قسط نمبر (45) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 

مشرکینِ قریش کا کوہِ صفا کو سونے کا بنانے کا مطالبہ

مشرکینِ مکہ اسلام کی دعوت کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رھے تھے وہ ھر قسم کے تمام حربے استعمال کر رھے تھے جن کی مدد سے اسلام کو پھیلنے سے روکا جا سکے ۔ وہ مکاری کے ساتھ  یہ ایک حربہ یہ بھی استعمال کرتے تھے کہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے مختلف مواقع پر معجزات طلب کرتے تھے جس سے ان کا مقصد ھدایت حاصل کرنا نہیں ھوتا تھا بلکہ  معجزوں کے طالب  یہ کافر لوگ صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے ایسا کرتے تھے  تاکہ خود مسلمان بھی اسلام کی حقانیت کے اعتبار سے شک شبہ میں پڑ جائیں ۔ اس طرح وہ مسلمانوں کو اسلام سےھٹانے کی مکروہ  کوشش کر رہے تھے ۔ وہ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور و شور  سے کہتے تھے کہ اگر ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم بھی مسلمان ہو جائیں ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ہدایت فرماتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے تو دکھائے اور چاہے نہ دکھائے چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے 

وَاَقْسَمُوْا بِاللّـٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِـهِـمْ لَئِنْ جَآءَتْـهُـمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِـهَا ۚ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيَاتُ عِنْدَ اللّـٰهِ ۖ وَمَا يُشْعِـرُكُمْ اَنَّـهَآ اِذَا جَآءَتْ لَا يُؤْمِنُـوْنَ O 

اور وہ اللہ کے نام کی پکی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئے تو اس پر ضرور ایمان لائیں گے، ان سے کہہ دو کہ نشانیاں تو اللہ کے ہاں ہیں، اور تمہیں کیا خبر ہے کہ جب نشانیاں آئیں گی تو یہ لوگ ایمان لے ہی آئیں گے۔

وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَـهُـمْ وَاَبْصَارَهُـمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُـوْا بِهٓ ٖ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُـمْ فِىْ طُغْيَانِـهِـمْ يَعْمَهُوْنَ O 

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے۔


ابن جریر کی  ایک روایت  میں ہے کہ مشرکین نے حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے کہا کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  خود فرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ  علیہ السلام ایک پتھر پر لکڑی مارتے تھے تو  اس سے  بارہ چشمے جاری ھو جاتے  تھے اور حضرت عیسیٰ  اللہ کے حکم سے مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور حضرت ثمود نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تھا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی جو معجزہ ہم  آپ کو کہیں  وہ دکھا دیں واللہ ہم سب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت کو مان لیں گے ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا  کہ  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دیں پھر تو قسم اللہ کی ہم سب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو سچا جاننے لگیں گے ۔ 

آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ان کے اس کلام سے کچھ امید بندھ گئی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی ۔ وہیں حضرت جبرائیل  علیہ السلام آئے اور فرمانے لگے سنئے اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  چاہیں تو اللہ تعالی  ابھی اس صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے گا لیکن اگر یہ  پھر بھی ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب ان سب کو فنا کر دے گا ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا نہیں اللہ تعالیٰ میں صفا کا سونا نہیں جاہتا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب فرما دے چنانچہ قرآن کریم میں ایک اور جگہ ہے 

وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ

 یعنی معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیز مانع ہے کہ ان سے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلا یا ۔

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی اے مسلمانو تم نہیں جانتے یہ لوگ ان نشانیوں کے ظاہر ہو چکنے پر بھی بے ایمان ہی رہیں گے ۔ 

جیسے آیت مبارکہ

قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ  (الاعراف) میں ۔ 

اور آیت مبارکہ 

 وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ  - الانبیآء

 میں ، تو مطلب یہ ہوتا کہ اے مومنو ؛ تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اپنی من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی؟ ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں ، واللہ اعلم ۔  پھر فرماتا ہے کہ ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں ، اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں ۔ ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے ، روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے؟ اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے ؟ اسی لئے اس نے بتلا دیا کہ ایسا ہو گا فرماتا ہے آیت مبارکہ ھے  

وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ  ( فاطر:14 )

 اور اس جیسی خبر اور کوئی نہیں دے سکتا 

 فرمایا  گیا کہ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ کر دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں ۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے اگر بالفرض یہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے ، ہرگز نہ چھوڑیں گے ، یہاں بھی فرمایا کہ معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لئے مفید نہ ہو گا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کیلئے کوئی جگہ خالی ہی نہیں ۔ پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے ۔ بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے ۔  

ارشادِ خداوندی  ھے

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ O

اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی ( معجزہ ) کیوں نہیں اتاری گئی ۔ بات یہ ہے کہ آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں اور قوم کے لئے ہادی ہے ۔

چنانچہ ایک  اور روایت میں  آتا ہے کہ قریش نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ کوہ صفا کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سونا بنا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ اس بار اللہ تعالی سے دعا مانگلیں۔ اس وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اے نبی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ان سے فرما دیجیے کہ جو یہ چاہتے ہیں وہی ہو جائے گا لیکن یہ سمجھ لیں کہ ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد اگر یہ ایمان نہ لائے تو پھر یہ ہلاک کر دیئے جائیں گے۔

 بروایات علامہ سہیلی  رحمہ اللہ 


مشرکینِ مکہ کے دیگر آحمقانہ اور بیہودہ سوالات 

مشرکینِ مکہ کے  مہمل اور بے ہودہ سوالات  کا آغاز اس وقت سے ہوا جب اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنی دعوت کو لوگوں میں عام کریں۔ اس سے پہلے تو کفّار آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو الصادق، الامین  کے القاب سے پگارتے تھے اور آپ کو بہت ہی اعلی انسان سمجھتے تھے لیکن جب دعوتِ توحید کا آغاز شروع ہوا تو یہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے دشمن ہوگئے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو عاجز کرنے کے لئے فضول اور بے مقصد سوالات  کرنے لگے مثلاً 

 ایک دفعہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ  اگر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو یہ سوالات منظور نہیں  تو ہم ایک اور تجویز آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے سامنے رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اس کو منظور کرلیں۔ وہ تجویز یہ ہے کہ جیسا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی قوم نہایت تنگ دست ہے اور شہر مکہ بھی بہت تنگ  ہے۔ ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ ہیں نہ کوئی سبزہ ہے ،نہ کوئی شادابی ہے تو کیوں نہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ایسا کریں کہ  جس کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنا رب کہتے ہیں اور جس نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، اس سے یہ درخواست کیجیئے کہ اس شہر کے پہاڑوں کو یہاں سے ہٹا دے تاکہ شہر میں وسعت پیدا ہوجائے اور شام اور عراق کی طرح اس شہر میں بھی نہریں جاری کردے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے آباؤ اجداد خصوصاً  قصی بن کلاب کو زندہ کردیں۔  اگر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ہمارے یہ سب مطالبات اپنے رب سے منوادیں گے تو ہم  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا کہنا مان لیں گے۔ قرآن پاک میں اس کا جواب دیا گیا

وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْـهِـمُ الْمَلَآئِكَـةَ وَكَلَّمَهُـمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْـهِـمْ كُلَّ شَىْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُـوْا لِيُؤْمِنُـوٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَآءَ اللّـٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُـمْ يَجْهَلُوْنَ (111) 

اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیں اور ان سے مردے باتیں بھی کریں اور ان کے سامنے ہم ہر چیز کو زندہ بھی کر دیں تو بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں مگر یہ کہ اللہ چاہے، لیکن اکثر ان میں سے جاہل ہیں


قصی بن کلاب

 آپ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آباؤ اجداد میں سے ایک نامور شخصیت تھے تمام قریش ان کا اپنا بزرگ مانتے تھے  ۔ آپ کی  پیدائش: 400ء  میں ھوئی  ان کی والدہ کا نام فاطمہ تھا۔  ان کے والد کلاب بن مرہ کا انتقال ان کے بچپن میں ہو گیا تھا۔ حضرت محمد آپ کی پانچویں پشت میں پیدا ہوئے۔ آپ ھاشم کے دادا تھے جن سے بنو ھاشم کا قبیلہ شروع ہوتا ہے۔۔ یہ آپ ہی تھے جنہوں نے مکہ میں اپنی قوت مستحکم کی اور سرداری قائم کی اور کعبہ کی خدمت کی۔ بے شمار صحابہ کرام آپ کی نسل سے ہیں۔ آپ کی جوانی کے وقت کعبہ کا کنڑول بنو خزاعہ کے پاس تھا جس کے سردار ھلیل کی بیٹی سے آپ نے شادی کی۔ چونکہ قصی بن کلاب بہت ذہین اور دانشمند سمجھے جاتے تھے اس لیے ھلیل کی وفات کے بعد کعبہ کا کنٹرول اور سرداری ان کو  سونپ  دی گئی جس سے  کعبہ کی یہ خدمت بنو خزاعہ سے قریش میں منتقل ہو گئی۔ انہوں نے کعبہ کو دوبارہ تعمیر کر کے اس کی حالت بہتر کی اور لوگوں کو اس کے ارد گرد گھر تعمیر کرنے کی دعوت دی۔ اس وقت انہوں نے دنیائے عرب کا پہلا مرکزِ “شہر داری”  (ٹاؤن ھال) بھی تعمیر کیا۔ اس مرکزِ شہر داری میں تمام قبائل کے نمائندے اپنے معاشرتی، معاشی اور دیگر مسائل کے باہم فیصلے کیا کرتے تھے۔ مکہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ آپ نے  یہ قانون بنایا کہ کعبہ کے زائرین کو مفت کھانا اور پانی مہیا کیا جائے گا جس کے لیے انہوں نے مکہ کے قبائل کو قائل کیا کہ وہ ایک ٹیکس ادا کیا کریں۔ اس سے مکہ کے زائرین کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی  ۔انہوں نے ہجرت سے 141 سال قبل 480 عیسوی میں مکہ میں وفات پائی اور ان کی میت کو کوہ حجون کے دامن میں دفن کیا گیا۔ اس کے بعد مکہ کے لوگوں نے اپنے مرنے والوں کو حجون میں دفن کیا جو کہ مکہ کا پہلا قبرستان تھا۔

قصی بن کلاب کو  تمام قریش بہت مانتے تھے اور بہت اچھا سمجھتے تھے۔ اسی لئے  قریش یہ چاہتے تھے کہ وہ زندہ ہو جائے اور ھم اُس سے بات  کریں  ۔( البدایہ والنہایہ) ۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ میں تو اس کام کے لیے نہیں بھیجا گیا اور جو خدا نے مجھے پیغام دے کر بھیجا ہے وہ  میں نے تم تک پہنچا دیا ہے، اگر تم اسے قبول کرتے ہو تو تمہاری خوش نصیبی ہے اور اگر تم قبول نہیں کرتے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دیں۔

قریش  اپنے بیہودہ سوالات کرنے  میں اگے ھی پڑھتے جا رھے تھے  اُنہوں نے  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اپنے  رب  سے یہ دعا کیجئے کہ وہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل فرمائے جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تصدیق کے لیے ہر جگہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے ساتھ رہے۔ جہاں جہاں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم جائیں وہاں وہاں وہ  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی تصدیق  کرے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  اللہ کے رسول ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالی سے یہ دعا کیجیے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو وہ باغات ، محلات اور سونے چاندی کے خزانے بھی عطا فرمائے کیونکہ ہم نے تو کوئی نبی ایسا نہیں دیکھا جو اتنا غریب، مسکین اور یتیم ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری طرح آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی طلب معاش کیلئے بازار جاتے ہیں، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم بھی کھانا کھاتے ہیں اور  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم وہ تمام کام کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔

 تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ سبحانہ وتعالی سے اس قسم کے سوالات کبھی کر ہی نہیں سکتا کیونکہ میں اس کام کے لیے بھیجا ہی نہیں گیا۔ میرا کام تو بشیر ونذیر والا ہے یعنی میں تم لوگوں کو جنت کی بشارت دوں اور تمہیں جہنم سے خبردار کروں۔ اگر تم مانو تو تمہارے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت ہے اور اگر تم نہ مانو تو میں صبر کر لوں گا یہاں تک کہ اللہ تمہارے اور میرے درمیان فیصلہ کردے۔

قریش نے کہا کہ  اچھا  پھر آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللہ سے یہ دعا مانگ لیں کہ ہم پر کوئی عذاب نازل کر دے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اللہ کا اختیار ہے، چاہے تو تم پر عذاب فرمائے اور چاہے تو تمہیں مہلت دے۔

ان سوالات و جوابات کے دوران ہی ایک شخص عبداللہ بن ابی امّیہ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے  اور ام المومنین ام سلمیٰ کے سگے  بھائی تھے (اُس وقت تک ابھی مسلمان نہیں ھوئے تھے)  کھڑے  ہو گے ۔  (یہ فتح مکہ میں مشرف با اسلام  ہوئے اور امّ المومنین کی شفاعت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تمام قصور معاف کر دیے۔ )  اور کہنے لگے کہ  اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی قوم نے اتنی ساری باتیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے سامنے رکھی ہیں مگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے ایک بھی بات قبول نہیں کی۔ تو اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ؛ خدا کی قسم اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائیں  اور وہاں سے اپنی نبوت اور رسالت کا پروانہ لکھا کے بھی لے آئیں اور چار فرشتے بھی آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ہمراہ آجائیں اور آپ کی  نبوت پر علیٰ الاعلان شہادت بھی دے دیں تب بھی میں آپ کی  تصدیق  نہیں کروں گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دکھ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے گھر تشریف لے گئے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت امید تھی کہ یہ لوگ میری بات کو سمجھیں گے لیکن انہوں نے آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی بات کو نہیں سمجھا۔ 

 ابن کثیر، البدایہ والنہایہ

 اللہ تعالی کی یہ ھمیشہ سے یہ سنت رھی ہے کہ جب کوئی قوم کسی معجزے کا مطالبہ کرتی ہے اور وہ معجزہ اس قوم کو عطا کردیا جاتا ہے اور پھر وہ اس معجزے کے بعد  بھی ایمان نہیں لاتی تو اللہ تعالی یا تو اس قوم کو ہلاک کر دیتے ہیں یا پھر اس پر عذاب آجاتا ہے لیکن یہاں پر ایسا نہیں ہوا۔ ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ اللہ تعالی اس قوم کے اوپر بھی عذاب بھیج دیتے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا تھا اور ان کی برکت سے اس قسم کے تمام عذاب اٹھا دیے گئے تھے جو امت سابقہ پر بھیجے گئے۔



قریش کا علماءِ یہود سے مشورہ 

کفارِ مکّہ نے جب سارے حربے  آزما کر دیکھ لئےاور کسی طریقے سے ان کا مقصد  حل نہیں ہوا تو پھر انہوں نے علماء یہود سے مشورہ کرنے کا سوچا۔ قریش کو جب یہ معلوم ہو گیا کہ ان کے سوالات جاہلانہ ہیں تو انھوں نے مشورہ کرکے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو مدینہ منورہ روانہ کیا تاکہ وہاں پہنچ کر یہ لوگ علماء یہود سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں استفسار کریں کیونکہ وہ لوگ انبیاء  کرام کے علوم سے واقف تھے اور پیغمبروں کی علامتوں سے بھی آگاہ تھے۔ یہ دونوں آدمی جب مدینہ منورہ پہنچے تو علماء یہود سے انہوں نے تمام واقعات کا ذکر کیا، علماء یہود نے کہا کہ  تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوال  کرو 

 پہلا سوال : 

وہ لوگ کون تھے جو غار میں گئے تھے اور اللہ تعالی نے ان کا کیا معاملہ کیا  یعنی کہ اصحاب کہف کا قصہ دریافت کرنا، 


دوسرا سوال : 

وہ شخص کون تھا جس نے مشرق سے مغرب تک تمام روئے زمین کو چھان مارا یعنی  قصہ ذوالقرنین 


 تیسرا سوال : 

  کہ روح کیا شے ہے؟ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ان تینوں سوالات میں سے اول اور دوم کا جواب دے دیں اور تیسرے سے سکوت فرمائیں تو سمجھ لینا کہ وہ نبی مرسل ہیں ورنہ نعوذ باللہ کاذب اور مفتراء ہیں۔

نضر بن حارث اور عقبہ بڑے خوشی خوشی مکہ واپس آئے کیونکہ ان کو پورا یقین تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کا جواب  دے ہی نہیں سکتے۔ انھوں نے قریش سے کہا کہ ہم تو ایک فیصلہ کن بات لے کر آئے ہیں۔

 پھر یہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ سوالات پیش کیے، آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اس امید پر کہ کل تک اس بارے میں کوئی وحی نازل ہوجائے گی یہ فرمادیا کہ  میں تمہیں کل اس بات کا جواب دوں گا۔ لیکن بتقاضہ بشریت  “ان شاء اللہ “ کہنا بھول گئے ان شاءاللہ نہ کہا اس بنا پر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی چنانچہ اللہ تعالی کا حکم نازل ھوا

وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ(۲۳)اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ٘-وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا(۲۴)

اور ہر گز کسی بات کو نہ کہنا کہ میں کل یہ کردوں گامگر یہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کی یاد کر جب تو بھول جائے اور یوں کہہ کہ قریب ہے کہ میرا رب مجھے اس سے نزدیک تر راستی(ہدایت) کی راہ دکھائے

 یعنی کہ جب بھول جائے تب اپنے رب کو یاد کر، یعنی ان شاءاللہ کہنا اگر موقعہ پر یاد نہ آیا تو جب یاد آئے کہہ لیا کر۔ ۔  چند روز کے انتظار کے بعد سورۃ الکہف کی وہ آیات نازل ہوئیں جس میں اصحاب الکہف اور ذوالقرنین کا قصہ تفصیلاً بتا دیا گیا اور تیسرے سوال  یعنی “ روح “ کے متعلق  سورۃ بنی اسرائیل کی یہ آیت نازل ھوئی

وَيَسۡــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الرُّوۡحِ‌ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّىۡ وَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِيۡلاً‏ ۸۵

اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے  ﴿۸۵

ان شاء اللہ کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک سال کے بعد بھی ان شاء اللہ کہنا یاد آجائے تو اس وقت کہہ لینا چاہیئے کہ کم از کم  جو سہوا نیسیان اس سے ہوا تھا اس کا تدارک ہو  جائے 

جاری ھے ۔۔۔

Share: