلیفہ اول  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے اور حضرت عمر بن خطاب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ان کے جانشین ہوئے۔تمام صحابہ کرام کے جنتی ہونے اور حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کا خلیفہ بلافصل ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جو قرآن اور تمام صحیح اور مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے جن کے راوی اہل سنت والجماعت میں عادل اور ثقہ تصور کیے جاتے ہیں۔


 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا تعارف 

آپ کا اسلامی نام  عبد اللہ کنیت ابو بکر اور لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے، والدہ کا نام سلمیٰ اور اور کنیت ام الخیر ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے ہے۔ عہد جاہلیت میں آپ کا نام عبد الکعبہ تھا جو  رسول کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدل کر عبد اللہ رکھ دیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق آپ کے نام عبد الکعبہ" کی وجہ تسمیہ کچھ یوں بیان کی جاتی ہے۔ کہ آپ  کے والدین کے لڑکے زندہ نہیں رہتے تھے، اس لیے انہوں نے یہ نذر مانی کہ اگر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور زندہ رہا تو وہ اس کا نام "عبد الکعبہ" رکھیں گے اور اسے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گے۔ چنانچہ جب آپ پیدا ہوئے تو انہوں نے نذر کے مطابق آپ کا نام "عبد الکعبہ" رکھا اور جوان ہونے پر آپ عتیق ( آزاد کردہ غلام) کے نام سے موسوم کیے جانے لگے 


 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی پیدائش

حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی پیدائش عام الفیل سے دو سال چھ ماہ بعد اور ہجرت نبوی سے پچاس سال چھ ماہ پہلے بمطابق 573عیسوی مکہ میں ہوئی۔آپ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے دو سال چھ ماہ چھوٹے تھے۔[3] عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور میرے والد میرے پاس بیٹھے اپنی ولادت کا تذکرہ فرما رہے تھے آپ دونوں کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے عمر میں بڑے ہیں


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا  سلسلہ نسب

والد کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے۔ ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب  والدہ کی جانب سے سلسہ نسب یہ ہے۔ ام لخیر سلمی بنت صخر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب 

آپ کے والد اور والدہ دونوں کی جانب سے حضور سے سلسلہ نسب ساتویں پشت میں مل جاتا ہے۔ کیونکہ آپ کے والدین آپس میں عم زاد  تھے


کنیت “ ابو بکر “ کی وجہ تسمیہ

آپ کی کنیت ابو بکر کے بارے میں منقول ہے کہ چونکہ آپ اعلیٰ خصلتوں کے مالک تھے اس لیے آپ ابو بکر کے نام سے مشہور ہوئے جو بعد ازاں آپ کی کنیت ٹھہری۔ آپ کی کنیت ابو بکر کے بارے میں یہ سند پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتی کہ آپ کو سب سے پہلے ابو بکر کے نام سے کس نے پکارا۔مورخین نے آپ کی کنیت کی مشہور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی لکھی کہ عربی میں بکر جوان اونٹ کو کہتے ہیں اور آپ کو چونکہ اونٹوں کی غور و پرداخت میں بہت دلچسپی تھی اور ان کے علاج و معالجے میں بہت واقفیت رکھتے تھے اس لیے لوگوں نے آپ کو ابو بکر کہنا شروع کر دیا جس کے معنی ہیں اونٹوں کا باپ


صدیق کی وجہ تسمیہ

آپ کے لقب صدیق کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ واقعہ معراج کے بعد قریش مکہ کو رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  جب اپنی معراج سے آگاہ فرمایا تو انہوں نے آپ کی تکذیب کی۔ جب  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو واقعہ معراج کے بارے میں پتا چلا تو آپ نے فرمایا میں معراج پر جانے کی تصدیق کرتا ہوں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے آپ کی اس تصدیق کی وجہ سے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔ نودی نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا لقب صدیق اس وجہ سے ہے کہ آپ ہمیشہ سچ بولا کرتے تھے، آپ نے رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کی تصدیق میں جلدی کی اور آپ سے کبھی کوئی لغزش نہیں ہوئی۔ابن سعد کی روایت ہے کہ جب معراج میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جبرائیل سے کہا کہ میری اس سیر کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ جبرائیل نے عرض کیا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تصدیق  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کریں گے کیوں کہ وہ صدیق ہیں۔ انس بن مالک سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جبل احد پر گئے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ہمراہ ابو بکر، عمر اور عثمان  رضی اللہ عنھم بھی تھے۔ احد پہاڑ پر زلزلہ آگیا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اپنے پیر کی ٹھوکر لگائی اور فرمایا اے احد! ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے وصال پر فرمایا کہ اللہ نے  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا نام صدیق رکھا اور پھر آپ نے سورۂ الزمر کی آیت ذیل تلاوت فرمائی:

وَ الَّذِیۡ جَآءَ بِالصِّدۡقِ وَ صَدَّقَ بِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ Oسورہ الزمر

اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ متقی ہیں ۔


عتیق کی وجہ تسمیہ

 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے اسم گرامی کے بارے میں اکثر محدثین کا خیال ہے کہ آپ کا نام عتیق تھا۔ عتیق کا مطلب آزاد۔ جبکہ بیشتر محدثین کرام کا خیال ہے کہ عتیق آپ کا لقب تھا اور اس ضمن میں عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت بیان فرماتے ہیں۔ آپ سے مروی ہے کہ ایک روز میں اپنے حجرہ میں موجود تھی اور باہر صحن میں کچھ صحابہ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ہمراہ تھے۔ اس دوران رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم آئے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ کسی عتیق (آزاد) کو دیکھنا چاہیں وہ  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو دیکھ لیں۔عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ابو حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ نے  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کو آگ سے آزاد کر دیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے اس فرمان کے بعد آپ عتیق کے لقب سے بھی مشہور ہوئے۔ لیث بن سعد سے منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو عتیق حسن و صورت وجہ سے کہا جاتا ہے۔


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے والد گرامی

ابو قحافہ رضی اللہ عنہ شرفائے مکہ میں سے تھے اور نہایت معمر تھے، ابتداً جیسا کہ بوڑھوں کا قاعدہ ھوتا ہے، وہ اسلام کی تحریک کو بازیچۂ اطفال سمجھتے تھے ابو قحافہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ تک نہایت استقلال کے ساتھ اپنے اٰبائی مذہب پر قائم رہے، فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  حرم کعبہ میں تشریف فرما تھے وہ اپنے فرزند سعید حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے ساتھ بارگاہ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں حاضر ہوئے، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ضعف پیری کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں کیوں تکلیف دی، میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہایت شفقت سے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کلمات طیبات تلقین کرکے مشرف باسلام فرمایا، حضرت ابو قحافہ ؓ نےبڑی عمر پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اپنے فرزند ارجمند حضرت ابو بکر ؓ کے بعد بھی کچھ دنوں تک زندہ رہے، آخر عمر میں بہت ضعیف ہو گئے تھے، آنکھوں کی بصارت جاتی رہی تھی، 14ھ میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی والدہ

حضرت ام الخیر سلمیٰ بنت صخر رضی اللہ عنہ کو ابتداہی میں حلقہ بگوشان اسلام میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا، ان سے پہلے صرف انتالیس اصحاب مسلمان ہوئے تھے، یہ قلیل جماعت باعلان اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکتی تھی اور نہ مشرکین وکفار کو ببانگ دہل دین مبین کی دعوت دے سکتی تھی؛ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کامذہبی جوش اس بے بسی پر نہایت مضطرب تھا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ایک روز نہایت اصرار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر مجمع عام میں شریعت حقہ کے فضائل ومحامد پر تقریر کی اور کفار ومشرکین کو شرک و بت پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کرلینے کی دعوت دی، کفار ومشرکین جن کے کان کبھی ان الفاظ سے مانوس نہ تھے نہایت برہم ہوئےاور حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کونہایت بے رحمی اور ظلم  کے ساتھ اس قدر مارا کہ بالآخربنی تیم کو باوجودمشرک ہونیکے اپنے قبیلہ کے ایک فرد کو اس حال میں دیکھ کر ترس آگیا اورانہوں نے عام مشرکین کے پنجۂ ظلم سے چھڑاکر ان کو مکان تک پہنچادیا، شب کے وقت بھی حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  باوجود درداور تکلیف کے اپنے والد اور خاندانی اعزہ کو اسلام کی دعوت دیتے رہے، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ دریافت کرکے اپنی والدہ کے ساتھ ارقم بن ارقم ؓ کے مکان میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور وہ مشرف باسلام ہوگئیں۔ حضرت ام الخیر ؓ نے بھی طویل عمر پائی چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت تک زندہ رہیں ؛لیکن اپنے شوہر سے پہلے وفات پا گئیں 

حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ  عنہ کا بچپن 

آپ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ کفر و شرک اور فسق و فجور کا دور تھا، خانہ کعبہ کا متولی اور محافظ قبیلہ قریش بھی عرب کے دوسرے قبیلوں کی طرح کفر و شرک میں گلے تک دھنسا ہوا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی عمر چار سال تھی تو آپ کے والد ابو قحافہ  رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  آپ کو اپنے ساتھ بت خانہ لے گئے اور وہاں پر نصب ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے آپ سے فرمایا:

یہ ہے تمہارا بلند و بالا خدا،  اس کو سجدہ کرو۔ ننھے ابو بکر نے بت کو مخاطب ھو کر  کر کہا:


میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے، میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے، میں پتھر مارتا ہوں اگر خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا لو

بھلا وہ پتھر کیا جواب دیتا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اس کو ایک پتھر اس زور سے مارا کہ وہ گر پڑا۔ ابو قحافہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  یہ دیکھ کر غضبناک ہو گئے۔ انہوں نے ننھے ابو بکر کو رخسار پر تھپڑ مارا اور وہاں سے گھیسٹے ہوئے ام الخیر  رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے پاس لائے۔ انہوں نے ننھے بچے کو گلے لگا لیا اور ابو قحافہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ سے کہااسے اس کے حال پر چھوڑ دوجب یہ پیدا ہوا تھا تو مجھے اس کے بارے میں غیب سے کئی اچھی باتیں بتائی گئی تھیں۔

اس واقعہ کے بعد کسی نے آپ کو بت پرستی وغیرہ پر مجبور نہیں کیا اور آپ کا دامن شرک سے پاک رہا۔ عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا اور بحثیت مجموعی عرب ایک ان پڑھ قوم تھے، البتہ خال خال لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ان میں سے ایک تھے۔ قیاس یہ ہے کہ ابو قحافہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا نے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ اس طرح آپ صرف نہ پڑھنا لکھنا جان گئے بلکہ شرفاء کے دوسرے اچھے مشاغل میں بھی آپ کو دسترس حاصل ہو گئی مثلاً لڑنے کا ڈھنگ، ہیتھاروں کا استعمال، شعر گوئی اور شعر فہمی، تجارت وغیرہ۔گھر میں دولت کی ریل پیل تھی لیکن آپ عیش و عشرت اور شراب خوری جیسے ذمائم سے ہمیشہ نفور رہے


 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ کی جوانی 

قریش کی ساری قوم تجارت پیشہ تھی اور اس کا ہر فرد اس شغل میں مصروف تھا۔ چنانچہ آپ نے بھی جوان ہو کر کپڑے کی تجارت شروع کر دی جس میں آپ کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا اور آپ کا شمار بہت جلد مکہ کے نہایت کامیاب تاجروں میں ہونے لگا۔ تجارت میں آپ کی کامیابی میں آپ کی جاذب شخصیت اور بے نظیر اخلاق کو خاصا دخل تھا۔جب  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی عمر اٹھارہ سال تھی تو آپ حضور نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ہمراہ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے اور ایک مقام پر بیری کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ قریب ہی ایک اہل کتاب راہب رہتا تھا سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اس کے پاس گئے تو اس نے پوچھا کہ بیری کے درخت کے نیچے کون ہے؟آپ نے جواب دیا:

محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  بن عبد اللہ بن عبد المطلب

اس راہب نے کہا واللہ یہ نبی ہیں۔ اس درخت کے سائے میں  سوائے  نبی  کے اور کوئی نہیں بیٹھا۔ یہ بات آپ کے دل میں جم گئی اور اسی دن سے انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی صحبت و محبت اختیار کر لی۔ ایک مرتبہ  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ صحن کعبہ میں کھڑے تھے۔ اتنے میں امیہ بن ابی صلت ثقفی شاعر جو جاہلی دور میں موحدانہ نظمیں کہا کرتا تھا وہاں آیا اور آپ سے خطاب کر کے کہنے لگا جس نبی کی آمد کا انتظار ہے وہ ہم (اہل طائف) میں مبعوث ہوگا یا تم (قریش مکہ) میں؟ آپ نے کہا مجھے معلوم نہیں۔اس گفتگو کے بعد آپ تصدیق حال کے لیے ورقہ بن نوفل کے پاس گئے۔ یہ اکثر آسمان کی طرف دیکھتے رہتے تھے اور منہ میں کچھ گنگنایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے امیہ بن ابی اصلت کا مقولہ پیش کر کے ان کا خیال معلوم کرنا چاہا۔ورقہ بن نوفل نے کہا: ہاں بھائی مجھے علوم سموی پر عبور حاصل ہے جس نبی کی آمد کا انتظار ہے وہ وسطِ عرب کے ایک خاندان سے ظاہر ہو گا اور چونکہ میں علم نسب کا بھی ماہر ہوں اس بنا پر کہتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر ہوگا۔ورقہ کا بیان سن کر آپ کا اشتیاق و انتظار اور بڑھ گیا۔


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے خواب 

 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ایک چاند مکہ پر نازل ہو کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک گھر میں داخل ہوا پھر یہ ٹکڑے باہم مل گئے اور مکمل چاند آپ کی گود میں آگیا۔ آپ بیدار ہوئے تو رؤیا کی تعبیر میں مہارت رکھنے والے ایک شخص کے پاس گئے اور اس سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی۔ اس نے بتایا کہ اس نبی آخر الزمان کی پیروی کرو گے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اور تم اس نبی کے پیروؤں میں سب سے افضل ہو گے۔ ابن عساکر نے کعب سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ایک مرتبہ بغرض تجارت ملک شام گئے، وہاں ایک عجیب خواب دیکھا۔ اس کی تعبیر دریافت کرنے کے لیے وہاں کے ایک مشہور راہب بحیرا راہب کے پاس گئے۔ بحیرا نے خواب سن کر کہا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ آپ نے جواب دیا مکہ۔ بحیرا نے پوچھا کس خاندان سے ہو؟ آپ نے فرمایا قریش سے۔ بحیرا نے پوچھا کیا کام کرتے ہو؟ آپ نے فرمایا تاجر ہوں۔ بحیرا نے کہا: "تو پھر سنو تمہارا خواب سچا ہے۔ تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث ہوں گے تم ان کی زندگی میں ان کے وزیر اور وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہو گے۔ ۔ بنو تمیم میں ابو بکر صدیق خون بہا اور تاوان کا فیصلہ کرتے تھے جس کو آپ مان لیتے تمام قریش اس کو تسلیم کرتے اگر کوئی دوسرا اقرار کرتا تو کوئی بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ آپ اس شرف و فضیلت کے  اعتبار سے اپنے قبیلے کے سردار اور منجملہ دس سرداران قریش کے ایک سردار تھے۔ مال و دولت کے اعتبار سے بھی بڑے متمول اور صاحب اثر تھے۔ آپ قریش میں بڑے بامروت اور لوگوں پر احسان کرنے والے تھے۔ مصائب کے وقت صبر و استقامت سے کام لیتے اور مہمانوں کی خوب مدارات و توضع بجا لاتے۔ لوگ اپنے معاملات میں آپ سے آکر مشورہ لیا کرتے اور اپ کو اعلیٰ درجے کا صائب الرائے سمجھتے تھے۔ آپ انساب اور اخبار عرب کے بڑے ماہر تھے


 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی  شراب سے نفرت

آپ طبعاً برائیوں اور کمینہ خصلتوں سے محترز رہتے تھے۔ آپ نے جاہلیت میں اپنے اوپر شراب حرام کر لی تھی۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی شراب پی؟ آپ نے فرمایا نعوذباللہ کبھی نہیں۔ اس نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بدن میں سے بو آئے اور مروت زائل ہو جائے۔ یہ گفتگو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مجلس میں روایت ہوئی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے دو مرتبہ فرمایا کہ  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سچ کہتے ہیں۔ ام امومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے دور جاہلیت سے ہی اپنے اوپر شراب کو حرام قرار دیا تھا اور آپ نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں میرا گزر ایک مدہوش آدمی کے پاس سے ہوا جو غلاظت میں اپنا ہاتھ ڈالتا اور پھر اسے منہ کے پاس لے جاتا۔ جب اس کو اس غلاظت کی بدبو محسوس ہوتی تو وہ ہاتھ منہ میں ڈالنے سے رک جاتا۔ میں نے جب دیکھا تو اس وقت سے شراب کو خود پر حرام کر لی۔


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا  قبول اسلام

حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے ایمان لانے اور اس کے اسباب میں بہت سے اقوال ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعثت سے بیس سال پہلے آپ نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند آسمان سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر کعبہ میں گرا۔ مکہ کے ہر گھر ایک ایک ٹکڑا گرا پھرتمام ٹکڑے اکھٹے ہو کر پہلی شکل پر آگئے اور آسمان کی طرف چلے گئے مگر وہ ٹکڑا جو آپ کے گھر آیا تھا وہیں رہ گیا اور دوسری روایت میں ہے کہ وہ تمام ٹکڑے مل کر آپ کے گھر آگئے اور آپ نے آپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔ ان انوار کے حالات دریافت کرنے کے کیے علی الصبح ایک یہودی عالم کے پاس گئے اور اس سے تعبیر پوچھی۔ یہودی عالم نے کہا یہ اضغاث و احلام میں سے ہے جس کا کوئی اعتبار نہیں۔ کچھ عرصہ اسی طرح گذرا، اپنی تجارت کے سلسلے میں بحیرا راہب کی خانقاہ میں پہنچے اور راہب سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی۔ راہب نے کہا آپ کون ہیں؟ آپ نے کہا میں قریشی ہوں۔ راہب نے کہا مکہ میں تمہارے درمیان میں ایک رسول ظاہر ہوگا اس کا نور ہدایت مکہ کے ہر گھر میں پہنچے گا، آپ ان کی زندگی میں ان کے وزیر ہوں گے اور اُن  کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہوں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے کہا میں خواب کو پوشیدہ رکھتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو خلق کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب مجھے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ظہور کی خبر ملی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنھوں نے مجھے اسلام کی دعوت دی، میں نے عرض کیا ہر نبی  کی نبوت پر دلیل ہوتی تھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی دلیل کیا ہے؟نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا کہ میری نبوت کی دلیل وہ خواب ہے جو تم نے دیکھا تھا اور یہودی عالم نے کہا تھا اس کا کوئی اعتبار نہیں بحیرا راہب نے اس کی اس طرح تعبیر کی تھی۔ میں نے ہوچھا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اس کی کس نے خبر دی ہے؟آپ نے فرمایا مجھے جبرائیل نے اطلاع دی ہے۔ میں نے کہا اس سے زیادہ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کوئی دلیل و برہان نہیں پوچھتا اور آپ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا۔


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے لئے  درخت کی گواہی

حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں ایک روز ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا اس درخت کی ایک شاخ میری طرف اس قدر جھکی کہ میرے سر کے ساتھ آ لگی میں اسے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ کیا چاہتی ہے اس درخت سے میرے کان میں آواز سنائی دی کہ ایک  رسول  فلاں وقت میں ظاہر ہو گا لوگ اس پر ایمان لائے گے تجھے چاہیے کہ ان میں سب سے نیک بخت بنے۔میں نے اس سے کہا کہ وضاحت سے بیان کر کہ وہ نبی کون ہے، اس کا نام کیا ہے؟اس نے کہا محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔میں نے کہا وہ میرا دوست، حبیب اور ساتھی ہے۔ میں نے اس درخت سے وعدہ لیا کہ جب وہ مبعوث ہوں مجھے خوشخبری دے۔ جب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مبعوث ہوئے اس درخت سے آواز آئی اے ابو قحافہ کے بیٹے! مستعد ہو جا اور کوشش کر، کیونکہ اس کی طرف وحی آ گئی ہے۔ مجھے رب موسیٰ کی قسم ہے کہ کوئی تجھ سے سبقت نہیں لے جائے گا۔ جب صبح ہوئی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! میں تجھے خدا اور رسول کی طرف بلاتا ہوں میں نے کہاانّك رسول اللہ بالحق بعثك سراجاً منیرا، ً پس آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کے قول کی تصدیق کی۔

ایک دوسری روایت یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے جسد ہمت پر انٌا ارسلناك کی خلعت آراستہ ہوئی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سوچا کوئی ایسا راز داں چاہیے جو اس بات کے سننے کی طاقت رکھتا ہو اور مصلحت کی جانب کو ترک نہ کرے پس  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی دوستی جو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دل مبارک میں درجۂ اعتبار کو پہنچی ہوئی تھی اشارہ کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کمال عقل سے موصوف اور حسن اعتقاد اور دوستی کے خلوص کے ساتھ معروف ہے اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ اس امر میں راز داں بنایا جائے۔ آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ صبح اس کے پاس جائیں گے اور اس راز سے اس کو آگاہ کریں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ساری رات اس سوچ میں مستغرق رہے کہ یہ دین جو ہمارے آبا و اجداد کا پسندیدہ ہے فطرت سلیم اور عقل کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے اور ایسی چیز کی عبادت کا کیا فائدہ جو نہ نقصان کو دور کر سکتی ہو نہ ہی نفع بخش ہو خدا تعالیٰ جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور بسائط ابرار کی روشن رائے کا موجد ہے عبادت کا حقدار کیوں نہیں ہے۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ صبح سید ابرار کی روشن رائے سے جو خدائی فیض اور توفیق الہی کی جائے نزول ہے، ہدایت اور مشورہ حاصل کرے اور اس راز کو ان کی مجلس میں کھولے۔دونوں ایک دوسرے کی ملاقات کے ارادے سے چل پڑے، راستہ میں دونوں کی ملاقات ہو گئی انھوں نے کہا "اجتمعنا غیر میعاد"۔ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا: میں ایک بھلائی کے مشورہ کے لیے آ رہا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عرض کی میں بھی ایک دینی مہم میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں آ رہا تھا، نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا راز سے پردہ اٹھائیے،  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عرض کی ہر کام میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پیش رو ہیں پہلے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اظہار فرمائیں۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا کل فرشتہ مجھ پر ظاہر ہوا اور خدا کا پیغام لایا کہ لوگوں کو اللہ  تعالیٰ کی طرف بلاؤ، میں حیران ہو کر تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم کچھ راہنمائی کرو۔ دعوت کے سلسلے میں جو تمہاری رائے ہو اس کے مطابق عمل کریں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عرض کی: پہلے مجھے ایمان کے شرف سے سرفراز کریں کہ کل سے میں سوتے جاگتے اسی فکر میں ہوں اور آج آپ سے یہ بات سن رہا ہوں۔نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اس بات سے خوش ہوئے فی الفور اسلام پیش کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اسلام کی دعوت کو قبول کر لیا۔ مومنین کے پیشرو اور مردوں میں  سب سے پہلے اسلام لانے والے بنے۔


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی   یمن کے بوڑھے سے ملاقات 

حصص الاتقیاء میں عبد اللہ بن مسعود رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ سے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے کہ بعثت سے پہلے میں تجارت کی غرض سے ملک یمن کی طرف گیا، قبیلہ ازد کے ایک تین سو نوے سالہ بوڑھے کے پاس اترا جس نے آسمانی کتابیں پڑھی ہوئی تھیں۔ جب اس جہاں دیدہ بوڑھے نے مجھے دیکھا اس نے کہا میرا خیال ہے کہ تم حرم کعبہ سے تعلق رکھتے ہو۔ میں نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے کہا بنو تمیم سے۔ اس نے کہا: ایک نشانی باقی رہ گئی۔ میں نے پوچھا وہ کونسی ہے؟ اس نے کہا اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھائیے۔ میں نے کہا جب تک اپنا مقصد بیان نہیں کرتے میں نہیں اٹھاؤ گا۔ اس نے کہا میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ حرم میں ایک نبی مبعوث ہو گا اس کے دو معاون ہوں گے ایک جوان، دوسرا ادھیڑ عمر سفید چہرے لاغر جسم کا ہو گا۔ اس کے پیٹ پر داغ بائیں ران کی طرف نشانی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ شخص تم ہو، میں چاہتا ہوں کہ اس داغ کو تمہارے پیٹ پر دیکھوں۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا میں نے کپڑا پیٹ سے اٹھایا میں نے دیکھا کہ میری ناف کے اوپر ایک سیاہ خال ہے۔ اس نے کہا رب کعبہ کی قسم وہ ادھیڑ عمر آپ ہی ہیں، اس نے مجھے شفقت سے وصیت کی تھی کہ یمن میں اپنا کاروبار کی تکمیل کے بعد اسے الوداع کہنے کے لیے آؤ۔ جب میں اس کے پاس آیا۔ اس نے کہا میرے پاس اس نبی  کی تعریف میں چند اشعار ہے ہیں آپ ان کو آن کی خدمت میں پہنچا دیں گے؟ میں نے کہا ہاں پہنچا دو گا۔ اس نے بارہ اشعار مجھے پڑھ کر سنائے۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے کہا میں نے اشعار اس پیر مرد سے یاد کر لیے اور اس کی وصیتوں کو قبول کیا اور مکہ میں واپس آگیا۔ جب میں اپنے گھر میں آیا تو عتبہ بن ابی مغیظ و شیبہ اور ابو النجتری اور چند اور قریشی آئے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کوئی نئی چیز آپ کے ہاں پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا اس سے زیادہ کیا عجیب بات کیا ہو گی کہ ابو طالب کے یتیم  بھتیجے نے اٹھ کر نبوت کا دعوی کر دیا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ تم باطل ہو اور تمھارے آبا و اجداد بھی باطل پر تھے اگر آپ کی امداد و اعانت اسے نہ ہوتی تو تو ہم اسے امن نہ دیتے۔ اب جبکہ آپ خود تشریف لے آئے ہیں خود ہی اس کام کو پائیہ تکمیل تک پہنچائے کیونکہ وہ آپ کا دوست ہے۔ جب میں نے ان سے یہ بات سنی تو ان کو معذرت کر کے واپس کر دیا۔ میں نے پوچھا محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کہاں ہیں؟ انھوں نے بتایا خدیجہ بنت خویلد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا کے گھر میں ہیں۔ میں جا کر دروازہ پر بیٹھا رہا جب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم باہر نکلے تو میں نے کہا یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! یہ کیا ہے جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی طرف سے باتیں بیان کی جاتی ہیں؟ نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا اے ابو بکر! میں اللہ تعالی کا رسول ہوں آپ مجھ پر دوسرے لوگوں کے ساتھ ایمان لے آئیے تا کہ اللہ تعالی  کی خوشنودی حاصل کر سکیں اور دوزخ سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائیں۔ میں نے کہا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پاس برہان و دلیل کیا ہے؟آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا میری دلیل وہ بوڑھا ہے جسے آپ یمن میں ملے تھے۔ انہون نے کہا میں بہت سے بوڑھوں سے ملا ہوں اور ان سے خرید و فروخت کی کی ہے۔ آن نے فرمایا وہ بوڑھا جس نے بارہ اشعار بطور امانت تمھیں دیے اور میرے پاس بھیجے اور وہ بارہ اشعار آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو سنائے۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عرض کی : کس نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس حال کی خبر دی؟ آن نے فرمایا مجھے اس بزرگ فرشتے نے بتایا جو مجھ سے پہلے تمام پیغمبروں پر اترا تھا۔ میں نے کہا ہاتھ بڑھائیے، میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا دست مبارک پکڑ کر کہا


اشہدان لا الہ الا اللہ واشہد انک رسول اللہ

میں خوشی خوشی گھر لوٹا


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی  قبول اسلام میں سبقت 

سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اسلام قبول کرنے والے دوسرے اور مردوں میں پہلے  شخص تھے۔ آپ سے پہلے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زوجہ ام امومنین خدیجہ بنت خویلد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا نے اسلام قبول کیا تھا۔علی المرتضی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے کسی نے پوچھا کہ مہاجرین و انصار نے سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بیعت میں سبقت کیوں کی جبکہ آپ کو ان پر فوقیت حاصل تھی۔ علی المرتضیٰ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے جواب دیا کہ سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو چار باتوں میں فوقیت حاصل تھی۔ میں ان کا ہمسر نہیں تھا، اسلام کا اعلان کرنے میں، ہجرت میں پہل کرنے میں، غار میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ساتھ ہونے اور اعلانیہ نماز پڑھنے میں وہ مجھ سے آگے تھے۔ انہوں نے اس وقت اسلام کا اظہار کیا جب میں اسے چھپا رہا تھا۔ قریش مجھ کو حقیر سمجھتے تھے جبکہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو پورا پورا وزن دیتے تھے۔ اللہ کی قسم! اگر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی یہ خصوصیات نہیں ہوتی تو اسلام اس طرح نہ پھیلتا اور طالوت کے ساتھیوں نے نہر سے پانی پی کر جس کردار کا اظہار کیا تھا اسی طرح کے کردار کا اظہار لوگ یہاں بھی کرتے۔ دیکھتے نہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو ڈانتا وہاں سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی تعریف بھی کی۔

امام جلال الدین سیوطی بیان کرتے ہیں کہ امام اعظم امام ابو حنیفہ کی رائے ہے اور اس کی تائید ترمذی شریف کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے قبول کیا، عورتوں میں سب سے پہلے اسلام ام المومنین خدیجہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا نے قبول کیا جبکہ بچوں میں سب سے پہلے اسلام سیدنا علی امرتضیٰ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے قبول کیا سب سے پہلے جن ہستیوں نے قبول اسلام کی دعوت پر لبیک کہا وہ تھیں ---- ابو بکر صدیق، خدیجۃ الکبرٰی، علی المرتضٰی اور زید بن حارثہرَضی اللہُ تعالیٰ عنھم  خدیجہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نبی کریم کی اہلیہ تھیں، علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نبی کریم کے نابالغ چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے زیر کفالت تھے۔ زید بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ پہلے حضور نبی کریم کے غلام تھے پھر آپ نے ان کو آزاد کر دیا لیکن انہوں نے آپ کا خادم بن آپ کے پاس ہی رہنے کو ترجیح دی۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ اس لحاظ سے تینوں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے گھر کے افراد تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  گھر سے باہر کے آدمی تھے تاہم انہوں نے عامۃ الناس میں سب سے پہلے قبول اسلام کا شرف کیا، اس لیے اول المسلمین کہلائے

حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی کوششوں سے اسلام لانے  والے صحابہ کرام 

بزرگان فن سیر نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ مسلمان ہونے کے بعد اپنے پرانے رفیقوں اور دوستوں میں سے جس سے بھی ملتے اسے ہدایت کا راستہ اختار کرنے کی ترغیب دیتے۔ واضح نشانات اور مضبوط دلائل کے ساتھ رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کی صداقت کو ان کے سامنے پیش کرتے، اکابر قریش اور عرب کے سرداروں کی ایک جماعت آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مبارک ہمت کی برکت سے گمراہی کی وادی سے چشمہ ہدایت پر پہنچی۔حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بیٹی اسماء بنت ابی بکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا ذات النطاقین فرماتی ہیں کہ ہمارے ابا جان جس روز ایمان لائے گھر آئے اور ہم سب کو اسلام کی دعوت دی جب تک ہم سب دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی تصدیق اور دین توحید کو قبول نہیں کر لیا مجلس سے نہیں اٹھے۔

عشرہ مبشرہ میں سے پانچ  اشخاص  عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبید اللہ، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم اجمین آپ کی راہنمائی اور ترغیب سے دولت اسلام سے سرفراز ہوئے۔


ان کے علاوہ   حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی کوششوں سے اور راہنمائی سے ابوعبیدہ ابن جراح، عثمان بن مظعون، ارقم بن ابو الارقم اور ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد   رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُم دائرہ  اسلام میں داخل ہوئے


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا  مظلوم غلاموں اور لونڈیوں کو خرید کر آزاد کرنا

اعلان نبوت کے چوتھے سال جب اعلانیہ دعوت اسلام کا حکم نازل ہو تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے لوگوں کو اعلانیہ حق کی جانب بلانا شروع کر دیا۔ اس پر مشرکین قریش بھڑک اٹھے اور انہوں نے مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیے۔ بالخصوص اسلام قبول کرنے والے غلاموں اور لونڈیوں پر انہوں نے ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ ظلم و ستم کے اس دور میں  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے بےدریغ مال خرچ کر کے متعدد مظلوم غلاموں اور لونڈیوں کو ان کے سنگدل آقاؤں سے خرید خرید کر آزاد کروایا۔ جنھیں حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے دست کرم نے فی سبیل اللہ نعمت آزادی سے بہرہ ور کیا۔ ان کے نام یہ ہیں۔

بلال ابن رباح:

حمامہ:

حصرت بلال رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی والدہ تھیں اور آپ پر بھی قبول حق کے جرم میں ظلم ڈھائے جاتے تھے۔

ام عبیس:

عامر بن فہیرہ:

نہدیہ اور آن کی بیٹی

ابو فکیہ یسا رازدی:

لبینہ:

زنیرہ الرومیہ:

ابو نافع:

مرہ بن ابو عثمان:

سلیمان بن بلال:

سعد:

شدید:

کثیر بن عبید التیمی:


علامہ ابن جریر طبری اور ابن عساکر نے عامر بن عبد اللہ بن زبیر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ابو قحافہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  مے اپنے فرزند کو غریب لونڈیوں اور غلاموں کی آزادی پر بے تحاشا دولت خرچ کرتے دیکھا تو انہوں نے اپنے بیٹے ابو بکر کو کہا:

بیٹا ایسے کمزور لوگوں کو آزاد کرانے کا کیا فائدہ؟ اگر تم چست اور تنومند غلاموں کو آزاد کراتے تو وہ تمہارے احسان مند رہتے اور مشکل وقت میں تمہارے کام آتے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے جواب دیا:

ابا جان! میں کسی دنیاوی فائدے کے لیے ان کو آزاد نہیں کراتا میں تو اس کا وہ اجر چاہتا ہوں جو اللہ کے پاس ہے۔

جب مشرکین نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اپنے آپ کو ہمہ تن اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کر دیا ہے اور اپنی دولت کو مسلمان ہونے والے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے میں بے دریغ خرچ کر رہا ہے تو انہوں نے آپ سے "اشناق" کا منصب چھین لیا لیکن آپ نے اس کی پرواہ نہیں کی اور برابر اپنے کام میں مصروف رہے


 اسلام قبول کرنے والوں پر کفار کے ظلم کی انتہا

آغاز اسلام میں اکثر حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے عرض کرتے: کیوں نا ہم لوگوں کے سامنے اپنے ایمان و عقیدہ کا برملا اظہار کریں۔ آخر کب تک ہم چھپتے چھپاتے رہیں گے۔رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بات سن کر صرف اتنا فرماتے:

ابو بکر! ابھی ہماری تعداد تھوڑی سی ہے۔

 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کا اسلام میں پہلا خطبہ

سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بار بار رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے برملا اظہار کرنے کے بارے میں اصرار کرتے رہتے۔ بالآخر رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ سارے مسلمان خانہ کعبہ کے ارد گرد پھیل گئے اور اپنے اپنے خاندان والوں کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  اٹھے اور فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ یہ پہلا خطبہ تھا جو دین اسلام میں پڑھا گیا، اس خطبہ میں اسلام کی دعوت تھی، مشرکین کو بہت ناگوار گذرا۔ وہاں موجود سارے مشرکین سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور مسجد حرام میں موجود دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور بری طرح سے مارنے لگے۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ مار کھاتے کھاتے زمین پر گر گئے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ کا رویہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے ساتھ گھناؤنا تھا۔ اس فاسق نے اپنے پیوند لگے دونوں جوتوں سے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کو منہ اور پیٹ پر اتنا مارا کہ کثرت خون سے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی ناک آپ کے چہرے سے پہچانی نہیں جاتی تھی۔ جب آپ کے قبیلے بنو تمیم کے لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ آپ کی مدد کو پہنچ گئے۔ انہوں نے مشرکین کو آپ سے اٹھایا اور ایک کپڑے میں ڈال کر آپ کو لے گئے۔ آپ کو اتنی شدید مار پڑی تھی کہ بنو تمیم کو یقین تھا اب آپ کی موت یقینی ہے۔ بنو تمیم آپ کو گھر پہنچا کر مسجد حرام میں واپس آئے اور کہنے لگے:

اللہ کی قسم! اگر ابو بکر مر گے تو ہم عتبہ بن ربیعہ کو ضرور قتل کر ڈالیں گے۔

بنو تمیم مسجد حرام میں برسرعام یہ دھمکی دے کر سیدھے ابو بکر کے گھر گئے۔ ابو قحافہ اور بنو تمیم کے لوگوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح ابو بکر کی زبان کھل جائے اور وہ کچھ بات کریں۔ سارے اسی انتظار میں اس کے ارد گرد بیٹھے تھے جب دن کے آخری پہر آپ کو کچھ افاقہ ہوا اور زبان کھولی، پہلا جملہ جو آپ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا:

رسول اکرم ﷺ کا کیا ہوا؟ وہ کیسے ہیں۔

جب آپ نے یہ کہا تو قوم کے لوگوں کو قدرے غصہ بھی آیا اور آپ کو ملامت کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔جب بنو تمیم آپ کے پاس سے نکل گئے تو صرف آپ کی ماں آپ کے پاس رہ گئی۔ وہ بیٹے سے اصرار کرتی رہی کہ کھانا کھا لو لیکن آپ اپنی ماں سے صرف یہی پوچھتے رہے۔

رسول اکرم ﷺ کا کیا ہوا؟ وہ کیسے ہیں؟

ماں نے جوب دیا: بیٹے اللہ کی قسم! مجھے تیرے ساتھی کے بارے میں کوئی علم نہیں وہ کس حال میں ہیں اور ابھی کہاں ہیں؟سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اپنی ماں سے کہا: ام جمیل فاطمہ بنت خطاب کے پاس جاؤ اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارے میں دریافت کرو کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ بیٹے کی فرمائش پوری کرنے کے لیے ماں کھڑی ہوئی اور ام جمیل کے پاس پہنچ کر کہا: میرا بیٹا ابو بکر تم سے محمد بن عبد اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارے میں پوچھ رہا ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ام جمیل نے جواب دیا: نہ تو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور نہ ہی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارے میں۔ ہاں، اگر تم چاہوں تو میں تمہارے بیٹے کو دیکھنے چلوں؟ ام الخیر نے کہا ہاں چلو۔ام جمیل جب آپ کے پاس پہنچی تو آپ کی حالت شدت مرض سے ناگفتہ بہ تھی۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے قریب ہوئی اور زور سے کہنے لگی: فسق و کفر میں ڈوبی ہوئی آپ کی قوم نے آپ کو تکلیف دی ہے۔ مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ ضرور ان ظالموں سے انتقام لے گا۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی زبان کھلی اور کہا:

رسول اکرم ﷺ کا کیا ہو؟ وہ کیسے ہیں؟

ام جمیل رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا نے کہا: یہ آپ کی ماں موجود ہیں میں اگر کچھ بتاؤں گی تو وہ بھی سن لے گی۔ آپ نے کہا کوئی بات نہیں تمہیں اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ ام جمیل رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا نے بتایا:

رسول اکرم ﷺ بالکل صحیح سالم ہیں۔

 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے پوچھا وہ اب کہاں ہیں؟ام جمیل رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا نے کہا دار ارقم میں ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کہنے لگے:


میں نے اللہ سے عہد کر لیا ہے کہ جب تک رسول کریم  کی خدمت میں حاضر نہ ہو جاؤں، نہ کچھ کھاؤں گا نہ کچھ پیوں گا۔

ام جمیل رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور آپ کی والدہ نے آپ کا اصرار دیکھا تو وہ تھوڑی دیر رکی رہیں۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں اور راستہ خالی پڑا ہوا ہے تو وہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو سہارا دیتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں لائیں۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی جب نگاہ مبارک حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  پر پڑی تو آپ ان کی طرف جھک پڑے اور بوسہ دیا۔ دوسرے مسلمان بھی حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی طرف جھک پڑے۔ اس منظر کو دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بڑی کوفت ہوئی اور آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ مگر اس حالت میں بھی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے اپنی بے لاگ محبت کا ثبوت دیا 

 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی والدہ کا قبول اسلام 

حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عرض کیا 

اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! (آپ ﷺ صحیح سالم ہیں تو پھر) مجھے کوئی پرواہ نہیں، صرف اتنی تکلیف ہے کہ فاسق نے میرے چہرے پر جوتا مارا اور یہ میری ماں ہے جو بلاشبہ اپنے بیٹے کے حق میں مہربان اور وفادار ہے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ہستی مبارک ہے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میری ماں کو اللہ کی طرف دعوت دیں اور اس کے حق میں دعائے خیر فرما دیں۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالی میری ماں کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دعوت کی برکت سے جہنم کی آگ سے بچا دے۔ “ چنانچہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی خواہش پر رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے آپ کی ماں کے لیے دعا فرمائی۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی ماں مسلمان ہو گئیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اسی روز ایمان لائے جس روز تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ   کو کفار نے یہ اذیت اور تکلیف پہنچائی

اس واقعہ کے بعد رسول اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نظر میں حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی وقعت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی اور  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے خاص راز دار اور محبوب بن گئے۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ حضور  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم روزانہ دومرتبہ  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے مکان پر تشریف لے جاتے تھے۔ ہجرت مدینہ تک آپ کا یہی معمول رہا۔ عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو دین اسلام پر پایا اور (مکہ معظمہ) ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گذرا جس میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم روزانہ دو مرتبہ صبح و شام ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا  ہجرت حبشہ کا قصد

 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو نماز اور ذکر الہی سے بے حد شغف تھا وہ اس سوز و گراز سے نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے کہ قریش کے بیوی بچے متاثر ہو کر ان کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس سے قریش کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ان کے متعلقین اپنے آبائی دین سے منحرف ہو کر اسلام کی طرف مائل نہ ہو جائیں۔ چنانچہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو نماز پڑھنے سے روکتے اور اذیت پہنچاتے


 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ   کو ہجرت کی اجازت

امام واقدی کا بیان ہے کہ قریش ظلم و تعدی کے عادی ہو چکے تھے۔ ان لوگوں کی ایذا رسانی جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے صحابہ پر عام ہو گئی اور ان کا ظلم و ستم انتہا درجہ کو پہنچ گیا، صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں شکایت کی۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔یہاں تک کہ ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:

یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حاطب بن عمیر بن عبد شمس پر ظلم و ستم کو دیکھتے تو ضرور مہربانی فرماتے۔

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ہجرت کی اجازت فرما دی،  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عرض کی:


یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! آپ کس طرف ہجرت کا حکم فرماتے ہیں؟

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے حبشہ کی جانب راہنمائی فرمائی کیونکہ صحابہ کرام مسافت کم ہونے اور وہاں کی آب و ہوا ام القری مکہ کے مناسب ہونے کی وجہ سے اس طرف ہجرت کرنا مناسب سمجھتے تھے


 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ مالک بن دغنہ کی پناہ میں 

جب مسلمانوں پر اہل مکہ کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے تو بعث نبوت کے پانچویں اور چھٹے سال بہت سے مسلمانوں نے حبش کی طرف ہجرت کی تا کہ وہاں آرام و سکون سے اپنے مذہب پر عمل کیا جا سکے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی مگر جب آپ مقام "برک الغماد" میں پہنچے تو قبیلہ قارہ کا سردار مالک بن دغنہ راستے میں ملا اور دریافت کیا کہ کیوں؟ اے ابو بکر! کہاں چلے؟آپ نے اہل مکہ کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا میں اب اپنے وطن مکہ کی زمین کو چھوڑ کر خدا کی لمبی چوڑی زمین میں پھرتا رہوں گا اور خدا کی عبادت کرتا رہوں گا۔ابن دغنہ نے کہا کہ اے ابو بکر! آپ جیسا آدمی نہ شہر سے نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔ آپ دوسروں کا بار اٹھاتے ہیں، مہماناں حرم کی مہمان نوازی کرتے ہیں، خود کما کر مفلسوں اور محتاجوں کی مالی امداد کرتے ہیں، حق کے کاموں میں سب کی مدد و اعانت کرتے ہیں۔آپ میرے ساتھ مکہ واپس چ لیے میں آپ کی پناہ لیتا ہوں۔ ابن دغنہ آپ کو زبردستی مکہ واپس لائے اور تمام کفار سے کہہ دیا کہ میں نے ابو بکر کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ لہذا خبردار! کوئی ان کو نہ ستائے۔ کفار نے کہا کہ ہم کو اس شرط پر منظور ہے کہ ابو بکر اپنے گھر میں چھپ کر قرآن پڑھیں تا کہ ہماری عورتوں اور بچوں کے کان میں قرآن کی آواز نہ پہنچے۔ابن دغنہ نے کفار کی شرط کو منظور کر لیا۔ابو بکر صدیق نے چند دنوں تک اپنے گھر کے اندر قرآن پڑھتے رہے مگر آپ کے جذبہ اسلامی اور جوش ایمانی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ معبودان باطل لات و عزی کی عبادت تو علی الاعلان ہو اور معبود برحق اللہ تعالی کی عبادت چھپ کر گھر کے اندر کی جائے۔ چنانچہ آپ نے گھر کے باہر اپنے صحن میں ایک مسجد بنا لی اور اس مسجد میں علی الاعلان نمازوں میں بلند آواز سے قرآن پڑھنے لگے اور کفار مکہ کی عورتیں اور بچے بھیڑ لگا کر قرآن پاک سننے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار مکہ نے ابن دغنہ کو مکہ بلایا اور شکایت کی کہ ابو بکر گھر کے باہر قرآن پڑھتے ہیں۔ جس کو سننے کے لیے ان کے گھر کے گرد ہماری عورتوں اور بچوں کا میلہ لگ جاتا ہے۔ اس سے ہم کو بڑی تکلیف ہوتی ہے لہذا تم ان سے کہے دو کہ یا تو وہ گھر میں قرآن پڑھیں ورنہ تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے دست بردار ہو جاؤ۔ چنانچہ ابن دغنہ نے ابو بکر سے کہا کہ اے ابو بکر! آپ گھر کے اندر چھپ کر قرآن پڑھیں ورنہ میں اپنی پناہ سے کنارہ کش ہو جاؤں گا اس کے بعد کفار مکہ آپ کو ستائیں گے تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا کہ اے ابن دغنہ! تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے الگ ہو جاؤ مجھے اللہ تعالی کی پناہ کافی ہے اور میں اس کی مرضی پر راضی برضا ہوں


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا  ابی بن خلف کے ساتھ شرط باندھنا

نبوت کے آٹھویں سال مکہ میں یہ خبر عام ہوئی کہ اہل فارس نے اہل روم پر فتح حاصل کر لی۔ مشرکین اس خبر سے بہت خوش ہوئے، کہنے لگے رومی اہل کتاب ہیں اور فارسی آتش پرست، جس طرح کسری نے قیصر پر لشکر کشی کی ہم بھی محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فوج پر جو اہل کتاب ہے، غالب آئیں گے۔ مسلمانوں کے دل ان کی باتیں سننے سے غمگین ہوتے تھے، پس جبرائیل امین خدا تعالی کے حکم سے یہ پیغام لائے:

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم○ المٓ غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَ○ فِیْ بَضْعِ سِنِیْنَ

مسلمان اس آیت کے اترنے سے خوشی کا اظہار کرتے تھے، نا سمجھ کفار اس صورت حال کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کلمات محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گھڑے ہوئے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے ابی بن خلف کافر کے ساتھ شرط باندھی کہ اگر تین سال تک اور ایک روایت کے مطابق چھ سال تک رومیوں کو غلبہ حاصل ہوا تو  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ دس جوان اونٹ اس لعین سے لے گا اور اگر غلبہ حاصل نہ ہوا تو دس اونٹ اس کو دے گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے صحابہ کو اس شرط کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ کلمہ بضع میں ابہام ہے کیونکہ عرف عرب میں یہ تین یا نو عدد میں استعمال ہوتا ہے۔ پس اس کلمہ کا تعین اور کم از کم مدت مناسب نہیں تھی، کیونکہ ممکن ہے کہ رومیوں کو نو سال کا عرصہ گزرنے سے پہلے غلبہ حاصل نہ ہو اور ایک روایت میں ہے کہ اس مدت کو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا جاؤ، اونٹوں کی تعداد بڑھا دو اور اسی طرح مدت میں بھی اضافہ کر دو۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اس کے پاس گئے اور کہا سالوں کو بھی زیادہ کرتا ہوں اور مال کو بھی، نو سال کی مدت اور سو اونٹوں مقرر ہوئے اور طرفین اس پر راضی ہوئے۔ اس وقت شرط باندھنا حرام نہیں ہوا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس خوف سے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ شہر سے چلے نہ جائیں عبد الرحمن بن ابی بکر کو ضامن مقرر کیا اور جب ابی بن خلف جنگ احد میں شریک ہونے کے لیے گیا تو عبد الرحمن نے کہا ضامن دو، اس نے ضامن دے دیا۔ جنگ احد میں ابی بن خلف حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ہاتھوں مارا گیا۔ صلح حدیبیہ یا غزوہ خیبر کے روز رومیوں کے فارسیوں پر فتح مند ہونے کی خبر پہنچی۔ عبد الرحمن نے ابی بن خلف کے ضامن سے اونٹ لیے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں لایا۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اسے تصرف میں لانے کا حکم دیا۔[


واقعۂ معراج کی تصدیق

ام ہانی بنت ابی طالب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا سے روایت ہے کہ فرمایا: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو معراج میرے گھر میں ہوا، رات وہاں آرام فرمایا، صبح ہوئی تو صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا: اے ام ہانی! آج رات مجھے بیت المقدس لے گئے، وہاں سے آسمانوں پر پہنچایا گیا، صبح سے پہلے واپس لے آئے۔ ام ہانی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میری درخواست ہے کہ اس عجیب بات کو منکروں کے سامنے پیش نہ فرمائیں، وہ یقین نہیں کریں گے اور آپ کو جھوٹا کہیں گے۔ نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: خدا کی قسم! میں اس قصہ کو کسی سے پوشیدہ نہیں رکھوں گا۔ دوسرے ہی دن جب صبح ہوئی اور سورج افق سے طلوع ہوا۔ عبد اللہ بن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ فرماتے ہیں کہ نبی  کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مسجد حرام تشریف لائے اور حجرہ میں غمگین و خستہ خاطر بیٹھ گئے کیونکہ قریش کی تکذیب اور کم ظرفوں کے استہزاء کا خدشہ تھا، اسی خیال میں تھے کہ ابو جہل لعین آیا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے استہزاء کے طور پر کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوئی نئی چیز ظاہر ہوئی ہے اور عجیب و غریب معانی سے کوئی حقیقت حاصل ہوئی؟ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: ہاں، آج میں نے ایک ایسا سفر کیا ہے جو کسی نے نہیں کیا اور ایسی خبر لایا ہوں کہ آج تک کوئی نہیں لایا۔ اس نے کہا کہاں تک کا سفر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس اور پھر وہاں سے آسمانوں کے طبقات تک گیا۔ اس نے کہا آج رات گئے اور صبح مکہ میں تھے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ وہ کہنے لگا ایسی بات کو قوم کے سامنے بیان کریں گے؟ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ ابو جہل چیخ اٹھا اے گروہ بنی کعب اور اے بنی لوی!، لوگ ارد گرد جمع ہو گئے۔ ابو جہل نے کہا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جو کچھ مجھ سے کہا ہے ان لوگوں کے سامنے بھی بیان کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا رات مجھے بیت المقدس لے گئے، پھر وہاں سے آسمانوں پر لے گئے۔ حاضرین حیران رہ گئے اور دست تاسف ملنے گئے، بعض اس کام میں لغو کرنے لگے کیونکہ ان کی ناقص عقلوں میں یہ بات ناممکنات میں سے تھی۔ انہوں نے اسے اس قدر بعید از عقل سمجھا کہ کمزور ایمان مسلمانوں کی ایک جماعت مرتد ہو گئی۔ والعیاذ باللہ من ذلک، ابوجہل  کفار کی ایک جماعت کے ساتھ  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے پاس آیا اور کہا: آپ اپنے ساتھی کے پاس چلیے تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ وہ کیا کہتا ہے۔ ابو بکر نے پوچھا: آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟ ابو جہل نے کہا کہتے ہیں رات مجھے بیت المقدس میں لے گئے حالانکہ رات وہ قوم میں تھے۔ ابو بکر نے پوچھا کیا یہ بات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمائی ہے؟ ابو جہل نے کہا ہاں۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا: کوئی تعجب کی بات نہیں، میں آپ کی آسمانی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں، اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم فرمائیں کہ میں ساتوں آسمانوں سے بھی آگے نکل گیا اور واپس آ گیا تو بھی میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تصدیق کرتا ہوں۔ ابو جہل نے کہا: میں نے کسی ساتھی کو اپنے ساتھی کی اس طرح تصدیق کرنے والا نہیں دیکھا جیسا آپ ہیں، وہ خود بھی یہی دعوی کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی آپ نے فرمایا ہے کہ مجھے رات آسمانوں پر لے جایا گیا ہے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا ہے یا نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: ہاں، میں نے کہا ہے۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے کہا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سچ فرمایا، پھر عرض کی یا رسول اللہ! کیسے ہوا؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے شروع سے آخر تک بیان فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ہر بات ختم کرنے پر کہتے آپ نے سچ فرمایا۔ پھر نبی کریم نے فرمایا: اے ابو بکر! تم میری ہر بات کی تصدیق کرتے ہو۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم! کیسے تصدیق نہ کروں؟ وہ خدا جس نے جبرائیل کو ہزار مرتبہ نیچے اتارا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی زمین سے آسمانوں پر لے جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ثابت اور مقرر ہو گیا کہ سب سے پہلے جس شخص نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے معراج کی تصدیق کی حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  تھے۔ کہتے ہیں کہ اس روز آپ صدیق کے لقب سے ملقب ہوتے اور سب سے پہلے جس شخص نے جھٹلایا اور نبی کریم کی تکذیب کی ابو جہل تھا۔، پس جو شخص معراج کی تصدیق کرتا ہے وہ ابو بکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا پیرو کار ہے اور جو شخص انکار کرتا ہے وہ ابو جہل کی اولاد ہے


عائشہ صدیقہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا کا نکاح اور رخصتی

خدیجہ بنت خویلد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا کی وفات کی وجہ سے نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پریشان رہنے لگے خویلہ بنت حکیم بن عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا اس حالت کو دیکھ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی خدیجہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا دنیا سے رحلت فرما گئیں، گھر کا انتظام بغیر موافق ساتھی کے جو غمگین دل کی تسکین اور گھریلو مہمات کی کفالت کر سکے، حاصل نہیں ہوتا، اب اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پسند فرمائیں تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لیے کسی شریف عورت کا رشتہ طلب کریں۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا خویلہ! عورتوں میں سے وہ کون سی عورت ہے جو اس کام کی لیاقت اور ہمارے ساتھ مناسبت رکھتی ہوں؟

خویلہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے کہا اگر دوشیزہ پسند کریں تو وہ بھی ہے اور اگر ثیب چاہیں تو وہ بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: کون ہے؟خویلہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے کہا: دوشیزہ عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ آپ کے دوست  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بیٹی اور ثیب سودہ بنت زمعہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ جو آپ پر ایمان لا چکی ہیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا: دونوں کا رشتہ میرے لیے مانگ۔ خویلہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا پہلے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے گھر آئیں اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی طرف سے عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا کی خواستگاری کی۔حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو شبہ ہوا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے عقد اخوت باندھا ہے۔ کیا بھائی کی لڑکی کی بھائی سے شادی کی جا سکتی ہے؟خویلہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور مسئلہ پوچھا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: واپس جا کر انہیں کہو کہ میرے اور آپ کے درمیان میں اخوت اسلامی ہے، نسبی اور رضاعی نہیں جو تمہاری بیٹی کی حرمت کا موجب ہو۔خویلہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے پاس آ کر اطلاع دی اور مطمئن کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دل کو پھر ایک اور اندیشہ نے آ پکڑا کہ مطعم بن عدی نے اپنے بیٹے کے لیے عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا رشتہ مانگا ہوا ہے اور انہوں نے قبول کر لیا ہے، اس کے ساتھ وعدہ تھا اور  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی تھی۔ اس وجہ سے خویلہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو کہا تو اسی جگہ ٹھہر اور خود مطعم کے گھر گئے۔ مطعم کی بیوی نے جب  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو دور سے دیکھا کہا: اے ابو بکر! کیا تو اس بات کی امید رکھتا ہے کہ ہمارے لڑکے کو ہمارے دین سے پھیر دے گا اور اسے مسلمان کر لے گا، اسے اپنی لڑکی دے گا یہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے معطم سے پوچھا کیا تو بھی اسی طرح کہتا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اسے غنیمت جانا اور وہاں سے گھر آئیں اور خویلہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے کہا: رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کہو کہ وہ تشریف لے آئیں۔خویلہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ آئیں اور حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بلایا۔آپ تشریف لے آئے اور عائشہ سے نکاح کیا۔ اس وقت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا کی عمر مبارک چھ سال تھی اور آپ کی رخصتی سن ہجری کے پہلے سال ہوئی۔بعث کے دسویں سال ماہ شوال میں نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اور عائشہ صدیقہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا  کا عقد نکاح منعقد ہوا]

مشہور روایت کے مطابق عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کی رخصتی ماہ شوال 1ھ چار شنبہ کے روز ہوئی۔ نبی پاک  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے گھر تشریف لائے۔ انصار کے مردوں اور عورتوں کی ایک تعداد وہاں جمع ہو گئی۔ اس وقت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا کی عمر نو سال تھی۔ عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا بیان کرتی ہیں کہ ان دنوں ہم محلہ شیخ بنی الحارث میں رہتے تھے۔ ایک روز آپ تشریف لائے تو میں سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ میری والدہ نے آ کر میرے بالوں میں کنگی کی، منہ دھویا اور مجھے کھینچتے ہوئے اس مکان کے دروازہ تک لے گئی جہاں سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تشریف فرما تھے۔ چونکہ میں نے والدہ کے ہاتھ میں بے چینی کا اظہار کیا تھا میرا سانس پھول گیا۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد مجھے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں لے گئی۔ آن کو میں نے اس تخت پر جو ہمارے گھر میں تھا بادشاہ کی مانند تشریف فرما دیکھا، مجھے لے جا کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی گود میں بیٹھا دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یہ آپ کی بیوی ہے۔ حق تعالی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لیے اس پر اور اس کے لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر برکت نازل فرمائے، ہمارے پاس دعوت ولیمہ کے لیے کچھ نہیں تھا اور نہ ہی اونٹ یا بھیڑ بکری ذبح کی، ہماری عروسی کا طعام دودھ کا ایک پیالہ تھا جو سعد بن عبادہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے گھر سے بھیجا گیا تھا، عورتوں کی ایک جماعت کے ساتھ جو موجود تھیں اس دودھ میں سے ہم نے پیا، پھر حاضرین نے مبارک دی اور باہر چلے گئے اور مبارک وقت میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا کا نبی کریم ﷺ سے زخاف ہوا۔ اس خاص حجرہ میں جو مسجد کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا قیام کیا اور اس جگہ آپ ﷺ نے ظاہری وصال فرمایا


 اُم جمیل  کے ساتھ مکالمہ

جب سورہ لہب نازل ہوئی جس میں ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جب ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے سنا کہ اس کے خاوند اور اس کے متعلق آسمان سے سورت اتری ہے تو غصہ میں آپے سے باہر ہو گئی۔ ایک بہت بڑا پتھر لے کر وہ حرم کعبہ میں گئی۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نماز میں تلاوت قرآن فرما رہے تھے اور قریب ہی احضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بیٹھے ہوئے تھے۔ ام جمیل بڑبڑاتی ہوئی آئی اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس سے گزرتی ہوئی  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے پاس آئی اور مارے غصہ کے منہ میں جھاگ بھرتے ہوئے کہنے لگی کہ بتاؤ تمہارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کہاں ہیں؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے میری اور میرے شوہر کی ہجو کی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے فرمایا کہ میرے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم شاعر نہیں ہے کہ کسی کی ہجو کریں۔ پھر وہ غیظ و غضب میں بھری ہوئی پورے حرم میں چکر لگاتی رہی اور بکتی جھکتی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ڈھونڈتی رہی۔ مگر جب وہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نہ دیکھ سکی تو بڑبڑاتی ہوئی حرم سے جانے لگی اور  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے کہنے لگی کہ میں تمہارے رسول کا سر کچلنے کے لیے یہ پتھر لے کر آئی تھی مگر افسوس کہ وہ مجھے نہیں ملے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے وہ کئی بار گذری مگر میرے اور اس کے درمیان میں ایک فرشتہ حائل ہو گیا کہ آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود وہ مجھے نہ دیکھ سکی۔ اس واقعہ کے متعلق سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 45 نازل ہوئی 


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ پر  کفار کی مزید  ایذا رسانیاں

جناب ابو طالب اور خدیجہ بنت خویلد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُا ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پشتیبان رہے۔ ان کی وفات کے بعد مشرکین قریش کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ آپ پر ظلم کرنے میں بہت دلیر ہو گئے۔ اسی سال حضور تبلیغ حق کے لیے طائف تشریف لے گئے۔ اہل طائف آپ کے ساتھ نہایت بد سلوکی سے پیش آئے جس کے نتیجے میں آپ بہت زخمی ہو گئے۔ وہاں سے مکہ واپس آ کر آپ نے معمول کے مطابق نہایت تندہی سے اسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ مشرکین نے کئی بار نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر دست تعدی دراز کیا اور آپ کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ارباب سیر نے اس قسم کے چند واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے آڑے آئے اور خود مار کھائی لیکن حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو چشم زخم نہیں پہنچنے دیا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کعبہ میں مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ یکایک عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھا اور اس نے آپ کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر بل دینا شروع کر دیا تا کہ گلہ گھونٹ کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو شہید کر ڈالے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ آ پہنچے انہوں نے دھکا دے کر عقبہ کو پیچھے ہٹا دیا اور قرآن کی آیت پڑھی 

أَتَقۡتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ ٱللَّهُ وَقَدۡ جَآءَكُم بِٱلۡبَيِّنَٰتِ مِن رَّبِّكُمۡۖ 

 کیا تم ایک شحض کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وه کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے - بخاری

مشرکین حضور کو چھوڑ کر حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ پر ٹوٹ پڑے اور آپ کو مار مار کر لہولہان کر دیا۔


مسند نبرار میں علی المرتضی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مشرکین نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو گھیر لیا۔ وہ آپ کو گھیسٹتے اور دھکے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تم ہی وہ شخص ہو جو صرف ایک معبود کی پرستش کا حکم دیتے ہو۔ علی فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو مشرکین کے مقابلہ کی ہمت نہ پڑی لیکن حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  (مردانہ وار) آگے بڑھے، مشرکین کو مارتے پیٹتے گراتے اور ہٹاتے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم تک جا پہنچے اور آپ کو ان ظالموں کے نرغے سے نکال لیا، اس وقت بھی آپ کی زبان پر یہ آیت تھی 

أَتَقۡتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ ٱللَّهُ وَقَدۡ جَآءَكُم بِٱلۡبَيِّنَٰتِ مِن رَّبِّكُمۡۖ 

 کیا تم ایک شحض کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وه کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے

اب مشرکوں نے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو پکڑ لیا اور آپ کے سر اور داڑھی کے بہت سے بال نوچ ڈالے اور بری طرح مجروح کر دیا۔

ابن ہشام اور ابن جریر طبری نے عبد اللہ بن عمر سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد حرام میں قدم رکھا تو مشرکین قریش نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور کہنے لگے:

تم ہی ہمارے بتوں کی عیب گیری کرتے ہو اور ہمارے مذہب کو برا کہتے ہو۔

آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں ہی کہتا ہوں۔ اتنے میں ایک شخص نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی روائے مبارک کو گریبان کے پاس سے مٹھی میں لے لیا۔ یہ دیکھ کر  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ روتے ہوئے آگے بڑھے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو کفار کے پنجۂ ستم سے چھڑایا، اس وقت بھی حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی زبان پر یہی آیت تھی 

أَتَقۡتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ ٱللَّهُ وَقَدۡ جَآءَكُم بِٱلۡبَيِّنَٰتِ مِن رَّبِّكُمۡۖ 

 کیا تم ایک شحض کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وه کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے


 سفرِ ھجرت میں رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وآلی وسلم کی  ھم رکابی کا شرف

جب قریش پر نبی کریم ﷺ کے ساتھ اہل مدینہ کے عہد و پیمان ظاہر ہو گئے تو انہوں نے ازسر نو مسلمانوں پر دست تعدی دراز کر دیا۔ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے صحابہ کے لیے مکہ میں ٹھہرنے کی کوئی صورت باقی نہ رہ گئی تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے دوستوں سے فرمایا کہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر جائیں، وہ یکے بعد دیگرے ہجرت کرنے لگے، 

 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے مکہ سے ہجرت کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا کہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلا جائے آپ نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا: اے ابا بکر! صبر کیجئے۔ امید ہے مجھے بھی ہجرت کی اجازت مل جائے گی۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس کے امید وار ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے عرض کی یا رسول اللہ! صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مجھے ہمرکابی کا شرف نصیب ہو۔ آپ نے فرمایا ہاں ساتھ چلو۔ اس بشارت کے بعد ارادہ ملتوی کر دیا اور چار ماہ تک منتظر رہے۔اپ نے دو اونٹ خریدے ایک نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خاطر چار سو درہم میں اور واقدی کی ایک روایت کے مطابق آٹھ سو درہم میں اور ایک اپنے لیے خریدا۔ ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے اور چارہ کھلاتے رہے تا کہ خوب موٹے تازے ہو جائیں۔


ابو قحافہ عثمان بن عامر کا قبول اسلام

سیدنا اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر مقام ذی طوی میں ٹھہرے ہوئے تھے، اس دن ابو قحافہ نے جو نابینا تھے، اپنی چھوٹی بیٹی سے کہا: اے بیٹی مجھے جبل ابی قبيسپر لے چلو۔ جب ابو قحافہ جبل ابی قبیس پر پہنچے تو پوچھا: اے بیٹی تم اس وقت کیا دیکھ رہی ہوں؟ اس نے کہا: میں لوگوں کا ہجوم دیکھ رہی ہوں۔ ابو قحافہ نے کہا: یہ گھڑ سوار ہیں۔ لڑکی نے کہا: ایک آدمی اس ہجوم کے آگے آگے دوڑ رہا ہے۔ ابو قحافہ کہنے لگے: بیٹی! یہ گھڑ سواروں کا قائد ہے۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی نے کہا: سارے گھڑ سوار بکھر گئے ہیں۔ ابو قحافہ نے کہا: جب گھڑ سوار آگے بڑھنے لگے تو مجھے فوراً گھر لے چلنا۔ لڑکی انہیں لے کر گھر کی طرف چل دی۔ مگر گھڑ سواروں نے ابو قحافہ کو ان کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی پا لیا۔ لڑکی کے گلے میں چاندی کا ایک ہار تھا جسے ایک آدمی نے اتار لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو مسجد حرام میں جلوہ افروز ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اپنے والد ماجد ابو قحافہ کو لے کر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کو دیکھا فرمایا: تم نے انہیں گھر ہی میں کیوں نہ رہنے دیا؟ میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کہنے لگے: اے للہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میرے والد اس بات کے مستحق تھے کہ وہ آپ کی خدمت میں چل کر آتے بجائے اس کے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے انہیں اپنے سامنے بیٹھا لیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اپنا دست مبارک ان کے سینے پر پھیرا اور فرمایا: مسلمان ہو جائیے۔ ابو قحافہ فوراً مسلمان ہو گئے۔ سیدنا اسماء کہتی ہیں کہ جب میرے والد  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  اپنے والد ابو قحافہ کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس لے کر گئے تو ان کے سر کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے احضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے فرمایا: ان کے بالوں کا رنگ بدل دیجیے۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر کھڑے ہو گئے اور پوچھنے لگے: میں اللہ تعالی اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میری بہن کا ہار کس کے پاس ہے؟ کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا تو سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اپنی بہن سے کہا: اے میری بہن! اپنے ہار کے بدلے ثواب کی امید رکھ کیونکہ آج امانتوں پر لوگوں کی توجہ نہیں یعنی جیش کی کثرت اور لوگوں کے انتشار کی وجہ سے کسی پر ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی


بیعتِ خلافت

نبی کریم ﷺ کے انتقال کے بعد آپ کے جانثار صحابہ کی پر جو کفیت طاری ہوئی وہ قدرتی تھی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ بعضوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ آپ ﷺ کا انتقال ہی نہیں ہوا ان کا یہ کہنا فرط محبت کے سبب تھا نہ کہ نا فہمی سے۔ اسی اثنا میں انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔ ان کا دعوی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بعد استحقاق خلافت انصار کو حاصل ہے۔ کیونکہ انہوں نے دین کی مدد کی۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اپنے یہاں ٹھہرایا ان کے ساتھ ہو کر اعداء دین سے لڑے لیکن وہ مہاجرین جو سقیفہ بنی ساعدہ اسی وقت پہنچ گئے تھے انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ چنانچہ فریقین بحث و تکرار شروع ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ اس کی اطلاع حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ و حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کو ہوئی۔ یہ دونوں بزرگ مع ابو عبیدہ بن جراح  رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سقیقہ روانہ ہوئے۔ اثنا راہ عاصم بن عدی و عویم بن سامدہ سے ملاقات ہو گئی، انہوں نے ان کو روکنے کا قصد کیا لیکن وہ لوگ ان کے روکنے سے نہ رکے۔ جس قدر جلد ممکن ہو سکا، سقیقہ میں جہاں پر انصار جمع تھے جا پہنچے اور باہم مباحثہ ہونے لگا۔ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے وھاں تقریر کی اور کہا کہ  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ہم لوگ سابقین اولین میں ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ مکہ میں  رہے کفار کے ہاتھوں ایذائیں اٹھائیں۔ پھر انہیں کے ہمراہ ہجرت کی۔ تم لوگ اس بارے میں ہم لوگوں سے بحث نہ کرو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تم کو حق و نصرت نیز سابق الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بایں لحاظ ہم لوگ امرا ہیں اور تم وزراء ہو۔حباب بن منذر بن الجوع: مناسب یہ ہے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے ہو یہ کہہ کر انصار کی طرف مخاطب ہو کر کہا " اے گروہ انصار اگر مہاجرین اس سے انکار کریں تو ان کو تم اپنی تلواروں سے اپنے شہر سے نکل باہر کرو، دین کی اشاعت ہمارے ذریعہ سے ہوئی ہے، ہم لوگ خلافت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے مستحق ہیں۔ لیکن بخیال رفع نزاع ہم کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک امیر ہو اور ایک ہم میں سے۔" عمر بن خطاب: تم کو خوب یاد ہو گا کہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ہم کو تمہارے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے اور اگر تم کو استحقاق امارت ہوتا تو آن تم کو وصیت کرتے۔ عمر فاروق اس قدر کہنے پائے تھے کہ حباب بن المنذر اٹھ کر بحث کرنے لگے اور دونوں آدمیوں میں زور زور سے باتیں ہونے لگیں۔ ابو عبیدہ ان دونوں بزرگوں کو روک رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ اے گروہ انصار اللہ سے ڈرو تم لوگ وہ ہوں جنھوں نے سب سے پہلے آن کی مدد کی۔ پس اب تم سب سے پہلے ان لوگوں میں سے نہ بنو۔ جنھوں نے اپنے طبائع کو متبدل و متغیر کر دیا ہو۔ بشیر بن سعد بن النعمان بن کعب بن الخزرج: بے شک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم قبیلہ قریش سے تھے اور ان کی قوم امارت و خلافت کی زیادہ مستحق ہے اور ہم لوگ اگرچہ انصار دین سابق الاسلام ہیں۔ لیکن اس اسلام سے ہمارا مقصد اللہ تعالی کا راضی رکھنا تھا اور اس کی اطاعت مدنظر تھی۔ اس کا معاوضہ ہم دنیا میں نہیں چاہتے اور نہ اس بابت ہم مہاجرین سے جھگڑا کرنا چاہتے ہیں۔ حباب بن المنذر: اے بشیر تو نے واللہ بڑی بزدلی ظاہر کی تو نے سارا کارخانہ ہی درہم برہم کر دیا۔ بشیر: نہیں، نہیں میں نے بزدلی سے اپنا خیال ظاہر نہیں کیا۔ بلکہ مجھے یہ بات ناگوار معلوم ہوئی کہ میں امارات و خلافت کے لیے ایسی قوم سے نزاع کرو جو اس کی مستحق ہے۔ کیا تو نے نہیں سنا کہ محمد نے فرمایا 

تمام خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔

اس کلام کے تمام ہوتے ہی دو چار انصار و مہاجرین نے اس کی تصدیق کر دی، جس سے حباب بن المنذر کا خیال بدل گیا اور دفعتہ وہ شوروغل جو اس مجع میں امارت کے سلسلے میں برپا تھا بالکلیہ رفع ہو گیا۔ سب کے سب ایک خاموشی کی حالت میں ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ و  حضرت ابو عبیدہ  رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی طرف بیعت کا اشارہ کیا۔ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے کہا کہ میں ہرگز بیعت نہ لوں گا جب تک حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اموجود ہیں۔  حضرت ابوعبیدہ  رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ تب بشیر بن سعد نے اٹھ کر سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اکے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر عمر و ابو عبیدہ نے پھر اوس نے کیونکہ یہ خزرج کی امارت سے کبیدہ خاطر تھے۔ انہیں لوگوں میں اسید بن حضیر بھی تھے۔ ان کے بعد بیعت کرنے والے چاروں طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اکی بیعت پر امنڈے چلے آتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسی ہی کثرت ہو گئی کہ تل رکھنے کی جگہ نہ ملتی تھی۔ سعد بن عبادہ ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے کسی نے ان کے ہمراہیوں میں سے کہا دیکھو کہیں سعد اس کشمکش میں دب کر نہ مر جائے۔ عمر نے جواب دیا کہ اس کو اللہ تعالی ہی نے مارا ہے۔ سعد یہ بات سن کر اٹھ کر ان سے دست بگریباں ہو گئے۔ عمر کو بھی غصہ آ گیا لیکن حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے روکنے سے رک گئے۔ جب سب لوگ بیعت کر چکے تو سعد کو بیعت کرنے کے لیے کہا گیا سعد نے بیعت سے انکار کر دیا۔ بشیر نے کہا یہ تن تنہا آدمی ہیں ان سے درگزر کرو اور ان کی ان کی حالت میں رہنے دو۔ پس سعد اس واقعہ کے بعد نہ تو ان کے ساتھ نماز میں شریک ہوتے اور نہ ہی ان سے ملتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا انتقال ہو گیا۔ علامہ طبری نے لکھا ہے کہ سعد نے بھی تھوڑی دیر کے بعد اسی دن  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہاتھ بیعت کر لی تھی اور بعضون نے کہا ہے کہ اس واقعے کے بعد سعد شام کی طرف چلے گئے اور وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ انتقال ہو گیا۔


حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی علالت و وفات 

سیف  و حاکم نے ابن عمر سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ   کی موت کی اصل سبب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا وصال فرمانا تھا اس صدمہ میں آپ کا جسم گھلنے لگا اور یہی آپ کی وفات کا باعث ہوا۔ ابن سعد و حاکم نے ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ (آپ کی موت کا ظاہر سبب یہ تھا کہ) آپ کے پاس کسنی نے تحفتہً خزیرہ (قیمہ جس میں دلیہ پڑا ہو) بھیجا تھا، آپ اور حارث بن کلدہ دونوں کھانے میں شریک تھے (کھانا کھا رہے تھے) حارث نے کہا کہ اے خلیفہ رسول اللہ ہاتھ روک لیجئے (اسے نہ کھایئے) کہ اس میں زہر ہے اور یہ وہ زہر ہے جس کا اثر ایک سال میں نمایاں ہوتا ہے، آپ دیکھ لیجئے گا کہ ایک سال کے اندر اندر میں اور آپ ایک ہی دن مر جائیں گے۔ یہ سن کر آپ نے ہاتھ کھینچ لیا لیکن زہر اپنا کام کر چکا تھا اور یہ دونوں اسی دن سے بیمار رہنے لگے اور ایک سال گزرنے کے بعد (اسی زہر کے اثر سے) ایک ہی دن میں انتقال کر گئے۔ حاکم کی یہ روایت شعبی سے ہے کہ انہوں نے کہا اس دنیائے دوں سے ہم بھلا کیا توقع رکھیں کہ رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بھی زہر دیا گیا اور حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو بھی۔ واقدی اور حاکم نے بروایت عائشہ صدیقہ بیان کیا ہے کہ والد علالت کی ابتدا اس طرح سے ہوئی کہ آپ نے سات جمادی الآخر بروز دو شنبہ کو غسل فرمایا اس روز سردی تھی پس آپ کو بخار ہو گیا اور پندرہ روز تک آپ علیل رہے اس عرصہ میں آپ نماز کے لیے بھی باہر تشریف نہ لا سکے آخر کار اسی بخار کے باعث 63 سال کی عمر میں شب شنبہ 22 جمادی الآخر 13 ہجری آپ نے انتقال فرمایا۔ ابن سعد اور ابن ابی الدنیا ابی السفر سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کی علالت کے زمانے سے لوگ آپ کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول اللہ اجازت ہو تو ہم آپ کے لیے طبیب کو لائیں۔ آپ نے فرمایا مجھے طبیب نے دیکھا ہے، عرض کیا کہ طبیب نے کیا کہا آپ نے فرمایا کہتا ہے انی فعال لما یرید (میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں)۔



حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی ازواج و اولاد

مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ   نے اپنی زندگی میں پانچ شادیاں کیں۔


ازواج

ام بکر

قبیلہ بنو کلب سے تھیں۔ چونکہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  انے نے ہجرت سے پہلے ان کو طلاق دے دی تھی۔


قتیلہ بن عبد العزی

جب حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا اس لیے  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے ان کو بھی طلاق دے دی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے بڑے صاحزادے عبد اللہ اور بڑی صاحبزادی اسما ان کے بطن سے پیدا ہوئے۔ 


ام رومان

آپ کا شمار بڑی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ کنانہ کے خاندان فراس سے تھا۔ پہلے شوہر کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے ان سے خود نکاح کر لیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی صلب سے ام رومان کے ہاں عائشہ صدیقہ اور عبد الرحمن بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ   نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے بھی بلا تامل ان کی تقلید کی اور یوں آپ سابقون الاولون کی مقدس جماعت میں شامل ہو گئیں


اسما بنت عمیس

 آپ کا پہلا نکاح جعفر طیار سے ہوا جس سے تین بیٹے عبد اللہ عون اور محمد پیدا ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد آپ کا دوسرا نکاح حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  سے ہوا جس سے ایک بیٹا محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ   کی وفات کے بعد آپ نے علی المرتضی سے نکاح کیا جس سے ایک بیٹا یحیی پیدا ہوئے۔ آپ نے دو ہجرتیں کی تھیں۔ پہلی جعفر طیار کے ساتھ ملک حبشہ پھر ادھر سے مدینہ منورہ کی طرف۔ آپ کی وفات حضرت علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی شہادت کے بعد 40 ہجری میں ہوئ


حبیبہ بن خارجہ

آپ  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے مواخاتی بھائی خارجہ انصاری کی بیٹی تھیں۔ ان سے نکاح کرنے کے بعد  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  سخ میں انہی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے بطن سے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی بیٹی ام کلثوم حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ   کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی وفات کے بعد آپ نے اساف بن عتبہ بن عمرو سے نکاح کر لیا تھا۔


اولاد

 حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی اولادیں چھ تھیں جن میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں شامل تھیں۔


عبد اللہ بن ابی بکر

آپ سیدنا  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ آپ قتیلہ بن عبد العزی کے بطن سے پیدا ہوئے اور حضرے اسماء کے حقیقی بھائی تھے۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے جب اسلام قبول کیا تو آپ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ہجرت مدینہ کے وقت اپنے والد ماجد اور نبی کریم کی خدمت میں مشغول رہے۔ آپ کے سپرد یہ کام تھا کہ دن بھر کی قریش کی جو خبریں ہوتی تھی وہ شام کو غار ثور میں پہنچا دیں۔ آپ نے ام رومان، عائشہ اور اسما کو لے کر مدینہ کی طرف ہجرت اس وقت فرمائی جب نبی کریم بخیر و عافیت مدینہ پہنچ گئے۔ آپ فتح مکہ اور غزوہ حنین و غزوہ طائف میں شریک رہے۔ غزوہ طائف میں آپ کو ایک تیر لگا تھا جس سے شدید زخم پہنچا جو علاج معالجہ کے بعد مندمل ہو گیا تھا لیکن حضور اکرم کے وصال کے چالیس روز بعد پھر پھوٹ پڑا جس سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔آپ کے والد ماجد نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ نے عاتکہ سے نکاح کیا تھا جس سے ایک بیٹا اسماعیل پیدا ہوا جو کم سنی ہی میں وفات پا گیا اور آپ کی نسل آگے نہیں چلی


عبد الرحمن بن ابی بکر

آپ  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپ ام رومان کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ آپ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں مشرکین کے ساتھ تھے۔ آپ نے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں اسلام قبول کیا اور نبی کریم نے آپ کا نام عبد الکعبہ سے بدل کر عبد الرحمن رکھ دیا۔ آپ ایک ماہر تیر انداز تھے، زمانہ جہالیت اور قبول اسلام کے بعد بھی بے شمار معرکوں میں اپنے جوہر دکھائے۔ آپ کے ہاں تین بچے محمد، عبد اللہ اور حفصہ تولد ہوئے۔ آپ کی وفات میں اختلاف ہے۔ بعض آپ کا سنہ وفات 53 ہجری بعض 56 ہجری 58 ہجری بیان کرتے ہیں۔ آپ کے بیٹے ابو عتیق محمد کو بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔


محمد بن ابی بکر

آپ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ آپ کی والدہ اسماء بنت عمیس ہیں۔ آپ کی پیدائش دس ہجری ذیقعدہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر ہوئی۔ جب اسماء نے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی وفات کے بعد حضرت علی  رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  سے نکاح کیا تو آپ بھی ان کی سایہ عاطفت میں آ گئے اور آغوش مرتضوی میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ حضرت  علی  رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  نے آپ کو اپنے عہد خلافت میں مصر کا گورنر بنایا۔ مصر پر جب عمرو بن العاص نے حملہ کیا تو آپ نے ان کا پر زور مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی اور گرفتار ہو گئے۔ معاویہ بن خدیج نے آپ کو قتل کر دیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کو گدھے کی کھال میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ کو آپ کی شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے  سخت دکھ کر اظہار کیا اور آپ کے بیٹے قاسم کو اپنی آغوش شفقت میں لے لیا۔ یہ عائشہ کی تعلیم و تربیت کا اثر تھا کہ قاسم اپنے دور کے بہت بڑے فقہیہ بن گئے اور فقہائے سبعہ میں شمار ہونے لگا



اسماء بنت ابی بکر

آپ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ   کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں۔ آپ ہجرت مدینہ سے ستائیس سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا نکاح عشرہ مبشرہ میں شامل صحابی رسول زبیر بن عوام سے ہوا جن سے عبد اللہ بن زبیر تولد ہوئے۔ عبد اللہ بن زبیر کو پیدائش کے بعد نبی کریم کی بارگاہ میں لایا گیا۔ حضور نے ایک کھجور منگوا کر اسے چبایا اور پھر اسے عبد اللہ کے منہ میں ڈال دی۔ عبد اللہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مدینہ منورہ میں مہاجرین کے یہاں پیدا ہونے والے پہلے بچے ہیں۔ اسما کا وصال اپنے بیٹے عبد اللہ کی شہادت کے بیس روز بعد ہوا۔ آپ کے ہاں عبد اللہ کے علاوہ عروہ، منزر، عاصم، مہاجر، خدیجہ ام الحسن اور عائشہ تولد ہوئے۔


ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر

آپ  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی دوسری صاحبزادی ہیں۔ آپ کی پیدائش بعث نبوی کے پانچ سال بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ کا نام ام رومان ہے۔ ام المومنین خدیجہ بنت خویلد کے وصال کے بعد آپ حضور نبی کریم ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ نکاح کے وقت آپ کی عمر مبارک چھ سال اور رخصتی نو سال کی عمر مبارک میں ہوئی۔ آپ کا شمار رسول اللہ کی لاڈلی بیویوں میں ہوتا تھا۔ حضور نبی کریم کے وصال مبارک بھی آپ کی گود مبارک میں ہوا اور پھر آپ کے حجرہ مبارک میں نبی کریم کا مدفون ہوا۔ نبی کریم کے وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک صرف اٹھارہ برس تھی۔ آپ نے سترہ رمضان المبارک 59 ہجری میں اس جہان فانی سے کوچ فرمایا اور جنت البقیع میں مدفن ہوئیں۔


ام کلثوم بنت ابی بکر

آپ حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں اور آپ کی پیدائش اپنے والد ماجد کے وصال کے بعد ہوئی۔  حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ  کی اولاد میں صرف آپ کا شمار تابیعین میں ہوتا ہے۔ آپ حبیبہ بن خارجہ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ آپ کی پرورش ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ  رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا   کے زیر سایہ ہوئی۔ آپ کا پہلا نکاح طلحہ بن عبید اللہ سے ہوا۔ ان کی شہادت کے بعد آپ کا دوسرا نکاح عبد الرحمن بن عبد اللہ بن ربیعہ سے ہوا۔

جاری ھے ۔۔۔۔۔۔۔

Share: