قسط نمبر (41) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 

دعوتِ اسلام کو روکنے کے لئے قریش کی کوششیں

علی الاعلان تبلیغ کا حکم ملنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے خرافات اور باطل  کا پردہ چاک کرنا اور بتوں کی حقیقت اور قدر و قیمت کو واشگاف کرنا شروع کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سمجھانے کے لئے کھول کھول کر مثالیں دیتے کہ اپنے  ھاتھوں سے تراشے ھوئے یہ بت  کسی کو نہ تو نفع دے سکتے ھیں نہ نقصان  یہ تو خود اس قدر عاجز و بے بس ھیں کہ اپنی بھی حفاظت نہیں کر سکتے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  دلائل سے واضح فرماتے کہ جو شخص ان مورتیوں  کو معبود سمجھ کو پوجتا ہے ، ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا ھے یا ان کو اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ بناتا ہے  تو یہ یقیناً اپنے معبود برحق رب کریم کے ساتھ شرک کرتا ھے اور اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ظلمِ عظیم ھے یقیناً یہ شخص کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا  ہے ۔ 

 اھل مکہ کی اکثریت چونکہ توحید سے اشنا نہیں تھی اس لئے ایک ایسی آواز جس میں مشرکین اور بت پرستوں کو گمراہ کہا گیا تھا  ان کے لئے ناقابلِ برداشت تھی یہی وجہ ھے کہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ایک خدا کا اعلان سن کر وہ لوگ غصے میں آپے سے باھر ھو گئے بلکہ احساسِ غضب سے پھٹ پڑے  اور شدید غم و غصے سے پیچ و تاب کھانے لگے ، گویا  اُن کے لئے “ دعوت الی اللہ “ بجلی کی ایسی  شدید کڑک تھی  جس نے مکہ کی پر سکون فضا کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اس لیے قریش اس اچانک رونما ھونے  والے "انقلاب" کو جڑ سے کاٹنے کے لئے پوری طرح مستعد ھو کر اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر یہ اسلامی انقلاب کامیاب ھو گیا تو اس سے پرانی اور فرسودہ رسم و رواج کا صفایا ھو جائے گا جنہیں وہ کسی قیمت پر بھی  چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے

قریش یہ بات آچھی طرح جانتے تھے کہ بتوں کی الوھیت کے انکار اور توحید و رسالت اور اخرت پر ایمان لانے کا مطلب اپنی زندگیوں میں مکمل تبدیلی لانا ھو گا  اور عربوں پر اپنی برتری کو ختم کرکے اپنے آپ کو مکمل طور پر  توحید و رسالت کے حوالے کرنا ھو گا اور ا س کی بے چون و چرا اطاعت کرنی ھوگی یعنی اس طرح کہ دوسرے  عوامل تو درکنار خود اپنی جان اور اپنے مال تک کے بارے میں کوئی اختیار نہ رہے گا اور ان کے نزدیک اس کا صاف مطلب یہ تھا  کہ مکہ والوں کو مذھبی رنگ میں اہل عرب پر جو بڑائی اور سرداری حاصل ھے اس کا صفایا ہوجائے گا ، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مرضی کے مقابلہ میں انہیں اپنی مرضی پر عمل پیرا ہونے کا اختیار باقی نہ رہے گا ، یعنی نچلے طبقے پر انہوں نے جو مظالم روا رکھے ھوئے تھے ، اور وہ صبح و شام جن برائیوں میں مبتلا رہتے تھے ۔ ان سے دستبردار ھونا پڑے گا  چونکہ قریش توحید کے اس مطلب کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے اس لیے ان کی طبیعت اپنے آباؤ واجداد کے مذھب کو چھوڑ کر اسلام  کو قبول کرنے کیلئیے تیار نہ تھی ، وہ پوری دنیا پر اپنی برتری کو کسی صورت خیرباد نہیں کہنا چاھتے تھے  لیکن ایسا وہ کسی شرف اور خیر کے پیش نظر نہیں  کر رھے تھے  بلکہ اپنی اختیار کردہ برائیوں کو جاری رکھنے کے لئے کر رھے تھے چنانچہ قرآن پاک میں  ارشادِ باری تعالی ھے 

بَلْ يُرِيدُ الْإِنسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامہ O (القیامہ 

بلکہ اس لیے کہ انسان چاہتا ہے کہ آئیندہ بھی برائی کرتا رہے ۔ 

قریش یہ سب کچھ آچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ ان کی چودھراھٹ داؤ پر لگی ھوئی ھے لیکن  ان کے لئے مشکل یہ بن گئی تھی کہ ان کے مدٌ مقابل ایک ایسی ھستی تھی جسے صادق و امین کا لقب  خود اہل قریش ھی سے ملا ھوا تھا  اور وہ ھستی انسانی اقدار اور مکارمِ اخلاق کا  ایک  ایسا اعلی نمونہ تھی جس کی  نظیر انہیں صدیوں سے اپنے آباؤاجداد کی تاریخ میں  نہیں ملتی تھی  ۔ قریش کے سامنے مشکل صورت حال تھی کہ وہ آخر اس عظیم  اور اولوالمرتبت ھستی سے  مقابلہ کریں تو کیسے  کریں ؟  قریش اس صورت حال سے حیران  و ہریشان تھے اور انہیں واقعی حیران  و پریشان  ہونا  بھی چاہیے تھا کیونکہ انہیں کوئی بھی  راستہ دکھائی نہیں دے رھا  تھا ۔ 

کافی غور و حوض اور آپس کے مشوروں کے بعد قریش کو ایک راستہ سمجھ میں آیا  وہ یہ کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے چچا ابو طالب کے پاس جائیں اور مطالبہ کریں کہ وہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے کام سے روک دیں ۔ پھر انہوں نے اس مطالبے کو حقیقت و واقعیت کا جامہ پہنانے کے لئے بڑے غور وحوض کے بعد  یہ دلیل تیار کی کہ ان معبودوں کو چھوڑنے کی دعوت دینا اور یہ کہنا کہ یہ معبود نفع و نقصان پہنچانے یا کچھ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے درحقیقت ان معبودوں کی سخت توہین اور انہیں بہت بڑی  گالی  دینے کے مترادف ہے اور یہ ہمارے ان آباؤ و آجداد  کو احمق اور گمراہ قرار دینے والی بات ہے جو اسی دین پر عمل پیرا رھتے ھوئے اس دنیا سے گزر چکے ہیں ۔ قریش کو یہی راستہ سمجھ میں آیا اور انہوں نے بڑی سرعت  سے اس پر  عمل کرنا شروع کردیا

 

سردارانِ قریش کی ابو طالب کی خدمت میں حاضری

ابن اسحٰق کی روایت ھے  کہ سردارانِ قریش  میں سے چند  سردار  طے شدہ پروگرام کےمطابق  ابو طالب  کی خدمت میں حاضر ھوئے  اور بولے: "اے ابو طالب! آپ کا بھتیجا  محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتا ھے وہ (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم)  ہمارے دین میں عیب  نکالتا ہے، ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہتا  ہے، اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیتا ہے۔ لہذا ھم آپ کے پاس آئےھیں کہ  آپ اسے ایسا کرنے سے روک دیں،یا  پھر آپ ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائیں،کیونکہ آپ بھی ہماری طرح ان سے مختلف دین پر قائم ہیں۔ہم انکے معاملے میں آپ کے لئے بھی کافی ھو جائیں گے 

اس کے جواب میں ابو طالب نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ھوئے ان سرداروں سے نرم  لہجے میں بات کی اور رازدارانہ لہجہ اختیار کیا۔چنانچہ وہ ابو طالب کی بات سن کر واپس چلے گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  حسب سابق  اللہ کا دین پھیلانے اور اس کی تبلیغ میں مصروف رہے


سردارانِ قریش کی دوسری مرتبہ ابو طالب کی خدمت میں حاضری

ابو طالب کو قریش کی دھمکی:​

سردارانِ قریش نے جب دیکھا کہ باوجود ابو طالب  کو کہنے کے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنا کام اسی طرح جاری رکھے ھوئے ھیں اور کھلم کھلا ھمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہہ رھے ھیں تو یہ تجویز ھوا کہ دوبارہ پھر ابو طالب کے پاس جایا جائے اور اُنہیں ڈرا  دھمکا کر اس بات پر آمادہُ کرنے  کی کوشش کی جائے کہ وہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا ساتھ چھوڑ دیں اس تجویز کے بعد سرداران قریش پھر ابو طالب کے پاس حاضر ہوئے اور بولے: " ابو طالب! آپ ہمارے اندر سن و شرف اور اعزاز کے مالک ہیں۔ہم نے آپ سے گزارش کی تھی کہ اپنے بھتیجے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو  ھمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہنے سے روکئے۔لیکن آپ نے اسے نہیں روکا۔آپ یاد رکھیں ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے آباؤ اجداد کو گالیاں دی جائیں،ہماری عقل و فہم کو حماقت زدہ قرار دیا جائے اور ہمارے خداؤں کی عیب جوئی کی جائے،آپ  اپنے بھتیجے کو روک دیجئے ورنہ ہم آپ سے اور ان سے ایسی جنگ چھیڑ دیں گے  کہ کسی ایک فریق کا صفایا ہو کر  ھی رھے گا

ابو طالب پر اس زوردار دھمکی کا بہت زیادہ اثر ہوا اور انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا: "بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے اور ایسی ایسی باتیں کہہ کر گئے ہیں۔اب مجھ پر اور خود پر رحم کرو اور اس معاملے میں مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جسے اُٹھانا میرے بس سے باہر ھو 

یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا ساتھ چھوڑ دیں گے  اور وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مدد سے کمزور پڑ گئے ہیں۔ اس لئے فرمایا: " چچا جان!   خدا کی قسم! وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم اس کی مخلوق کو نہ پہنچاؤں، میں ہرگز اس کے لئے اۤمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں۔ 

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے اور اٹھ گئے،جب واپس ہونے لگے تو ابو طالب نے پکارا اور  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سامنے تشریف لائے تو کہا۔"بھتیجے! جاؤ جو چاہے کہو،خدا کی قسم میں تمہیں کبھی بھی کسی بھی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتا اور یہ اشعار کہے۔

وََاللہِ لَن یَّصِلُو اِلَیکَ بِجَمعِھِم

حَتَّیٰ اَوسَدَ فِی التُّرَابِ دَفِینَا

فَاصدَعَ بِاَمرِکَ مَا عَلَیکَ غَضَاضَۃُ

وَابشِر وَقَرَّ بذاک منک عیونا 

ترجمہ: بخدا وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کردیا جاؤں۔ تم اپنی بات کھلّم کھلاّ کہو۔ تم پر کوئی قدغن نہیں،تم خوش ہوجاؤ اور تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ھو جائیں۔

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اپنے کلام میں چاند اور سورج کا ذکر فرمایا کیونکہ ظاھری طور پر تو چاند اور سورج سے زیادہ کوئی چیز روشن نہیں ھے لیکن اربابِ بصیرت کے نزدیک وہ “نورِ مبین “ جو رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  لےکر آئے تھے  اس کے سامنے چاند اور سورج کی بھی کوئی اھمیت نہیں ھو سکتی ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُـوْرَ اللّـٰهِ بِاَفْوَاهِهِـمْۖ وَاللّـٰهُ مُتِمُّ نُـوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ O

وہ (مشرکین) چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں، اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافر برا مانیں


سردارانِ قریش کی تیسری مرتبہ ابو طالب کی خدمت میں حاضری

قریش  نے جب دیکھا کہ ابو طالب رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی اعانت و تعاون پر پوری طرح مستعد ھیں تو ان کی سرکشیاں و گمراہیاں اور زیادہ بڑھ گئیں  پھر قریش تیسری بار مشورہ کرکے ابو طالب کے پاس گئے اور انہیں رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو چھوڑنے پر اکسانا چاہا کہنے لگے: اے ابو طالب!یہ عمارہ بن ولید قریش کا حسین و جمیل جوان ہے اسے آپ لے لیجئے یہ آپ کی مدد کرے گا۔ اسے آپ اپنا بیٹا  بنا لیجیے  اور اپنے بھتیجے کو ہمارے سپرد کر دیجئے کہ جس نے آپ کی قوم میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے ، اور انہیں بیوقوف بتاتا ہے سو ہم اسے قتل کر دیں گے۔ اس طرح  یہ فساد ختم ھو جائے گا اور آپ کو مرد کے بدلے مرد مل جائیگا ابو طالب نے ان کی اس ظالمانہ اور بیوقوفانہ پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ فرمایا: تم نے مجھے بہت بُری پیشکش کی ہے تم مجھے اپنا فرزند دے رہے ہو تاکہ میں  اُسے کھلاؤں پلاؤں  اور تمہارے لئے اس کی پرورش کروں اور اس کے عوض میں اپنا بیٹا تمہیں دیدوں تاکہ تم اسے قتل کردو، خدا کی قسم !یہ کبھی نہ ہوگا-ابو طالب کا یہ جواب سن کرمطعم کہنے لگا:ابو طالب ! خدا کی قسم آپ کی قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور ان مکروہ باتوں سے بچنا چاہا ہے جسے آپ دیکھ رہے ہیں، اصل خطرہ یہ ہے کہ  تنگ آ کر وہ آپ کے خلاف کوئی اقدام نہ کر بیٹھیں، ابو طالب نے مطعم کو جواب دیا خدا کی قسم! تم لوگوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے بلکہ تم نے مجھے چھوڑنے اور مجھ پر دباؤ ڈالنے کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: اب آپ جو چاہیں سو کریں ھم نے اپنا پیغام آپ کو پہنچا دیا ھے بہرحال ابو طالب کی ان باتوں سے قریش کو یہ یقین تو ہو گیا کہ وہ ابو طالب کو اس بات پر راضی نہیں کرپائیں گے کہ وہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں، دوسری طرف جب ابو طالب نے قریش کی نیت خراب دیکھی تو انہوں نے ان سے بچنے کی تدبیر سوچی تاکہ بھتیجے پر  کوئی آنچ نہ آئے اور ان کی رسالت کی تبلیغ متاثر نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے بنی ہاشم اور اولادِ عبد المطلب  کو جمع کرکے اُن سے فرمایا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے خبردار رہنا۔  دیکھو ان پرکوئی آنچ  نہ آئے ، ابو طالب کی اس بات پر ابولہب کے علاوہ سب نے لبیک کہا ابو طالب نے بنی ہاشم کے اس موقف کو بہت سراہا اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی حفاظت و حمایت  کا مصمم ارادہ کرنے پر اُنہیں  خراج تحسین پیش کیا 


حجّاج کے قافلے اور سردارانِ قریش کی مجلس شوریٰ

ابھی  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو کھُلّم کھُلّا تبلیغ  کرتے ھوئے چند ہی مہینے گزرے تھے کہ  حج بیت اللہ  کا وقت قریب آ گیا .

   قریش کو معلوم تھا کہ اب عرب کے وفود کی آمد شروع ھوگی اور رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اُن سے ملاقاتیں بھی ھوں گی ، اسلئے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ نبی کریم صلی علیہ وسلم کے متعلق کوئی ایسی بات کہیں کہ جس کی وجہ سے اہلِ عرب کے دلوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تبلیغ کا اثر نہ ہو . 

   چنانچہ وہ اس بات پر گفت و شنید کے لئے ولید بن مغیرہ کے پاس اکٹھے ہوئے . ولید نے کہا اس بارے میں تم سب لوگ ایک رائے اختیار کرلو . تم میں باہم کوئی اختلاف نہیں ھونا چاہئے کہ خود تمہارا ھی ایک آدمی دوسرے آدمی کی تکذیب کر دے اور ایک کی بات دوسرے کو کاٹ دے . لوگوں نے کہا آپ ھی  بتائیے کیا بات کہی جائے  ، اس نے کہا ، نہیں تم لوگ کہو ، میں سنوں گا .

   اس پر چند لوگوں نے کہا ، ھم کہیں گےکہ  وہ کاہن ھے ، ولید نے کہا ، نہیں بخدا وہ کاہن نہیں ہے ھم نے کاہنوں کو دیکھا ہے . اس شخص کے اندر نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے . نہ ان کی جیسی قافیہ گوئی اور تُک بندی .

   اس پر لوگوں نے کہا ، تب ھم کہیں گے  کہ وہ مجنون  ھے . ولید نے کہا ، نہیں وہ مجنون  بھی نہیں ، ہم نے مجنون  بھی دیکھے ہیں اور ان کی کیفیت بھی . اس شخص کے اندر نہ پاگلوں جیسی دَم گھُٹنے کی کیفیت اور اُلٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان کے جیسی بہکی بہکی باتیں . 

   لوگوں نے کہا پھر ھم کہیں گے  کہ وہ شاعر ہے . ولید نے کہا وہ شاعر بھی نہیں . ھمیں رجز ، ہجز ، قریض ، مقبوض ، مبسوط سارے ھی اصناف ِسخن معلوم ھیں . اس کی بات بہرحال شعر نہیں ھے .

    لوگوں نے کہا تب ھم کہیں گے  کہ وہ جادوگر ہے . ولید نے کہا ، یہ شخص جادو گر بھی نہیں . ھم نے جادو گر اور انکا جادو بھی دیکھا ہے ، یہ شخص نہ تو انکی طرح جھاڑ پھونک کرتا ہے نہ گرہ لگاتاھے .

   لوگوں نے کہا تب ھم کیا کہیں گے  ؟ ولید نے کہا، خدا کی قسم اسکی بات بڑی شیریں ہے . اس کی جڑ پائیدار ھے اور اس کی شاخ پھلدار . تم جو بات بھی کہوگے لوگ اسے باطل سمجھیں گے ، البتہ اس کے بارے میں سب سے مناسب بات یہی کہہ سکتے ھو کہ وہ جادوگر ھے . اس نے ایسا کلام پیش کیا ھے جو جادو ھے . اس سے باپ بیٹے ، بھائی بھائی ، شوھر بیوی اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ گئی ہے . باالآخر لوگ اسی تجویز پر متفق ھو کر وہاں سے رخصت ہوئے .

   بعض روایات میں یہ تفصیل بھی مذکور ہے کہ جب ولید نے لوگوں کی ساری تجویزیں رد کر دیں تو لوگوں نے کہا کہ پھر آپ ھی اپنی بےداغ رائے پیش کیجئے .

   اس پر ولید نے کہا : ذرا سوچ لینے دو . اس کے بعد وہ سوچتا رہا سوچتا رہا یہاں تک کہ اپنی مذکورہ بالا رائے ظاہر کی۔۔۔۔

   اسی معاملے میں ولید کے متعلق سورہ المدّثّر کی  آیات نازل ہوئیں  جن میں سے چند آیات کے اندر اس کے سوچنے کی کیفیت کا نقشہ بھی کھینچا گیا ۔

چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے 

ذَرْنِىْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا (11) 

مجھے اور اس کو چھوڑ دو کہ جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا۔


وَجَعَلْتُ لَـهٝ مَالًا مَّمْدُوْدًا (12) 

اور اس کو بڑھنے والا مال دیا۔


وَبَنِيْنَ شُهُوْدًا (13) 

اور حاضر رہنے والے بیٹے دیے۔


وَمَهَّدْتُّ لَـهٝ تَمْهِيْدًا (14) 

اور اس کے لیے ہر طرح کا سامان تیار کر دیا۔


ثُـمَّ يَطْمَعُ اَنْ اَزِيْدَ (15) 

پھر وہ طمع کرتا ہے کہ میں اور بڑھا دوں۔


كَلَّا ۖ اِنَّهٝ كَانَ لِاٰيَاتِنَا عَنِيْدًا (16) 

ہرگز نہیں، بےشک وہ ہماری آیات کا سخت مخالف ہے۔


سَاُرْهِقُهٝ صَعُوْدًا (17)

عنقریب میں اسے اونچی گھاٹی پر چڑھاؤں گا۔


اِنَّهٝ فَكَّـرَ وَقَدَّرَ (18) 

بے شک اس نے سوچا اور اندازہ لگایا۔


فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (19) 

پھر اسے اللہ کی مار اس نے کیسا اندازہ لگایا۔


ثُـمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (20) 

پھر اسے اللہ کی مار اس نے کیسا اندازہ لگایا۔


ثُـمَّ نَظَرَ (21) 

پھر اس نے دیکھا۔


ثُـمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ (22) 

پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بنایا۔


ثُـمَّ اَدْبَـرَ وَاسْتَكْـبَـرَ (23) 

پھر پیٹھ پھیر لی اور تکبر کیا۔


فَقَالَ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ يُّؤْثَرُ (24) 

پھر کہا یہ تو ایک جادو ہے جو چلا آتا ہے۔


اِنْ هٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ (25) 

یہ تو ہو نہ ہو بشر کا کلام ھے

   بہر حال  ولید کی  یہ رائے قرار داد  کی صورت میں متفقہ طور پر طے کر لی گئی  کہ آنے والے حجاج کے قافلوں کو یہی کہا جائے گا کہ نعوذ باللہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  جادوگر  ھیں 


قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کی کاروائی  اور اس کے نتائج 

قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کی کاروائی  کچھ اس طرح  شروع ہوئی کہ کچھ کفارِ مکّہ عازمینِ حج کے مختلف راستوں پر بیٹھ گئے اور وہاں سے ہر گزرنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے " خطرے " سے آگاہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تفصیلات بتانے لگے ۔ 

   اس کام میں سب سے زیادہ پیش پیش ابو لہب تھا ۔ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  حج کے ایام میں لوگوں کے ڈیروں اور عکازہ ، مجنہ اور ذو المجاز کے بازاروں میں  تشریف لے جاتے تو یہ لعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے لگا رہتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے اور ابولہب پیچھے پیچھے یہ کہتا کہ اس کی بات نہ ماننا یہ  نعوذ باللہ جھوٹا بد دین ہے ۔

    اللہ کی شان دیکھیے کفار کی اس دوڑ دھوپ کا  نتیجہ  اسلام کے لئے بہت بہتر  شکل  میں برآمد ہوا کہ  جب لوگ اس حج سے اپنے گھروں کو واپس ہوئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ  مکہ میں آخری نبی  صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ھو چکے ھیں اس طرح آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی  نبوّت کی خبر دور دور تک پہنچ گئی  اور یوں پورے دیارِ عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا پھیل گیا 


دعوتِ اسلام کو روکنے کے لئے قریش کی ایک اور حکمتِ عملی 

   جب قریش نے دیکھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغِ دین سے روکنے کی کوئی بھی حکمت کار گر نہیں ہو رہی  تو ایک بار پھر انہوں نے اس پر  غور و حوض  کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا قلع قمع کرنے کیلئے مختلف طریقوں (ہنسی ، ٹھٹھا ، تحقیر ، تہمت،  استہزاء اور اور تکذیب وغیرہ  ) سے محاز آرائی کی حکمتِ عملی  ترتیب دی 

   اس  حکمتِ عملی کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو بد دل کر کے ان کے حوصلے توڑ دئے جائیں ۔ اس کے لیے مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا تہمتوں اور بیہودہ گالیوں کا نشانہ بنایا ۔

چنانچہ وہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل کہتے جیسا کہ ارشاد ہے :

{وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡ نُزِّلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ اِنَّکَ  لَمَجۡنُوۡنٌ ؕ﴿۶﴾}

" انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے ۔"

   اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو گر اور جھوٹے ہونے کا الزام لگاتے ۔

چنانچہ ارشاد ہے :

{وَ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ ۫ وَ قَالَ  الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ

" اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آ گیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے ۔ "

   یہ کفار آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیچھے پر غضب ، منتقمانہ نگاہوں اور بھڑکتے ہوئے جذبات کے ساتھ چلتے تھے ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

وَ اِنۡ یَّکَادُ  الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ  لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ  اِنَّہٗ  لَمَجۡنُوۡنٌ 

" اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے ۔ "

   اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ تشریف فرماتے اور آپ کے ارد گرد کمزور اور مظلوم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم  موجود ہوتے تو انہیں دیکھ کر مشرکین استہزاء کرتے ہوئے کہتے :

{اَہٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِنَا 

" کیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالٰی نے فضل کیا ہے ." 

جوابا اللہ تعالی کا ارشاد :

{اَلَیۡسَ اللّٰہُ  بِاَعۡلَمَ بِالشّٰکِرِیۡنَ ﴿ ٦ : ٥٣ ﴾}

" کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے ۔ "

   عام طور پر مشرکین کی کیفیت وہی تھی جس کا نقشہ ذیل کی آیات میں کھینچا گیا ہے :

{اِنَّ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا کَانُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَضۡحَکُوۡنَ 

{وَ اِذَا  مَرُّوۡا بِہِمۡ یَتَغَامَزُوۡنَ ﴿۳۰﴾۫ ۖ}

{وَ اِذَا  انۡقَلَبُوۡۤا  اِلٰۤی  اَہۡلِہِمُ  انۡقَلَبُوۡا فَکِہِیۡنَ ﴿۳۱﴾۫ ۖ}

{وَ اِذَا رَاَوۡہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ لَضَآلُّوۡنَ ﴿ۙ۳۲﴾}

ل{وَ  مَاۤ  اُرۡسِلُوۡا عَلَیۡہِمۡ  حٰفِظِیۡنَ ﴿ؕ۳۳﴾}

گنہگار لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑیا کرتے تھے ۔ ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کے اشارے کرتے تھے ۔ اور جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں کرتے تھے ۔ اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراہ ( بے راہ ) ہیں ۔ یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجے گئے ۔ 

کفارِ مکہ نے محاذ آرائی کی دوسری  صورت یہ اپنائی  کہ انھوں نے  آپ کی تعلیمات کو مسخ کرنا ، شکوک وشبہات پیدا کرنا، جھوٹا پروپیگنڈہ  کرنے کی مکروہ کوشش کی ۔   تعلیمات سے لے کر شخصیت تک واہیات اعتراضات کا نشانہ بنانا اور یہ سب اس کثرت سے کرنا کہ عوام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ پر غور کرنے کا موقع ھی نہ مل سکے ۔ 

" چنانچہ مشرکین قرآن کے متعلق کہتے تھے ،،

اسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ  بُکۡرَۃً   وَّ اَصِیۡلًا 

    "یہ پہلوں کے افسانے ہیں جنہیں آپ صلی علیہ وسلم نے لکھوا لیا ھے - اب یہ آپ صلی علیہ وسلم  صبح و شام تلاوت کئے جاتے ھیں ۔"


انۡ ہٰذَاۤ  اِلَّاۤ  اِفۡکُۨ افۡتَرٰىہُ وَ اَعَانَہٗ  عَلَیۡہِ  قَوۡمٌ   اٰخَرُوۡنَ 

     " یہ محض جھوٹ ھے جسے اس نے گڑھ لیا ھے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر اسکی اعانت کی ھے ۔"


  مشرکینِ  مکّہ بھی کہتے تھے کہ  

انَّمَا  یُعَلِّمُہٗ بَشَر۔

    " یہ قرآن تو آپ کو ایک انسان سکھاتا ھے ۔"   


   رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم پر انکا  ایک اعتراض یہ تھا ؛ 

مالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ  فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ

      یہ کیسا رسول ھے کہ کھانا کھاتا ھے، اور بازاروں میں چلتا پھرتا ھے ! 

     قرآن شریف میں بہت سے مقامات پر  اللہ تعالی نے مشرکین کی ان باتوں  کا ردّ بھی کیا ھے ، کہیں اُن کا اعتراض نقل کرکے اور کہیں  اعتراض نقل کے بغیر ۔   

جاری ھے ۔۔۔،

Share: