قسط نمبر (40) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

علی الاعلان تبلیغ کا حکم اور خطبۂ کوہِ صفا 

قرابت داروں کو تبلیغ کے حکم پر جب عملدراۤمد ہوگیا تو  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  پر سورۃ الحجر کی  درج ذیل اۤیت  مبارکہ نازل ہوئی:

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ O

سو تو کھول کر سنا دے جو تجھے حکم دیا گیا ہے اور مشرکوں کی پرواہ  نہ کر

خاندان عبدالمطلب کو دین حق کی دعوت دینے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے اعلانیہ تبلیغ کا حکم مل گیا تو ایک روز آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور خطبہ ارشاد فرمایا جو  خطبۂ کوہِ صفا کے نام سے معروف ھے 

سرکار دو عالم  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمام صفات عالیہ کامظہر اتم مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو اتنا متاثر کن ہے کہ جسے بھی چھیڑا جائے وہی حرف آخر لگتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے  آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو جوامع الکلام عطا فرمائے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی  گفتگو کا ایک ایک لفظ دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والا ہے۔آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی ہر بات دل موہ لینے والی ہے۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا  ھے ”پیغمبر کی بات، باتوں کی پیغمبر ہوتی ہے“ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ارشادات کی حقانیت مرورِ زمانہ کے ساتھ کمزور نہیں پڑی بلکہ ہمیشہ کی طرح  آج بھی ترو تازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انسانیت کی ہدایت کے لیے ہزاروں نہیں لاکھوں فرامین زبان حق ترجمان سے ارشاد فرمائے۔ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے خطبات آج بھی اس اندھیری دنیا  میں روشنی بکھیر رھے ھیں  ۔ خطبۂ کوہِ صفا ہو کہ خطبۂ حجۃ الوداع ھو  یا کوئی بھی اور خطبہ،  ہر ایک متلاشیان حق کے لیے باعث ہدایت بھی ہیں اور باعث تسکین قلوب بھی۔ خطبۂ  کوہِ صفا کی  اہمیت و افادیت و اثرات  کو محدثین ، مفسرین ، سیرت نگار اور مؤرخین  بہت اھتمام سے زیر بحث لاتے ھیں اس خطبہ کی اھمیت کے لئے یہی  کافی ھے کہ اس خطبہ کو تمام مفسرین، محدثین اور مؤ رخین نے اپنی مصنفات کا حصہ بنایا ہے۔ یہ ایک مختصر  اور جامع خطبہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا تھا اسی وجہ سے اہل علم نے اسے ”خطبۂ کوہِ صفا“ کا نام   دیا ھے اس موقعہ پر  آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کوہِ صفا پر چڑھے 

اور  بلند آواز سے پکارا

"یا صبا حاہ ! یا صبا حاہ !

(ہائے صبح کا خطرہ ! ہائے صبح کا خطرہ !)"

اہل عرب کا  یہ دستور تھا کہ دشمن کے حملے یا کسی سنگین خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے کسی بلند مقام پر چڑھ کر انہی الفاظ سے پکارتے تھے اور یہ نعرہ شدید خطرہ کے وقت لگایا جاتا تھا.

 اُس زمانے میں عربوں کی  یہ بھی روایت تھی کہ وہ  رات کے اندھیرے میں دشمن پر شب خون نہیں مارا کرتے تھے بلکہ کسی پر حملہ کرنے کے لئے صبح کا وقت مقرر تھا. اسی لئے عرب  رات میں  اطمینان سے ہتھیار کھول دیتے تھے گویا یہ نعرہ لگانے کا مطلب صبح کا حملہ سمجھا جاتا تھا.

اس کے بعد آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے قریش کی ایک ایک شاخ اور ایک ایک خاندان کو آواز لگائی۔ اے بنی فہر ! اے بنی عدی ! اے بنی فلاں اوراے بنی فلاں ! اے بنی عبد مناف ! اے بنی عبد المطلب !

جب لوگوں نے یہ آواز سنی تو  ایک دوسرے سے پوچھا  کہ یہ کون پکار رہا ہے ؟ جواب ملا  یہ صادق اور آمین محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آواز ھے  ،اس پر لوگ تیزی سے کوہِ صفا کی طرف آئے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی خود نہ آسکا تو اُس نے بھی اپنا آدمی بھیج دیا تاکہ جا کر دیکھے کیا بات پیش آئی ہے۔ یوں قریش کے سب لوگ تیزی سے کوہِ صفا کے دامن میں جمع ہو گئے۔ ان جمع ھونے والوں میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کا سگا چچا ابولہب بھی موجود تھا

 جب سب لوگ جمع ھوگئےتو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  خطبہ ارشاد فرمایا. آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا 

"اگر میں (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم) تم  لوگوں سے  یہ کہوں   کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکرِ جرار  چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ میری بات کا یقین کر لو گے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ! ہاں ! ہم یقیناً  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات کا یقین کر لیں گے کیونکہ ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کھبی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو صادق (سچا)  اور آمین  ہی پایا ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا.

"اچھا تو میں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں. میری اور تمہاری مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے دشمن کو دیکھا. پھر اس نے کسی اونچی جگہ چڑھ کر اپنے خاندان والوں پر نظر ڈالی تو اسے اندیشہ ہوا کہ دشمن اس سے پہلے پہنچ جائے گا لہٰذا اس نے وہیں سے پکار لگانی شروع کردی.."یا صبا حاہ !"

اے قریش کے لوگو ! اپنے آپ کو اللہ کے عذابِ جہنم سے بچالو.میں تمہارے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا , نہ تمہیں اللہ کے عذاب سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں.

بنو کعب بن لؤی ! بنو مرہ بن کعب ! بنو قصی ! بنو عبد مناف ! بنو عبد شمس ! بنو ہاشم ! بنو عبد المطلب ! اپنے آپ کو جہنم سے بچالو کیونکہ میں تمہارے نفع ونقصان مالک نہیں اورنہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں. تم سب لَا اِلٰہ اِ لاَّ اللہ کے قائل ہو جاؤ ورنہ تم پر شدید عذاب نازل ہوگا.. "

 نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے جب کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر اپنا تاریخی خطاب مکمل کر کے سکوت اختیار فرمایا تو وادئ صفا میں مجتمع جم غفیر پر سکتہ طاری ہوگیا، لوگ ایک دوسرے کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھنے لگے تب ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید ابھی لوگ  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی تائید میں بول پڑیں گے۔ سردارانِ قریش بھی، جو اُس وقت وہاں حاضر تھے اس ’’خطرے‘‘ کو  محسوس کر رہے تھے۔ قبل اس کے کہ مجمع میں سے کوئی کچھ بولتا ابو لہب جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا چچا بھی تھا آگے بڑھا اور چلّایا ’’بس بس اے بھتیجے! ہم نے تیری باتیں سن لی ہیں، کیا تو نے یہی سب بتانے کے لیے ہم لوگوں کو یہاں بلایا تھا؟ ہمیں تیری دعوت قبول نہیں‘‘۔ دوسرے سردار بھی ابو لہب کی تائید میں بولنے لگے۔ پھر انہوں نے لوگوں کو یہاں سے واپس چلنے کا اشارہ کیا۔ لوگ اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ رخصت تو ہو رہے تھے مگر ان میں بہت سوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ یہ لوگ محمد بن عبداللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی اس قدر مخالفت آخر کیوں کر رہے ہیں انہوں نے ان کا کیا بگاڑا ہے؟ وہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اللہ کے اکیلے معبود ہونے کی تو بات کر رہے ہیں۔ لوگوں کو برے کاموں سے باز رہنے، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنے، کمزوروں پر ظلم نہ کرنے کی بات کوئی بری بات تو نہیں ہے۔ عورتوں کو معاشرے میں عزت واحترام کے ساتھ رکھنے کا حکم دینا کیا غلط کام ہے۔ ایک اللہ کو چھوڑ کر سینکڑوں  خانہ ساز بتوں کی پرستش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟

اس موقعہ پر ابو لہب لعین  نے یہ گستاخی  بھی کی کہ غصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مارنے کے لئے پتھرا ٹھایا اور بدتمیزی  کرتے ھوئے  زبان سے یہ زہر آلود  الفاظ  بھی کہے : ’’تَبًّا لَکَ‘ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا؟‘‘ (آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ہاتھ ٹوٹ جائیں‘ کیا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اس کام کے لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟) نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ! اس  کے ان الفاظ کے جواب میں  سورۂ اللہب نازل ہوئی.

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

تَبَّتْ يَدَآ اَبِىْ لَـهَبٍ وَّتَبَّ (1) 

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا۔

مَآ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُـهٝ وَمَا كَسَبَ (2) 

اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا اس کے کام نہ آیا۔

سَيَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَـهَبٍ (3) 

وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑے گا۔

وَامْرَاَتُهٝ حَـمَّالَـةَ الْحَطَبِ (4) 

اور اس کی بیوی  بھی جو ایندھن اٹھائے پھرتی تھی۔

فِىْ جِيْدِهَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ (5) 

اس کی گردن میں مونج کی رسی ہے

جب سورۃ تبت یدا نازل ہوئی اور ابو لھب اور اس کی بیوی ام جمیل  جس کا آصل نام  ارویٰ یا حمنہ بنت حرب" تھا کی اس سورة میں مذمت اتری تو ابو لہب کی بیوی ام جمیل غصه میں آپے سے باہر ہو گئی اور ایک بہت بڑا پتھر لے کر وہ حرم کعبہ میں گئی اس وقت حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نماز میں تلاوت قرآن پاک  فرما رہے تھے اور قریب ہی حضرت ابو بکر صدیق ؓ بیٹھے ہوئے تھے ام جمیل بڑ بڑاتی ہوئی آئی اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس سے گزرتی ہوئی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس آئی  اور مارے غصہ کے منہ میں جھاگ بھرتے ہوئے کہنے لگی کہ بتاؤ تمہارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کہاں ہیں ؟ مجھے معلوم ہوا ہے انہوں نے میری اور میرے شوہر کی ہجو کی ہے۔حضرت صدیق اکبر ؓ نے فرمایا کہ میرے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  شاعر نہیں ہیں کہ کسی کی ہجو کریں  پھر وہ غیض و غضب میں بھری ہوئی پورے حرم کعبہ میں چکر لگاتی پھری اور بھاگتی دوڑتی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو ڈھونڈتی رھی  مگر جب رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو نہ دیکھ سکی تو بڑبڑاتی ہوئی حرم سے باہر جانے لگی اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے کہنے لگی کہ میں تمہارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا سر کچلنے کے لیے یہ پتھر لے کر آئی تھی مگر افسوس کہ وہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مجھے نہیں ملے حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے وہ کئی بار گزری مگر میرے اور اس کے درمیان ایک فرشتہ اس طرح حائل ہو گیا۔کہ آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود وہ مجھے نہ دیکھ سکی اس واقعہ کے متعلق قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی 

وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّـذِيْنَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُـوْرًا O 

اور جب تو قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت کو نہیں مانتے ایک چھپا ہوا پردہ کر دیتے ہیں۔

 آنکھیاری ہوتے ہوئے اور آنکھ کو پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود وہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے پاس ہی سے تلاش کرتی ہوئی بار بار گزری مگر وہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو نہیں دیکھ سکی  بلا شبہ یہ ایک عجیب بات تھی اور اس کو  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے معجزہ کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اس قسم کے معجزات حضور  اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زندگی میں  بارہا صادر ہوئے ہیں

دعوتِ حق کی اس پہلی للکار نے ساری قوم کو چونکا دیا اور گلی گلی اس کا  خوب چرچا ہونے لگا.


ابو لہب کا عبرتناک انجام:

ابولہب کا نام عبدالعزّیٰ تھا یہ عبدالمطَّلب کا بیٹا اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا سگا چچا تھا  اور آپ کا سخت دشمن تھا ،بہت ہی گورا اورخوبصورت آدمی تھا، اِسی لئے اس کی کنیَت ابولہب تھی  اور اسی کنیت سے وہ مشہور تھا ابو لہب آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے  بڑی عداوت رکھتا تھا جب حضور نبی کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کوہِ صفا پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا اور انہیں توحید باری تعالیٰ کا درس دیا تو ابو لہب نے بگڑ کر کہا’’تو برباد ہو جائے کیا تو نے ہمیں یہی سنانے کے لئے جمع کیا تھا؟‘‘ اس پر خالق ارض و سما نے اس کی تباہی و بربادی کا یوں اعلان فرمایا۔

تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ:

 ابولہب کے دونوں  ہاتھ ٹوٹ گئے   اور وہ تباہ ہوہی گیا۔ 

 دنیا میں تو اس کا حال یہ ہوا کہ اس کے زہریلی قسم کا ایک چھالہ(العدسہ) نکلا جو سارے جسم میں پھیل گیا ہر جگہ سے بد بودار پیپ بہنے لگی گوشت گل گل کر گرنے لگا اس کے بیٹوں نے اسے گھر سے باہر پھینک دیا اور اس نے تڑپتے تڑپئے جان دے دی اس کی نعش تین دن تک یونہی رہی اور لوگ اس کے تعفن اور بدبو سے تنگ آگئے اور اس کے بیٹوں کو لعنت ملامت کرنے لگے تو انہوں نے چند حبشی غلاموں سے گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اسے گڑھے میں پھینکوا دیا اور اوپر مٹی ڈال دی اس کا یہ حشر اﷲ کے غضب ہی کا نتیجہ تھا کہ مکہ کے چار رئیسوں میں سے ایک رئیس کا یہ حشر تو دنیا میں ہوا اور قیامت کا عذاب 

سَيَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَـهَبٍ

وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑے گا


ابو لہب کے خاندان کا انجام:

ابو لہب کی بیوی ام جمیل  ابو سفیان کی بہن تھی جس کے دل میں حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے متعلق نفرت کوٹ کوٹ کر بھری  ھوئی تھی دشمنیٔ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم میں اپنے خاندان سے کم نہ تھی جنگل سے خاردار لکڑیاں چن کر  لاتی اور رات کو اس راستہ پر بچھا دیتی جس سے حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا گزر ہوتا ایک روز بوجھ اٹھا کر لا رہی تھی کہ تھک کر آرام کے لئے ایک پتھر پر بیٹھ گئی ایک فرشتے نے بحکم الہٰی اس کے پیچھے سے اس کے گٹھے کو کھینچا وہ گری اور اس سے گلے میں پھانسی لگ گئی اور مر گئی ،دیکھئے قرآن ارشاد فرمارہا ہے۔ترجمہ’’اور اس کی جورو لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھاتی اور اس کے گلے میں کجھور کی چھال کا رسہ اور قیامت کے روز بفرمان نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس کا حشر ہو گا کہ جس آگ میں اس کا گستاخ خاوند جلایا جائے گا اسی آگ میں وہ بھی جھونکی جائے گی۔

ابو لہب کے دو بیٹے عتبہ اور شیبہ کے ساتھ  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا اورحضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا  کا نکاح ھوا تھا ابھی رخصتی نہیں ھوئی تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ شروع کی  اور سورہ اللھب نازل ھوئی تو ابو لہب کے کہنے پر دونوں بیٹوں نے طلاق دے دی 

ابو لہب کے بیٹے عتیبہ نے بارگاہِ نبوّت  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میں گستاخی کی یہاں تک کہ بدزبانی کرتے ہوئے حضور رحمۃٌ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم پر جھپٹ پڑا اور آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے مقدس پیراہن کو پھاڑ ڈالا  اس بد بخت نے رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے چہرۂ انور پر   تھوکنے کی جسارت کی جو لوٹ کر اس قبیح کے منہ پر آپڑا ۔ اس گستاخ کی بے ادبی سے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے قلبِ نازک پر انتہائی رنج و صدمہ گزرا اور غم و رنج  میں آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلے: 

اللّٰھُمَّ سَلِّطْ عَلَیْہِ کَلْباً مِّنْ کِلَابِک َ 

اے اللہ! اپنے کتّوں میں سے کسی کتّے کواس پر مسلّط فرما دے۔

چنانچہ ایک مرتبہ ابولہب اور عتیبہ دونوں تجارت کے لئے ایک قافلہ کے ساتھ ملکِ شام گئے تو رات کے وقت مقام زرقا میں ایک راہب کے پاس ٹھہرے۔ راہب نے قافلے والوں کو بتایا کہ یہاں درندے بہت ہیں اس لئے تمام لوگ ذرا ہوشیار ہو کر سوئیں یہ سُن کر ابو لہب نے قافلے والوں سے کہا کہ اے لوگو! محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم) نے میرے بیٹے عتیبہ کے لئے ہلاکت کی بددعا کی  ھوئی ہے۔ لہٰذا تم لوگ تمام تجارتی سامانوں کو اکٹھا کرکے اس کے اوپر عتیبہ کا بستر لگا دو اور سب لوگ اس کے ارد گرد سو جاؤ تاکہ میرا بیٹا درندوں کے حملے سے محفوظ رہے۔ چنانچہ قافلہ والوں نے عتیبہ کی حفاظت کا پورا پورا بندوبست کیا لیکن رات کے وقت اچانک ایک شیر آیا اور سب کو سونگھتے ہوئے کُود کر عتیبہ کے بستر پرپہنچا اور اس کے سر کو چبا ڈالا۔ لوگوں نے شیر کو تلاش کیا مگر کچھ بھی پتا نہیں چل سکا کہ یہ شیرکہاں سے آیا تھا اور کدھر چلا گیا۔ یہ  اللہ پاک  کی طرف سے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے گستاخ  کو سزا اس دنیا میں ملی اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ  ھے ۔ ابو لہب  کے دوسرے بیٹے  شیبہ نے چونکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی بے ادبی  نہیں کی تھی اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اسے دولت اسلام سے  نواز دیا اور وہ دنیا وآخرت میں کامیاب ھو گیا 

(حیات الصحابہ )

(بخاری،کتاب اللایمان)

جاری ھے ۔۔۔۔

Share: