قسط نمبر (44) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 قریش کے آئمۂ کفر سے برآت کا اعلان

قریش کے بعض اکابرین جو کفر اور گمراہی و ضلالت کے پیشوا تھے ـ منجملہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، امیہ بن خلف، اسود بن عبدالمطلب اور حارث بن قیس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ھوئےاور اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو بظاھر  مصالحت اور دو طرفہ تعاون کی تجویز دی ۔ اُن کی تجویز یہ تھی  کہ "کچھ مدت (ایک سال) آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ہمارے دین کے پابند رہیں اور ہمارے بتوں اور معبودوں کی پرستش کریں اور کچھ مدت (ایک سال) ہم آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دین کی پابندی کریں گے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے خدا کی پرستش کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ان کی تجویز کو دو ٹوک الفاظ میں مسترد کردیا اس پر  سورة  الکافرون  نازل ھوئی 

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

قُلْ يَآ اَيُّـهَا الْكَافِرُوْنَ (1) 

کہہ دیجیے کہ اے کافرو۔


لَآاَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ (2) 

نہ تو میں تمہارے معبودوں کی عبادت کرتا ہوں۔


وَلَآ اَنْتُـمْ عَابِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ (3) 

اور نہ تم ہی میرے معبود کی عبادت کرتے ہو۔


وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّـمْ (4) 

اور نہ میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں گا۔


وَلَآ اَنْـتُـمْ عَابِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ (5) 

اور نہ تم میرے معبود کی عبادت کرو گے۔


لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِىَ دِيْنِ (6) 

تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔


اس سورۃ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قریش کے ائمہ کفر سے برأت کا اعلا ن ہے  اس سے پہلی سورتوں میں بھی  قریش کے لیڈروں سے بحث کا ذکر کیا گیا ھے  لیکن خطاب ان سے قومی اور انسانی بنیاد پر ہوا ہے، کہیں بھی ’ یایھا الکفرون‘ کے الفاظ سے ان کو خطاب نہیں کیا گیا گیا   لیکن اس سورۃ میں ان کو صاف صاف ’ اے کافرو:  کے الفاظ سے مخاطب کر کے ان سے بالکل حتمی طور پر قطع تعلق اور برأت کا اعلان کردیا گیا ہے۔ یہ اعلان برأت رسولوں کی اس سنت کے مطابق ہوا ہے جس کی وضاحت پچھلی سورتوں میں ہوچکی ہے کہ اللہ کے رسو ل اپنی قوم کو پہلے دین کی بنیادی باتوں یعنی توحید اور قیامت کی دعوت دیتے ہیں۔ اس دعوت میں وہ قوم کو ’ اپنی قوم ہی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہیں اور اس پر اس وقت تک پوری استقامت سے جمے رہتے ہیں جب تک قوم کے اکابرین اپنے رویہ سے ان کو مایوس نہیں کر دیتے۔ جب وہ مایوس کر دیتے ہیں اور بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ہٹ دھرم اپنی ضد سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کو ہجرت کا حکم ہوتا ہے اور وہ قوم سے اعلان برأت کر کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کر جاتا ہے۔ رسو ل کی ہجرت قوم کے لئے گویا آخری تنبیہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگر اس کے رویہ میں کوئی اچھی تبدیلی نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ ایک محدود مہلت دینے کے بعد قوم کے تمام مکذبین کو تباہ کر دیتا ہے، خواہ یہ تباہی رسول کی زندگی ہی میں واقع ہو یا اس کے بعد اور خواہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی قہر آسمانی نازل کرے یا رسول کے ساتھیوں کی تلوار اس کے لئے بے نیام ہو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام  تک  اور پھر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام رسولوں کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے اس میں یہ مشترک حقیقت موجود ہے ۔ 

یہاں ’ یایھا الکفرون‘ سے خطاب، ظاہر ہے کہ، انہی ائمۂ کفر سے ہے جو اس دور میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ ان کی مسلسل مخالفت نے یہ حقیقت واضح کر دی تھی کہ یہ چیز کسی شبہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ ایک موروثی بیماری  ہے جس نے ان کو بالکل اندھا بہرا دشمن بنا دیا ہے اور اب خدا کے تازیانۂ عذاب کے سوا کوئی اور چیز ان پر کارگر نہیں ہو سکتی۔ مخاطب کی اس ذہنیت کی بنا پر اس سورۃ میں جو باتیں فرمائی گئی ہیں وہ بالکل دو ٹوک الفاظ میں فرمائی گئی ہیں اور ہر بات بالکل مبنی برحقیقت ہے۔ اس خطاب کو مذمت یا غضب پر محمول  کرنا صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی جماعت کا کفر اس وقت تک واضح ہوتا ہی نہیں جب تک اہل حق اس پر اتمام حجت نہ کر دیں۔ اتمام حجت کے بعد ہی اس کا کفر واضح ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی یہ بات جائز ہوتی ہے کہ اہل حق اس سے علیحدگی کا اعلان کر دیں بلکہ اگر ضرورت ہو تو  اہلِ  ایمان  ان سے جہاد کریں۔ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے ھمیشہ ہجرت اور جہاد کے لئے اقام اتمام حجت کے بعد ہی کیا ہے اور یہی حق و عدل کا تقاضا ہے ۔

اس سورۃ نے قریش کے لیڈروں کے ساتھ دین کے معاملے میں کسی سمجھوتے کے تمام امکانات کا قطعی سدباب کردیا ہے اس وجہ سے یہ صرف ہجرت ہی کی سورۃ نہیں بلکہ یہ معنا اعلان جنگ کی سورۃ بھی ہے۔ 

سورۂ یونس میں  بھی وضاحت سے یہ بات بیان  ھوئی ھے کہ قریش کے لیڈروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ اگر ہم سے اپنے دین کو منوانا ہے تو اس کی واحد شکل یہ ہے کہ یا تو اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں ایسی مناسب ترمیم کرو کہ یہ ہمارے لئے قابل قبول ہو سکے  چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ھے :

وَاِذَا تُـتْلٰى عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّـذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَـآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْـرِ هٰذَآ اَوْ بَدِّلْـهُ ۚ قُلْ مَا يَكُـوْنُ لِىٓ اَنْ اُبَدِّلَـهٝ مِنْ تِلْـقَآءِ نَفْسِىْ ۖ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَىَّ ۖ اِنِّـىٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّىْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْـمٍ O

اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں، وہ لوگ کہتے ہیں جنہیں ہم سے ملاقات کی امید نہیں کہ اس کے سوا کوئی قرآن لے کر آؤ یا اسے بدل دو، تو  آپ کہہ دیجیے میرا کام نہیں کہ اپنی طرف سے اسے بدل دوں، میں اسی کی تابعداری کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جائے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

اس آیت  مبارکہ سے واضح  طور  پر معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ کفار کا سب سے زیادہ اصرار قرآن کی دعوت توحید کی ترمیم پر تھا، وہ اس کو اپنے آباء و آجداد کے عقیدے کے بھی خلاف سمجھتے تھے اور یہ اندیشہ بھی رکھتے تھے کہ اگر اللہ کے سوا انہوں نے تمام معبودوں کو ہی باطل ٹھہرا دیا، جیسا کہ قرآن مطالبہ کر رہا ہے، تو اس سے ان کی سیاسی ہستی ہی سرے سے ختم ہوجائے گی۔ ان کے اس مطالبہ کا جواب نبی کریم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ دیا گیا کہ ان سے کہہ دو کہ مجھے کیا حق ہے کہ میں بطور خود اس میں کوئی ترمیم کروں)۔ اگرچہ یہ جواب قریش کے لئے مایوس کن تھا لیکن فیصلہ کن نہیں تھا۔ لیکن سورۃ  الکافرون میں اس کا ایسا حتمی اور فیصلہ کن جواب دیا گیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے اس بحث کا دروازہ ہی بند کردیا گیا۔ جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہوئے کہ اس معاملے میں اب کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہے، اگر قریش اپنی ضد پر قائم رہے تو بالآخر اس کا فیصلہ تلوار سے ہوگا ۔

 قرآن پاک کی ترتیب میں “سورۃ  الکافرون “کا “سورۂ کوثر” کے بعد جگہ پانا بھی اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ سورۂ کوثر کی تفسیر میں یہ بات واضح  ہے کہ  کوثر سے مراد صرف حوضِ کوثر ھی نہیں  بلکہ اس سے مراد “خیراً کثیراً “ ھے  جس میں حوضِ کوثر بھی شامل ھے جیسا کہ  صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کوثر سے مراد وہ بھلائی اور خیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے یہ سن کر کہا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ جنت کی ایک نہر ہے تو سعید نے فرمایا: وہ بھی ان بھلائیوں اور خیر میں سے ہے جو آپ کو اللہ کی طرف سے عنایت ہوئی ہیں۔ اور بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس سے مراد بہت سی خیر ہے تو یہ تفسیر شامل ہے حوض کوثر وغیرہ سب کو جس کے معنی یہ ہوئے کہ ہجرت اور اعلان جہاد کی سورۃ سے پہلے ہی نبی کریم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح و نصرت کی بشارت دے دی گئی تاکہ حضور آکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم پر یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ اگرچہ آگے ہجرت اور جنگ کے کٹھن مرحلے آنے والے ہیں لیکن انجام ان کا نہایت شاندار ھو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو فتح سے نوازے گا اور وہ دنیا و آخرت دونوں کے کوثر سے شاد کام ہوں گے۔ اسی طرح کی بشارت حضور آکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کی اس دعا میں دی گئی ہے جو سورۃ بنی اسرائیل میں مذکور ھے : 

*وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِىْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِىْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّىْ مِنْ لَّـدُنْكَ سُلْطَانًا نَّصِيْـرًاO*

اور کہہ دیجیے اے میرے رب مجھے خوبی کے ساتھ پہنچا دے اور مجھے خوبی کے ساتھ نکال لے اور میرے لیے اپنی طرف سے غلبہ دے جس کے ساتھ نصرت ہو۔

اس دعا پر غور کریں  تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے دعا کے پیرائے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بشارت دے دی ہے کہ اگرچہ آپ کے مکہ سے نکلنے کا وقت اب قریب آ رہا ہے لیکن اس نکلنے سے پہلے ہی اللہ نے دارالہجرت میں آپ کے شاندار داخلہ کا انتظام کرلیا ہے ۔

 خلاصۂ کلام یہ کہ  “سورۃ  الکافرون “میں نبی کریم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے قریش کے لیڈروں کے سامنے یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان دین کے بنیادی مسئلہ “معبود”  کے باب میں کوئی قدر مشترک نہ زنانۂ حال  میں ہے، نہ ماضی میں رہی ہے اور نہ ھی زمانۂ مستقبل میں اس کے پائے جانے کا  کوئی امکان ہے اس وجہ سے ہمارے مابین کسی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اب تم اپنے دین پر چلو، ہم اپنے دین پر چلیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوجائے ۔

ابن جریر طبری کی روایت میں ھے کہ اس موقعہ پر سورہ الکافرون کے علاوہ  مندرجہ ذیل آیات  بھی نازل  ھوئی تھیں 

قُلْ اَفَغَيْـرَ اللّـٰهِ تَاْمُرُوٓنِّـىٓ اَعْبُدُ اَيُّـهَا الْجَاهِلُوْنَ (64) 

کہہ دو اے جاہلو کیا مجھے اللہ کے سوا اور کی عبادت کرنے کا حکم دیتے ہو۔


وَلَقَدْ اُوْحِىَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَۚ لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُـوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ (65) 

اور بے شک آپ کی طرف اور ان کی طرف وحی کیا جا چکا ہے جو آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں، کہ اگر تم نے شرک کیا تو ضرور تمہارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گے۔


بَلِ اللّـٰهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِّنَ الشَّاكِـرِيْنَ (66) 

بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے شکر گزار رہو۔


جاری ھے۔۔۔۔۔

Share: