قسط نمبر (49) سیرتِ اِمام الآنبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم

 ہجرتِ حبشہ

رسول کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت اسلام سے جب دینِ حق روز بروز پھلنے پھولنے لگا اور حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم اجمعین جیسی جلیل القدر ہستیاں بھی ایمان لے آئیں تو اسلام کو زبردست تقویت ملی لیکن جیسے جیسے اسلام غرباء اور کمزوروں سے بڑھ کر ان معززین میں پھیلا ، قریش کی مخالفت اسی قدر تیز ہوتی گئی۔ اب انہوں نے غریب مسلمانوں کو مشق ستم بنایا جسے مسلمان تو اسلام کی خاطر برداشت کرتے رہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان بے گناہوں پر ظلم و ستم  سے بہت غمگین  رھتے تھے وہ ان مسلمانوں  پر یہ ظلم  برداشت نہ کر سکے اور مسلمانوں کو سکون کی خاطر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا جو ایک عیسائی ملک تھا۔ یہاں کا بادشاہ نجاشی رحمدل  شخص تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے مسلمانوں نے سکون کی خاطر نبوت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے پانچویں سال  پہلی ہجرت کی جس میں 11 مرد اور 4 عورتیں شامل تھیں۔ ان میں حضرت عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور حضرت رقیہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا بھی شامل تھیں۔ حبشہ کی طرف  مکہ مکرمہ سے دو ہجرتیں  ھوئیں دوسری  بار تراسی مردوں اور اٹھارہ عورتوں نے ہجرت کی۔

ہجرت حبشہ اسلام کی دعوت کی راہ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے اس سے اسلام  کی اشاعت کو بہت تقویت ملی  ۔ حبشہ  اُس زمانے میں ایک بڑی سلطنت تھی۔ اس کے حدود دور  دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ملکِ حبشہ یمن کے مغربی جانب واقع  تھی ۔ اس کی مسافت کافی طویل تھی ۔ یہ کئی قوموں پر مشتمل  ریاست تھی ۔ سوڈان کے تمام فرقے حبشہ کے بادشاہ کی اطاعت کرتے تھے اس زمانہ میں وہاں کے بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حبش بن کوش بن حام کی اولاد میں سے  ہیں۔(فتح الباری: ۷/۵۸۷)


حبشہ کی پہلی ھجرت

جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے یہ ملاحظہ فرمایا کہ خود آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق اور اپنے چچا ابو طالب کی بدولت آفتوں سے  بڑی حد تک محفوظ ہیں جبکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے اصحاب رضوان اللہ علیہم   سخت قسم کے مصائب وآلام کا نشانہ بن رہے ہیں نیز آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کفار مکہ کے ظلم و ستم سے اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر ہیں تو ایک دن آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے صحابہ کرام سے مخاطب ہوکر فرمایا:

لوخر جتم الی ارض الحبشۃ فان بھا ملکا لایظلم عندہ احد،وھی ارض صدق ،حتی یجعل اللّٰہ لکم فرجا مما انتم فیہ 

اگر تم لوگ سرزمینِ حبشہ ہجرت کرجاؤ (تو تمہارے لئے بہترہے کیونکہ) وہاں کے بادشاہ کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ سچائی والی سرزمین ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ان آفتوں سے، جن میں تم مبتلاء ہو ،کوئی کشائش پیدا فرمادے‘‘۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی اجازت سے اہل ایمان  جس میں بارہ  مرد اور چار عورتیں شامل تھیں ، نے ماہ رجب 5 نبوی میں حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ پہلی ھجرتِ حبشہ کہلاتی ھے ۔ پہلی ہجرت میں  حضرت عثمان بن عفانؓ  رئیس قافلہ تھے۔

مہاجرین مرد

عثمان بن عفان

عبدالرحمن بن عوف

ابوحذیفہ

زبیر بن عوام

مصعب بن عمیر

عبدالرحمن بن عوف

ابوسلمہ بن عبدالاسد

عثمان بن مظعون

عامر بن ربیعہ

ابوسیرہ بن ابی رہم

حاطب بن عمرو

سہیل بن بیضاء

رضی اللہ تعالی عنھم 


مہاجرات عورتیں

رقیہ ؓ

سہلہ بن سہیل ؓ

ام سلمہ ؓ

لیلی بنت ابی حشمہ ؓ

رضی اللہ تعالی عنھما


بیہقی کی ایک روایت  میں ھے کہ اس مبارک سفر پر سب سے پہلے حضرت عثمان ؓ اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی) کے ساتھ روانہ ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو ان کے بارے میں کئی دنوں تک کوئی خبر نہیں ملی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو تشویش ہوئی۔ قریش کی ایک عورت نے جو اُسی طرف سے آرہی تھی ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کو بتایا کہ میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کے داماد کو دیکھا کہ وہ اپنی بیوی کو ایک کمزور سے گدھے پر بٹھا کر خود اسے ہانکتے چلے جا رہے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے دعا کی‘ یا اللہ ان کے مدد فرما ۔ رسول کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ حضرت لوط  علیہ السلام کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ خدا کی راہ میں ہجرت کی ہے۔

سفرِ حبشہ کے لئے لوگ خاموشی سے یکے بعد دیگرے  نکلے تھے تاکہ کسی کو  کانوں کان خبر نہ ہو۔ ان میں سے بعض تنہا تھے‘ بعض کے ساتھ ان کی بیویاں تھیں۔ زیادہ تر صحابہ کرام پیدل تھے۔ یہ لوگ مقامِ شعیبہ (ساحل پر واقع ایک وادی) کے پاس پہنچے تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس وقت تاجروں کی دو کشتیاں لنگرانداز ھو رھی تھیں ۔ نصف دینار کرایہ طے کر کے یہ  لوگ ان کشتیوں میں سوار ہو گئے۔ قریش کو جب ان کے سفر کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنے آدمیوں کو  ان کے پیچھے دوڑایا لیکن جب یہ یہاں پہنچے تو  کشتیاں  روانہ ہو کر کافی دور جا چکی تھیں۔ (ابن سعد‘ طبقات: ۱/۲۰۴)

اس قافلہ کی روانگی کے بعد  بھی مسلمانوں کا  متفرق طور پر ہجرت کرنے کا سلسلہ  برابر جاری  رھا اور  صحابہ کرام حبشہ کی طرف ھجرت کرکے اپنے بھائیوں میں ملتے رھے۔  یہاں پر انہیں بادشاہ یا عوام کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں تھی اس  لئے اطمینان سے دعوتِ اسلام کا کام بھی کرتے رھے اس طرح یہ حضرات حبشہ میں بڑی پرسکون زندگی بسر کررہے تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ قریشِ مکہ  نے اسلام قبول کرلیا ہے چنانچہ یہ لوگ مکہ واپس آگئے ۔ یہاں پہنچنے پر معلوم ہواکہ قریش تو پہلے سے بھی زیادہ مسلمانوں کے دشمن بن چکے ہیں ۔اس لئے کچھ لوگ  مکہ میں داخل نہیں ھوئے راستے سے ھی حبشہ واپس چلے گئے اور کچھ  لوگ  پناہ لے کر مکہ ہی میں ٹھہر گئے ۔اب یہ حضرات پہلے سے بھی زیادہ قریش کے ظلم وستم کا نشانہ بنے چنانچہ رسول اللہ نے دوبارہ انہیں حبشہ کی طرف ہجر ت کرنے کی اجازت  دے دی۔اس بار تراسی مردوں اور اٹھارہ عورتوں نے ہجرت کی۔


حبشہ کی دوسری ہجرت

 کسی نے یہ افواہ اڑا  دی  تھی کہ مشرکینِ مکہ  نے اسلام  قبول کر لیا ھے اور وھاں کے حالات درست ہو گئے ھیں تو مسلمان حبشہ سے واپس  مکہ مکرمہ آگئے  یہاں آکر معلوم ھوا کہ یہ اطلاع غلط تھی  بلکہ کفارِ مکہ پہلے سے بھی زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ھو گئے ھیں کفار نے حبشہ سے واپس آنے والوں کو  پہلے سے بھی زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا  جب  تکالیف حد سے بڑھنے لگیں تو آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے  صحابہ کرام کو دوبارہ ہجرتِ حبشہ کی اجازت دے دی، مگر اس مرتبہ پہلی ہجرت کی طرح آسانی سے قافلے کا جانا ممکن نہ  تھا کیونکہ کفار نے  سخت مزاحمت  کرکے طرح طرح رکاوٹیں ڈالنا شروع کی ھوئی تھیں  تاہم 83 مرد اور18 عورتوں کا  ایک قافلہ کسی نہ کسی طرح حبشہ روانہ ہو گیا، اکثر کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:


مہاجرین مرد

عثمان بن عفان ؓ

ابوحذیفہ ؓ

عبد اللہ بن جحش ؓ

شجاع بن وہب ؓ

عتبہ بن غزوان ؓ

طلیب بن عمیر ؓ

عبد الرحمن بن عوف ؓ

عبد اللہ بن مسعود ؓ

مقداد بن عمروؓ

ابوسلمہ بن عبد الاسد ؓ

معتب بن عوف ؓ

عامر بن ربیعہ ؓ

خنیس بن حذافہ ؓ

عثمان بن مظعون ؓ

عبد اللہ بن مظعون ؓ

قدامہ بن مظعون ؓ

سائب بن عثمان ؓ

ابوسبرہ بن ابی رہم ؓ

عبد اللہ بن مخرمہ ؓ

حاطب بن عمرو ؓ

عبد اللہ بن سہل ؓ

سعد بن خولہ ؓ

ابو عبید ہ بن جراح ؓ

سہیل بن بیضاء ؓ

معمر بن ابی سرح ؓ

عیاض بن زہیر

جعفر بن ابی طالب ؓ

خالد بن سعید ؓ

معیقیب بن ابی فاطمہ ؓ

خالد بن حزام ؓ

اسود بن نوفل ؓ

عمروبن امیہ ؓ

یزید بن زمعہ ؓ

ابوالروم بن عمیر ؓ

خراس بن نضر ؓ

جہم بن قیس ؓ

ابو فکیہہ ؓ

مطلب بن ازہر ؓ

عتبہ بن مسعود ؓ

شرجیل بن حسنہ ؓ

حارث بن خالد ؓ

عمروبن عثمان ؓ

عباد بن ابی ربیعہ ؓ

ہاشم بن ابوحذیفہ ؓ

ہبار بن سفیان ؓ

عبد اللہ بن سفیان ؓ

معمر بن عبد اللہ ؓ

عبد اللہ بن حذافہ ؓ

قیس بن حذافہ ؓ

ہشام بن عاص ؓ

ابو قیس بن حارث ؓ

سائب بن حارث ؓ

حجاج بن حارث ؓ

تمیم بن حارث ؓ

سعید بن حارث ؓ

سعید بن عمرو ؓ

محمیہ بن جزاء ؓ

حاطب بن حارث ؓ

خطاب بن حارث ؓ

سفیان بن معمر ؓ

خالد بن سفیان ؓ

جنادہ بن سفیان ؓ

نبیہہ بن عثمان ؓ

سلیط بن عمرو ؓ

سکران بن عمرو ؓ

مالک بن زمعہ ؓ

حضر ت عمرو بن حارث ؓ

عثمان بن عبد غنم ؓ

وغیرہ وغیرہ  

رضی اللہ تعالی عنھم 


مہاجرات عورتیں

سودہ بنت زمعہ ؓ

فاطمہ بنت علقمہ ؓ

عمیرہ بنت سعدی ؓ

حسنہ ام شرجیل ؓ

حبیبہ بنت ابوسفیان ؓ

ام سلمہ ؓ

ربطہ بنت حارث ؓ

رملہ بنت ابی عوف ؓ

لیلی بنت ابی حتمہ ؓ

سہلہ بنت سہیل ؓ

ام کلثوم اسماء بنت عمیس ؓ

فاطمہ بنت عمیس ؓ

امینہ بنت خلف ؓ

خزیمہ بنت جہم ؓ

ام حرملہ ؓ

فاطمہ بنت مجلل ؓ

فکیہہ بنت یسار ؓ

برکہ بنت یسار ؓ

اسما بنت عمیس ؓ

رضی اللہ تعالی عنھما


کفارِ مکہ کا مسلمانوں کے ساتھ  سجدہ کرنا 

حبشہ میں مقیم مسلمانوں تک قریش کے اسلام لانے کی  جو خبر پہنچی تھی  اس کی  ایک وجہ یہ واقعہ بتایا جاتا ھے  جو بخاری،  مسلم،  ابوداؤد اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن  مسعود رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت  ھوا ہے 

اَوَّلُ سَوْرَۃٍ اُنْزِلَتْ فِیھا سجدۃٌ النجم 

پہلی سورۃ جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی سورہ  النجم ہے 

  اس حدیث کے جو اجزاء اسود بن یزید، ابواسحاق، اور زُہَیر بن معاویہ کی روایات میں حضرت ابن مسعود سے منقول ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی وہ پہلی سورۃ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کے ایک مجمع عام میں ( اور ابن مردوؤیہ کی روایت کے مطابق حَرَم میں)سنایا تھا۔ مجمع میں کافر اور مومن سب موجود تھے ۔آخر میں جب آپ نے آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ فرمایا تو تمام حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے اور مشرکین کے وہ بڑے بڑے سردار تک، جو مخالفت میں پیش پیش تھے سجدہ کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کفار میں سے صرف  ایک شخص امیہ بن خَلَف کو دیکھا کہ اس نے سجدہ کرنے کے بجائے کچھ مٹی اٹھا کر اپنی پیشانی سے لگا لی اور کہا کہ میرے لیے بس یہی کافی ہے ۔ بعد میں میری آنکھوں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا۔

اس واقعہ کے دوسرے عینی شاہد حضرت مُطلب بن ابی وَداعَہ ہیں جو اس وقت تک  ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ نسائی اور مُسند احمد میں ان کا اپنا بیان یہ نقل ہوا ہے کہ جب حضور آکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے “سورہ النجم” پڑھ کر سجدہ فرمایا اور سب حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے تو میں نے سجدہ نہ کیا، اور اسی کی تلافی اب میں اس طرح کرتا ہوں کہ اس سورہ کی تلاوت کے وقت سجدہ کبھی نہیں چھوڑتا۔

ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے رجب 5 نبوی میں صحابہ کرام کی ایک مختصر سی جماعت حبش کی طرف ہجرت کر چکی تھی۔ پھر جب اسی سال رمضان میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کے مجمع عام میں سورہ نجم کی تلاوت فرمائی اور کافر و مومن سب آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے، تو حبش کے مہاجرین تک یہ قصہ اس شکل میں پہنچا کہ کفار مکہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس خبر کو سن کر ان میں سے کچھ لوگ شوال 5 نبوی میں مکہ واپس آ گئے۔مگر یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ظلم کی چکی اسی طرح چل رہی ہے جس طرح پہلے چل رہی تھی، آخر کار دوسری ہجرت حبشہ واقع ھوئی

کفار مکہ کے سجدہ کرنے کے بارے میں بہت سی روایات ھیں جن کے مطابق رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے جب حرم میں جہاں مسلمان اور کفار موجود تھے “سورہ النجم “ کی تلاوت فرمائی تو  اس کلام کی شدتِ تاثیر کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے اسے سنانا شروع کیا تو مخالفین کو اس پر شور مچانے کا ہوش ہی نہ رہا جیسا کہ وہ پہلے کیا کرتے تھے  اور خاتمے پر جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے  آیتِ سجدہ پژھ کر سجدہ فرمایا تو  مسلمانوں کے ساتھ حرم میں موجود کفار بھی بے آختیار  سجدے میں گر گئے۔ بعد میں انہیں سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ ہم سے کیا کمزوری سر زد ہو گئی اور لوگوں نے بھی انہیں اس پر مطعون کرنا شروع کیا کہ دوسروں کو تو یہ کلام سننے سے منع کرتے تھے، آج خود اسے نہ صرف کان لگا کر سنا بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سجدہ بھی کر گذرے۔ آخر کار انہوں نے یہ بات بنا کر اپنا پیچھا چھڑایا کہ صاحب ہمارے کانوں نے افرءیتم اللٰت و العزٰی، و منٰوۃ الثالثۃ کے بعد محمد  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے تلک الغرانقۃ العلٰی، و ان شفاعتھن لترجٰی (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت ضرورت متوقع ہے)، اس لیے ہم نے سمجھا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  ہمارے طریقے پر واپس آ گئے ہیں، حالانکہ کوئی پاگل آدمی ہی یہ سوچ سکتا تھا کہ اس پوری سورت کے سیاق و سباق میں ان فقروں کی بھی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے جو ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے کانوں نے سنے ہیں۔ اس بارے میں اور بھی مختلف روایات ھیں 

کلامِ الہی کی عظمت اور ھیبت یقیناً دلوں پر اثرانداز ھو کر رھتی ھے  یہی وجہ ہے کہ کفار نے اس  آیت مبارکہ کو سن کر سجدہ ریز ہوگئے حالانکہ وہ مشرک تھے۔ وہ وحی  کے منکر تھے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں شک کرتے تھے۔ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے بارے میں ہر وقت وہ جھگڑتے رہتے تھے۔ انہوں نے ان حالات میں سجدہ کیا کہ وہ اس پوری سورت کے اندر خوفناک انجام کو سن چکے تھے۔ حضور اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ایک پر سوز انداز میں تلاوت فرما رہے تھے۔ حرم میں مسلم اور مشرک سب بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے سجدہ کیا۔  آپ کے ساتھ وھاں موجود مسلمانوں نے سجدہ کیا تو مشرکین بھی بےساختہ  سجدہ میں گر پڑے۔ وہ اس پر تاثیر کلام الٰہی کے مقابلے میں ٹھہر نہ سکے۔ شیطان بھی ان کو روک نہ سکا۔ جب ان پر سے یہ ھیبت ناک اثر ختم ہوا تو وہ اس اثر کو بھی بھول گئے اور اس بات کو بھی بھول گئے کہ انہوں نے سجدہ کیا ہے۔

روایات تواتر کے ساتھ ہیں کہ اس سورت کو سن کر مشرکین نے سجدہ کیا۔ اس کے بعد لوگوں نے اس واقعہ کی تاویل اور تجزیہ اپنے اپنے خیال کے مطابق کیا ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ عجیب واقعہ نہیں تھا۔ یہ تو قرآن مجید کی تاثیر کا ایک نمونہ تھا جس کے سامنے ایک بار تو سخت سے سخت دل بھی متاثر ھوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ رھی بات ھدایت ملنے کی ، یہ اللہ پاک کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ 


یمن سے حبشہ اور مدینہ منورہ کی ھجرت

مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والوں کے علاوہ پچاس مہاجرین کا ایک جتھہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی معیت میں یمن سے حبشہ پہنچا۔حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کا  بیان ہے:

’’ہم یمن میں تھے ہمیں اطلاع ملی کہ نبی کریم امکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لے گئے ہیں۔ہم وہاں سے کشتیوں میں سوار ہوکر روانہ ہوئے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں شرفِ باریابی حاصل کریں۔لیکن راستہ میں ہمیں سمندری طوفان نے آلیا اور  ہماری کشتیاں حبشہ کے ساحل پر جالگیں ۔وہاں ہماری ملاقات حضرت جعفرؓ بن ابی طالب سے ہوئی چنانچہ ہم نے وہیں اقامت اختیار کرلی اور کئی سال وہاں قیام کیا۔ ہم اس وقت حضرت جعفرؓ کی معیت میں مدینہ واپس آئے جب کہ خیبر میں سارے قلعے فتح ہوچکے تھے اور ان پر اسلام کا پرچم لہرارہا تھا۔ہمیں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا:

لکم انتم یااہل السفینۃ ہجرتان (۱۹)

’’اے کشتی والو!تمہیں دو ہجرتوں کا ثواب ملے گا‘‘۔

یعنی پہلی ہجرت اپنے وطن سے حبشہ کی طرف اور دوسری ہجرت حبشہ سے مدینہ کی طرف۔

ابنِ قیم کا بیان ہے کہ جب مہاجرین حبشہ کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی ہجرتِ مدینہ کی اطلاع ملی تو ان میں سے تینتیس حضرات ھجرت کرکے مدینہ منورہ روانہ ھو گے  ۔جن میں سے سات کو راستہ ہی میں کفارِ مکہ نے گرفتار کرلیا اور  باقی بخیریت مدینہ منورہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں پہنچ گئے۔اس کے بعد باقی مہاجرین فتح خیبر کے سال ۷ ؁ھ میں واپس آئے۔ ابنِ ہشام نے بڑی تفصیل سے مہاجرین حبشہ کا ذکر کیا ہے اور قبائل کے اعتبار سے مہاجرین حبشہ کی تفصیل بیان کی ہے۔

جاری ھے ۔۔۔۔۔ 


Share: