قسط نمبر (46) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 آصحابِ کہف کا واقعہ

 رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دور میں کچھ قریشِ مکہ  یہودی علماء  کے پاس   مدینہ منورہ گئے  اور ان سے کہا کہ حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم سے ایسا کیا سوال  پوچھا جائے  کہ  ان کے نبی ہونے کی حقیقت واضح ہوجائے ۔ا س کے جواب میں یہودی علماء   نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے تین سوال  پوچھنے کو کہا، جن میں ایک سوال “اصحاب  کہف  “ کے بارے میں تھا لہذا  اللہ پاک نے  اپنے پیارے  محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اس کا جواب قرآن پاک   کی سورۃ الکہف  کے اندر مکمل وضاحت  کے ساتھ بیان فرمایا ۔


 واقعۂ آصحابِ کہف  کی تاریخی  حیثیت 

 حضرت عیسی  علیہ السلام  کو  اللہ تعالیٰ  نے (آج  کے دور کے فلسطین  کے علاقے  میں)  اسلام کی تبلیغ کے لیے بھیجا  یہ علاقہ اس وقت  رومن ایمپائر میں شمار ہوتا تھا۔  یہاں ایک یہودی  بادشاہ کی حکمرانی  تھی جو رومن حکومت کے ماتحت  کام کر رھا تھا  جب حضرت عیسی علیہ السلام نے  تبلیغ شروع کی  تو یہودی لوگ آپ  علیہ السلام کے مخالف ہوگئے  اور آپ علیہ السلام  کو گرفتار کر کے سولی  پر لٹکانا چاہا  مگر اللہ کے حکم سے  آپ ؑ علیہ السلام  کو زندہ آسمان  پہ اٹھا لیا گیا اس واقعہ کے کچھ عرصہ  بعد یہودیوں  نے رومی حکومت کے خلاف بغاوت  کردی  ردِ عمل  میں ٹرٹس نامی  رومی بادشاہ  نے یروشلم  اور فلسطین پر حملہ کرکےاسے بالکل تباہ کردیا   حتی کہ  بیت المقدس کو بھی تباہ کردیا اسی دوران  اس نے ڈیڑھ لاکھ  یہودیوں کو قتل کردیا  جو بچے  کھچے  یہودی یہاں رہ گئے تھے  وہ جان بچا کر  فلسطین سے نکل گئے ۔ مگر جو حضرت عیسیٰ  علیہ السلام   کے ماننے والے  اور ان کی تعلیمات  کے پیروکار  تھے ،   وہ  فلسطین  میں موجود رہ گئے  ،  پھر یہاں  دقیانوس نامی بادشاہ کی حکومت قائم ھوئی جو کہ ایک متعصب بت پرست تھا لہذا اس کی حکومت میں موجود عیسائی  لوگوں پر اس نے ظلم  وستم کرنا شروع کردیے ۔  ایک دن حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کے چند ماننے والے نوجوانوں  کو جنہوں نے تحقیق کے بعد عیسائی مذھب قبول کر لیا ھوا تھا اس نے اپنے دربار میں بلایا  اور ان سے کہا: میں تمہیں چند دن کی مہلت دیتا ھوں   ، تم اپنے نئے دین یعنی عیسائیت سے  باز آجاؤ،  ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا  ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام   کے پیروکار  یہی نوجوان  دراصل اصحاب  کہف تھے ، جن کے واقعہ کا ذکر قرآن پاک میں سورہ کہف  میں وضاحت سے آیا ھے ۔

یہ چند نوجوان جو اس ظالم بادشاہ دقیانوس کے زمانہ میں تھے، بادشاہ متعصب  بت پرست تھا، اور جبرو اکراہ کے ذریعہ بت پرستی کی اشاعت کرتا تھا لیکن  ان نوجوانوں نے سچا دین  قبول کرلیا تھا، ان نوجوانوں کا تعلق اونچے گھرانوں اور عمائدین سلطنت سے تھا، حق تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت سے نوازا تھا،  غرض کہ ان نوجوانوں کو شاہی دربار میں طلب کیا گیا ان نوجوانوں نے بلا کسی جھجک  اور خوف وہراس کے ظالم بادشاہ کے روبرو اپنے ایمان کا کھلم کھلا اعلان کردیا، اور اپنی ایمانی جرأت سے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا، چنانچہ ارشاد ربانی ہے 

نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَهُـمْ بِالْحَقِّ ۚ اِنَّـهُـمْ فِتْيَةٌ اٰمَنُـوْا بِرَبِّـهِـمْ وَزِدْنَاهُـمْ هُدًى (13) 

ہم تمہیں ان کا صحیح حال سناتے ہیں، بے شک وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں اور زیادہ ہدایت دی۔

وَرَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِـهِـمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَ مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اِلٰـهًا ۖ لَّـقَدْ قُلْنَـآ اِذًا شَطَطًا (14) 

اور ہم نے ان کے دل مضبوط کر دیے جب وہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے، ورنہ ہم نے بڑی ہی بے جا بات کہی۔


هٰٓؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اٰلِـهَةً ۖ لَّوْلَا يَاْتُوْنَ عَلَيْـهِـمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ ۖ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَـرٰى عَلَى اللّـٰهِ كَذِبًا (15) 

یہ ہماری قوم ہے انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا لیے ہیں، ان پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے، پھر اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔


وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُـمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّـٰهَ فَاْوُوٓا اِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْـمَتِهٖ وَيُـهَـيِّـئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا (16) 

اور جب تم ان سے الگ ہو گئے ہو اور (ان سے بھی) اللہ کے سوا جنہیں وہ معبود بناتے ہیں تب غار میں چل کر پناہ لو، تم پر تمہارا رب اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لیے تمہارےاس کام میں آرام کا سامان کر دے گا۔


وَتَـرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزَاوَرُ عَنْ كَهْفِهِـمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُـمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُـمْ فِىْ فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذٰلِكَ مِنْ اٰيَاتِ اللّـٰهِ ۗ مَنْ يَّـهْدِ اللّـٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَـهٝ وَلِيًّا مُّرْشِدًا (17) 

اور تو سورج کو دیکھے گا جب وہ نکلتا ہے ان کے غار کے دائیں طرف سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان کی بائیں طرف سے کتراتا ہو گزر جاتا ہے اور وہ اس کے میدان میں ہیں، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے تمہیں کوئی بھی کارساز راہ پر لانے والا نہیں ملے گا

 ان نوجوانوں نے  بادشاہ کے دربار میں کھل کر کہا کہ یہ ہماری قوم جو معبود حقیقی کو چھوڑ کر دوسرے فرضی معبودوں کو اختیار کئے ہوئے ہے ۔یہ ان کے معبود حقیقی ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتی ؟ لہٰذا اس سے بڑا ظالم کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو اللہ پر بہتان باندھے ۔ نوجوانوں کی یہ بات سن کر بادشاہ کو  غصہ تو بہت آیا لیکن ان کی نوجوانی پر کچھ رحم آیا اور کچھ دیگر مشاغل مانع ہوئے اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ عمائدین سلطنت اور بڑے گھرانوں کے چشم چراغ تھے اس لیے یک لخت ان پر ہاتھ ڈالنا مصلحت کے خلاف تھا اس لیے ان کو چند روز کی مہلت دے دی، تاکہ وہ اپنے معاملہ میں غور کرلیں۔ ادھر یہ نوجوان دربار سے نکل کر کسی ایک مقام پر جمع ھوئے اور مشورہ کے لیے بیٹھ گئے، اور یہ طے کیا کہ اب اس شہر میں  ھمارا قیام خطرے سے خالی نہیں، مناسب یہ ہے کہ کسی قریبی غار میں روپوش ہوجائیں، اور واپسی کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار کریں یہ  نوجوان  کیونکہ بادشاہ سے لڑنے کی ہمت نہیں  رکھتے تھے  اور نہ ہی شہر میں رہ کر عیسائی تعلیمات  جاری رکھ سکتے تھے  کیونکہ خطرہ تھا کہ دقیانوس  انہیں قتل  کروا دے گا ۔ لہذا انہوں نے شہر چھوڑ کر  کہیں بھاگ جانے کا فیصلہ کیا اور اللہ پاک کی ذات  پر بھروسہ  کرکے شہر سے  نکل گئے  یہ سوچتے ہوئے  کہ اب اللہ پاک ہی ہمارے لیے کوئی فیصلہ  کرے گا اور کوئی راستہ نکالے گا ، یہاں تک کہ وہ ایک پہاڑ کے غار میں  جاکر چھپ  گئے  اور وہیں سوگئے  ۔ یہاں تک کہ  اللہ کے حکم سے سوتے سوتے ان پر تین سو سال کا عرصہ گزرگیا ۔

ذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ﴿١٠﴾ فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ﴿١١﴾

ان چند نوجوانوں نے جب غار میں پناه لی تو دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راه یابی کو آسان کردے پس ہم نے ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال تک اسی غار میں پردے ڈال دیئے”

دقیانوس  بادشاہ  نے جب ان لوگوں کو تلاش کروایا  تو اسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ اس  اس غار میں  موجود  ہیں ۔اسے بہت غصہ آیا ، اُس نے  حکم دیا کہ غار کو ایک مضبوط دیوار  سے بند کر دیا جائے تاکہ یہ لوگ  اندر ہی  گُھٹ کر مرجائیں ۔  بادشاہ نے جس  شخص کے ذمہ یہ کام لگایا وہ بہت ہی نیک  اور ایماندار شخص تھا  اس نے اصحاب کہف کے نام اور  ان کی تعداد  اور پورا واقعہ ایک تختی  پر لکھوا کر ایک صندوق میں رکھ کر دیواروں کی بنیادوں میں رکھ دیا اور ایک  تختی لکھواکر شاہی خزانے میں بھی رکھوادی  ۔

آصحابِ کہف  اللہ کے حکم سے تین سو سال تک غار میں حالتِ نیند میں رھے اس دوران دقیانوس بادشاہ مرگیا  اور اس کے بعد کئی  اور بادشاہ اور حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ یہاں تک کہ  اُس وقت کے بت پرست رومن  ایمپائر  نے بھی عیسائیت اختیار کرلی ۔440 عیسوی  میں  یہاں پر بیدروس نامی  عیسائی بادشاہ  کی حکومت آئی جو ایک نیک دل  اور انصاف پسند بادشاہ تھا  اس نے 68 سال تک حکومت کی  اس  کے دور میں مذہبی  فرقہ پسندی جب عروج پر پہنچ گئی  اور لوگوں میں مرنے کے بعد  دوبارہ زندہ  کیے جانے  اور قیامت قائم ھونے  کا یقین ختم  ہوتا جا رھا تھا ۔ قوم کا یہ حال دیکھ کر  بادشاہ بہت رنجیدہ  ہوا اور  اللہ سے دعا کی۔  اے اللہ کچھ ایسی  نشانی  ظاہر فرما  دے کہ میری قوم  کے لوگوں  کا ایمان  پھر سے تازہ  ہوجائے  انہیں قیامت  ، مرنے  کے بعد دوبارہ  زندہ کیے جانے اور ایک خدا کا  یقین ہوجائے۔ا للہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول فرمائی ۔

لہذا  اتفاق سے ایک  روز ایک چرواہا  اپنی بکریوں  کو  ٹھہرانے کے لیے  جگہ تلاش کرتا ھوا اس غار کے پاس پہنچا  یہ وہی  غار  تھی جس میں اصحاب  کہف موجود تھے  ۔اس چرواہے نے  چند لوگوں کےساتھ مل کر  اس دیوار کو  گرا دیا ۔ دیوار  کے گرتے ہی  لوگوں پر ایسی  ہیبت  وخوف طاری  ہوا کہ سب گھبرا کر وہاں سے  بھاگ گئے ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اصحاب کہف  اپنی نیند سے بیدار ہوئے  اورایک دوسرے سے سلام کلام کرنے لگے اور اپنےایک ساتھی یملیخا کو بازار سے کھانا لانے بھیجا ۔ جب یملیخا بازار پہنچے تو  یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ  شہر میں  ہر طرف اسلام کا  چرچا ہے  یہاں تک کہ لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام   کا کلمہ پڑھ رہے ہیں  اور ان کی تعلیمات پر عمل  بھی کررہے ہیں اس کشمکش میں  یملیخا نے کھانے کے عوض  اپنے زمانے کے سکے دکاندار کو دیے  ۔ دکاندار  نے جب یہ سکے  دیکھے تو اسے شک ہوا کہ شاید اس شخص کو کوئی پرانا خزانہ مل گیا ھے لہذا ا س نے یملیخا کو سپاہیوں  کے سپرد کردیا۔ سپاہیوں  نے  یملیخا سے پوچھا:  بتاؤ یہ خزانہ کہاں سے آیا ۔ یملیخا  نے کہا ہمارے  پا س کوئی  خزانہ نہیں  یہ ہمارا ہی  پیسہ ہے ۔ سپاہیوں نے  کہا ہم کیسے مان لیں کیونکہ  یہ سکے تین سو سال  پرانے ہیں۔ یملیخا نے  کہا  : پہلے مجھے  دقیانوس بادشاہ کے متعلق بتاؤ کہ اس  کا کیا حال ہے ؟ سپاہیوں  نے جواب دیا : آج اس نام کا کوئی بادشاہ  نہیں ہے مگر تین سو سال  سال پہلے اس نام کا ایک بے ایمان بادشاہ  گزرا ہے  وہ بت پرست تھا ۔ یہ سن کر یملیخا حیران پریشان ہوئے  اور بتایا کہ ہم کل ھی تو اس کے شہر سےاپنا ایمان اور جان  بچا کر بھاگے تھے  اور میں اور میرے ساتھی قریب  کے ایک غار میں چھپ گئے تھے جبکہ میرے باقی ساتھی اب بھی غار میں موجود ہیں ۔ تم میرے ساتھ  چل کر خود ہی دیکھ لو۔  جب سپاہی  اور  بہت سے لوگ  اس غار  کے پاس پہنچے تو اصحاب کہف  یملیخا کے انتظار میں  تھے۔ جب غار پر  بہت سے آدمی  پہنچے  اور شوروغل  سنائی دینے لگا تو اصحاب کہف  سمجھے کہ دقیانوس کی فوج ہمارا تعاقب  کرکے غار  تک آپہنچی ھے لہذا وہ اللہ کے ذکر اور حمد وثناء میں مشغول ہوگئے ،سپاہیوں نے غار پر پہنچ کر  تانبے کا وہ صندوق برآمد  کرلیا اور اس کے اندر سے تختی کو نکال کر پڑھا تو وہاں اصحاب  کہف کے نام اور یہ لکھا تھاکہ یہ مومنوں کی جماعت  ہے جو  اپنے دین  کی حفاظت  کے لیے دقیانوس  بادشاہ  کے خوف سے اس غار میں پناہ  گزیں ہوئی ہے ۔دقیانوس نے اس غار کے منہ کو بند کروادیا ہے ۔ سپاہی یہ دیکھ کر حیران وپریشان  رہ گئے  جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اپنے بادشاہ   بیدروس کو اطلاع  دی۔

 بادشاہ  بیدروس نے یہ خبر  سنی تو فوراً اپنے امراء اور  علماء کے ہمراہ اس جگہ  پہنچ گئے ۔ا صحاب کہف  نے غار سے باھر نکل کر  تمام واقعہ  بادشاہ سے بیان کیا۔ بیدروس نے سجدہ  گزار  ہوکر اللہ تعالیٰ کا  شکر ادا کیا کہ اے اللہ میری دعا قبول ہوئی  اور آپ نے ایسی نشانی  ظاہر فرمائی   کہ انسان  موت کے بعد  زندہ ہونے کا یقین  ضرور کرے گا۔اس کے بعد اصحاب  کہف نے بادشاہ کو دعا دی  اور سلام کرنے کے بعد دوبارہ اسی غار میں واپس چلے گئے اور دوبارہ واپس  جاکر سوگئے  اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی ۔  کہا جاتا ھے کہ بیدروس بادشاہ  نےا سی غار میں ان کی قبریں بنوائیں  اور  سالانہ ایک دن مقرر کردیا جب لوگ اصحاب کہف کی قبروں کی زیارت  کے لیے آیا کرتے  تھے ۔

 (أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا   ( سورۃ الکہف آیت 9 )

 کیا تو اپنے خیال میں غار اور کتبے والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کوئی بہت عجیب نشانی سمجھ رہا ہے؟


اصحابِ کہف کا زمانہ :

جدید تحقیقات کے مطابق  یہ تخمینہ  لگایا گیا ھے کہ یہ واقعہ  حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے زمانے کے  چند سو سال  پہلے  پیش آیا ۔


اصحابِ کہف کی غار

 خلیج عقبہ سے شمال کی  جانب بڑھتے ہوئے   پہاڑوں  کے دو متوازی  سلسلےملتے ہیں  ان میں سے ایک  پہاڑ کی بلندی  پر رقیم  شہر آباد  تھا۔ اس شہر کے عجیب  وغریب  غار قابل ذکر  ہیں جو اس طرح واقع ہیں کہ  دن  کی دھوپ  اور تپش ان تک پہنچتی ھے  اور ایک غار  کے قریب  قدیم عمارتوں  کے آثار  بھی پائے گئے  ہیں ۔

وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا ﴿١٧

اور تو سورج کو دیکھے گا جب وہ نکلتا ہے ان کے غار کے دائیں طرف سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان کی بائیں طرف سے کتراتا ہو گزر جاتا ہے اور وہ اس کے میدان میں ہیں، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے تمہیں کوئی بھی کارساز راہ پر لانے والا نہیں ملے گا۔


اصحاب کہف کے نام اور ان کی تعداد

کسی  بھی صحیح حدیث سے اصحاب کہف کے نام اور  تعداد  صحیح ثابت  نہیں ھیں  تاھم تفسیری  اور تاریخی   واقعات  میں مختلف نام بیان کئے گئے ہیں  ۔ حضرت عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ  کی روایت  کے مطابق ان کے نام  یہ تھے۔

 مکسلمینا،  تملیخا، مرطونس، سنونس،  سارینونس، ذونواس،  کعسططیونس

 جبکہ آٹھواں ان کا  کتا  تھا جس کانام قطمیر بتایا گیا ھے ۔ تاھم ان ناموں اور تعداد  میں کافی اختلاف  پایا جاتا ہے ۔  خود قرآن  پاک میں ارشاد ہے کہ ان کی  صحیح تعداد  اللہ ہی کو معلوم  ہے ۔

سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا ﴿٢٢﴾

کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحاب کہف تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا، غیب کی باتوں میں اٹکل (کے تیر تکے) چلاتے ہیں، کچھ کہیں گے کہ وه سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے۔ آپ کہہ دیجیئے کہ میرا پروردگار ان کی تعداد کو بخوبی جاننے واﻻ ہے، انہیں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔ پس آپ ان کے مقدمے میں صرف سرسری گفتگو کریں اور ان میں سے کسی سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ بھی نہ کریں۔


 واقعۂ آصحابِ کہف کا بنیادی مقصد  

 ا صحاب کہف  کو زمانۂ دراز  تک سلانے  کے بعد جگانے  کا بنیادی مقصد  یہ تھا  کہ  لوگ سمجھ  لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا  ہے قیامت  میں سب مردوں  کے آجسام  کو زندہ کرے گا اور قیامت  کے آنے  میں کوئی  شک و شبہ نہیں ۔

اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ  كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا O 

کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟

اصحاب کہف کا قصہ  جو آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی نبوت و رسالت کی بھی دلیل ہے اور قیامت کی بھی دلیل ہے۔ چونکہ قریش نے یہود کے سکھلانے سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی آزمائش کے لیے آپ سے تین سوال کئے تھے ایک روح کے متعلق ، دوسرے سوال کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اصحاب کہف کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ صدہا سال کے ماقبل کے واقعات کا صحیح صحیح علم بدون اللہ کی وحی کے ناممکن ہے اور ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا واقعہ نہ کسی سے سنا اور نہ کسی کتاب میں دیکھا اور نہ پڑھا یہ آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے نبی ہونے کی دلیل ہے۔ اور اصحاب کہف کا واقعہ قیامت کی دلیل اس اعتبار سے ہے کہ جو خدا صدہا سال سلانے کے بعد بیدار کرسکتا ہے وہ صدہا اور ہزارہا سال کی موت کے بعد زندہ بھی کرسکتا ہے۔ کیونکہ النوم اخو الموت نیند اور خواب موت کا بھائی ہے دونوں بھائیوں کا حکم یکساں ہے حق جل شانہ نے اصحاب کہف کے قصہ کو اولا اجمالا اور پھر تفصیلا ذکر فرمایا۔ چناچہ فرماتے ہیں اے گمان کرنے والے کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ اصحاب کہف اور رقیم ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے کوئی عجیب چیز تھے کیونکہ یہود نے جب قریش مکہ کو اصحاب کہف کا قصہ پوچھنے کی تلقین کی تو ان کی زبان سے یہ الفاظ بھی  نکلے تھے  فانہ کان لہم امر عجیب (یعنی ان کا قصہ عجیب ہے) تو ان کے اس قول سے معلوم ہوا کہ وہ اس قصہ کو بہت ہی عجیب خیال کرتے تھے اور اسی خیال سے اس کو سوال کیلئے منتخب کیا اس لیے ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی کا گمان ہے کہ یہ قصہ عجیب ہے بیشک عجیب ہے مگر ہماری آیات قدرت کے سامنے کوئی چیز عجیب نہیں آسمان ، زمین ، چاند، ستارے اور سورج  وغیرہ کی پیدائش کے عجائبات  آصحابِ کہف کے حال سے کہیں زیادہ عجیب  ھیں 


حضرت ذوالقرنین کے سفر کا  مختصر واقعہ

 

قران پاک میں اللہ تعالی نے ان کا واقعہ مفصل بیان فرمایا ھے چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے 

وَيَسـَٔلونَكَ عَن ذِى القَر‌نَينِ ۖ قُل سَأَتلوا عَلَيكُم مِنهُ ذِكرً‌ا O

(سورة الكهف)

آپ سے یہ لوگ ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کر رہے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں ان کا تھوڑا سا حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں۔

درآصل اس آیت کریمہ میں قریشِ مکہ کے ایک سوال کا ذکر ہے جو انہوں نے نبی اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے ذوالقرنین کے بارے میں کیا تھا۔ ذوالقرنین کا قصہ خصوصاً اہل کتاب کے ہاں مشہور ومعروف ہے۔ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے عہد میں ایک نیک بادشاہ تھا۔ اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف بھی کیا تھا۔ واللہ اعلم۔ 

(تفسیر طبری وابن کثیر )

اس نیک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں بڑی دسترس عطا فرمائی تھی اور انہیں حکومت کے ایسے تمام اسباب عطا فرمائے تھے، جن کی وجہ سے وہ دشمنوں پر غلبہ و تسلط حاصل کرلیتے تھے، انہوں نے سفر کا ایک راستہ اختیار کیا، یعنی ایک ایسے راستہ کو اختیار کیا جو انہیں منزل مقصود تک پہنچا دے:چنانچہ قرآن پاک کی سورہ کہف میں ان کے سفر کی کیفیات بیان کی گئی ھیں


مغرب کی طرف سفر

حَتّىٰ إِذا بَلَغَ مَغرِ‌بَ الشَّمسِ وَجَدَها تَغرُ‌بُ فى عَينٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَها قَومًاO

یہاں تک کہ وہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کےچشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا اور اس چشمے کے پاس ایک قوم کو بھی پایا ۔

انہوں نے اس قوم پر غلبہ و تسلط حاصل کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے بارے میں اختیار دیتے ہوئے فرمایا:

قُلنا يـٰذَا القَر‌نَينِ إِمّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمّا أَن تَتَّخِذَ فيهِم حُسنًا O 

’ہم نے فرما دیا کہ اے ذوالقرنین! یا تو تو انہیں سزا دے   یا ان کے بارے میں تو کوئی بہترین روش اختیار کرے۔

قالَ أَمّا مَن ظَلَمَ فَسَوفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَ‌دُّ إِلىٰ رَ‌بِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذابًا نُكرً‌ا O وَأَمّا مَن ءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَلَهُ جَزاءً الحُسنىٰ ۖ وَسَنَقولُ لَهُ مِن أَمرِ‌نا يُسرً‌ا O

’’ اس نے کہا کہ جو ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی اب سزا دیں گے، پھر وه اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا اور وه اسے سخت عذاب دے گا  ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے اس کے لئے تو بدلے میں بھلائی ہے اور ہم اسے اپنے کام میں بھی آسانی ہی کا حکم دیں گے o


مشرق کی طرف سفر

پھر انہوں نے سورج کے طلوع ہونے کے مقام کی طرف رخ کیا:

حَتّىٰ إِذا بَلَغَ مَطلِعَ الشَّمسِ وَجَدَها تَطلُعُ عَلىٰ قَومٍ لَم نَجعَل لَهُم مِن دونِها سِترً‌ا O

یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ تک پہنچا تو اسے ایک ایسی قوم پر نکلتا پایا کہ ان کے لئے ہم نے اس سے اور کوئی اوٹ نہیں بنائی۔

جن کے لیے ہم نے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی جو ان کے اور سورج کی گرمی کے مابین حائل ہوتی، یعنی وہاں نہ کوئی عمارت تھی اور نہ درخت، لہٰذا وہ دن کو وہ غاروں اور کہووں میں رہتے اور رات کو باہر نکل کر رزق تلاش کرتے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کے تمام احوال سے باخبر تھا، جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم و ہدایت کی روشنی میں چلتا تھا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

كَذٰلِكَ وَقَد أَحَطنا بِما لَدَيهِ خُبرً‌ا O

 ’’ واقعہ ایسا ہی ہے اور ہم نے اس کے پاس کی کل خبروں کا احاطہ کر رکھا ہے۔‘‘


بین السدّین کی طرف سفر

حَتّىٰ إِذا بَلَغَ بَينَ السَّدَّينِ وَجَدَ مِن دونِهِما قَومًا لا يَكادونَ يَفقَهونَ قَولًا O

یہاں تک کہ جب دو دیواروں کے درمیان پہنچا ان دونوں کے پرے اس نے ایک ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی  اس لیے کہ وہ عجمی تھے، ان کی زبان ناقابل فہم تھی اور نہ وہ دوسروں کی زبان کو سمجھتے تھے لیکن انہوں نے اس نیک بادشاہ ذوالقرنین سے یہ شکایت کی کہ یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں (اور یہ دونوں بنو آدم ہی میں سے دو قومیں ہیں، جیسا کہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے۔ )

ان دونوں قوموں  یعنی یاجوج اور ماجوج کے بارے میں کچھ اسرائیلی روایات بھی بیان کی جاتی ہیں جو کہ صحیح نہیں ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ یاجوج اور ماجوج بنی آدم  میں ہی سے ہیں اور بنی آدم (انسانوں) ہی کی شکل و صورت کے ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

يَا آدَمُ فَيَقُولُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، قَالَ يَقُولُ: أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ قَالَ: وَمَا بَعْثُ النَّارِ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ

(صحیح البخاری وصحيح مسلم )

اللہ تعالیٰ(قیامت کے دن ) فرمائے گا اے آدم ! حضرت آدم عرض کریں گے کہ لبیک وسعدیک ‘اے اللہ! اور ہر قسم کی بھلائی تیرے  ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’(اپنی اولاد میں سے) جہنم کا حصہ نکالو۔‘‘ آدم عرض کریں گے : اے اللہ ! جہنم کا حصہ کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’ ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنم کے لیے ہیں۔‘‘

صحابہ کرام پر یہ بات بہت گراں گزری تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ! ایک ہزار میں سے صرف ایک شخص جہنم رسید ہونے سے بچے گا؟ تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا:

«لُوا وَأَبْشِرُوا، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا كَانَتَا مَعَ شَيْءٍ إِلَّا كَثَّرَتَاهُ: يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ» (السنن الکبری للنسائی)

’’عمل کرو او رتمہیں بشارت  ہو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی جان ہے کہ یقینا تمہارا مقابلہ دو ایسی جماعتوں سے ہوگا کہ وہ جس کسی کے ساتھ ہوں گی دوسروں  کے مقابلے  میں اس کے  تعداد بڑھادیں گے۔ یعنی یاجوج اور ماجوج۔

یہ حدیث اس بات کی واضح اور صریح دلیل ہے کہ یاجوج اور ماجوج کا تعلق بنو آدم سے ہے۔ ان کی شکلیں اور صورتیں اور ان کے تمام حالات انسانوں جیسے ہیں، لیکن یہ ایسی قومیں ہیں کہ ان کی سرشت میں زمین میں فتنہ و فساد برپا کرنا، لوگوں کی مصلحت کے کاموں کو خراب کرنا اور انسانوں کو قتل کرنا ہے تو لوگوں نے ذوالقرنین سے کہا:

فَهَل نَجعَلُ لَكَ خَر‌جًا عَلىٰ أَن تَجعَلَ بَينَنا وَبَينَهُم سَدًّا O

اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں 

تو انہوں نے انہیں بتایا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں ایسی بادشاہت اور دسترس عطا فرمائی ہے، جو اس مال سے بہتر ہے جو وہ اسے دینا چاہتے ہیں۔


قالَ ما مَكَّنّى فيهِ رَ‌بّى خَيرٌ‌ فَأَعينونى بِقُوَّةٍ أَجعَل بَينَكُم وَبَينَهُم رَ‌دمًا O

’’ اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے، تم صرف قوت طاقت سے میری مدد کرو ۔‘‘

پھر ذوالقرنین نے ان سے لوہے کے تختے طلب کیے، انہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھوا دیا حتیٰ کہ وہ دونوں پہاڑوں تک پہنچ گئے۔


اٰتُوْنِىْ زُبَـرَ الْحَدِيْدِ ۖ حَتّــٰٓى اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا ۖ حَتّــٰٓى اِذَا جَعَلَـهٝ نَارًا قَالَ اٰتُوْنِـىٓ اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا (96) 

مجھے لوہے کے تختے لا دو، یہاں تک کہ جب دونوں سروں کے بیچ کو برابر کر دیا تو کہا کہ دھونکو، یہاں تک کہ جب اسے آگ کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس تانبا لاؤ تاکہ اس پر ڈال دوں۔

یعنی جب لوہے کے ان تختوں پر آگ جلائی اور اسے دھونکا تو لوہے میں آگ بھڑک اٹھی تو پھر انہوں نے اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دیا، جس کی وجہ سے لوہے کے یہ تختے آپس میں جڑ گئے اور اس طرح لوہے کی ایک مضبوط اور مستحکم دیوار بن گئی اور

فَمَا اسطـٰعوا أَن يَظهَر‌وهُ وَمَا استَطـٰعوا لَهُ نَقبًا O

’’ پس نہ تو ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ ھی ان میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے۔‘‘

اس طرح ان لوگوں اور یاجوج اور ماجوج کے درمیان یہ دیوار حائل ہوگئی۔ ذوالقرنین کا یہ قصہ مشہور و معروف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سورۂ کہف کے آخر میں ذکر فرمایا ہے، مزید تفصیل کے لئے قابل اعتماد کتب تفسیر کی طرف رجوع کیا جا    سکتا ھے 


روح کی حقیقت

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے یہ سوال کیا تھا کہ روح کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی:

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا   (سورۃ الاسراء، آیت نمبر 85)

ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے پرودگار کے حکم سے (بنی) ہے۔ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے، وہ بس تھوڑا سا علم ہے۔

جواب میں اتنی بات فرمائی گئی ہے، جو انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے، اور وہ یہ کہ روح کی پیدائش براہِ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی ہے۔ انسان کے جسم اور دوسری مخلوقات میں تو یہ بات مشاہدے میں آجاتی ہے کہ ان کی پیدائش میں کچھ ظاہری اسباب کا دخل ہوتا ہے، لیکن روح ایسی چیز ہے، جس کی تخلیق کا کوئی عمل انسان کے مشاہدے میں نہیں آتا، یہ براہ راست اللہ کے حکم سے وجود میں آتی ہے۔

اس سے زیادہ روح کی حقیقت کو سمجھنا انسانی عقل کے بس میں نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ تمہیں  اس کا بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے، اور بہت سی چیزیں تمہاری سمجھ سے باہر ہیں۔

اسی طرح مفسرین حضرا ت میں بھی دو جماعتیں ہیں: بعض مفسرین نے اس مسئلہ میں تفصیل اور گہرائی میں جانے سے گریز کیا ہے اور انہوں نے اُسی اجمال کو ترجیح دی ہے، جسے کلام اللہ میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ جمہور علماء نے ﴿ قُلِ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّيْ ﴾کے پیشِ نظر اس مسئلہ میں سکوت اختیار کرنے کو ہی افضل اور بہتر قرار دیا ہے۔

'تفسیر عثمانی میں حضرت مولانا شبیر آحمد عثمانی رقمطراز ھیں کہ

روحِ انسانی کیا چیز ہے؟

 اس کی ماہیت و حقیقت کیا ہے؟

 یہ سوال صحیحین کی روایت کے موافق یہودِ مدینہ نے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزمانے کو کیا تھا۔ اور "سیر" کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں قریش نے یہود کے مشورہ سے یہ سوال کیا تھا ۔ اسی لیے آیت کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے، ممکن ہے نزول مکرر ہوا ہو، واللہ اعلم۔ یہاں اس سوال کے درج کرنے سے غالباً یہ مقصود ہوگا کہ جن چیزوں کے سمجھنے کی ان لوگوں کو  واقعی ضرورت ہے، اُدھر سے تو  یہ لوگ اعراض کرتے ہیں اور غیر ضروری مسائل میں از راہِ عناد جھگڑتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس  امر کی تھی کہ وحی قرآنی کی روح سے باطنی زندگی حاصل کرتے اور اس نسخۂ شفا سے فائدہ اٹھاتے، چنانچہ قرآن مجید میں ھے 

وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۚ مَا كُنْتَ تَدْرِىْ مَا الْكِتَابُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنَاهُ نُـوْرًا نَّهْدِىْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَاِنَّكَ لَتَهْدِىٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ (52) 

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے قرآن نازل کیا، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے اور لیکن ہم نے قرآن کو ایسا نور بنایا ہے کہ ہم اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں، اور بے شک آپ سیدھا راستہ بتاتے ہی

(شوری)


يُنَزِّلُ الْمَلَآئِكَـةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٓ ٖ اَنْ اَنْذِرُوٓا اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ (2) 

وہ اپنے بندوں سے جس کے پاس چاہتا ہے فرشتوں کو وحی دے کر بھیج دیتا ہے یہ کہ خبردار کردو کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں


 مگر انہیں لا یعنی باتوں اور معاندانہ بحثوں سے فرصت کہاں "روح" کیا ہے؟ جوہر ہے یا عرض؟ مادی ہے یا مجرد؟ بسیط ہے یا مرکب؟ اس قسم کے غامض اور بے ضرورت مسائل کے سمجھنے پر نہ  تو نجات موقوف ہے، نہ یہ بحثیں انبیاء کرام کے فرائضِ تبلیغ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بڑے بڑے حکماء اور فلاسفہ آج تک خود "مادہ" کی حقیقت پر مطلع نہ ہو سکے، "روح" جو بہرحال "مادہ" سے کہیں زیادہ لطیف و خفی ہے، اس کی اصل ماہیت  تک پہنچے کی پھر کیا امید کی جاسکتی ہے۔ مشرکینِ مکہ کی جہالات اور یہودِ مدینہ کی اسرائیلیات کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جو قوم موٹی موٹی باتوں اور نہایت واضح حقائق کو نہیں سمجھ سکی ، وہ روح کی حقائق پر دسترس پانے کی کیا خاک استعداد و اہلیت رکھتی ہوگی؟'

روح کے بارے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خود 'روح' کی حقیقت کے بارے میں جواب نہیں دیا، بلکہ وحی الٰہی کا انتظار فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرمایا:﴿ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾[الاسراء:۸۵] اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس بات کی ہدایت فرمادی کہ روح ایک امر ربی ہے،  یعنی روح بھی میر ے ر بّ کے امرکن ہی سے ہے اور اس کی مخلوق ہے ۔ چناںچہ صحیح بخاری سمیت حدیث کی دیگر کتب میں یہ روایت موجود ہے کہ :

'عن عبد الله ، قال : بينا أنا أمشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في خرب المدينة وهو يتوكأ على عسيب معه، فمر بنفر من اليهود فقال بعضهم لبعض: سلوه عن الروح، وقال بعضهم: لا تسألوه لا يجيء فيه بشيء تكرهونه، فقال بعضهم: لنسألنه، فقام رجل منهم، فقال: يا أبا القاسم! ما الروح؟ فسكت فقلت: إنه يوحى إليه، فقمت فلما انجلى عنه قال: وَيَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلاًO 

ترجمہ:حضرت  عبداللہ (ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ مدینہ کے کھنڈروں میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی ایک چھڑی کو زمین پر ٹکا کر چلتے تھے کہ یہود کے کچھ لوگوں پر آپ گزرے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کی بابت سوال کرو، اس پر بعض نے کہا کہ نہ پوچھو، مبادا اس میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جو تم کو بری معلوم ہو ،پھر ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم ضرور آپ سے پوچھیں گے، چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ نے سکوت فرمایا (ابن مسعود کہتے ہیں) میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ پر وحی آرہی ہے، لہذا میں کھڑا ہو گیا، پھر جب وہ حالت آپ سے دور ہوئی، تو آپ نے فرمایا: (ترجمہ) اے نبی یہ لوگ تم سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے پرودگار کے حکم سے (پیدا ہوئی) ہے اور اس کی اصل حقیقت تم نہیں جان سکتے؛ کیوں کہ تمہیں اس کا کم ہی علم دیا گیا ہے۔

مولانامفتی محمد شفیع  صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

' قرآن کریم نے یہ جواب دیا ہے ، ﴿ قُلِ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّيْ ﴾ ،اس جواب کی تشریح میں حضرات مفسرین کے کلمات اور تعبیرات مختلف ہیں، ان میں سب سے زیادہ اقرب اور واضح وہ ہے جو تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس جواب میں جتنی بات کا بتلانا ضروری تھا اور جو عام لوگوں کی سمجھ میں آنے کے قابل ہے، صرف وہ بتلادی گئی، اور روح کی مکمل حقیقت جس کا سوال تھا اس کو اس لیے نہیں بتلایا کہ وہ عوام کی سمجھ سے باہر بھی تھی اور ان کی کوئی ضرورت اس کے سمجھنے پر موقوف بھی نہ تھی، یہاں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان کےجواب میں یہ فرما دیجیے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے، یعنی وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں جو مادہ کے تطورات اور توالد و تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہیں، بلکہ وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کے حکم کن سے پیدا ہونے والی چیز ہے۔۔۔ اور انسان کے لیے اتنا ہی علم روح کے متعلق کافی ہے، اس سے زائد علم کے ساتھ اس کا کوئی دینی یا دنیاوی کام اٹکا ہوا نہیں، اس لیے سوال  کا وہ حصہ فضول اور لایعنی قرار دے کر اس کا جواب نہیں دیا گیا، خصوصاً جب کہ اس کی حقیقت کا سمجھنا عوام کے لیے تو کیا بڑے بڑے حکماء وعقلاء کے لیے بھی آسان نہیں ... قرآن کریم نے اس سوال کا جواب مخاطب کی ضرورت اور فہم کے مطابق دے دیا،حقیقتِ روح کو بیان نہیں فرمایا، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ 'روح'  کی حقیقت کو کوئی انسان سمجھ ہی نہیں سکتا اور یہ کہ خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی حقیقت معلوم نہیں تھی، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت نہ اس کی نفی کرتی ہے نہ اثبات، اگر کسی نبی و رسول کو وحی کے ذریعہ یا کسی ولی کو کشف و الہام کے ذریعہ اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو اس آیت کے خلاف نہیں، بلکہ عقل و فلسفہ کی رو سے بھی اس پر کوئی بحث و تحقیق کی جائےتو اس کو فضول اور لایعنی تو کہا جائے گا، مگر ناجائز نہیں کہا جا سکتا ؛ اسی لیے بہت سے علماءِ متقدمین و متاخرین نے روح کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں، قریب کے دور میں ھمارے اُستاد گرامی محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ  نے ایک مختصر سے رسالے میں اس مسئلے کو بہترین انداز سے لکھا ہے، اور اس میں جس قدر حقیقت سمجھنا عام انسان کے لیے ممکن ہے وہ سمجھا دی ہے، جس پر ایک تعلیم یافتہ انسان قناعت کر سکتا ہے، اور شبہات و اشکالات سے بچ سکتا ہے۔'

'ارشاد المفتین میں ہے  کہ روح ایک لطیف ذات ہے جو ھوا کی طرح بدن میں ایسے سرایت کرتی ہے، جیسے پانی درخت کی ٹہنیوں میں سرایت کرتا ھے، روح نفس کی اصل اور اس کامادہ ہے، اور نفس مرکب ہے دو چیزوں سے روح اور روح کابدن کے ساتھ اتصال سے موت کے بعد اس کاتعلق بھی قبر میں بدن سے ہوتاہے، اس کے بارہ میں احادیث کا قدرِ مشترک تواتر کو پہنچتاہے ، مگر اس کی کیفیت کے ادراک سے عقول قاصر ہیں' ۔


'شرع فقہ اکبر' میں ملاعلی قاری  رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

" واعلم أن أهل الحق اتفقواعلی أن الله تعالیٰ یخلق في المیت نوع حیاة في القبر قدر ما یتألم أو یتلذذ "…(شرح الفقه الأكبر:١٠١)

انسانی روح جسمانی حیات  سے علیحدہ چیز ہے۔جسمانی حیات تو  جنین میں پہلے ہی آجاتی ہے، اور روح ایک سو بیس دن بعد ڈالی جاتی ہے۔ چنانچہ حدیثِ مبارکہ ھے 

' عَنْ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰه إِنَّ خَلْقَ أَحَدِکُمْ یُجْمَعُ فِیْ بَطْنِ أَمِّه أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَةً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقْةً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَةً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ … یُنْفَخُ فِیْه الرُّوْحُ '۔ (بخاری)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم سے بیان کیا کہ تم میں سے ہر ایک کی ابتدائی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں کی جاتی ہے (چالیس چالیس دن کے تین مراحل میں ) چالیس دن مرحلہ نطفہ میں پھر اتنی مدت مرحلہ علقہ میں اور پھر اتنی ہی مدت مرحلہ مضغہ میں پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔


مرنے کے بعد انسان کی روح کہاں رھتی ھے ؟

'  یہ سوال  جو عام طور پر کیا جاتا ھے کہ انسان کے دفنانے  کے بعد روح اپنا وقت آسمان پر گزارتی ہے یا قبر میں یا دونوں جگہ؟ اس بارے میں روایات بھی مختلف ہیں اور علماء کے اقوال بھی مختلف ہیں۔ مگر تمام نصوص کو جمع کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ نیک ارواح کا اصل مستقر “علّییّن “ ہے (مگر اس کے درجات بھی مختلف ہیں)، بد ارواح کا اصل ٹھکانا “سجین “ ہے  تو  گویا از روئے اسلام مرنے کے بعد روحوں کے دو ہی ٹھکانے ہیں علّیین اور سجّین

نیک لوگوں کی روحوں کو مقام علّیین میں رکھا جاتا ھے  اور وہ سبز پرندوں کی شکل میں جنت کی سیر کرتی پھرتی ہیں۔ اور کافر لوگوں کی روحوں کو مقام سجّین میں قید کر دیا جاتا ہے۔ اور ہر روح کا ایک خاص تعلق اس کے جسم کے ساتھ کردیا جاتا ہے، خواہ جسم قبر میں مدفون ہو یا دریا میں غرق ہو، یا کسی درندے کے پیٹ میں۔ الغرض جسم کے اجزاء جہاں جہاں ہوں گے روح کا ایک خاص تعلق ان کے ساتھ قائم رہے گا اور اسی خاص تعلق کا نام برزخی زندگی ہے، جس طرح نورِ آفتاب سے زمین کا ذرہ چمکتا ہے، اسی طرح روح کے تعلق سے جسم کا ہر ذرہ “زندگی” سے منور ہوجاتا ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر  موجود ھے کہ برزخی زندگی کی حقیقت کا اس دنیا میں معلوم کرنا  ناممکنات میں سے ھے 


جاری  ھے ۔۔۔۔۔۔





Share: