قسط نمبر (47) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم


کفارِ قریش کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مصائب اور ایذا رسانیاں 


اسلام کی دعوت کا سلسلہ بفضل ربی دن بدن اگے بڑھ رھا تھا صحابہ کرام کی تعداد بڑھ رھی تھی   اسلام کی گونج مکہ سے باھر بھی سنائی دے رھی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ   سردارانِ  قریش کا غیض و غضب بھی  ھر گزرتے دن کے ساتھ  شدید سے شدید ترین  ھوتا جا رھا تھا  مشرکینِ مکہ  کی کاروائیاں حق کے پرچار کو روکنے میں کامیاب اور مؤثر ثابت نہیں ہورہی تھیں ان کی تمام تر کاروائیوں کے باوجود اسلام پھیل رھا تھا ۔کفارِ قریش  اس صورت حال سے بہت پریشان تھے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رھا تھا کہ وہ اسلام کا راستہ کیسے روکیں ؟  ۔ بالآخر ابو لہب لعین کی سربراھی میں  (25)  بڑے بڑے سردارانِ قریش کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ، اس کمیٹی کے تمام ممبران میں اسلام دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ھوئی تھی  اس کمیٹی کو ھر صورت  اسلام کی اشاعت  ختم کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ۔ اس کمیٹی نے  اپنے کئی آجلاس منعقد کیے  اور آخرکار  باہمی مشورے اور غور و خوض کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اجمعین رضی اللہ عنہم کے خلاف ایک فیصلہ کن قرارداد منظور کی ۔یعنی یہ طے کیا کہ اسلام کی مخالفت، رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ایذا رسانی اور اسلام لانے والوں کو طرح طرح کے جور و ستم اور ظلم و تشدّد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ اسلام کی مخالفت، رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ایذا رسانی اور اسلام لانے والوں پر طرح طرح کے ستم اور ظلم و تشدد  کا سلسلہ بھرپور طریقہ سے کیا  جائے۔ دوسرے اھداف کے علاوہ اس کمیٹی کا سب سے بڑا ھدف یہ تھا کہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو  نعوذ باللہ کسی  بھی  طرح  زندگی سے محروم کر دیا جائے۔

ابو لہب  باوجود اس کے وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کا حقیقی چچا تھا لیکن حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی عداوت میں اس قدر آگے بڑھ گیا  تھا کہ جب حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے دوسرے صاحبزادے حضرت عبداللہ کا انتقال ہوا تو ابو لہب  لعین خوشی سے دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچااور انہیں بتایا کہ محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نعوذ باللہ ابتر (نسل بریدہ) ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالی نے ابو لہب کے اس عمل پر حضور آکرم   صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو پہنچنے والے دکھ کا مداوا اس صورت میں  کیا کہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم پر ایک  مختصر لیکن عظیم سورہ یعنی سورۃ کوثر  نازل فرمائی 


بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اِنَّـآ اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) 

بے شک ہم نے آپ کو کوثر دی۔


فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (2) 

پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔


اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَـرُ (3) 

بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔



 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے اور قتل کرنے کی عملی کوششیں 

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

ایک دن حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم خانہ کعبہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے تھے۔ ابو جہل اپنے قبیلے کے کچھ افراد کے ہمراہ وہاں پہنچ گیا۔ ابوجہل کے ہاتھ میں اونٹ کی اوجڑی تھی جس میں خون اور دوسری گندگیاں بھری ہوئی تھیں۔ اُس زمانے میں جزیرۃالعرب میں کسی کو سزائے موت دینے کا ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ پانی یاخون یا دوسری گندگیوں سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجڑی کو سر پر اس طرح چڑھا دیتے تھے کہ سر اور چہرہ اوجڑی کے اندر پھنس جاتا تھا اور پھر اوجڑی کے نچلے حصے کو کسی تھیلے کے منہ کی طرح مضبوطی سے گردن میں باندھ دیا جاتا تھا۔ اس طرح ناک اور منہ مکمل طور پر اوجڑی کے غبارہ میں بند ہوجاتے تھے اور سانس رک جاتا تھا اور دم گھٹنے کے باعث جلد ہی متاثرہ شخص کی موت واقع ہوجاتی تھی۔

 اس روز ابوجہل اور اس کے ساتھی یہ فیصلہ کرکے آئے تھے کہ وہ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اوجڑی کے ذریعے ضرور ہلاک کر دیں  گے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی جب خانہ کعبہ میں داخل ہو ئے تو حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنے گرد و پیش سے بے خبر اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود تھے۔ابوجہل نے اونٹ کی اوجڑی سجدہ کی حالت میں حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے سرپر رکھوا دی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ اور سر مبارک اس اوجڑی میں مبتلا ہوگیا۔ پھر ابوجہل نے بڑی پھرتی کے ساتھ اوجڑی کے دوسرے سرے کو ایک تھیلی کی طرح  حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گردن پر باندھ دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جیسے ہی یہ احساس ہوا کہ کوئی چیز ان کے سر پر رکھ دی گئی ہے۔ جب سانس گھٹنے لگا اور شدید تکلیف ہوئی تو اوجڑی کو منہ پر سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔

جو لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب تھے انہیں بخوبی احساس تھا کہ سانس رکنے کے باعث حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جلد ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی  بے قراری و بے تابی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہ سوچا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرے سے اوجڑی کا غلاف اتار دیں لیکن انہیں ابوجہل کا خوف تھا اور وہ جانتے تھے کہ اگر وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کریں گے تو ابوجہل جیسے خوفناک شخص کی دشمنی مول لیں گے۔

قریش کی ایک عورت جو وہاں موجود تھی وہ اس کربناک منظر کی تاب نہ لاسکی اور دوڑتی ہوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر پہنچی اور ان کی صاحبزادی حضرت فاطمہ  ؓ کو اطلاع دی۔ حضرت فاطمہ ؓ سراسیمہ حالت میں روتے ہوئے خانہ کعبہ میں پہنچیں۔ ابوجہل اور دوسرے لوگوں نے جب حضرت  فاطمہ ؓ   کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے اور حضرت فاطمہ ؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرے اور سر کو اوجڑی کی گرفت سے آزاد کیا اور اپنے دامن سے ان کے چہرے کو صاف کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دم گھٹنے کے باعث ایک گھنٹہ تک حرکت کے قابل نہ ہوسکے اور اس کے بعد اپنی بیٹی کے سہارے کھڑے ہوئے اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا تے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گھر پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت فاطمہ ؓ  کی مدد سے اپنے چہرے اور سر کو خون اور دیگر کثافت سے صاف کیا، کپڑے تبدیل کیے۔ حضرت فاطمہ ؓ نے اپنے والد کے کپڑے دھوکر سکھانے کے لئے دھوپ میں ڈال دیئے۔ 

اگلے دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام گذشتہ روز کے واقعہ سے خوف زدہ ہوئے بغیر دوبارہ خانہ کعبہ میں تشریف لے گئے اور وہاں عبادت میں مشغول ہوگئے۔ اس مرتبہ عقبہ ابن ابی معیط نامی شخص نے سجدے کی حالت میں اپنی چادر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام  پر ڈال دی اور کھینچنے لگا اس کا حملہ  اتنا شدید تھا  کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناک اور منہ سے خون جاری ہوگیا۔ عقبہ یہ کوشش کررہا تھاکہ سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے ہی پے درپے وار کرکے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاتمہ کردے (نعوذ باللہ)۔ لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا  عین اسی وقت حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ سامنے سے آ گئے عقبہ کو دھکا دیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عقبہ کے  حملہ سے چھڑانے میں کامیاب ہوگئے آپ  رضی اللہ تعالی عنہ سورہ مؤمن کی یہ آیت مبارکہ پرھتے جا رھے تھے 

اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ وَ قَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْؕ-

 کیا تم ایک مرد کو اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور بےشک وہ روشن نشانیاں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے  لے کر آیا ھے 

 اور  رسول  کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خون آلودہ چہر ہ کے ساتھ گھر واپس تشریف لے آئے۔


ابولہب کی بیوی ام جمیل جس کا نام ارویٰ بنت حرب بن امیہ تھا۔ وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ مل کر حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ایذا پہنچانے میں پیش پیش تھی۔ وہ حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے راستہ میں او ر ان کے دروازے پر کانٹے ڈال دیا کرتی تھی۔ اس کے اس ظالمانہ فعل پر قرآن میں سورہ لہب نازل ھوئی جس میں اس  کے شوھر کے ساتھ اس  کے لئے بھی عذابِ جہنم کا اعلان  کیا گیا جس سے یہ بہت سیخ پا ھوئی اور اس بدبخت نے پتھر اُٹھا کر  خانۂ کعبہ میں  جا کر رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو مارنے کی کوشش  کی لیکن ناکام رھی اور آخرکار جہنم رسید ھو گئی 

امیہ بن خلف جو ابولہب کی کمیٹی  کا ممبر  تھا۔ وہ جب سیدنا حضور آکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو دیکھتا لعن طعن کرتا اورگالیاں  بکتا تھا۔ قرآن پاک کی سورۃ ھمزہ کی پہلی آیت اسی سیاہ بخت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ (1) 

ہر غیبت کرنے والے،  لعن طعن کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے


اخنس بن شریق ثقفی بھی رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے ستانے والوں میں تھا۔ قرآن نے سورۃالقلم میں اس کی خباثتیں گنوائی ہیں۔

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْن (10) 

اور ہر قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہا نہ مان۔


هَمَّازٍ مَّشَّآءٍ بِنَمِـيْمٍ (11) 

جو طعنے دینے والا چغلی کھانے والا ہے۔


مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْـرِ مُعْتَدٍ اَثِـيْمٍ (12) 

نیکی سے روکنے والا حد سے بڑھا ہوا گناہگار ہے۔


عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِـيْمٍ (13) 

بڑا اجڈ، اس کے بعد بد اصل (غلط نسبت بنانے والا) بھی ہے۔


اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَّّبَنِيْنَ (14) 

اس لیے کہ وہ مال اور اولاد والا ہے۔


اِذَا تُـتْلٰى عَلَيْهِ اٰيَاتُنَا قَالَ اَسَاطِيْـرُ الْاَوَّلِيْنَ (15) 

جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو پہلوں کی کہانیاں  ھیں 


ابو جہل  رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو اذیت پہنچانے والوں  میں پیش پیش رھتا تھا جیسا کہ اُوپر اس لعین کا ذکر ھو چکا یہ  کبھی کبھی  چھپ چھپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  قران  بھی سنتا تھا لیکن یہ بدبخت   ایمان سے محروم  ھی رھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی باتوں سے اذیت پہنچاتا اور اللہ کی راہ سے روکتا تھا۔پھر اپنی اس حرکت اور برائی پر ناز اور فخر بھی کرتا  تھا کہ  گویا اس نے کوئی  بہت بڑا  کارنامہ انجام دے دیا ھو قران مجید کی یہ آیات اسی بدبخت کے بارے میں نازل ہوئیں۔ 


فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّـٰى (31) 

پھر نہ تو اس نے تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی۔


وَلٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلّـٰى (32) 

بلکہ جھٹلایا اور منہ موڑا۔


ثُـمَّ ذَهَبَ اِلٰٓى اَهْلِـهٖ يَتَمَطّـٰى (33) 

پھر اپنے گھر والوں کی طرف اکڑتا ہوا چلا گیا۔

 (القیامہ75: 31)


اس  بد طینت شخص نے پہلے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسی دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روکتا رہا۔ایک بار رسول صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اسکا گزر ہوا، دیکھتے ہی بولا محمّد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم! کیا میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو  اس سے منع نہیں کیا تھا؟ ساتھ ہی دھمکیاں  بھی دینے لگا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ڈانٹ کر سختی سے جواب دیا۔اس پر وہ کہنے لگا، اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم مجھے کیوں دھمکی دے رہے ہو دیکھو! خدا کی قسم! اس وادی(مکہ) میں میری محفل سب سے بڑی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات  نازل  فرمائیں 


فَلْيَدْعُ نَادِيَهٝ (17) 

پس وہ اپنے مجلس والوں کو بلا لے۔


سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ (18) 

ہم بھی مؤکلین دوزخ کو بلا لیں گے۔

(سورہ العلق)

ایک روایت میں  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو  گریبان سے پکڑ لیا اور جھنجوڑتے ہوئے فرمایا: 

اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى (34) 

(اے انسان) تیرے لیے افسوس پر افسوس ہے۔


ثُـمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى (35) 

پھر تیرے لیے افسوس پر افسوس ہے۔

سورہ القیامہ

اس پر اللہ کا یہ دشمن کہنے لگا اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ! مجھے دھمکی دے رہے ہو؟ خدا کی قسم تم اور تمہارا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔میں مکہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان چلنے پھرنے والوں میں سب سے زیادہ معزّز ہوں۔ 

بہر حال  آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی اس ڈانٹ کے باوجود ابو جہل اپنی حماقتوں  اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو اذیتیں دینے سے باز  نہ آیا  بلکہ اس کی بد بختی میں کچھ مزید اضافہ ہی ہو گیا۔چنانچہ صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بار سرداران قریش سے  ابو جہل نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  آپ حضرات کے روبرو اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہے؟ جواب دیا گیا۔ ہاں! اس نے کہا لات و عزّیٰ کی قسم! اگر میں نے (اس حالت) میں اسے دیکھ لیا تو اس کی گردن روند دونگا اور اسکا چہرہ مٹی پر رگڑ دونگا۔اس کے بعد اس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور اس زعم میں چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن روند دے گا لیکن لوگوں نے اچانک کیا دیکھا کہ وہ ایڑی کے بل  واپس پلٹ رہا ہے اور دونوں ہاتھوں سے بچاؤ کر رہا ہے، لوگوں نے کہا ابوالحکم! تمہیں کیا ہوا؟ اس نے کہا: میرے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے درمیان آگ کی خندق ہے، حولناکیاں ہیں اور پر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اسکا ایک ایک عضو اچک لیتے۔ 

مسند بزار اور دلائل ابی نعیم میں محمد بن عقیل  بن علی سے مروی ھے کہ حضرت سیدنا علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا  رضی اللہُ عنہ  نے ایک دفعہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا : اے لوگو! مجھے اس کے بارےمیں بتاؤ جو لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر ہے؟ لوگوں نے کہا : اے امیر المؤمنین! آپ سب سے زیادہ بہادر ہیں۔ فرمایا : میں تو اپنے برابر والے سے لڑتا ہوں۔ تم مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کے بارے میں بتاؤ؟ لوگوں نے عرض کی : ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے ؟ فرمایا : سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہُ عنہ  ہیں ، 

 پھر حضرت علی رضی اللہُ عنہ  نے (ہجرت سے پہلے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرمایا : میں نے دیکھا کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو قریش نے پکڑ رکھا ہے۔ ایک ناہنجار شخص  آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو دھکے دیتا تو دوسرا   زور زور سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو جھنجھوڑتا۔ اور ساتھ ساتھ  یہ بدبخت لوگ  یہ الفاظ بھی کہتے جاتے : 

انت جعلت الا لھة الہا  واحداً 

تم وہی ہو جس نے بہت خداؤں کا ایک خدا کردیا ہے۔ 

اللہ پاک کی قسم! اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ  کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے قریب نہ ہوا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہُ عنہ  ایک کو مارتے ، دوسرے کو دھکا دیتے تیسرے کو جھنجھوڑتے اور یہ کہتے جاتے : تم برباد ہو جاؤ ، 

اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ وَ قَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْؕ

 کیا  تم ایک مرد کو اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور بےشک وہ روشن نشانیاں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے  لے کر  آیا ھے 

یہ واقعہ سُنانے کے بعد  حضرت علی المرتضی   رَضِیَ اللہ عَنْہ   نے اپنے اوپر سے چادر ھٹائی اورزارو قطار رونے لگے اور اتنا روئے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ، پھرارشاد فرمایا لوگو : میں تمہیں خدا کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں ، مجھے بتاؤ کہ آلِ فرعون کا مومن بہتر تھا یا حضرت ابوبکر صدیق   رَضِیَ اللہ عَنْہ   ؟ ( آلِ فرعون کا مومن فرعون کی قوم کا ایک  بندہ تھا جوحضرت موسیٰ   عَلَیْہِ السَّلَام   پر ایمان لا چکا تھا  لیکن اس نے اپنا ایمان سب سے چھپایا  ہوا تھااپنی قوم سے بھی ، بعد میں جب فرعون اور اس کے ساتھی حضرت موسیٰ   عَلَیْہِ السَّلَام  کو قتل کرنے لگے تھے تو اُس نے انہیں اِس برے ارادے سے باز رکھاتھا) ۔ تو جب حضرت علی   رَضِیَ اللہ عَنْہ   نے  لوگوں سے  فرمایا کہ میں  تمہیں خدا کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں مجھے بتاؤ کہ آلِ فرعون کا مومن بہتر تھا یا حضرت ابوبکر صدیق   رَضِیَ اللہ عَنْہ   ؟ تو تمام لوگ خاموش رہے۔  حضرت علی رضی اللہُ عنہ  فرمانے لگے : مجھے جواب کیوں نہیں  دیتے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ خداکی قسم! ابوبکر صدیق   رَضِیَ اللہ عَنْہ   کی زندگی کا ایک لمحہ آلِ فرعون کے مومن جیسے شخص کے  کئی گھنٹوں  سے بہتر ہے ، ارے وہ  بندہ  تواپنے ایمان کو چھپایا کرتا  تھا اور حضرت  صدیق اکبر  رضی اللہ تعالی عنہ تو اپنے  ایمان کو ڈنکے کی چوٹ پر بیان بھی کرتے ہیں ، اس کااعلان بھی کرتے ہیں  اور حبیبِ خدا رسول کریم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حفاظت  کا کام بھی کرتے ہیں اور کسی کی پرواہ  نہیں کرتے۔ اس لیے کہ آپ رضی اللہُ عنہ  کی زندگی اسی سے شروع ہوتی ھے اور اس پر ختم ہوتی ہے کہ

پروانے کو چراغ ، بُلْبُل کو پھول بس

صدّیق کیلئے ہے خُدا اور رسول بس


کفار کی ایذا رسانیاں اورمسلمانوں کی استقامت

حضور آکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کفارِ مکہ کی کاروائیاں اپنے عروج پر تھیں باوجود اس کے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلیٰ کردار اور کریمانہ اخلاق کے مشرکین معترف تھے اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معزز ججا ابوطالب کی حمایت و حفاظت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل تھی۔ دیگر مسلمانوں خصوصاً کمزور افراد کی ایذا رسانی کی کاروائیوں کی تفصیل کچھ زیادہ ہی سنگین اور تلخ ہے۔ابوجہل نے یہ وطیرہ اپنا رکھا تھا کہ جب کسی معزز اور طاقتور آدمی کے مسلمان ہونے کی خبر سنتا تو اسے برا بھلا  کہتا۔ ذلیل و رسوا کرتا اور مال و جاہ کو سخت خسارے سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیتا اور اگر کوئی کمزور ہوتا تو اسے مارتا اور دوسروں کو بھی برانگیختہ کرتا۔ یوں تو کفارِ مکہ سے ظلم و ستم  سہنے والے صہابہ کرام رضی اللہُ عنہم کی فہرست بہت طویل  ھے تاھم بطور نمونہ چند صہابہ کرام رضی اللہُ عنہم کا ذکر مختصراً کیا جاتا ھے 


حضرت عثمان غنی  بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ 

حضرت عثمانؓ بن عفان بہت مالدار سخی اور نرم خو تھے۔ آپؓ  کا تعلق خاندان بنی امیہ سے تھا۔ جب مسلمان ہوئے توان کے چچاانہیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتے  تھے تاکہ آپ اسلام سے پھر جاہیں 


 حضرت مصعب بن  عمیر رضی اللہ تعالی عنہ  

حضرت مصعبؓ بن عمیر بھی بڑے نازونعم میں پلے تھے۔ اعلیٰ ترین لباس پہنتے، بیش قیمت جوتے استعمال کرتے اور ہر وقت خوشبو میں بسے رہتے۔ ان کے قبول اسلام کی خبر جب  ان کے گھر والوں کو ملی  تو  گھر والوں نے ان کا دانہ پانی بند کردیا اور انہیں گھر سے  نکال دیا۔ حالات کی شدت سے دوچار ہوئے تو کھال  اس طرح ادھڑ گئی جس طرح سانپ کینچلی اتارتا ہے۔


حضرت عمار بن  یاسر رضی اللہ تعالی عنہ  

حضرت عمارؓ بن یاسر بنو مخزوم کے غلام تھے۔ ان کے والد  حضرت یاسر ؓ  اور والدہ حضرت سمیہؓ نے اسلام قبول کر لیا تو کفار نے ان پر اس قدر ظلم کیا کہ ان کے والدین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سخت دھوپ میں حضرت عمارؓ  کو پتھریلی زمین پر لٹا کر سینے پر سرخ پتھر رکھ دیتے تھے اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا تھا۔ مشرکین ان سے مطالبہ کرتے کہ جب تک محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو برا نہیں کہو گے یا لات وعزیٰ کے بارے میں کلمہ خیر نہ کہوگے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے جب انہیں مجبور کر دیا گیا تو  حضرت عمارؓ روتے ہوئے  رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت  میں حاضر ہوئے تو یہ آیت مبارکہ  نازل ہوئی:

مَنْ كَفَرَ بِاللّـٰهِ مِنْ بَعْدِ اِيْمَانِهٓ ٖ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٝ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْـهِـمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّـٰهِۖ وَلَـهُـمْ عَذَابٌ عَظِيْـمٌ (106) 

جو کوئی ایمان لانے کے بعد اللہ سے منکر ہوا مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن وہ جو دل کھول کر منکر ہوا تو ان پر اللہ کا غضب ہے، اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے (سورۃالنحل)


حضرت  خباب  بن الارت رضی اللہ تعالی عنہ  

حضرت خباب ؓ، ام انمار کے غلام تھے، ان کی مالکہ قبیلہ خزاء سے تعلق رکھتی تھی۔ قبیلہ والوں نے حضرت خباب  ؓ کو سزا دینے کا یہ طریقہ استعمال کیا کہ دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاکر ان کے اوپر پتھر رکھ دیتے تھے۔جسم جلتا، چربی پگھلتی اور آگ بجھ جاتی مگر سزا ختم نہ ہوتی۔


حضرت  ابو فکیہہ جھنی رضی اللہ تعالی عنہ  

 حضرت  فکیہہ ؓ   صفوان ابن امیہ کے غلام تھے، ان کے پاؤں رسی سے باندھ دیئے جاتے اور زمین پر گھسیٹا جاتاتھا۔ حضرت ابوبکر صدیق  ؓنے ان کے مالک کو قیمت ادا کی اور آزاد کردیا۔


حضرت بلال  بن رباح حبشی رضی اللہ تعالی عنہ  

پہلے غلام جوحضرت زید ؓکے بعد حلقۂ  اسلام میں داخل ہوئے وہ حضرت بلال حبشیؓ تھے۔  جزیرۃالعرب میں تین چیزیں مکمل بد بختی کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ ایک اجنبی یا بیگانہ ہونا، دوسرا غلام ہونا اور تیسرا سیاہ فام ہونا اور حضرت بلالؓ میں یہ تینوں چیزیں موجود تھیں۔ جب ان کے مالک امیہ بن خلف کو یہ اطلاع ملی کہ حضرت بلال  ؓ مسلمان ہوگئے ہیں تووہ انہیں مکہ سے باہر لے گیا اور ان کے کپڑے اترواکر انہیں پورے سورج کے نیچے تپتی ہوئی ریت میں لٹا دیا۔ ان کے ہاتھ باندھ دیئے اور سینے پر بھاری پتھر رکھوادیا اور ان سے کہا کہ یا تو اسلام کو چھوڑ دے  یا دھوپ میں پڑا رہ یہاں تک کہ تو مرجائے۔ حضرت بلال ؓ یہ جانتے تھے کہ ان کامالک اپنے کہے پر عمل کرے گا اور ان کے ہاتھ پیر نہیں کھولے گا لیکن انہوں نے دینِ حنیف سے دستبردارہونے کے بجائے موت سے ہم آغوش ہونا قبول کرلیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ لیکن اسی دوران حضرت ابوبکرؓ  حضرت بلال  ؓ کو نجات دلانے کی غرض سے ان کے مالک کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے حضرت بلال  ؓ کو خریدنے کی تجویزپیش کردی۔ حضرت بلالؓ کے مالک نے جب یہ دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ اس کے غلام کو بہت زیادہ قیمت پر خرید رھے  ہیں تواس نے انہیں بیچنے پر رضامندی ظاہر کردی اورحضرت ابوبکر ؓنے حضرت بلال  ؓرضی اللہُ عنہ  کو خریدنے کے بعد آزاد کردیا۔


حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ  

حضرت ابوذرغفاری  ؓجلیل القدر صحابی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے  جاں نثارساتھی تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ غفارسے تھا۔ یہ قبیلہ مکہ کے شمال میں سکونت پذیر تھا۔ بادیہ نشین عربوں کی رسم کے مطابق سال میں چار مہینوں کیلئے غارت گری اور ڈکیتی حرام تھی اور ان مہینوں کو ماہِ حرام کہتے تھے۔مکہ کی زیارت پر جانے والے افراد پر حملہ کرنے کی ممانعت تھی لیکن قبیلہ غفار کے لوگ مذکورہ رسومات اور قوانین کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ وہ ماہِ حرام کے مہینے میں قافلوں پرلوٹ مار کی غرض سے حملہ کرتے اور مکہ کی زیارت پر جانے والواں کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔

ایک مرتبہ ذیقعدہ کے مہینے میں قبیلے والوں نے اپنی حدودسے گزرنے والے ایک قافلے پر حملہ کرکے قافلے کامال اسباب لوٹ لیا اور قافلہ میں شامل مرد،عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا۔ حضرت ابو ذرغفاریؓ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہیں شدید ندامت ہوئی اور انہوں نے اپناقبیلہ چھوڑ دیا۔ کئی ماہ صحرانوردی کرنے کے بعد مکہ پہنچے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام سنا۔ انہیں معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلاتے ہیں اور برے کام کرنے سے روکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے منع کرتے ہیں۔

حضرت ابوذر غفاری ؓنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک  مقامی شخص  سے پوچھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا گھر کہاں ہے؟  اس نے تعجب خیز نگاہوں سے حضرت ابوذر غفاری  ؓ کو دیکھا اور اونچی آواز میں چلانے لگا:”اے لوگو! ادھر آؤ اور اسے پکڑو اور مار ڈالو کیونکہ یہ ایک مسلمان ہے جو ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے۔“ پلک جھپکتے ہی لوگوں نے حضرت ابوذر غفاری ؓ پر حملہ کردیا اور وہ جان بچانے کے لئے وہاں سے فرار ہوگئے۔ لیکن قریشی نے ان کا پیچھا کیا اور ان پر پتھروں کی بارش کردی۔ اتنے پتھر مارے کہ حضرت  ابو ذر غفاریؓ نڈھال ہوکر زمین پر گرگئے اور مکہ والوں نے انہیں مردہ سمجھ کرچھوڑدیا۔ ایک مسلمان کے سنگسار کئے جانے کی اطلاع حضرت ابوبکر  ؓرضی اللہ تعالی عنہ کو مل گئی تھی لہٰذاوہ رات کی تاریکی میں آئے اور ایک دوسرے مسلمان کی مدد سے  حضرت ابوذر غفاریؓ کو اٹھا کرلے گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ حضرت ابوذر غفار ی ؓ  مسلمان نہیں بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے دن حضرت ابوذر غفاریؓؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کی اور اسلام قبول کر لیا ۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ کا شمار اسلام کے نامور مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ نے اپنے پورے قبیلے کو مسلمان کرلیا تھا ۔ ان کا قبیلہ جو لوٹ مار کے ذریعے زندگی گزارتا تھا اس نفرت خیز عمل سے ہمیشہ کے لئے تائب ھو کر دستبردار ہوگیا۔  اس واقعہ سے یہ بات ظاھر  ہوجاتی ہے کہ مکہ کے باشندے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی میں اتنا  اگے بڑھ گئے تھے کہ اگر کوئی ان کے گھر کاپتہ پوچھتا تھا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ پتہ پوچھنے والا یا تو مسلمان ہے یا مسلمان ہوناچاہتا ہے لہٰذااس پر سنگ باری شروع کر دیتے تھے۔


*حضرت اُمِ شریک رضی اللہ  تعالی عنہا 

حضرت اُمِ شریک رضی اللہ عنہا ایمان لائیں توان کے اعزۂ واقارب نے ان کو دھوپ   میں لیجاکر کھڑا کردیا اس حالت میں جب کہ وہ دھوپ میں جل رہی تھیں روٹی کے ساتھ شہدجیسی گرم چیز کھلاتے اور پانی نہیں پلاتے تھے، جب اس مصیبت میں تین دن گذر گئے توظالموں نے کہا کہ جس مذہب پر تم اب ھو  اس کوچھوڑ دو، وہ اس قدر بدحواس ہوگئی تھیں کہ ان جملوں کا مطلب نہ سمجھ سکیں اب ان ظالموں نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھاکر بتایا توسمجھیں کہ توحیدِ الہٰی کا انکار مقصود ہے، بولیں خدا کی قسم میں تو اب تک اس پرقائم ہوں۔

(طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا)


حضرت سمیہ بنت خباط رضی اﷲ تعالیٰ عنہا - اسلام کی پہلی شہید خاتون

اسلام لانے کی وجہ سے مکہ کے کافروں نے ان کو بہت زیادہ ستایا ایک مرتبہ ابوجہل نے نیزہ تان کر ان سے دھمکا کر کہا کہ تو کلمہ نہ پڑھ ورنہ میں تجھے یہ نیزہ مار دوں گا حضرت بی بی سمیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سینہ تان کر زور زور سے کلمہ پڑھنا شروع کیا ابو جہل نے غصہ میں آ کر ان کی ناف کے نیچے اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑیں اور شہید ہوگئیں۔

حضرت سمیہ بنت خُبَّاط رضی اللہ تعالیٰ عنہا مظلومانہ شہادت کے علاوہ اور بھی سختیاں جھیل چکی تھیں ان کو گرمی کے وقت سخت دھوپ میں کنکریوں پر ڈالا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کیا جاتا تاکہ دھوپ کی گرمی سے لوہا تپنے لگے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا ادھر سے گذر ہوتا تو صبر کی تلقین اور جنت کا وعدہ فرماتے یہاں تک کہ سب سے بڑے دشمنِ اسلام ابو جہل کے ہاتھوں ان کی شہادت ہوئی


جاری ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Share: