قسط نمبر (43) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

اشرافِ قریش کا متکبرانہ مطالبہ اور اللہ کےنزدیک غریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا آعلی مقام


 روایات میں آتا ہے کہ مشرکینِ مکہ میں سے بعض بڑے بڑے  سرداروں  نے حضرت ابوطالب سے ملاقات کی اور کہا کہ ہم تمہارے بھتیجے کی باتوں پر غور کرنے کو تیار ہیں اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کیا دعوت پیش کرتے ھیں ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ارد گرد ایسے لوگ جمع کر رکھے ہیں جو انتہائی غریب اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں۔ ان میں سے کچھ غلام ہیں اور کچھ ہمارے ہی آزاد کردہ ہیں ایسے بےیار و مددگار ہیں اور کچھ جن کی معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں ‘ ظاہر ہے کہ ہم ان کی موجودگی میں کس طرح آپ کے بھتیجے کے پاس جاسکتے ھیں  اور ان کی بات سن سکتے ہیں۔ اس لیے آپ اپنے بھتیجے سے کہئے کہ وہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہمارے لیے ایک وقت مقرر کریں  اور اس میں ان تمام لوگوں کو دور ہٹا دیں ، ہمیں ان کی پرچھائیں بھی گوارا نہیں۔ اس طرح ہم الگ بیٹھ کر ان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ چناچہ حضرت ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اس کا مشورہ دیا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان اشرافِ قریش سے الگ ملنے کا انتظام کریں یا جب بھی وہ آنا چاہیں تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے غریب ساتھیوں کو وہاں سے دور ہٹا دیں۔ کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے بھی اس پر سوچنا شروع کیا۔ صحابہ کرام  تک جب یہ بات پہنچی تو حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  نے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو مشورہ دیا کہ یا رسول اللہصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ؛ اس میں حرج ہی کیا ہے ہم لوگ تو ہر وقت آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پاس آنے جانے والے اور خدمت میں بیٹھنے والے لوگ ہیں۔ اگر اشراف قریش ہمارے ساتھیوں کی موجودگی میں ملنا پسند نہیں کرتے تو کوئی حرج نہیں ‘ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان سے الگ مل لیا کیجئے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ 

 : وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ ط مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْھِمْ مِّنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَھُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (الانعام ) 

اور تم ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کیجئے ‘ جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ‘ اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری کا کوئی حصہ تم پر نہیں اور نہ تمہاری ذمہ داری کا کوئی حصہ ان پر ہے ‘ کہ تم ان کو اپنے سے دور کر کے ظالموں میں سے بن جاؤ ) 

اس آیت مبارکہ میں  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ غریب صحابہ کو اشرافِ قریش کی وجہ سے دور نہ کریں 

حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ فوراً حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں پہنچے ‘ معافی چاہی کہ میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو غلط مشورہ دیا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اللہ سے میرے لیے استغفار کریں تاکہ وہ میرا یہ گناہ معاف فرما دے۔ اس آیت کریمہ میں  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو یہ بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم یہ مت سمجھئے کہ یہ لوگ اس طرح امتیازی سلوک کرنے سے راہ راست پر آجائیں گے یہ محض ان کا ایک بہانہ ہے۔ اصل بیماری ان کی وہی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے سامنے حاضری کا ارادہ ھی  نہیں رکھتے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ان کے ساتھ کیسا بھی عزت کا سلوک کریں وہ کبھی آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان کی خاطر ان غریب اہلِ ایمان  کو  اپنے سے دور کریں ‘ یہ کسی طرح مناسب نہیں۔ یہاں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ ہے وَلَا تَطْرُدِ ۔ اطراد عربی زبان میں دھتکارنے اور بدسلوکی سے نکالنے کو کہتے ہیں۔ قریش چونکہ غریب لوگوں کے لیے یہی لفظ استعمال کرتے تھے اس لیے قرآن کریم نے ان کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے انہی کا لفظ استعمال کیا ‘ تاکہ ان کا جرم ریکارڈ پر رہے اور جب وہ اس کا جواب دیکھیں تو مزید انھیں اپنے جرم کی شدت کا احساس ہو اور ان کے خبث باطن پر چوٹ لگے۔ یہاں پر ایک تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ مشرکینِ مکہ کا یہ مطالبہ محض اتفاقی نہیں تھا بلکہ یہ ان کی معاشرتی اقدار اور ان کے تصور حیات کا نتیجہ تھا۔ مکہ معظمہ کی زندگی درحقیقت ایک طبقاتی زندگی تھی۔ وہاں کے رہنے والے یوں تو کئی طبقات میں بٹے ہوئے تھے لیکن امیر ‘ غریب اور حسب و نسب کی تقسیم سب سے زیادہ گہری تھی۔ قریش کسی کو جو ان کے اپنے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اپنے ہم پلہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اور جہاں تک غریب لوگوں کا تعلق ہے وہ ان کو اپنی خدمت کے لیے تو برداشت کرسکتے تھے لیکن یہ سوچنا بھی انھیں گوارا نہیں تھا کہ یہ بھی معاشرے کے قابل ذکر لوگ ہیں۔ حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم یہاں ان کے جس رویے کو بری طرح تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور جس طرح اسے جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتا ہے اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ امت مسلمہ میں اس کے آثار بھی باقی نہ رہتے ‘ لیکن باقی عالم اسلام کو تو چھوڑیئے خود پاکستان  جس کو وجود ہی اسلام کے نام سے ملا ہے ‘ اس میں ابھی تک نہایت گہری طبقاتی تفریق پائی جاتی ہے۔ جاگیردار ‘ امراء ‘ بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ ‘ فوج ‘ سیاستدان اور بیوروکریٹس سارے ملک کے عوام کو اپنے ہاری اور کمین سمجھتے ہیں۔ اس لیے اپنے اپنے دوائر میں ان کے ساتھ نہایت توہین آمیز سلوک روا رکھنا بلکہ ظلم کرنا بھی ان کے لیے کوئی غلط بات نہیں۔ یہی حال مشرکینِ مکہ کا تھا اس لیے ان کا حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے یہ مطالبہ کوئی حیرت انگیز مطالبہ نہ تھا بلکہ ان کی معاشرتی زندگی کا نتیجہ تھا۔ قرآن کریم نے اس پر آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو جو ہدایات دی ہیں ‘ اس میں سب سے پہلی بات اس آیت کریمہ کا لہجہ ہے۔ جس میں بظاہر تنبیہ کا انداز ذرا تیکھا ہے۔ اس میں خطاب چونکہ آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ہے اس لیے بعض طبیعتوں کو گراں گزرتا ہے۔ لیکن اگر قرآن کریم کا ایک اسلوب سمجھ لیا جائے تو پھر یہ واہمہ پیدا نہیں ہو گا  وہ یہ کہ جب بھی کفار کی جانب سے ایسی کوئی بےسروپا بات کہی جاتی تھی یا کوئی لایعنی مطالبہ کیا جاتا تھا تو قرآن کریم میں پروردگار اس کا جواب دیتے ہوئے کفار کو مخاطب نہیں فرماتے تھے جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ پروردگار ان کو مخاطب کرے۔ اس لیے اس میں خطاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو فرمایا جاتا تھا لیکن روئے سخن کفار کی طرف ہوتا تھا ‘ یا یوں کہہ لیجئے کہ بات حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کی جا رہی ہوتی تھی لیکن سنائی کفار کو جاتی تھی ۔  اس لیے اس میں تنبیہ کا انداز اگر تیکھا ہوجاتا ہے یا کہیں غضب کا اظہار نظر آتا ہے تو اس کا تعلق اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے نہیں بلکہ ان کفار سے ہوتا ہے تاکہ وہ اچھی طرح اپنے انجام کے بارے میں سوچ لیں۔ یہاں بھی خطاب آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ہو رہا ہے لیکن تنبیہ اور تہدید کا تعلق مشرکینِ مکہ سے ہے۔ دوسری چیز جو اس میں بہت قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ کفار مکہ جن لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں بلکہ انھیں اپنے قریب آنا بھی ان کے لیے گوارا نہیں اور وہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہماری موجودگی میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان کو دور رہنے کا حکم دیں۔ کیسی دلنواز بات ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی کی وکالت فرما رہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو ابھی تک غلامی کا عذاب جھیل رہے تھے  اور ان میں وہ بھی تھے جو نئے نئے غلامی کی زنجیریں کاٹ کے نکلے تھے ۔ لیکن معاشرے میں ان کو تحفظ دینے والا کوئی نہیں تھا ۔ ان میں ایسے بھی تھے  جو کسی اعلیٰ خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ  مکہ سے باہر سے آئے ہوئے لوگ تھے  اور یہ تمام لوگ ساتھ ساتھ اس قدر بےسروسامان بھی تھے  کہ نہ پہننے کو مناسب کپڑا اور نہ کھانے کو ڈھب کی روٹی میسر تھی پیٹ پر پتھر باندھتے اور چیتھڑے پہنتے تھے  لیکن اسلام کی  قوت یہی لوگ  تھے ۔ ان کے بارے میں پروردگار ارشاد فرما رہے ہیں کہ آپ ان لوگوں کو اپنی صحبت سے دور مت ہٹایئے ان کا  تو  حال یہ ہے کہ وہ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ یعنی اہل دنیا سے اگرچہ ان کو کوئی ایسا قابل ذکر تعلق نہیں اور لوگ بھی ان کا نام لینے کے روادار نہیں ‘ لیکن انھوں نے اپنا رشتہ اللہ سے جوڑ رکھا ہے ‘ وہ اس ذات کو پکارتے ہیں جس کو پکارنے والا کبھی محروم نہیں رہتا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ انھیں دولت دنیا کے نہ ہونے کے باعث غربت اور غریبی کے طعنے ملتے ۔ انھیں نجانے کیسے کیسے خطابات سے یاد کیا جاتا اور خود ان کے شب و روز اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیسی تلخیوں میں گزرتے  تھے لیکن ان سارے دکھوں کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ان میں سے کوئی چیز نہیں مانگتے ‘ وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں تو صرف اس لیے کہ وہ اپنے رب کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ کی خوشنودی کے مقابلے میں دنیا بھر کی دولت سنگ ریزوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی تحریک کا سرمایہ اس کے جانثار اور فداکار لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگیاں تک اس تحریک پر قربان کردیتے ہیں۔ یہ لوگ جنھوں نے محض اللہ کی رضا کے لیے دنیا کی ہر نعمت سے منہ موڑ لیا ہے اور دنیا کا ہر دکھ اسلام اور ایمان کی خاطر برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ لوگ اس لائق ہیں کہ آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں  نہ کہ وہ نابکار جنھیں آپ کی نبوت تک گوارا نہیں۔ وہ محض بہانے تراشتے ہیں تاکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لیے ایسے حالات پیدا کریں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے جانثار بھی آپ سے دور ہوجائیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان کو ہرگز اپنے سے دور نہ ہٹایئے۔ وہ لوگ جن کا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سوا دنیا میں کوئی نہیں اور وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی صحبت میں اللہ کی رضا کو ڈھونڈتے ہیں ‘ وہی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی عنایت کے ہر طرح مستحق اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی توجہ کے حقدار ہیں۔ چنانچہ  رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان غریبوں کو جس طرح اپنے سینے سے لگایا کہ انھوں نے اگر اپنی جانثاری میں کبھی کمی نہیں کی تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی شفقتیں بھی ہمیشہ ان پر پھوار کی طرح برستی رہیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے غریبوں ہی میں زندگی گزارنا اور غریبوں ہی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اپنا معمول بنا لیا اور یہاں تک اللہ کے حضور عرض کی کہ یا اللہ میں چاہتا ہوں کہ میں غریبوں کے ساتھ زندہ رہوں اور قیامت کے دن غریبوں کے ساتھ اٹھایا جاؤں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں غریبوں کا ساتھ دینے کے دعوی تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن اگر کسی نے غربت کو عزت دی ہے اور فقر کو اپنا فخر فرمایا ہے اور فی الواقع غریبی امیری کا فرق مٹا کے رکھ دیا ہے اور طبقات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے تو وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ذات گرامی ہے۔ غیر مسلموں نے بھی جب کبھی غیر جانبداری سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اس طرز عمل کو دیکھا ہے تو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ اس کی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔  آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اس طرز عمل کے نتیجے میں مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ یہ غریب لوگ جنکو اشراف قریش اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے انکا اس حد تک احترام کرتے تھے کہ دنیا شاید اس کی مثال لانے سے عاجز ہو۔ ان غریب غلاموں میں حضرت بلال  رضی اللہ عنہ  کا نام سب سے نمایاں ہے کیونکہ انھیں سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا قرب اور خدمت کا شرف میسر آیا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے انھیں کعبۃ اللہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان کہنے کا حکم دیا تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کل کا غلام آج کا کس قدر نامور فرد بن چکا ہے اور خلافتِ راشدہ میں انکے مقام و مرتبہ کا عالم یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت ابوسفیان اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہم جیسے بڑے بڑے اشرافِ قریش حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے اذن باریابی کے انتظار میں کھڑے تھے۔ دروازے پر ایک لڑکا دربانی کے فرائض انجام دے رہا تھا کہ اتنے میں حضرت بلال  رضی اللہ عنہ تشریف لائے انھیں دیکھ کر دربان ایک طرف ہٹ گیا وہ بغیر اجازت طلب کیے اندر داخل ہوئے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  نے جیسے ہی دیکھا کہ بلال آئے ہیں ‘ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا : جاء سیدنا و خادم سید نا ” ہمارا آقا آگیا اور ہمارے آقا کا خادم آگیا “۔ ابوسفیان  رضی اللہ عنہم   برداشت نہ کرسکے ‘ بول اٹھے کہ یہ دن بھی آنا تھا کہ اشراف قریش اجازت کے طلبگار ہیں اور ایک آزاد کردہ غلام آتا ہے تو بغیر اجازت طلب کیے اندر چلا جاتا ہے۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ جو ابوجہل کے بیٹے تھے کہنے لگے ابوسفیان ہمیں شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ بلانے والے نے سب کو ایک ہی وقت میں بلایا تھا۔ اس پکار پر جس نے پہلے لبیک کہا وہ آگے رہے گا اور جو پیچھے رہا وہ پیچھے رہے گا اس لیے اس میں شکایت کا کوئی موقع نہیں۔ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ اس میں انبیاء کرام کی طبیعت کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ ہے اور اس حوالے سے یہ ہدایت دی گئی ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ انبیاء کرام اللہ کے عطا کردہ مزاج کی وجہ سے اپنے اندر یہ امتیازی چیز رکھتے ہیں کہ انھیں دنیا کی ہر چیز سے زیادہ صرف ایک چیز کی خواہش اور طلب ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی طرف وہ ہدایت لے کر آئے ہیں وہ ان کی ہدایت کو قبول کرلیں۔ یہ ان کی خواہش بعض دفعہ اس حد تک ان پر غالب آجاتی ہے کہ وہ زندگی کی تمام آسانیوں بلکہ ضروریات تک کو دعوت و تبلیغ کی نذر کردیتے ہیں اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر ان کے ایمان اور ان کی مغفرت کے لیے دعائیں مانگتے ہیں اور ان کے ایمان کے لیے جو بھی مناسب تجویز ان کے سامنے آتی ہے وہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں بعض دفعہ تو یہ صورت حال ہوتی ہے جس کی مثال انجیل میں دی گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ لوگو ! تم نے دیکھا نہیں کہ جب کسی ریوڑ کے مالک کی ریوڑ میں سے کوئی بھیڑ گم ہوجاتی ہے تو وہ اس کی تلاش میں ندیوں ‘ نالوں اور صحرائوں تک میں مارا مارا پھرتا ہے اور وہ اس تگ و دو میں اپنے ریوڑ تک کو بھول جاتا ہے اور جب اسے وہ بھیڑ مل جاتی ہے تو پھر واپس اپنے لوگوں میں آکر کہتا ہے کہ لوگو میرے ساتھ خوشیاں مناؤ کہ مجھے اپنی بھیڑ مل گئی ہے۔ یہ کیفیت ایک پیغمبر کی ہوتی ہے۔ یہاں پروردگار اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ تمہیں اپنی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرنا چاہیے ‘ لیکن ایک ایک بھیڑ کے پیچھے اس قدر سرگرداں نہیں ہونا چاہیے کہ باقی ریوڑ کا خیال بھول جائے اور ممکن ہے کہ ان کو نقصان پہنچ جائے اس لیے کہ اگر آپ کی دعوت کے مخاطبین میں سے ایک ایک آدمی مسلمان نہیں ہوتا یعنی اگر آپ کی ایک ایک بھیڑ واپس اپنے گلے میں نہیں آتی تو آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ جو بھیڑ اپنے گلے سے اتنی دور نکل جائے وہ حقیقت میں بھیڑیئے کا حصہ ہوتی ہے۔ اسی طرح جو آدمی ایمان کے لیے تبلیغ و دعوت کی ساری کاوشوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے اس کے بارے میں بالکل نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ ایمان کیوں نہیں لایا۔ البتہ اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے ان اشراف قریش کو قریب کرنے کے لیے ان غریب لوگوں کو اپنے سے دور کردیا تو قیامت کے دن جب اس بارے میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے سوال ہوگا تو یہ اشراف قریش جن کے لیے ایمان کی خواہش میں آپ یہ سب کچھ کر رہے ہیں وہ وہاں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے کسی کام نہیں آئیں گے۔  اس لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ان غریب لوگوں کو اپنے سے دور نہ کریں۔ یہی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی مجلس کی زینت اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے قافلے کا زیور ہیں اور اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے خدانخواستہ ان کو دور کردیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔ ظلم کا مفہوم  یہاں بظاہر ظالم کا لفظ آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے حوالے سے عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظلم کا معنی بےانصافی یعنی ایک کا حق دوسرے کو دے دینا ہے یہاں یہ لفظ محبت کے حوالے سے استعمال ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی محبت اور شفقت کے مستحق یہ غریب لوگ ہیں جنھوں نے سب کچھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اور اسلام کے لیے قربان کردیا ہے وہی اس قابل ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی توجہ سے بہرہ ور ہوں۔ اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ان کی بجائے یہ حق اشراف قریش کو دے دیں گے تو یہ ان معنوں میں ظلم ہوگا کہ حق ان غریب صحابہ کا تھا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اشراف قریش کو دے دیا۔ یہ گویا ایک ایسا گلہ ہے جو کبھی کبھی محبت کرنے والوں کی زبان پر آجایا کرتا ہے۔ صحابہ چونکہ جاں نثار اور فداکار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے محب اور عشاق بھی تھے ‘ انھیں بجا طور پر یہ گلہ زیب دیتا تھا کیونکہ ان میں بعض تو ایسے تھے جن کے لیے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے چند لمحے دور رہنا بھی بڑا گراں گزرتا تھا جیسے ایک مچھلی پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح یہ لوگ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی صحبت سے باہر اپنے لیے زندگی دشوار سمجھتے تھے۔ ایک صحابی کا واقعہ اہل تفسیر نے نقل کیا ہے کہ انھوں نے ایک دن آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  جب تک میں آپ کی صحبت میں رہتا ہوں ‘ دل کو ایک اطمینان میسر رہتا ہے ‘ لیکن جب گھر چلا جاتا ہوں تو باوجود اس کے کہ اہل خانہ موجود ہوتے ہیں لیکن میرا دل اچاٹ ہوجاتا ہے ‘ میں جب تک آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو دیکھ نہیں لیتا مجھے چین نہیں پڑتا۔ کہا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  یہاں تو ہمیں یہ نعمت میسر ہے کہ بار بار آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی زیارت ہوتی ہے لیکن قیامت کے دن جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  جنت کے اعلیٰ ترین درجے میں ہوں گے اور اگر ہمیں اللہ تعالیٰ نے جنت عطا کی بھی تو ظاہر ہے کہ ہم بہت نچلے درجے میں ہوں گے وہاں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی زیارت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تو یا رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اس جنت کا کیا فائدہ جس میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی زیارت نہ ہو سکے۔ اس پر قرآن کریم کی ایک آیت نازل ہوئی جس میں بتایا گیا کہ جو لوگ اللہ اور رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی اطاعت کریں گے انھیں قیامت کے دن حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا ساتھ نصیب ہوگا۔ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  چاہے کتنے بھی بلند مقام پر ہوں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی زیارت سے وہ برابر سعادت اندوز ہوتے رہیں گے۔ اشراف قریش کا یہ مطالبہ کہ ہم غریب مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے ملاقات نہیں کرسکتے یہ ہماری بڑائی اور عظمت کے خلاف ہے۔ آنے والی آیات کریمہ میں ان کے اس قول اور ان کی خواہش کے پیچھے جو چیز کارفرما تھی اور جو ان کی اصل بیماری تھی اس سے پردہ اٹھایا گیا ھے چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے 

وَكَذٰلِكَ فَـتَنَّا بَعْضَهُـمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْا اَهٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّـٰهُ عَلَيْـهِـمْ مِّنْ بَيْنِنَا ۗ اَلَيْسَ اللّـٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشَّاكِـرِيْنَ (53) 

اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمایا ہے تاکہ یہ لوگ کہیں کہ کیا یہی ہیں ہم میں سے جن پر اللہ نے فضل کیا ہے، کیا اللہ شکر گزاروں کو جاننے والا نہیں ھے


وَاِذَا جَآءَكَ الَّـذِيْنَ يُؤْمِنُـوْنَ بِاٰيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْـمَةَ ۖ اَنَّهٝ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوٓءًا بِجَهَالَـةٍ ثُـمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهٖ وَاَصْلَحَ فَاَنَّهٝ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (54) 

اور ہماری آیتوں کو ماننے والے جب تیرے پاس آئیں تو کہہ دو کہ تم پر سلام ہے، تمہارے رب نے اپنے ذمہ رحمت لازم کی ہے، جو تم میں سے ناواقفیت سے برائی کرے پھر اس کے بعد توبہ کرے اور نیک ہو جائے تو بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔


وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيَاتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيین (55) 

اور اسی طرح ہم آیتوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور تاکہ گناہگاروں کا راستہ واضح ہو جائے

ابتدا میں اکثر غریب اور غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز رؤسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا انھیں تعزیب و اذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعال نے احسان فرمایا؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام پر واقعی اللہ کا احسان ہوتا تو سب سے پہلے ہم پر ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا 'لو کان خیر ما سبقونا الیہ (الاحقاف) اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے ' یعنی ان غربا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے لیکن اللہ تعالٰی ظاہری چمک دمک ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے اس کے شکرگزار بندے اور حق سناش کون ہیں؟ پس اس نے جن کے اندر شکر گزاری کی خوبی دیکھی، انھیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کر دیا جس طرح حدیث میں آتا ہے ' اللہ تعالٰی تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے 

 جاری ھے ۔۔۔۔

Share: